Episode 2 - Chalo Jaane Do By Sumaira Hamed

قسط نمبر 2 - چلو جانے دو - سمیرا حمید

ریسٹ ہاؤس قدرے نشیب میں تھا۔ پہلے ایک ڈھلان پتلی سڑک،پھر چار بڑی اور کھلی سیڑھیاں،پھر کچا پکا راستہ،پھر چھ عدد سیڑھیاں،پھر کچا پکا راستہ اور کنارے پر مزید دس قدم سیڑھیاں اُتر کر تین کمروں کا یہ نیلی چھت والا ریسٹ ہاؤس،اوپر سڑک سے تو ریسٹ ہاؤس نظر بھی نہیں آتا تھا۔ گاڑی پارک کرکے اپنا سامان باہر نکال کر سب سے پہلے جرار نے سڑک سے گھر کی طرف جانے والے راستے پر موجود برف پر اپنا پہلا قدم رکھا،جیسے چاند پر نیل نے رکھا ہوگا۔
یہ ان سب کا پہلا مشترکہ ٹور تھا کسی بھی پہاڑی اور برفانی علاقے میں۔
آس پاس بکھری برف کو ان سب نے بے یقینی سے دیکھا۔
”پینڈو۔“ نمل زیر لب بڑبڑائی۔ کون سا راستہ اور کیسی سیڑھیاں،ریسٹ ہاؤس تک کا سارا راستہ برف سے ڈھکا ہوا تھا۔

(جاری ہے)

گرتے پڑتے معاذ اندر سے جبار کو بلا کر لایا جو اپنے ساتھ کدال اور ایک پتلا ڈنڈا لیتا آیا۔ کدال سے اس نے سیڑھیوں کو سیڑھیوں کی شکل دینے کی کوشش کی۔

برف بری طرح جم چکی تھی۔ بمشکل دو قدم ایک لمبی لائن وہ سڑک سے گھر تک بنا سکا۔
لڑکے گرتے پڑتے سامان شفٹ کرنے لگے۔ لڑکیاں لانگ شوز اور لانگ کوٹ سنبھالتی جبار کا سہارا لیے باری باری گھر تک جانے لگیں اور جاتے جاتے تین چار بار مزے سے پھسلیں۔
”فلموں میں تو ہیروئن مزے سے ڈانس کرتی رہتی ہے برف پر،ہم کیوں بار بار پھسل رہے ہیں۔“ نمل نے گر کے اُٹھتے ہوئے کہا۔
”یہ پاکستان کی برف ہے شاید اس لیے اور وہ یورپ کی ہوتی ہے۔“ حرا نے ہمیشہ کی طرح زیادہ پڑھے لکھے ہونے کا ثبوت دیا۔
”ایک تو ہر اچھی چیز یورپ میں ہی ہے۔“ نمل قدم جما جما کر چل رہی تھی۔
ہر بار ان کے پھسل جانے پر جبار مضحکہ خیز انداز سے ہنسنے لگتا۔ وہ گھر کا کل وقتی ملازم تھا۔ رات کو اس کے خراٹے سن کر شامل اور نمل یہ سمجھے کہ شیر باہر کھڑا دھاڑ رہا ہے۔
اس کی ہنسی اور خراٹے ایک جیسا ہی ردھم رکھتے تھے۔ برف پر ایسے چلتا تھا،جیسے بندر کی طرح چھلانگیں لگا رہا ہو۔ معاذ کے نزدیک وہ ایک برفانی بد روح تھی،جو خاص برفانی علاقوں میں ہی پائی جا سکتی ہے۔
”پتا ہی نہیں چلا ایک ہفتہ گزر گیا۔“ عفان کم بولتا اور سب سے زیادہ مزے کرتا تھا۔ ہفتہ گزر جانے کا دکھ اسے ہی زیادہ تھا۔ معاذ،جرار اور شامل کا بس نہیں چل رہا تھا کہ آتش دان میں ہی گھس کے بیٹھ جائیں۔
”کراچی کے رہائشی تو باؤلے ہی ہو جاتے ہیں یہاں آکر۔“ مدیحہ نے معاذ سے اپنا بدلہ لیا۔
”پنڈی کے رہائشیوں کو یہ موقع بھی نہیں ملتا۔ پندرہ سال ہو گئے تمہیں پنڈی میں رہتے اور برف کے گولے بنا بنا کر ایسے اچھال رہی تھیں جیسے ہر سیزن یہاں آتی ہو۔“ معاذ بھی چپ نہیں رہا۔
”پڑھنے لکھنے والے بچے گھومنے پھرنے میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتے۔
“ وہ ادا سے بولی۔
”یہاں تم سی ایس ایس کی تیاری کرنے آئی ہو نا اس بار؟“
”واپسی کب ہے؟“ حرا کے سوال پر عفان نے اسے کچھ زیادہ ہی غصے سے گھور کر دیکھا۔
”خبردار جو کسی نے واپسی کا نام لیا۔“ معاذ نے انگلی اٹھا کر سب کی طرف باقاعدہ لہرا کر کہا تاکہ سب دیکھ لیں اچھی طرح۔
”گھروں سے فون آئے تو کہو آواز نہیں آ رہی۔ زیادہ آئے تو فون بند کر دو۔
بند فون بھی بجنے لگے تو فون اٹھا کر باہر پھینک دو۔ یہاں میں تمہیں کھلا رہا ہوں،گھما رہا ہوں،وہ سب خود تو کبھی تمہیں یہاں لائے نہیں۔ اب بچے خود آ گئے ہیں تو برداشت نہیں ہو رہا۔“
”پھر بھی کب تک؟“ شامل جو کافی دیر سے مونگ پھلی نکال نکال کر جمع کر رہا تھا،ایک ساتھ ہی ساری منہ میں ڈال کر پھنسی پھنسی آواز میں بولا۔
”کسی کو کوئی پرابلم ہے یہاں رہنے میں؟نہیں نا؟آرام سے رہو،صبح اُٹھو،باہر نکلو،برف پر پھسلو، گولے بناؤ،شیر ہاتھی اونٹ بناؤ،آئس کینڈی کھاؤ،ادھر ادھر گم ہو جاؤ اور رات کو اس پیارے سے آتش دان کے پاس آ کر بیٹھ جاؤ اور گپیں لگاؤ بعد میں دیکھیں گے کب جانا ہے واپس۔
میں نے تو موبائل آف کر دیا ہے دو دن سے، مجھے نہیں چاہیے سکون میں خلل…“
”خلل سے آپ کا مطلب گرل فرینڈ تو نہیں؟“جرار نے سنجیدگی سے پوچھا۔ معاذ نے صرف گھورنے پر اکتفا کیا۔
”لگتا ہے کوہ قاف میں آ گئے ہیں۔“
”کوہ قاف میں برف ہوتی ہے۔“ حرا کا سائنسی سوال۔
”نہیں۔ جن اور پریاں ہوتی ہیں۔“ شامل گفتگو میں شریک ہوا۔
”پاپا نے صرف چند دنوں کے لیے اجازت دی تھی۔“ حرا پھر سے پریشان ہو گئی۔
”پاپا کا فون آئے تو کہہ دینا۔ برف کا تودہ گرنے کی وجہ سے راستے بند ہیں۔ ہم ریسٹ ہاؤس میں قید ہیں۔ راستے کھلتے ہی آ جائیں گے۔“ معاذ نے مکمل سنجیدگی سے مشورہ دیا۔
”میں پاپا سے جھوٹ نہیں بولتی۔“
”جو جو جھوٹ نہیں بولتا،وہ اپنا سامان تیار کر لے۔
صبح گھر والوں سے جا کر سچ بول دینا۔ انتظام کر دوں گا تم سب کے جانے کا۔“ معاذ نے چڑ کر کہا۔
”یہاں برف کے تودے گرتے ہیں؟“مدیحہ پریشان ہو گئی۔
”برف ہے تو یقینا گرتے ہی ہوں گے۔ جبار سے پوچھ لیتے ہیں۔“ معاذ کچھ سوچتے ہوئے بولا۔
”رہنے دیں پلیز،اس طرح ہنستا ہے جیسے ہمارا مذاق اُڑا رہا ہو۔“
”وہ مذاق نہیں اُڑاتا نمل! وہ بس ہر بات کو انجوائے کرتا ہے۔
“معاذ نے جبار کا دفاع کیا۔
”یہ جو چھت پر اتنی ساری برف گری ہے،اگر چھت گر گئی تو…؟ میرا دوست بتا رہا تھا کہ اس کی نانی کے گھر ایبٹ آباد ہر سال کسی نہ کسی کی چھت گر جاتی ہے برف کی وجہ سے۔“ جبار نے آنکھیں گھما گھما کر بتایا۔
”اچھا…!“ معاذ سوچنے لگا۔ یہ گھر تو دو منزلہ ہے اگر چھت گری تو اوپر والی منزل کی گرے گی۔ معاذ نے سب کو تسلی دی۔ ”اور یہ ہر موقع پر تمہارے اور تمہارے دوست کے پاس کوئی نہ کوئی بری کہانی ہی ہوتی ہے سنانے کے لیے؟ اتنے سارے دوست ہیں کہ ہر جگہ کسی نہ کسی کی نانی،دادی موجود ہے کہانیاں سنانے کے لیے۔“
                                          ###

Chapters / Baab of Chalo Jaane Do By Sumaira Hamed