Episode 7 - Chalo Jaane Do By Sumaira Hamed

قسط نمبر 7 - چلو جانے دو - سمیرا حمید

وہ جنت کے ساتھ کمرے میں بیٹھی باتیں کرتی رہی پھر جنت کچن میں چلی گئی۔ نمل سے فون پر بات کرنے کے بعد وہ بھی کچن میں آ گئی۔ اسے دھڑکا ہی لگا ہوا تھا کہ وہ پھر نہ آ جائے۔ اس شخص کے سامنے اس کی عجیب و غریب درگت بنی تھی۔
جتنا ہو سکا وہ جنت کے ساتھ کام کرواتی رہی۔ رات جو خواتین آئی تھیں۔انہیں جنت کھانا اور دوا دے چکی تھی۔ ان میں سے ایک کو نمونیا ہو چکا تھا۔
ایک ویسے ہی بہت بیمار ہو گئی تھی۔ بار بار قے کر رہی تھی۔ بمشکل سات بجے تھے۔ کام کروا کر وہ واپس کمرے میں آ گئی۔ ایک دو میگزین رکھے تھے،اٹھا کر پڑھنے لگی،پڑھنا کیا تھا عجیب سے میگزین تھے نہ فیشن سے متعلق نہ شوبز سے۔ بیڈ کی سائیڈ پر پین رکھا تھا،اٹھا کر وہ اپنا پسندیدہ کام کرنے لگی۔ وہ اپنے ہاتھ لگنے والے ہر اخبار،میگزین،تصویر،کتاب پر ناک،کان،مونچھیں، داڑھی،ٹوپی،گول گول دائروں والی بڑی عینک بنا دیا کرتی تھی۔

(جاری ہے)

