Episode 6 - Chalo Jaane Do By Sumaira Hamed

قسط نمبر 6 - چلو جانے دو - سمیرا حمید

”میں نے تمہیں گرایا ہے؟ میں نے کہا تھا گھر سے اس خراب موسم میں نکلو اور یہاں گھومنے چلی آؤ۔ نیوز چینل الرٹ دے دے کر تھک چکے ہیں لیکن شاید تمہیں اس برفانی موسم میں برفانی ریچھ کی طرح گشت کرنے کا جنون ہے یا شو… شو… کرتے قلابازیاں لگاتے پہاڑوں پر چھلانگیں لگانے کا شوق پورا کرنے آئی ہو۔ وہاں سے نکال کر پاپا تمہیں یہاں لائے مگر وہی تمہاری جیٹ لی ٹائپ کی روح تمہیں پھر گھر سے باہر لے آئی اور تم اس گڑھے میں آگریں۔
دو بار پھسل کر سنبھلی مگر پھر بھی واک کرنے سے باز نہیں آئی۔ جب برف پر چل نہیں سکتی تو چلتی کیوں ہو۔ اگر میں تمہیں کھڑکی سے نہ دیکھ رہا ہوتا تو تم یہیں پڑے پڑے ٹھنڈسے اکڑ جاتیں اور تمہاری اکڑی ہوئی لاش… ہی تمہارے گھر جاتی اور تمہاری وہ جنت… جنت… ہیلپ… ہیلپ کی آوازیں یہاں سے پندرہ فٹ سے آگے سنائی نہیں دے رہیں اور گھر چالیس فٹ کے فاصلے پر ہے اور جنت اس سے بھی بہت زیادہ فاصلے پر… تم شہری لوگ… کبھی برف نہیں دیکھی…؟برف دیکھتے ہی ایسے پاگل ہو جاتے ہو جیسے انگلش موویز میں بھیڑیے چاند کے نکلتے ہی ہو جاتے ہیں۔

(جاری ہے)


