نوشی نے اپنی بنائی ہوئی چائے کا ایک گھونٹ لیا تھا ’گڑوالی چائے تو بہت مزیدار ہوتی ہے“ نوشی نے خود ہی تعریف کرلی تھی ”کچن تو بہت صاف ستھرا ہے ابھی BG آتی ہے تو اُسے دکھاتی ہوں۔ دادو کہتیں ہیں، عورت کی صفائی اُس کے کچن سے اور اُس کے خودکے پیروں سے نظر آجاتی ہے……“
بلال نوشی کو دیکھ رہا تھا، باتیں کرتے ہوئے نوشی کی بلال سے نظریں چار ہوئیں اُس نے اپنی لٹیں کان کے پیچھے کیں جو اُس کے چہرے پر تھیں۔
”ویسے آپ تعریف کے معاملے بہت کنجوس ہیں…“ نوشی نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے شکایتی انداز میں کہا ۔
”چائے پیوں گا تو تعریف کروں گا۔“ بلال مسکراتے ہوئے بولا ۔
”چائے کی کون کم بخت بات کر رہا ہے میں تو اپنی بات کر رہی تھی۔ کل رات سے اب تک تم نے میری تعریف میں ایک لفظ بھی نہیں کہا “
”یہ بات ہے………تو اب تعریف کر دیتا ہوں“بلال نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
”رکیں…رکیں……اب میری کچھ شرطیں بھی ہیں، تعریف صرف ایک لفظ میں ہو…مختلف بھی ہونی چاہیے……… جس کو میں ساری زندگی نہ بھلا سکوں“ نوشی نے اپنی تعریف بلال کے منہ سے سننے کے لیے شرائط و ضوابط کی تفصیل بتائی تھی نوشی اپنی چائے ختم کر چکی تھی اُس نے اپنا مگ گول میز پر رکھ دیا تھا۔
(جاری ہے)
”برفی………“ نوشی نے سوالیہ نظروں سے بلال کی طرف دیکھا ۔ جب بلال نے یہ کہا تھا
”برفی……مطلب ……“ نوشی نے حیرت سے پوچھا ۔
”مطلب یہ………میری بیوی برفی کی طرح ہے میٹھی بھی اور سفید بھی……… میٹھی شہد جیسی اور سفید دودھ جیسی… میری برفی…“
نوشی بلال سے اپنی تعریف سن کر کلی کی طرح کھل گئی تھی۔
”تمہاری چائے تو پانی بن گئی پڑی پڑی میں گرم کر کے لاتی ہوں“ نوشی اُٹھنے لگی
”آپ بیٹھ جاؤ……… میں پانی کی طرح ہی پی لیتا ہوں……“ بلال نے چائے کا مگ اُٹھایا اور پانی ہی کی طرح تین سانس لے کر پی گیا۔
”ملک بلال احمد……اب میں بتاتی ہوں…… میری آنکھوں میں کیا تھا………جو تم دیکھ نہیں سکے………نفرت اور مکاری“ نوشی غصے سے چیخی ۔
بلال نے اپنا گلا پکڑ لیا تھا۔ اُس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا رہا تھا، اُس نے ایزی چیئر سے اُٹھنے کی کوشش بھی کی تھی۔
”برفی نے تمہیں زہر پلا دیا ہے……گڑوالی چائے میں ڈال کر“ نوشی نے ہر لفظ پر زور دے دے کر کہا ۔
نوشی نفرت سے بھری نگاہوں کے ساتھ کرسی سے اُٹھی جب بلال نے ایزی چیئر سے اُٹھنے کی کوشش کی۔ اُس نے بلال کے سینے پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا زور سے۔
”بیٹھ جاؤ بلال کوئی فائدہ نہیں………صرف دو منٹ ہیں تمہارے پاس……“”کیوں……؟“ بلال نے لرزتے ہونٹوں کے ساتھ پوچھا
”اس لیے تم نے میری ماں کی اور میری زندگی برباد کر دی تھی، ہم دونوں کو تمہاری وجہ سے طلاق ہوئی تھی……“
”ایسا نہیں ہے………“ بلال نے ڈوبتی ہوئی سانسوں کے ساتھ کہا ”تم بہت ذہین ہو… مگر آخری وقت تک میری آنکھوں میں چھپی نفرت اور مکاری نہ دیکھ سکے“ نوشی نے سفاکی اور بے رحمی سے کہا ۔
”ایسی بات نہیں ہے میں نے تمہاری نفرت اور مکاری دیکھ لی تھی میں نے محبت پر اعتبار کیا تھا……“ بلال نے بڑی مشکل سے کہا اکھڑتی ہوئی سانسوں کے ساتھ
”دیکھ لو میری نفرت جیت گئی تمہاری محبت سے………“ نوشی نے بلال کی ناک سے بہتے ہوئے خون کو دیکھ کر کہا
”اب میں تمہاری بیوہ کہلاؤں گی“
بلال نے بائیں ہاتھ سے اپنے منہ اور ناک سے بہتے ہوئے خون کو صاف کیا۔
اب بلال کا اپنا ہی لہو اُسکے ہاتھ اور چہرے پر لگ چکا تھا۔ بلال نے اپنے بائیں ہاتھ کو بند ہوتی ہوئی آنکھوں سے دیکھا۔ تکلیف کے باوجود بلال کے چہرے پر اطمینان اور سکون تھا۔
نوشی اُٹھی اور جانے لگی۔ بلال نے دائیں ہاتھ سے نوشی کا دایاں ہاتھ پکڑ لیا ”چھوڑو میرا ہاتھ……“ نوشی نے زور لگا کر ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی۔
”نوشی یاد کرو وہ رات جب میرے دل نے تمہارے دل سے کہا تھا۔
میں نے تمہارا ہاتھ دل سے تھاما ہے“ جب تک اس دل میں دھڑکن ہے، یہ ہاتھ نہیں چھوٹے گا“
بلال اپنے قول کا سچا نکلا اور ایسا ہی ہوا تھا۔
محبت کا مسیحا دنیا چھوڑ چکا تھا۔ نفرت کی رانی بیڈروم میں گئی سارا زیور بیگ میں ڈالا سوائے اُس کنگن کے وہ اُس نے اپنی کلائی میں پہن لیا تھا۔ سائیڈ ٹیبل سے گاڑی کی چابی اُٹھائی۔
”بلال احمد تمہارے دونوں تحفے نفرت کی نشانی سمجھ کر سنبھال کر رکھوں گی“ نوشی نے خود کو کہا گاڑی چلاتے ہوئے۔
دو دن پہلے جب وہ اپنی ماں کی دوائی لے کر فارمیسی سے نکل رہی تھی، تو اُس کا ولید سے سامنا ہوگیا تھا۔ دونوں چپ چاپ کافی دیر تک ایک دوسرے کو تکتے رہے تھے۔
”نوشی قصور تمہارا تھا، تم نے اتنی بڑی بات کیوں مجھ سے چھپائی تھی، میری بھی غلطی تھی مجھے تم پر یقین کرنا چاہیے تھا۔ طلاق کے بعد جب ایک دن میں نے بلال کو فون کیا تو اُس نے مجھے ہنستے ہوئے کہا تھا۔
کہ میں نے سب جھوٹ بولا تھا، وہ تم سے بدلہ لینا چاہتا تھا“
ولید نے اپنے مگرمچھ والے آنسو صاف کیے تھے۔
”ولید میں تھک گئی ہوں میں تمہارے ساتھ رہنا چاہتی ہوں“ نوشی نے بے تابی سے کہا تھا۔
”دیکھو نوشی ہمارا گھرانہ بہت مذہبی ہے، میں تمہیں ایسے اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا“ ولید نے اپنی ٹھوڑی پر دایاں ہاتھ پھیرتے ہوئے سوچ کرکہا تھا۔
”ایک طریقہ ہو سکتا ہے، جس پر مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہے، تم کسی اور سے شادی کرو اُس کے ساتھ بیوی جیسا تعلق قائم کرو پھر تمہارا شوہر تمہیں طلاق دے دے یا مرجائے اُس کے بعد ہم دونوں شادی کر سکتے ہیں“
ولید نے مکاری سے اپنی جان چھڑائی تھی
”ہاں یہ فلیٹ کی چابی ہے ہمارے بیڈروم میں ڈریسنگ ٹیبل کے دراز کے اندر تمہارا پاسپورٹ پڑا ہوا ہے وہاں پر میرا وزیٹنگ کارڈ بھی ہو گا تم طلاق کے بعد مجھے فون کر دینا میں تمہارا ویزہ بھیج دوں گا پھر تمہاری عدت کے بعد ہم نکاح کر لیں گے“
نوشی کے ہاتھ میں فلیٹ کی چابی گھوم رہی تھی اور وہ سوچوں میں گم تھی ”تم یہاں کیسے“ نوشی نے جانچتی نگاہوں سے پوچھا تھا۔
”امی فوت ہو گئیں تھیں، اُن کے جنازے میں شرکت کے لیے آیا تھا، پرسوں دوپہر کو واپسی ہے…“ ولید نے فلیٹ کی چابی کو نوشی کے ہاتھوں میں دیکھ کر کہا تھا۔
”نوشی یہ فلیٹ تمہارے نام پر ہے اور دبئی کا سارا کاروبار بھی تمہارے ہی نام پر ہے پھر بھی اگر تمہیں اعتبار نہیں ہے تم مجھے اپنا اکاؤنٹ نمبر دو میں تمہارا سارا روپیہ بھیج دیتا ہوں۔
ہاں یاد آیا میرا نیا نمبر “ ولید یہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا تھا، نوشی کے نمبر پر مس کال آچکی تھی۔
نوشی ایسے گاڑی چلا رہی تھی جیسے RACE جیتنا چاہتی ہوں۔
”توبہ توبہ……… ناہید کی حالت تو دیکھو………جمال آدھ گھنٹہ طلاق نہ دیتا تو اُس کی بیوہ تو کہلاتی اب تو طلاق یافتہ ہی کہلائے گئی “
نوشی کے کانوں میں اپنی ماں کی ایک سہیلی کی بات گونجی، دوسری نے کہا تھا۔
”میں نے سنا ہے جمال نے طلاق بلال کے کہنے پردی تھی“ نوشی نے گاڑی کی سپیڈ اور تیز کر دی تھی، تیسری آواز اُس کے کانوں میں پڑی ہماری سوسائٹی میں بیوہ کو عزت ملتی ہے اور طلاق یافتہ کو پھٹکار اور طعنے “
”اسی لیے تو بلال میں نے طلاق لینے کی بجائے تمہاری بیوہ بننا پسند کیا ہے، میں تمہاری لاش کو پھلانگ کر اپنے ولید تک پہنچی ہوں“