Episode 5 - Chalo Jaane Do By Sumaira Hamed

قسط نمبر 5 - چلو جانے دو - سمیرا حمید

وہ اتنی گہری نیند سوئی جیسے اپنے بیڈ روم میں ہو۔ اس کی آنکھ کھلی تو کمرے میں کوئی نہیں تھا۔ فریش ہونے کے بعد وہ کمرے سے باہر آئی۔ گھر میں بہت سے افراد کی موجودگی کے آثار نظر آ رہے تھے وہ کچن میں آگئی۔
گھر بہت بڑا کھلا اور کشادہ تھا،آتش دان بہت بڑا اور قدیم طرز کا تھا۔ لاؤنج کے ایک طرف کچن اور دوسری طرف ہال نما کشادہ کمرا تھا۔ ہال کے ساتھ ہی آگے پیچھے دو کمرے بنے تھے جن میں سے ایک میں وہ سوئی تھی۔
”یہ لیں آپ ناشتا کریں۔“ اس کے کچن میں آتے ہی جنت نے ٹرے ٹیبل پر رکھی۔ سنکے ہوئی توس،آملیٹ اور جام تھا۔
”چائے پیوگی یا کافی؟“ وہ پوچھ رہی تھی۔ سارا کچن الٹا پلٹا تھا۔ استعمال شدہ برتنوں کا ایک ڈھیر جمع تھا۔ جنت تیزی سے کام سمیٹنے کی کوشش کر رہی تھی۔

(جاری ہے)

