Episode 110 - Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 110 - بلال صاحب - شکیل احمد چوہان

”ہاں میں ڈرتا ہوں……نفرت سے…“ بلال نے جواب دیا 
”بھائی میرے کس کی نفرت سے“ محسن نے تجسس سے پوچھا 
”نوشی کی آنکھوں میں میرے لیے نفرت کے شعلے ہیں………مجھے اُس کی انکھوں میں محبت کے قطرے نظر نہیں آئے۔ کسی کو مارنے کے لیے نفرت کے دو بول زہر کا کام کرتے ہیں…موت بیچاری تو ویسے ہی بدنام ہے……“ بلال نے کہا ۔
”میں کل اُس نفرت کی وجہ دور کردوں گئی……… نوشی کو اس سارے معاملے کی خبر نہیں ہے…… میں کل اُسے ماما، شعیب اور ولید کی اصلیت بتادوں گئی…… کس طرح ان تینوں نے مل کر تمہارے خلاف سازش کی تھی اور نوشی کو تمہارے خلاف کردیا تھا……“
”توشی جی اب آپ اپنی بہن کو یہ سب کچھ بتا کر اپنی بیمار ماں کے خلاف کرنا چاہتی ہیں۔
شعیب جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے ولید دبئی میں مزے کر رہا ہے، سب سے زیادہ نقصان ممانی جان کو ہوگا……ویسے بھی جس سچ کی ضرورت نہ ہو اُس پر پردہ ہی بہتر ہے……… میں نوشی کو ممانی کے خلاف کر کے اُس کی نظروں میں ہیرو نہیں بننا چاہتا……… نفرت کے بدلے محبت کا یہ سودا مجھے منظور نہیں ہے……“بلال نے توشی اور محسن کو لاجواب کر دیا تھا۔

(جاری ہے)

”اور مجھے پورا یقین کہ آپ نے نوشی سے اِس بارے میں پوچھا ہی نہیں ہو گا……“ بلال نے مسکراتے ہوئے سنجیدگی کو ختم کیا جو کہ توشی کے چہرے پر تھی۔
”توشی جی آپ میری ایک بات مان لیں………آپ اپنے دل سے ممانی جان کے لیے غصہ نکال دیں وہ جیسی بھی ہیں آپ کی ماں ہیں……ماں جیسی بھی ہو جنت میں موسی کا پڑوسی بنا دیتی ہے……“
بلال یہ کہہ کروہاں سے چلا گیا تھا۔
”جنت میں موسی کا پڑوسی“ توشی نے کچھ سوچتے ہوئے محسن کی طرف دیکھا اُس کو اس بات کی سمجھ نہیں آئی تھی۔
###
اگلے دن یکم جنوری کو توشی ضد کر کے رندھاوا ہاؤس اپنی ماں سے ملنے گئی تھی، محسن ایک شرط پر مانا تھا کہ وہ خود اُس کے ساتھ جائے گا۔
توشی اپنے باپ کے مرنے کے بعد د وسری دفعہ اپنی ماں ناہید سے ملنے گئی تھی، وہ جاتے ہی اپنی ماں کے گلے لگ کر بہت روئی ، اُس نے اپنی ماں کے ہاتھ چومے ناہید کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔
”ماما کل مجھے بلال نے کہا تھا………ماں جیسی بھی ہو………جنت میں موسی کا پڑوسی بنا دیتی ہے……آپ تو سب سے اچھی ماں ہیں“
”بلال بیٹا خدا کے لیے………مجھے معاف کردو……… ایک دفعہ آکر مجھ سے مل جاؤ…… میں آنسو بہا کر ہی تم سے معافی مانگ لوں گی………“ناہید نے دل میں کہا تھا۔ ناہید کی آنکھوں سے آنسو توشی نے صاف کیے تھے۔
”ماما کے سونے کا وقت ہو گیا ہے“ نوشی نے توشی اور محسن کو وہاں سے جانے کا اشارہ کیا تھا نوشی کو اپنی ماں کے آنسو دیکھ کر اذیت محسوس ہو رہی تھی۔
