Episode 106 - Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 106 - بلال صاحب - شکیل احمد چوہان

توشی نے اُسے جوس، دودھ ، سوپ وغیرہ پلایا تھا۔ اگلے سولہ گھنٹوں کے دوران جس کی وجہ سے نوشی اب کافی بہتر تھی اور وہ سوگئی تھی۔ سونے سے پہلے ڈاکٹر نے اُس کا چیک اپ کیا تھا اور ساری رپورٹس بھی ٹھیک تھیں۔
”رندھاوا صاحب کل تک آپ انہیں لے جا سکتے ہیں آپ لوگ اگر انہیں سونے دیں تو زیادہ بہتر ہو گا“ یہ بول کر ڈاکٹر روم سے چلی گئی تھی۔ اُس کے پیچھے جمال اور توشی بھی باہر آگئے تھے گل شیر خان باہر بیٹھا ہوا تھا۔
ڈاکٹر محسن کو صبح توشی نے خود گھر بھیجا تھا، محسن کو توشی کی زیادہ فکر تھی کیونکہ وہ اُس کے بچے کی ماں بننے والی تھی۔
”گل شیر خان میرے پیچھے میری بیٹی برباد ہوگئی اور تم تماشہ دیکھتے رہے“ جمال رندھاوانے کرب سے کہا تھا۔
”رندھاوا صاحب جب آپ کے گھروالے ہی نوشی بیٹی کو برباد کرنے پر تلے تھے تو میں کیا کر سکتا تھا جب آپ نے مجھے حکم دیا اُس وقت تک سب کچھ ختم ہو چکا تھا۔

(جاری ہے)

“گل شیر خاں سر جھکائے ہوئے کھڑا تھا
”گل شیر خان پہلیاں مت بجھاؤ سیدھی بات کرو“ جمال نے غصے سے کہا تھا ”سیدھی بات رندھاوا صاحب بہت کڑوی ہے شاید آپ سُن نہ سکیں۔“ گل شیر نے ہولے سے جواب دیا۔
”پاپا آپ بیٹھ جائیں……… خان صاحب آپ بتائیں ہم سننا چاہتے ہیں“ توشی نے اپنے باپ کو کوریڈور میں روم سے باہر پڑی ہوئی سیٹوں میں سے ایک پر بٹھا دیا تھا اور گل شیر خان کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
”خان صاحب……پلیز بتائیں“ توشی نے عرضی کی 
”رندھاوا صاحب آپ کو اُس دن ائیر پورٹ چھوڑنے کے بعد رات کو میں نے باجی غفوراں اور شاہد محمود کو بلایا تھا اپنے کوارٹر میں اُن سے ساری معلومات لی۔ مجھے لگا صرف چار افراد حقیقت سے پردہ ہٹا سکتے ہیں۔ بلال سے میں پوچھنا چاہتا تھا، اور آپ نے اُس سے ملنے سے بھی منع کیا تھا۔ اِرم غائب تھی، اور اُس کا نمبر بھی بند تھا۔
اب صرف وہ دو لڑکیاں بچی تھیں اُس وقت نیناں کو جانتا نہیں تھا اب صرف ڈاکٹر عظمی افگن رہ گئی تھی۔ اُسے میں اچھی طرح سے جانتا تھا بلال نے خود مجھے عظمی کے بارے میں بتایا تھا۔ جب وہ مینٹل ہاسپٹیل میں جایا کرتا تھا۔ عظمی سے مل کر مجھے پتہ لگا کہ وہ توخود بیچاری اس وجہ سے بہت پریشان تھی عظمی نے میری ملاقات عادل سے کرائی تھی، عادل بلال کا دوست ہے۔
اب صرف نیناں کے ذریعے ہم یہ حقیقت جان سکتے تھے۔ میں اور عادل فوزیہ سے ملے جو بلال کے آفس میں کام کرتی ہے، اُس سے ہم نے نیناں کے شناختی کارڈ کی کاپی لی جو کہ اسکول ریکاڈ میں موجود تھی۔
اُس کے ذریعے ہم کلرکہار نیناں کے گھر پہنچ گئے۔ نیناں نے پہلے تو ہمارے ساتھ ملنے سے ہی انکار کر دیا تھا۔ جب عادل نے بلال کا نام لیا تو اُس نے ہمیں ساری کہانی بتائی۔
نیناں کے مطابق یہ سب کچھ ناہید بی بی کی سازش تھی، جس میں شعیب اور ولید نے اُن کا ساتھ دیا تھا۔ بعد میں اِرم واسطی اور مجھے بھی پیسوں کا لالچ دے کر انہوں نے اپنے ساتھ ملایا تھا یہ نیناں کے الفاظ تھے۔
ڈاکٹر عظمی اور بلال کی وہ تصویریں شعیب اور ولید نے اُتاری تھیں، جسے بعد میں غلط انداز سے پیش کیا تھا۔
گل شیر خان یہ سب کچھ بول کر خاموش ہو گئے تھے۔
جمال رندھاوا اپنا سر پکڑے ہوئے بیٹھے ہوئے تھے۔ اور توشی بت بنی کھڑی ہوئی تھی۔
توشی نے گل شیر خان کو انگلی ہونٹوں پر رکھ کر مزید بات کرنے سے منا کر دیا تھا، توشی نے جمال کے ڈرائیور کو بلایا۔
”پاپا آپ گھر جا کر آرام کریں لمبی فلائیٹ لے کر آئے تھے اور پچھلے اٹھارہ گھنٹے سے یہاں پر ہیں………پاپا پلیز میری خاطر گھر چلیں جائیں………“
توشی کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر جمال نے خود کو سنبھالا اور ڈرائیور کے ساتھ گھر چلے گئے۔
گل شیر خان جب جمال کو گاڑی تک چھوڑ کر آئے تو توشی اپنی بہن کے روم کے باہر اپنا سر اپنے ہاتھوں سے پکڑے ہوئے گردن جھکائے بیٹی تھی۔
”توشی بیٹی یہ پی لو“ گل شیر خان نے چائے کا ڈسپوزایبل کپ توشی کو پیش کیا تھا ”شکریہ خان صاحب“ توشی نے چائے کا کپ لیتے ہوئے کہا تھا 
” خان صاحب آب کچھ اور بتانا چاہتے تھے“
”توشی بیٹی نہ ہی سنو“ گل شیر نے جواب دیا افسردگی کے ساتھ
”ایک بیٹی کے لیے اس سے زیادہ اذیت اور کیا ہو سکتی ہے کہ اُس کی ماں………آپ بتائیں میں سنوں گی……“
”توشی بیٹی ہم بلال کی بے گناہی ثابت کرنے میں مصروف تھے اور ولید اپنی جیبیں بھرنے میں“
”کیا مطلب ……“ توشی کو فکر لاحق ہوئی
”مجھے عادل نے کوئی مہینہ پہلے ہی ولید کی اصلیت سے آگاہ کر دیا تھا۔
تب میں ایک دن گلبرگ نوشی بیٹی سے ملنے بھی گیا تھا، اُسے خوش دیکھ کر مجھے لگا کہ شاید ولید بدل گیا ہے پھر ایک دو دن میں نے ولید اور نوشی کا پیچھا کیا مجھے سب ٹھیک لگا تھا وہ دونوں بہت خوش تھے میں مطمئن ہو گیا تھا۔
میں نے سوچا بلال کے ساتھ جو بھی ہوا وہ غلط تھا۔ چلو نوشی بیٹی تو خوش ہے اپنے گھر، عادل کو بھی میں نے منع کر دیا تھا، کہ وہ ولید اور نوشی کو اُن کے حال پر چھوڑ دے اور اُن کے متعلق مزید انکوائری نہ کرئے……عادل نے میری بات مان لی تھی۔
مگر ……عادل کا شک صحیح نکلا……توشی بیٹی……عادل ٹھیک کہتا تھا کہ ولید میرے سگے تایا کا بیٹا ہے……آپ خان صاحب اُسے نہیں جانتے ہیں…… میں واقعی ولید کو نہ جان سکا………“
گل شیر خان بات کرتے کرتے خاموش ہو گئے تھے
”کیسا شک……… خان صاحب“ توشی کو تجسس ہوا تھا۔
”توشی بیٹی ولید نے نوشی بیٹی کی ساری پراپرٹی سیل کر دی ہے اور وہ اِرم کے ساتھ کل رات کو دبئی چلا گیا ہے یہ بات عادل ہی نے مجھے صبح 10 بجے بتائی تھی۔
توشی کے کانوں میں عادل کے الفاظ گونجے نوشی کی بارات والے دن کے 
”کیا انتخاب ہے آپ کی بہن کا“ ”کیا انتخاب ہے میری ماں کا“ توشی نے خود سے کہا ”مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی توشی بیٹی میں ولید کے ارادوں کو نہ دیکھ سکا ورنہ یہ سب نہ ہوتا“ گل شیر خان نے خود کو قصور وار ٹھہرایا۔
”چھوڑیں خان صاحب آپ کا کوئی قصور نہیں ہے…… ساری زندگی ہمارا باپ ہماری ماں کو نہ جان سکا، اور ہم اپنی ماں کو نہ جان سکے، خان صاحب آپ سے تو غلطی سے غلطی ہو گئی اور ہم سب تو ساری زندگی جان بوجھ کر گناہ کبیرہ کرتے رہے۔
توشی یہ بول کر نوشی کے کمرے کے اندر گئی، نوشی اب بھی سو رہی تھی، توشی اُسے دیکھ کر واپس باہر آگئی تھی وہ پھر سے بیٹھ گئی، گل شیر خان اب بھی بے چین تھے وہ بار بار کسی کو فون کر رہے تھے۔
توشی یہ سب سن کر پریشان تو بہت تھی، مگر وہ بے چین ہرگز نہیں تھی، اب اُسے صرف اپنی بہن کی فکر تھی، مگر خان صاحب کو اب یہ کیسی بے چینی لگ گئی ہے۔
”خان صاحب کچھ باقی رہ گیا ہے“ توشی نے گل شیر خان کے پاس پہنچ کر کہا تھا، گل شیر خان نے پریشانی سے گردن ہلا دی تھی۔
”توشی بیٹی ناہید بی بی اور شعیب صاحب چار دن پہلے ہی کسی بزنس ٹور کے سلسلے میں ملک سے باہر گئے ہیں۔ SMSبتا رہا تھا کہ وہ لوگ آج لوٹیں گے“
”ہاں مجھے معلوم ہے ماما نے جانے سے پہلے مجھے فون کر کے انفارم کیا تھا، اور یہ بھی بتایا تھا کہ ایک ہفتے کے اندر اندر وہ لوگ واپس آجائیں گے“ توشی نے اطمینان سے کہا تھا ”تو آنے دیں خان صاحب ماما کو کیوں بچارہے ہیں، میری ماں کو اُس کے کیے ہوئے گناہوں سے، اِن گناہوں کی سزا تو اُسے مل کر رہے گی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔
“ توشی نے تلخ لہجے میں کہا تھا۔
”توشی بیٹی یہ بات نہیں بات کچھ اور ہے شعیب صاحب اور اُن کے دو دوستوں سنی اور وکی نے“ ”ہاں ہاں وہ بے غیرت کے بچے…… وہ شعیب کے دوست بھی ہیں“ توشی نے گل شیر خان کی بات درمیان میں کاٹ کر نفرت سے کہا تھا۔

Chapters / Baab of Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط