Episode 8 - Chalo Jaane Do By Sumaira Hamed

قسط نمبر 8 - چلو جانے دو - سمیرا حمید

”ہم سب نے بھی یہی کہا کیوں یاد رکھتے… وہ سب ناممکنات، ہدایات، ضروریات، امکانات، احتیاطات،ممکنات اور فضولیات بھول گئے۔ کل رات جبار اپنے گھر جانے کا کہہ کر گیا اور ابھی تک نہیں آیا۔ ہم سب گھر کے اندر دبکے پڑے رہے،برف ہٹانے کے لیے ہمیں تو پورے گھر میں کوئی چیز نہیں ملی۔ معلوم نہیں جبار کب آئے گا۔“
”تو…“ حرا گھبرا گئی۔
”ہم تو خود یہاں قید ہیں۔
”اوہ… برف باری تو ابھی بھی ہو رہی ہے وقفے وقفے سے۔ رات تک تو مزید ڈھیر بن جائے گا۔ آپ نے جانے ہی کیوں دیا جبار کو…“
”کہہ رہا تھا گیا اور آیا… مجھے کیا معلوم تھا کہ گیا اور آیا کے درمیان وہ اتنا لمبا وقفہ دے گا۔ اس کے آتے ہی میں کچھ بھی کرکے تمہیں لینے آ جاؤں گا۔ تم ڈاکٹر صاحب سے میری بات کرواؤ۔

(جاری ہے)

