بابا جمعہ بلال سے کہا کرتے تھے بلال بیٹا جب بھی مانگو دعا ہی مانگو بدعا نہ مانگو، یہ بلال کی بددعا ہر گز نہیں تھی۔ یہ قدرت کا انصاف تھا۔
”یا اللہ میرے ماموں کی بخشش فرما اور میری ممانی کی مشکل آسان کر دے اُن کو صحت وتندرستی عطا فرما آمین“ بلال نے ظہر کی نماز کے بعد یہ دعا مانگی تھی، صبح 10 بجے جمال رندھاوا کا جنازہ تھا۔
چند دن ہاسپٹل میں رکھنے کے بعد ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ ناہید کو گھر لے جائیں اور وہیں پر اُن کی دیکھ بھال کے لیے ایک نرس کا بندوبست کر لیں۔
ڈاکٹر محسن نے ایک نرس کا بندوبست کر دیا تھا، اور وہ خود ہر دوسرے دن ناہید کو چیک کرتا تھا۔ ناہید کی جان تو بچ گئی تھی مگر وہ بول نہیں سکتی تھی اور اُس کے جسم کا دایاں حصہ بھی حرکت نہیں کر رہا تھا۔
(جاری ہے)
نوشی اب ٹھیک تو تھی مگر اُس کی رنگت بالکل ہلدی جیسی ہو گئی تھی اور وہ اب بہت کم بولتی تھی، نرس کے ساتھ ساتھ وہ بھی اپنی ماں کا خیال رکھتی تھی۔
نوشی کو اب اپنی ماں سے اور زیادہ محبت ہو گئی تھی وہ اب بھی سمجھتی تھی کہ یہ سب کچھ بلال ہی کے کہنے پر اُس کے باپ نے اُس کی ماں کے ساتھ کیا تھا۔
نوشی اپنی ماں اپنے بھائی اور ولید کی سازش سے بھی انجان تھی، جو انہوں نے بلال کو رسوا کرنے لیے بنائی تھی نوشی اپنی طلاق کا قصوروار اب بھی بلال ہی کو سمجھتی تھی۔
برسات کا موسم آکے گزر گیا تھا اب آنکھوں سے برسنے والی قطرے بھی تھم گئے تھے ہلکی ہلکی سردی شروع ہو چکی تھی بلال اور عادل اکثر ولی خان کے پاس بیٹھتے وہ اُس کے ساتھ چائے پیتے اُس سے باتیں کرتے، ولی خان اکثر کہہ دیتا ”صاحب میں کیا جانوں میں تو اسکول ہی نہیں گیا“ جب عادل اُس سے کوئی سوال پوچھتا، بابا جمعہ سمجھ کر عادل ولی خان میں بابا جمعہ کو تلاش کر رہا تھا۔
ولی خان صرف نام کا ولی تھا۔ مگر وہ ایک کردار کے ولی کی گدی پر بیٹھا ہوا تھا۔ بقول بابا جمعہ کے عاجزی پہلی سیڑھی ہے اُس سفر کی طرف ولی خان میں عاجزی بہت تھی۔ شاید اُسے بھی اُس سفر پر جانا نصیب ہو جائے عادل نے اب اپنے باپ کا بزنس سنبھال لیا تھا۔ وہ بہت مصروف بھی ہو گیا تھا۔ اُسکے باوجود وہ صبح کی نماز نورانی مسجد ہی میں ادا کرتا تھا۔
کبوتروں کو دانہ ڈالتا اور بلی کو دودھ پلاتا اور رات کے لیے دودھ ولی خان کو دے کر جاتا کہ جب وہ گھر کے لیے نکلے تو بابا جمعہ کی کالی بلی کو دودھ ضرور پلادے۔
طارق رامے اور عجاز جنجوعہ کی نونک جھونک اب بھی ہوتی رہتی تھی۔ فرق صرف اتنا پڑا تھا اب اعجاز جنجوعہ بھی اُسے بیوی سے ڈرنے کے طعنے خوب دیتا تھا۔