میگزین میں موجود ماڈلز کو چارلی کی طرح لمبا ٹیل والا کوٹ اور لڑکوں کو سینڈریلا فراک پہنا دیا کرتی تھی۔ بنائے گئے کرداروں کے نام اور ان سے متعلق جملے بھی لکھا کرتی تھی۔ کافی دیر تک وہ میگزین کے ساتھ مصروف رہی۔
”ڈاکٹر صاحب کہہ رہے ہیں کہ آپ کو برا نہ لگے تو کھانا ان کے ساتھ کھا لیں۔“
”میں آ رہی ہوں۔“
###
سلام کرکے وہ ڈائننگ ٹیبل پر ان کے ساتھ بیٹھ گئی۔
باہر برف باری ہو رہی تھی۔ آتش دان روشن تھا۔ مٹر پلاؤ کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ گرم اور روشن ماحول بہت اچھا لگ رہا تھا۔
”فیملی کیسی ہے حرا آپ کی؟“ چاولوں کی ٹرے اس کے سامنے کرکے وہ پوچھنے لگے۔
”وہ سب ٹھیک ہیں۔“ حرا ان کے بارے میں بتانے لگی۔
”حادثے والی جگہ تو کلیئر ہو چکی ہے لیکن برف باری کی وجہ سے اس طرف سفر خطرناک ہو سکتا ہے خاص کر نیو مری کی طرف۔
صبح تک کوشش کرکے میں آپ کو بھجوا دوں گا مگر آپ یہاں اطمینان سے رہیں۔ میری وائف سردیاں شروع ہوتے ہی اسلام آباد بیٹی کی طرف چلی جاتی ہے۔ وہ زیادہ ٹھنڈ پسند نہیں کرتی۔ ہم چار لوگ ہی یہاں ہوتے ہیں اس موسم میں۔ آپ کو یہاں کوئی مسئلہ تو نہیں؟“
”نہیں…“ اس نے مسکرا کر ان کی طرف دیکھا۔ ”میں آپ کی بے حد شکر گزار ہوں۔ جو کچھ آپ نے میرے لیے کیا۔
شکر گزار ہونے کی ضرورت نہیں بیٹا! یہ میرا فرض تھا۔ جنت نے مجھے بتایا تو مجھے اچھا نہیں لگا۔ مہران بس ایسا ہی ہے۔ اُسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ آپ ہماری مہمان ہو۔“
”اِٹس او کے۔“ ڈاکٹر صاحب شرمندہ شرمندہ سے اُسے اچھے نہیں لگے۔
”مذاق کرتا ہے بس وہ… سنجیدہ نہیں ہوتا۔“ وہ اس کا دفاع کر رہے تھے اور وہ سوچ رہی تھی کہ صبح تو اس نے یہاں سے چلے ہی جانا ہے پھر کیوں نہ وہ مسٹر مہران صاحب کا حساب برابر کرتی جائے۔
”آپ اتنے شفیق ہیں اور ان کا رویہ… برتاؤ…“ وہ جان بوجھ کر خاموش ہو گئی۔ ادھوری بات زیادہ پراثر ہوتی ہے۔
کھانا کھاتے یکدم ان کے ہاتھ رک گئے۔
”اتنی بدتمیزی سے وہ میرا مذاق اڑاتے رہے۔ بلند بانگ قہقہے لگاتے رہے۔ گھر آئے بے بس مہمان کے ساتھ کوئی ایسا کرتا ہے۔“ وہ بھول گئی تھی کہ وہ گھر آیا مہمان نہیں۔ گھر لائی گئی پناہ گزین ہے۔
”ٹھیک کہا حرا! یہی بات میں اسے سمجھاتا ہوں۔“
”اس گڑھے سے اوپر آنے کے لیے مجھے دستانے اتارنے پڑے اور ٹھنڈی برف نے میرے ہاتھ سن کر دیے اور خون رسنے لگا۔“
”اوہ!“ ڈاکٹر صاحب نے کھانا چھوڑ کر اس کے ہاتھوں کی طرف دیکھا۔ ”مجھے دکھاؤ۔“
اس نے ہاتھ سامنے کیے۔ ”جنت سے دوا لے کر میں نے لگا لی تھی مگر درد…“ پھر بات ادھوری۔
باقی الفاظ اس کے منہ میں رہ گئے جہاں وہ بیٹھی تھی وہاں سے دائیں طرف سیدھی رو میں کچن تھا اور کچن ٹیبل پر کھانا سامنے رکھے وہ اسے نظر آ گیا۔ وہ یکسوئی سے حرا کی طرف دیکھ رہا تھا۔ 
حرا گھبرا گئی۔ ”میں شرمندہ ہوں بیٹا!“
”نہیں…“ نہیں،میں تو بس ایسے ہی… اِٹس اوکے۔“
جلدی جلدی پلیٹ صاف کرکے وہ کمرے میں آ گئی۔ کھانا ابھی اس نے اور کھانا تھا لیکن…
”کیا ضرورت تھی ان سے یہ سب کہنے کی،ان کے بیٹے کی شکایت۔
کچھ ہی دیر بعد جنت ٹرے لیے آ گئی۔ ”حرا بی بی! کھانا کھا لیں آپ نے ٹھیک طرح سے نہیں کھایا کھانا۔“
”نہیں! میں کھا چکی ہوں۔“ اس نے مروتاً کہا ورنہ مٹر پلاؤ تو اس نے ابھی شروع ہی کیا تھا۔
”میں رکھ جاتی ہوں جب دل چاہے کھا لیجیے گا۔“ وہ رکی۔ ”مہران بھائی کہہ رہے تھے بھوکے پیٹ سونے سے رات کو برے برے خواب آتے ہیں۔“
حرا بری طرح چونکی۔ کھانا مہران نے بھجوایا تھا۔
غصہ ایک طرف۔ کھانا اس نے پیٹ بھر کر کھایا،معاذ کو فون کیا باری باری سب سے بات کی۔
”حرا…!“معاذ بھائی کی الجھن بھری آواز سنائی دی۔ ”تمہیں یاد ہے مدیحہ کے چچا نے جو ایک گھنٹے کا لیکچر دیا تھا اس ریسٹ ہاؤس کے بارے میں۔“
”نہیں… مجھے نہیں یاد… اور کیوں یاد رکھتی۔“

Chapters / Baab of Chalo Jaane Do By Sumaira Hamed