”وہ تو شاید جا چکے ہیں ہسپتال واپس،میں صبح ان سے بات کروا دوں گی۔
اچھا تو نہیں لگتا نا اس طرح کسی کے گھر رہنا۔“
”اچھا تو نہیں لگتا لیکن…“ وہ چپ ہو گیا۔ ”یقین کرو اس سب میں میرا ذاتی کوئی قصور نہیں پھر سوچو جو ہوتا ہے اچھے کے لیے ہی ہوتا ہے۔“
حرا کو ہنسی آ گئی۔ اس نے مہران سے متعلق کوئی بات نہیں بتائی۔
ٹرے کچن میں لاکر وہ برتن دھونے لگی۔ جنت سو چکی تھی۔ گھر میں سناٹا تھا جیسے یہاں کوئی نہیں رہتا۔
اس کا دل چاہا کہ وہ برف باری میں باہر نکلے اور کسی خان کے ہوٹل سے قہوہ پیئے۔ معاذ کے ساتھ وہ نکل بھی جاتی مگر یہاں سے کیسے جاتی،لاؤنج میں بنی قد آدم کھڑکیوں سے وہ باہر دیر تک دیکھتی رہی۔ گھر کے اندر اور باہر دونوں طرف کا منظر انتہائی دلفریب تھا۔
وہ کچن کی طرف آنے کے لیے کمرے سے باہر نکلی، کمرے سے آگے راہداری کی طرف وہ جیسے ہی مڑی چھنا کے سے فرش پر کچھ گرا۔
یہ وہی مگ تھا جو آج دن میں مہران کے ہاتھ میں تھا فرش پر چائے ٹوٹے مگ سمیت پھیل گئی۔
”یہ کیا کیا تم نے؟“ وہ غصے سے چلایا۔
حرا مگ کے گرنے اور اس کے چلانے پر سہم گئی۔
”سوری“ وہ بمشکل اتنا ہی کہہ سکی جبکہ اس سب میں اس کی قطعاً کوئی غلطی نہیں تھی۔
”سوری“… اس نے اس کے لفظ جیسے چبائے۔ جینز جیکٹ اور گردن کے گردن مفلر لپیٹے،سر پر پٹھانوں والی مخصوص ٹوپی لیے وہ اسے اور ٹوٹے مگ کو دیکھ رہا تھا۔
”میں ابھی بنا دیتی ہوں،میں شرمندہ ہوں،انجانے میں…“
”کیسے بناؤ گی؟“… وہی چبانے والا انداز۔
”میں بنا لیتی ہوں چائے“وہ سمجھی شاید وہ سمجھتا ہے کہ اسے چائے بنانی نہیں آتی۔ ”مجھے آتی ہے چائے بنانی۔“
”بناؤ گی کس سے“… وہی انداز۔
”پانی… دودھ… اور“
دودھ نہیں ہے… اب…؟“
وہ پریشان ہو گئی۔
”اتنی ٹھنڈ میں،میں گھر سے اتنی دور گیا،ہوٹل والے کے پاس سارا دودھ ختم ہو چکا تھا۔ صرف یہ آدھا مگ دودھ ہی مجھے مل سکا۔ میرے سر میں درد ہو رہا تھا۔ ان فیکٹ درد سے پھٹا جا رہا تھا۔ رات کے اس پہر میں اٹھا اور سوچا چائے ہی پی لوں شاید فرق پڑ جائے درد میں۔“
”وہ باقاعدہ اداکاری کر رہا تھا۔“ لیکن میں ایسا کیسے کر سکتا تھا… میں نے ایسا سوچا بھی کیسے… جبکہ تم یہاں موجود ہو…“
عام حالات ہوتے تو حرا تالیاں بجاتی اور کہتی ”بہت اچھا ہوا“ مگر اب
”ایم سوری…“
”مجھے سوری نہیں،چائے چاہیے’“
”آپ کافی پی لیں…“
”میں کافی نہیں پیتا…“
”خشک دودھ ہے تو میں اس کی…“
ڈرائے ملک،پیک ملک،فریش ملک،سب ملک ختم ہو گئے ہیں آج۔
وہ اسی پھاڑ کھانے والے انداز میں بولا۔
وہ اس کی طرف بے بسی سے دیکھنے لگی۔ اس کی قسمت خراب جو وہ اس وقت کمرے سے باہر آئی۔
”تمہیں اپنے کمرے میں چین نہیں تھا؟“
”وہ حرا سے ایسے مخاطب ہوتا تھا جیسے دونوں کی بچپن سے خونی دشمنی چلی آ رہی ہو۔
وہ حرا سے پانچ چھ سال بڑا ہوگا،معاذ جیسا لمبا اور ورزشی جسم… چند دنوں کی بڑھی ہوئی داڑھی اور نکھری ہوئی سانولی رنگت وہ خوبصورت نہیں بے حد پرکشش،سوبر اور ڈیسنٹ لگتا تھا وہ ان لوگوں میں سے تھا جن کی بارعب شخصیت کی وجہ سے ان کے سامنے بولا ہی نہیں جاتا…
”میں نے سوری کیا تو ہے۔
“ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی آواز رندھ گئی۔
”کیا کروں میں اس سوری کا۔“
”اپنے سر پر مار لیں…“ اس نے پھاڑ کھانے والے انداز میں کہا۔ برداشت کی حد تک ختم ہو گئی، اخلاق ایک طرف… ضبط دوسری طرف اور ”انہوں نے میری مدد کی ہے“ تیسری طرف رکھ کر وہ بولی۔
”اپنی خوشی سے یہاں نہیں آئی،بدقسمتی سے آئی ہوں۔ مجھے نہیں معلوم اس علاقے اور یہاں کے رہنے والوں کے بارے میں،مجھے یہ بھی معلوم نہیں کیسے شوز پہن کر برف پر چلا جاتا ہے۔
اور مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ یہاں میں آپ کی چائے سے ٹکرا جاؤں گی،سارا دودھ بھی ختم ہو جائے گا۔ معلوم ہوتا تو چائے سے ٹکرانے کی بجائے میں اس گڑھے میں گرنا پسند کرتی اور اپنی اکڑی ہوئی لاش کی صورت گھر جانا پسند کرتی۔“
وہ سانس لینے کے لیے رکی۔
وہ زمین سے مگ کے ٹکڑے اٹھا کر سیدھا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
”جاہل… گنوار… پاگل…“ زیر لب دو تین گالیاں دے کر وہ کمرے میں آ گئی۔
                                    ###

Chapters / Baab of Chalo Jaane Do By Sumaira Hamed