جنت کی شکل سے ہی لگ رہا تھا کہ وہ بہت تھک چکی ہے۔

”میں ناشتا کرکے مدد کرواتی ہوں۔
“ اس نے پیشکش کی۔
”شکریہ بی بی!“ وہ ساتھ والی ایک کرسی پر ڈھے گئی۔ ”پچیس لوگوں کو ناشتا کروایا ہے۔“
”اور لوگ آئے تھے رات؟“ وہ حیران ہوئی۔
”لڑکے تھے کافی سارے۔ ناشتا کرکے چلے گئے۔ لاؤنج میں سوئے تھے رات کو۔“
”راستہ کھل گیا؟“ حرا خوش ہوئی۔
”نہیں ابھی نہیں،باہر نکل کر تو دیکھیں! کتنی برف باری ہوئی۔
”اچھا…!“
مقامی لوگ جتنا کر سکتے ہیں،کرتے ہیں۔ سڑک کے اوپر پہاڑی پر میری بہن کا گھر ہے۔ کچھ لوگ وہاں اس کے گھر میں بھی ہیں۔ پچھلی بار ایک نومولود ٹھنڈ سے مر گیا تھا۔ ہمیں بہت دکھ ہوا۔“
”اوہ!“ حرا کو دکھ ہوا۔
جنت سانس لینے کے بعد پھر سے کچن سمیٹنے لگی۔ حرا نے بھی اٹھ کر اس کی مدد کروائی۔ اپنے گھر میں اس نے کبھی بیڈ کور تک ٹھیک نہیں کیا تھا لیکن جنت کو دیکھ اسے احساس ہوا کہ دوسروں کے لیے بے لوث خدمت کرنا کتنا اہم ہے۔
حرا اس سے متاثر ہوئی تھی۔ جنت کے ساتھ ہی مل کر اس نے سارا گھر صاف کیا۔ رات کو اس کے ساتھ آنے والی عورتیں ہال میں موجود تھیں ہال باقی گھر کی نسبت زیادہ گرم تھا۔
دوپہر کا کھانا حرا نے جنت کے ساتھ مل کر بنوایا بھی اور سب کو کھلایا بھی۔
”بی بی! میں سونے لگی ہوں،بہت تھک گئی ہوں۔ آپ بھی سو جائیں۔“
”میں بی بی نہیں ہوں۔ میرا نام حرا ہے۔
“حرا نے نرمی سے کہا۔
”اچھا حرا بی بی! چاہے تو ہال میں آ جائیں یا اسی کمرے میں چلی جائیں۔“
وہ اس کے یوں حرا بی بی کہنے پر مسکرانے لگی۔
نمل،معاذ وغیرہ سے تفصیلی بات کرنے کے بعد وہ فریش ہو گئی۔ کمر کا درد بھی ٹھیک تھا۔ کمرے کا بیرونی دروازہ کھول کر وہ گھر کے پچھلی طرف آ گئی۔ بہار میں یقینا یہ گھر کے لان کا خوبصورت منظر پیش کرتا ہو گا۔
برف سے ڈھکا لان بہت بڑا تھا۔
باہر کا منظر دیکھ کر حرا نے ایک لمبی سانس لی۔برف پر قدم جما جما کر چلنے کے باوجود وہ دو بار پھسل چکی تھی۔ جتنے دنوں سے وہ یہاں تھے۔ وہ سب سے زیادہ پھسلی تھی۔ پہلے تو سب اسے اٹھا بھی لیتے تھے،پھر اس کے گرنے پر ہنستے ہوئے آگے بڑھ جاتے تھے۔
تیسری بار وہ پھسلی تو دس فٹ تک پھسلتی ہی چلی گئی۔ وہ اوپر سے نیچے کی طرف جا رہی تھی۔
خود کو پھسلنے سے روکنے کے لیے اس نے برف کو گرفت میں لینے کی کوشش کی مگر ناکام رہی اور دھڑم سے ایک گڑھے میں جا گری۔ اتنے تکلیف دہ انداز میں گرنے پر اس کی اچھی خاصی چیخ نکل گئی۔ اس کا سانس بری طرح سے اُکھڑا ہوا تھا۔ گر کر سنبھلتے ہی اس نے اردگرد کا جائزہ لیا۔ برف سے بھرنے کے بعد گڑھا آٹھ فٹ گہرا تھا۔ اچھل کر اس نے گڑھے سے باہر دیکھنا چاہا مگر ناکام،کنارے کو پکڑ کر اوپر اُٹھنے کی کوشش کرنے لگی وہ بھی ناکام۔
اس کی گرفت کناروں پر موجود برف پر جم ہی نہیں رہی تھی۔
ایک بار وہ گڑھے سے تقریباً آدھی اوپر آ چکی تھی کہ پھر نیچے…
اسی لمحے اس نے کچھ فاصلے پر کسی کو دیکھا۔ شاید نظر کا دھوکا تھا،پوری طرح دیکھنے سے پہلے ہی وہ دھڑام سے نیچے،شاید دھند میں لپیٹی کوئی چیز تھی۔ وہ دعا مانگنے لگی کہ وہ جنت ہی ہو۔
”جنت… جنت…!“
لیکن جنت نہیں آئی۔
پانچویں کوشش میں وہ پھر آدھی باہر نکل آئی۔ اس بار دو عدد پاؤں اس کے باہر نکلتے ہاتھوں سے ٹھیک تین فٹ کے فاصلے پر کھڑے نظر آئے۔ اس کے آدھا باہر نکلتے ہی وہ دو فٹ اور دور ہو گئے کہ مبادا وہ انہیں ہی نہ پکڑ لے۔ جب وہ دوبارہ واپس گری تو اسے شدید غصہ آیا… اس پر جو باہر تھا لیکن اس کی مدد نہیں کر رہا تھا۔
”کوئی ہے…؟“ وہ چلائی ”کون ہے باہر… ہیلپ… ہیلپ۔
وہ ایک ایک لفظ کو کھینچ کھینچ کر چلانے لگی۔ اس بار اس نے اوپر چڑھنے کی کوشش بھی ترک کر دی کیونکہ اس کا اس طرح باہر نکلنا ناممکن تھا۔
”آخر تمہیں کتنی اور ہیلپ چاہیے؟“
گڑھے کے کنارے ایک دم وہ لمبا تڑنگا شخص بھاپ اُڑاتا مگ تھامے نمودار ہوا۔ اس کے انداز میں تمسخر تھا اور اس سے پہلے شاید وہ ہنستا بھی رہا تھا۔
حرا کی نظریں اس پر ٹک گئیں۔
”بتاؤ اور کتنی مدد چاہیے؟“ وہ کنارے پر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا جیسے سیف الملوک میں مچھلی تلاش کر رہا ہو۔ اس نے مگ سے گھونٹ بھرا
”تم شہری لوگ خود کو سمجھتے کیا ہو؟ ٹام کروز یا جیٹ لی؟ بہت پسند کرتے ہو ایڈونچر؟“
حرا کو شہری لوگ پر حیرت ہوئی،تو کیا مری گاؤں ہے۔“
”چلو پھر نکلو یہاں سے۔ ٹام کروز بن کر لگاؤ چھلانگ اور ثابت کر دو خود کو۔
پچیسویں کوشش میں بھی تم یہاں سے نکل آئیں تو میں چائے پینا چھوڑ دوں گا… چلو شاباش،کرو کوشش۔“وہ اسے پچکارنے لگا اور ساتھ ہی اٹھ کر دو قدم پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا۔
”شٹ اپ!‘حرا اتنا ہی برداشت کر سکتی تھی بس۔
”شٹ اپ؟“اس نے حیرانی لیے اس کے ہی انداز میں اس کے الفاظ دہرائے اور ایسے ہی کنارے پر آکر بیٹھ گیا،جیسے اپنی ہنسی اور حیرت دبا رہا ہو۔

Chapters / Baab of Chalo Jaane Do By Sumaira Hamed