”نوشی مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے“ توشی نے لاونج میں بیٹھتے ہوئے کہا 
”بولو………میں سن رہی ہوں“ نوشی نے روکھے انداز میں جواب دیا ۔
”بلال پر یہ الزام شعیب ولید اور……“ اور کے بعد توشی رُک گئی تھی مگر نوشی اور کے بعد ”اور……اور کچھ کہنا چاہتی ہو……“ نوشی نے تلخی سے کہا تھا”خبر ہے مجھے“ نوشی بول پڑی تھی ”پھر یہ نفرت کیوں“ توشی نے تحمل سے پوچھا
”محبت کا اچار ڈالوں……مجھے طلاق ہو گئی……میرا بھائی عمرقید کی سزا کاٹ رہا ہے……میرا باپ مرنے سے آدھ گھنٹہ پہلے میری ماں کے گلے میں طلاق کی مالا ڈال کر گیا تھا……… لوگ اُسے جمال رندھاوا کی بیوہ تو نہیں کہتے……… ایک طلاق یافتہ کا طعنہ ضرور دیتے ہیں“ نوشی دانت پیستے ہوئے غصے سے بولی تھی۔
”ان سب باتوں میں بلال کا تو کوئی قصور نہیں تم پھر بھی……“ توشی نے شائستگی سے کہا ”پھر بھی مجھے بلال سے نفرت ہے………“نوشی نے بھڑکتے ہوئے کہا ۔
”وجہ پوچھ سکتی ہوں“ توشی نے سنجیدگی سے پوچھا ۔
(اچھا بدلہ لیا تم نے بلال مجھ سے) ناہید کے الفاظ نوشی کے کانوں میں پڑئے (یہ سب کچھ مجھے بلال ہی نے بتایا تھا) ولید یہ کہتا ہوا نوشی کو نظر آرہا تھا نوشی نے کھا جانے والی نظروں سے توشی کو دیکھا محسن کو ڈر تھا اب یہ گفتگو لڑائی میں نہ بدل جائے، اُس نے توشی کا ہاتھ پکڑ کر صوفے سے اُٹھایا اور توشی کو بازو میں لے کر پورچ میں کھڑی اپنی گاڑی کی طرف چل دیا ۔
نوشی کھڑی ہوئی اپنی بہن اور بہنوئی کو جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی اُس نے دل میں کہا ”توشی تمہیں تمہاری ڈلیوری کے بعد بتاؤں گئی میری اور ماما کی طلاق بلال ہی کی وجہ سے ہوئی تھی……… میں بلال سے رات کو ملنے جایا کرتی تھی اس بات کی تمہارے علاوہ کسی کو بھی خبر نہیں تھی……… اور بلال نے مجھ پر یہ گندا لزام لگایا تھا کہ میں اُس کا بستر سجاتی رہی ہوں…… اس وجہ سے ولید نے مجھے طلاق دی تھی ورنہ ولید تو بہت اچھا تھا میرے ساتھ محبت کرنے والا شوہر“
نوشی اب بھی ولید کو اچھا انسان سمجھتی تھی ولید نے نوشی سے اُس کی ساری دولت چھین لی تھی چالاکی سے مگر نوشی کے ذہن میں یہ بات تھی کہ یہ دولت تو میں نے خود ولید کو مجبور کر کے دی تھی، ولید بڑا خود دار انسان تھا۔
ویسے بھی جو چیز انسان کے پاس ضرورت سے بہت زیادہ ہو، اُس سے اُسے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ہے۔ جمال رندھاوا کے مرنے کے بعد اُس کی بے شمار دولت کی وجہ سے نوشی کو کبھی بھی اپنی پراپرٹی کے چھن جانے کا خیال بھی نہیں گزرا تھا۔ اُس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ گھر میں صرف گل شیر خان اور توشی کو معلوم تھا اِس بارے میں اُن دونوں نے کبھی اس بات کا نوشی یا کسی اور سے ذکر تک نہیں کیا تھا اِس ڈر سے کہ نوشی ڈسٹرب نہ ہو جائے ،ویسے بھی توشی اور شعیب کی پراپرٹی کا سار اکرایہ بھی رندھاوا ہاؤس ہی آتا تھا ناہید کے نام پر جو فارم ہاؤس تھا وہاں سے اچھی خاصی رقم رندھاوا ہاؤس آجاتی تھی دونوں فیکٹریاں اب گل شیر خان دیکھتا تھا۔