حرا اسے ہی دیکھ رہی تھی اور اسے دیکھ ہی سکتی تھی۔
”نکلو اب…“وہ بدتمیز اب بھی چُپ نہیں ہوا تھا۔ ساتھ ساتھ چائے کے گھونٹ بھی لے رہا تھا۔
”اچھا… اگر میرے سامنے نہیں نکل سکتیں تو میں چلا جاتا ہوں۔“اور کہتے ہی چلا بھی گیا۔ ایک بار پھر حرا نے بمشکل سر نکال کر باہر دیکھا۔ وہاں کوئی نہیں تھا وہ واقعی میں جا چکا تھا۔
”بدتمیز!حرا بے بسی سے کھڑی کچھ ہونے کا انتظار کرنے لگی۔
”یہ لو چارلیز انجیلز…“اس نے لکڑی کے ایک چوڑے تختے کو گڑھے میں نیچے سے اوپر کی طرف آڑھا رکھا۔“ اس پر سے چل کر اوپر آ جاؤ۔“
وہ اس کے جانے کا انتظار کرنے لگی کہ وہ جائے تو وہ اوپر آئے۔ اس کے سامنے وہ باہر نہیں آنا چاہتی تھی مگر وہ مزے سے وہیں کھڑا رہا ناچار ہاتھوں اور پیروں کی مدد سے بلی کی طرح چلتی وہ باہر آ گئی۔
”یہ تختہ میں یہیں رہنے دیتا ہوں۔ ہو سکتا ہے تمہارا دوبارہ اس طرف آنے کا ارادہ ہو۔“
وہ اس کے آگے آگے چلتا ہوا مسلسل بول رہا تھا۔ حرا کا دل چاہ رہا تھا اسے اس گڑھے میں دھکا دے دے… وہ اس کے پیچھے چل رہی تھی اور چلتے چلتے وہ دوبارہ گری۔
اس نے مڑ کر اسے دیکھا۔ ”بہت خوب… کمال کا گرتی ہو۔ پھر گر کر دکھاؤ…“ ہاتھ سینے پر باندھ کر وہ کھڑا ہو گیا۔
وہ ہاتھ جھاڑتی اٹھ کر کھڑی ہوئی۔ اس کی شکل بتا رہی تھی کہ وہ بمشکل ضبط کر رہی ہے اور سامنے والے کی شکل بتا رہی تھی کہ وہ اس کے ضبط سے خوب محظوظ ہو رہا ہے۔
”بہت ذہین ہو۔“ وہ اسے سر سے لے کر نیچے تک دیکھ کر بولا۔
”بہت اچھی میچنگ کی ہے شوز کی ڈریس کے ساتھ لیکن شاید تمہیں کسی نے یہ نہیں بتایا کہ برف پر چلنے کے لیے شوز کو اوپر سے نہیں،نیچے سے دیکھا جاتا ہے۔
تمہارے شوز پھسلنے کے لیے بیسٹ ہیں۔ ان فیکٹ ان سے بہتر شوز دنیا میں اور ہو ہی نہیں سکتے۔ سو کیپ سلپنگ۔“
کہہ کر وہ آگے چلنے لگا۔
اس بار وہ زیادہ احتیاط سے قدم جما کر چلنے لگی۔ اس وقت وہ اپنے سب سے بہترین سوٹ میں ملبوس تھی۔ سیاہ ڈبل ہائی نیک،گہرے نیلے،ٹاپ نما ٹی شرٹ اور ہم رنگ گھٹنوں تک لانگ کوٹ،سیاہ اسکارف گرہ کی صورت گردن کے گرد لپٹا ہوا تھا اور جن لانگ شوز پر اس نے اتنی تنقید کی تھی۔
وہ لانگ شوز ایمرجنسی میں رات ایک بڑے اسٹور سے لائی تھی۔برفانی علاقے وزٹ کرنے کے لیے یہ اس کی من پسند ڈریسنگ تھی۔ اس کی قسمت خراب کہ چلتے چلتے وہ ایک بار پھر پھسل گئی۔
اس نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور دیر تک ہنستا رہا جیسے سالوں بعد موقع ملا ہو۔
”بہت خوب… بہت خوب…!“
غصے اور خفت سے وہ وہیں بیٹھی رہی۔ اس نے اس کے سامنے اٹھ کر چلنے کی کوشش ہی ترک کر دی اور اس کے وہاں سے چلے جانے کا انتظار کرنے لگی۔
”کیا انداز ہے شہری لوگوں کا…“ بلند بانگ خود کلامی کرتے وہ واقعی چلا ہی گیا۔
ایک بار مزید گرنے کے بعد وہ بھی اندر آ ہی گئی۔ کچن میں سے اس کے اور جنت کے ہنسنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ خفت اور شرمندگی سے اس کا برا حال تھا۔ اتنے لمبے تڑنگے انسان کے سامنے اس کی اتنی بے عزتی ہو گئی تھی۔
کچھ ہی دیر میں جنت اس کے لیے چائے سے بھرا مگ اور دو اُبلے انڈے لے آئی۔
جنت کی آنکھیں ابھی بھی مسکرا رہی تھیں۔
”حرا بی بی! اپنا موڈ خراب مت کیجیے۔ مہران بھائی ایسے ہی ہیں۔ میں بھی گر جاتی تو ایسے ہی کرتے۔ رات بھر ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کام بھی کرواتے رہے ہیں اور باتیں بھی سناتے رہے ہیں سب کو۔ لڑکوں کا جو گروپ رات یہاں رہا،ان کے ساتھ تو انہوں نے حد ہی کر دی۔ کہہ رہے تھے کہ اس خراب موسم میں اگر وہ گھر سے نہ نکلتے تو اتنے شاندار حادثے کا شکار کیسے ہوتے۔
جنت کافی دیر تک بولتی رہی لیکن اس نے نہیں سنا۔ اسے شدید غصہ تھا۔
”بدتمیز… جاہل!“ حرا غصے سے بڑبڑائی۔ جب وہ جنت کے ساتھ مل کر گھر صاف کر رہی تھی تب تک کوئی گھر میں موجود نہیں تھا۔ شاید یہ مہران نامی بلا کچھ دیر پہلے ہی گھر آئی تھی۔
”کوئی دوا ہے تو مجھے دو۔ میں اپنے ہاتھوں پر لگاؤں۔“ حرا نے دونوں ہاتھ جنت کے سامنے کرکے کہا۔
”اوہ!“ وہ ہاتھوں کو دیکھ کر رہ گئی۔
                             ###

Chapters / Baab of Chalo Jaane Do By Sumaira Hamed