طارق رامے نے اپنی والدہ کی پسند سے چیچا وطنی سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر شازیہ چغتائی سے شادی جو کر لی تھی۔
ڈاکٹر شازیہ لاہور کے گنگارام ہاسپٹل میں جاب کرتی تھی۔
بڑی عید آ گئی، کروڑوں لوگوں نے قربانی کی، قربانی کرنے والے کروڑوں…… اور قربان دینے والے ہزاروں………
سردی اب بڑھ گئی تھی۔
فوزیہ چھٹیوں پر تھی وجہ اُس کو اللہ نے ایک چاند سا بیٹا دیا تھا۔ جس کانام اُس کی ساس اور ماں نے ہی رکھا تھا محمد بلال……… ایک دن بلال اپنے آفس میں تھا، آفس بوائے نے آکر بتایا ”سر ایک لڑکی نوین حیات آپ سے ملنا چاہتی ہے“ ”ٹھیک ہے بھیج دو“ بلال نے بغیر تاثر کے بولا تھا
نوین عرف نیناں آفس میں داخل ہوئی اب اُس نے نقاب نہیں کیا ہوا تھا، صرف کپڑے کی بڑی سی کالی چادر اُوڑھ رکھی تھی۔
”سر اسلام علیکم……“ نیناں نظریں جھکا کر بولی ۔
”نوین حیات بیٹھو……… کیسے آنا ہوا……“ بلال نے تحمل سے پوچھا
”سر مجھے نوکری چاہیے………“ نیناں نے ڈرتے ڈرتے کہا ۔
”فوزیہ کی سیٹ پر بیٹھ جاؤ اُس کے واپس آنے تک، آجکل فوزیہ چھٹیوں پر ہے اُس کے آنے کے بعد تم اپنے پرانے آفس میں کام کرو گئی……“ بلال نے نیناں کو ایک نظر دیکھ کر ہی فیصلہ کر لیا تھا۔
نیناں یہ سُن کر ہکابکا رہ گئی، اُس نے حیرت سے بلال کی طرف دیکھا، بلال نے بھی نیناں کے نینوں کو غور سے دیکھا جنہوں نے حیا کی عینک پہنی ہوئی تھی۔نیناں نے کالی چادر کے ساتھ ساتھ حیا کی چادر بھی اوڑھ رکھی تھی۔
###
28 نومبر بروز جمعہ عادل عقیل ہاشمی کا نکاح ڈاکٹر عظمی افگن نیازی کے ساتھ تھا، جو کہ ماڈل ٹاؤن کی ایک مسجد میں بریگیڈئر امان اللہ صاحب نے پڑھایا تھا۔
29 نومبر کو ایک عالی شان ہوٹل میں ولیمے کی دعوت ہوئی جس میں شہر کی مشہور ہستیوں نے شرکت کی تھی۔بلال کو عادل نے ولیمہ اور نکاح کی تقریب میں خصوصی پروٹوکول دیا تھا۔ چند دن بعد عادل اور عظمی عمرہ ادا کرنے کے لیے چلے گئے تھے۔ عادل حج پر جانا چاہتا تھا، اپنی شادی سے پہلے مگر بلال اپنے اسکول کی بلڈنگ کے انٹیرئیر میں مصروف تھا، اس لیے عادل نے اگلے سال کا پروگرام بنایا تھا حج کے لیے۔
بلال کے اسکول کی ایک اور الگ بات تھی۔
JUST اقرا ہائی اسکول میں سالانہ امتحان دسمبر میں ہوتے یکم دسمبر سے 15 دسمبر تک 25 دسمبر کو رزلٹ اور یکم جنوری سے نئی کلاسوں کا آغاز صرف بورڈ کے امتحانات میں وہ پنجاب بورڈ کے مطابق چلتا تھا۔
بلال یکم جنوری 2015 سے اپنے اسکول کی نئی بلڈنگ میں شفٹ ہو کر نئی کلاسزز کا آغاز کرنا چاہتا تھا، اس لیے اس کی مصروفیت بڑھ گئی تھی۔
30 دسمبر تک بلال نے سارا کام مکمل کر لیا تھا۔ اسکول کی عمارت کو سجایا گیا تھا بلال کی اس خوشی کو سیلی بریٹ کرنے کے لیے 31دسمبر کی رات اپنے گھر پر ایک دعوت کا اہتمام کیا تھا، توشی اور محسن نے
ویسے بھی جمال رندھاوا کے مرنے کے بعد سے ان سب نے کوئی پروگرام نہیں بنایا تھا نوشی کی عدت بھی پوری ہو چکی تھی، توشی یہ چاہتی تھی کہ وہ سب اُس غم سے باہر نکل آئیں اور زندگی گزارنے سے زندگی جینا شروع کر دیں۔
توشی کے بے حد اصرار پر اُس کی بہن نوشی نے اس دعوت میں شرکت کی تھی جس میں صرف گھر کے افراد ہی تھے۔
توشی نے خاص طور پر رندھاوا ہاؤس کے سارے ملازموں کو فرداً فرداً فون کر کے بلایا تھا۔ جس میں گل شیر خان، باجی غفوراں، DJ، اور SMS اور باقی سارے ملازم بھی شامل تھے۔
نوشی اور بلال کا کھانے کے دوران ایک بار آمنا سامنا ہوا تھا۔
نوشی کی آنکھوں میں بلال کے لیے نفرت ہی تھی۔ بلال کا ماننا تھا آنکھیں دل کا حال بیان کر دیتی ہیں، صرف وہ حال پڑھنے والی آنکھ ہونی چاہیے۔
نوشی جلدی چلی گئی تھی۔
”توشی میں چلتی ہوں………ماما کو صرف نرس کے سہارے تو نہیں چھوڑ سکی………“جانے سے پہلے نوشی نے کہا تھا……سب لوگ جا چکے تھے۔ جہاں آرابیگم اپنے بیٹے کے گزرنے کے بعد سے رندھاوا ہاؤس واپس چلی گئیں تھیں۔
سب مہمانوں کے جانے کے بعد لاؤنج میں محسن اور توشی کے ساتھ بلال کافی پی رہا تھا، 12 بجنے میں 10 منٹ باقی تھے توشی نے کافی کا سیپ لیتے ہوئے وال کلاک کی طرف دیکھا تھا۔
”زندگی کا ایک اور سال ختم ہونے والا ہے……… اس سال مجھے محسن جیسا ہمسفر ملا……… اور میرے پاپا نے اس سفر میں میرا ساتھ چھوڑ دیا………“ توشی نے مسکرانے کی کوشش کی تھی ”اِسی کا نام زندگی ہے………انشااللہ نیا سال ہماری زندگی میں بے شمار خوشیاں لے کر آئے گا………“ محسن نے توشی کے بڑھئے ہوئے پیٹ کی طرف دیکھ کر کہا، وہ ماں جو بننے والی تھی اور جنوری کے آخر میں ڈلیوری کا وقت ڈاکٹروں نے بتایا تھا۔
توشی نے محسن کی یہ بات سنی تو نظریں جھکا لیں، بلال اُن کے سامنے بیٹھا ہوا تھا جو نظریں جھکائے صرف اُن دونوں کی باتیں سن رہا تھا۔
”بلال میری ایک بات مانوں گئے“ توشی نے ہچکچاتے ہوئے کہا تھا، بلال نے توشی کی طرف غور سے دیکھ جیسے پوچھ رہا ہو……کیا بات………
”میری بہن سے شادی کر لو“ توشی نے التجا کی تھی بلال کے چہرے پر سنجیدگی بڑھ گئی مگر وہ خاموش رہا
”کیا سوچ رہے ہو………بلال………توشی نے تم سے کچھ کہا ہے“ محسن نے بات آگے بڑھائی ”ہم دونوں نے سوچ سمجھ کر یہ بات تم سے کی ہے“ بلال نے سخت ٹھنڈ میں بھی ٹھنڈی سانس لی۔
”محبت انسان کو بہادر بناتی ہے………محبت اگر ڈرانا شروع کر دے تو……“ ”تم ڈرتے ہو؟“توشی نے بلال کی بات پوری نہیں ہونے دی اور مسکراتے ہوئے بولی تھی۔