جو ایمانداری اور دیانت سے سارا حساب کتاب جہاں آرابیگم کو دے دیتا تھا۔ نوشی کے نزدیک مدعا پراپرٹی ہاتھ سے جانے کا نہیں تھا۔ اُسے بلال سے نفرت اُس لیے تھی کہ اُس نے ولید سے اپنی اور نوشی کی ملاقاتوں کا ذکر کیا تھا، جس کی وجہ سے ولید نے اُسے طلاق دی تھی۔
نوشی یہ بھی سمجھتی تھی کہ بلال نے اُس کے باپ کو مجبور کیا تھا، کہ وہ نوشی کی ماں کو طلاق دے دے۔
ایک ہفتے بعد نوشی اپنی ماں کی دوائی لینے کے لیے گھر سے باہر گئی تھی فارمیسی سے نکلتے ہوئے اُس کی ایک شخص سے ملاقات ہو گئی۔
جس سے چند باتیں کرنے کے بعد نوشی نے توشی کو رندھاوا ہاؤس بلایا
”میں نہیں آسکتی ڈاکٹر صاحب اس حالت میں مجھے نہیں آنے دیں گے“ توشی نے فون پر معذرت کر لی ۔
نوشی نے محسن کو فون کر دیا تھا۔
”محسن بھائی……پلیز آخری بار……توشی کے ساتھ گھر آئیں بہت ضروری بات کرنی ہے… محسن بھائی انکار مت کیجیے گا۔
پاپا اور بھائی کے بعد ……آپ ہی اِس گھر کے کَرتا دھرتا ہیں“
نوشی نے صرف اپنی بات کی اور فون بند کر دیا ۔ نوشی کے اِس طرح بات کرنے کی وجہ سے محسن کو فکر لاحق ہوئی تھی۔محسن نے توشی کو اپنے ساتھ لیا اور رندھاوا ہاؤس پہنچ گیا۔ رات 8 بجے کے قریب جہاں آرابیگم کے کمرے میں توشی محسن اور نوشی موجود تھے۔
”بتاؤ کیا ضروری بات ہے……“ توشی نے پوچھا تھا
”میں بلال کے ساتھ نکاح کرنا چاہتی ہوں“ نوشی نے دل کی بات کر دی سب حیرت سے ایک دوسرے کو تکنے لگے۔
”کیا میں نے کوئی غلط بات کر دی ہے؟“ نوشی نے سب کے چہروں پر آئی حیرت کو دیکھ کر کہا تھا۔
”ٹھیک ہے نوشی بیٹی ہم بلال سے بات کریں گئے“ دادی نے دانائی سے جواب دیا ۔
”تو ٹھیک ہے اُسے بلائیں یہاں پر اور کریں بات………“ نوشی نے دو ٹوک کہہ دیا ۔
”رشتے کی بات کرنی ہے کوئی پیزا آرڈر نہیں کرنا کہ آدھے گھنٹے میں ڈلیوری مل جائے“ توشی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا 
”دس سال سے میں یہ سن رہی ہوں، بلال مجھ سے محبت کرتا ہے اور شادی کرنا چاہتا ہے۔
توشی میڈم یہ تم ہی تو کہتی تھی۔ اب میں اُس سے شادی کرنا چاہتی ہوں تو اُسے کیا اعتراضٰ ہو سکتا ہے“ نوشی نے اپنا نقطہ نظر بیان کیا تھا۔
”نوشی دیکھو دادی ٹھیک کہہ رہیں ہیں ہم بلال سے بات کر لیتے ہیں۔ ایک دو دن کے اندر اندر………“ محسن نے نوشی کو سمجھانے کی کوشش کی ۔

Chapters / Baab of Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط