Episode 9 - Chalo Jaane Do By Sumaira Hamed

قسط نمبر 9 - چلو جانے دو - سمیرا حمید

صبح ناشتے کی ٹیبل پر اسے ڈاکٹر صاحب مل گئے۔ اس بار اس نے ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانے کی غلطی نہیں کی۔ معاذ نے ان سے بات کی۔ ڈاکٹر صاحب ہنسنے لگے۔
”بیٹا! آپ پریشان نہ ہو“ وہ حرا سے مخاطب تھے۔ ”آپ اطمینان سے رہو۔ راستہ کلیئر ہو،تب جانا۔ ہم پر آپ کی مہمان نوازی بار نہیں…“
جنت کے ساتھ مل کر پھر حرا نے جتنا ہو سکتا تھا کام کروایا… ایک بار باہر جانے کے بعد وہ دوبارہ باہر نہیں گئی…
”حرا بی بی سبزیاں کاٹ دیں گی آپ؟“
”ہاں! کیوں نہیں۔
“ حرا آلو چھیلنے لگی۔
”ڈاکٹر صاحب نے چھ لوگوں کا کھانا منگوایا ہے۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے میں اکبر آ جائے گا کھانا لینے۔ روٹی کے لیے آٹا کم ہے سوچا،جتنی دیر میں،میں آٹا لاؤں گی آپ سبزیاں بنا کر پکا دیں گی لیکن میری واپسی تک تو آپ آدھی سبزی بھی نہیں بنا سکیں گی،آپ بازار تک جا سکتی ہیں؟“
”ہاں! کیوں نہیں… کہاں ہے بازار…؟“
”سیدھے ہاتھ والی سڑک سیدھی جاتی ہے کچھ دور ہی دُکانیں ہیں وہاں سے مل جائے گا۔

(جاری ہے)

جنت جلدی جلدی اسے باقی ضروری چیزیں بھی بتانے لگی۔
”اپنے شوز دے دو مجھے۔“ حرا نے جنت کے شوز پہن لیے۔ سڑک پر بہت پھسلن تھی لیکن وہ آرام سے چل رہی تھی۔ جوتوں کا فرق اسے معلوم ہو گیا تھا۔ تیزی سے چلنے کے بعد اسے آدھے گھنٹے بعد دُکانیں نظر آئیں۔
”یہ کچھ دور ہے؟“ اس نے جنت سے تصور میں کہا۔
اس نے سارا سامان لیا،واپس جاتے ہوئے اس کے لیے چلنا مشکل ہو گیا۔
آتے ہوئے ڈھلان تھی اب چڑھائی تھی۔ وہ بھی سامان کے ساتھ،تین عدد وزنی شاپرز اٹھانا اس کے لیے مشکل ہو رہا تھا… کچھ دور چلنے کے بعد سامان سڑک پر ہی چھوڑ کر وہ واپس دُکان کی طرف گئی۔
”ٹرالی ہے؟“ اس سوال پر دُکان دار اس کی شکل دیکھنے لگا۔ ناچار وہ پھر واپس گئی اور شاپرز اٹھائے،آخر جنت بھی تو سودا لے کر جاتی ہے نا تو پھر میں کیوں نہیں۔
اس نے ہمت سے کام لیا۔
وہ دس منٹ چلتی،شاپرز نیچے رکھتی،سانس لیتی اور پھر اٹھا کر چلنے لگی۔
”ہم شہری لوگ…“ خود ہی کہہ کر وہ ہنسنے لگی۔ کیا سوچتی ہوگی جنت مجھے کچھ آتا ہی نہیں ہے۔
پھولے ہوئے سانس کے ساتھ وہ ساتھ ساتھ بولتی بھی جا رہی تھی،ایک کار تیزی سے اس کے قریب سے گزر کر رُکی،اس کا خیال تھا ڈاکٹر صاحب یا جنت کا شوہر ہوگا لیکن وہاں مہران صاحب تھے،اس نے بیٹھے بیٹھے ہی پیچھے کا دروازہ کھولا،حرا نے جلدی جلدی سامان اندر رکھا اور دروازہ بند کر دیا اور اپنا اسکارف ٹھیک کرتی آگے بڑھ گئی،وہ بھی زن سے کار آگے بڑھا لے گیا۔
”بدتمیز ایک بار بھی نہیں کہا کہ بیٹھ جاؤ۔“
غصہ ترک کرکے اس نے آس پاس غور کیا،بہت دلکش سڑک تھی۔ دور دور سے چھوٹے چھوٹے گھر نظر آ رہے تھے۔ وہ فرصت سے آرام آرام سے چلنے لگی۔ کبھی کسی درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑی ہو جاتی۔ دن روشن نہیں تھا۔ دھند میں لپیٹا ہوا تھا،برف کے ایک ڈھیر کے پاس رک کر وہ برفانی ریچھ بنانے کی کوشش کرنے لگی،کافی دیر تک بناتے رہنے کے بعد بھی جب برف نے ریچھ کی شکل اختیار نہیں کی تو وہ اسے ویسا ہی چھوڑ کر گھر کی طرف آ گئی۔
کچن پر نظر پڑتے ہی وہ شرمندہ سی ہو گئی۔ جنت جلدی جلدی روٹیاں بنا رہی تھی اور مہران انہیں سینک رہا تھا۔اسے بے انتہا شرمندگی ہوئی۔اسے جلدی آنا چاہیے تھا تاکہ وہ جنت کے ساتھ کام کروا سکے، شرمندہ شرمندہ سی وہ کمرے میں آ گئی۔
کچھ ہی دیر بعد جنت آ گئی۔
”حرا بی بی آ جائیں۔ میں نے ہال میں دستر خوان لگا دیا ہے۔“
شرمندہ سی وہ آکر ان سب کے ساتھ کھانا کھانے لگی اگر جنت بغیر کسی غرض کے سب کی اتنی خدمت کر سکتی ہے تو وہ کیوں نہیں۔
اسے اندازہ ہوا کہ وہ جنت کے مقابلے میں کس قدر چھوٹی ہے۔
جنت کے ”نہ نہ“ کرنے کے باوجود اس نے سب کچھ سمیٹا،برتن دھوئے اور کچن صاف کیا…
شام ہونے سے پہلے ہی تینوں عورتیں اور مرد چلے گئے۔ شام کو وہ ڈرتے ڈرتے باہر گئی لیکن پھر کمرے میں واپس آ کر ای ۔ایم سننے لگی۔ جنت کمرے میں آئی اور کمرے میں رکھے میگزین اٹھا کر لے گئی۔ دس منٹ بعد وہ انہیں لیے واپس آئی۔
”حرا بی بی! یہ سب آپ نے کیا ہے؟“ جنت نے دو تین صفحے اس کے سامنے الٹ پلٹ کر پوچھا… وہ جواب کیا دیتی۔ اس کی شکل پر چھائی شرمندگی بتا رہی تھی کہ یہ سب اس نے ہی کیا ہے۔ جنت میگزین واپس لے گئی۔ پانچ منٹ بعد دروازے پر دستک دے کر مہران آکھڑا ہوا۔ غصے سے اس کے اعصاب تنے ہوئے تھے۔
”یہ آرٹ کے نمونے آپ نے بنائے ہیں؟“
حرا نے سوچا ہی نہیں تھا کہ یہ گھر اس کا نہیں اور نہ ہی وہ میگزین اس کے تھے نہ ہی یہاں نمل تھی جو برداشت کر لیتی۔
وہ شرمندہ سی اسے دیکھنے لگی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس کے سوال پر سوری کہے یا ”ہاں“
”اس میگزین کو غور سے دیکھئے! کبھی ایسا میگزین دیکھا ہے… یہ کوئی فلمی یا فیشن میگزین نہیں ہے۔ اس میگزین کو میرا ادارہ محدود تعداد میں شائع کرتا ہے ان لوگوں کے لیے،جن کا اس شعبے سے تعلق یعنی میرا… اور ان کو پڑھنے والے کسی نادر چیز کی طرح انہیں سنبھال کر رکھتے ہیں۔
انہیں آپ سنبھال کر رکھیے۔ آپ کی آرٹ کی نمائش کے لیے کام آئیں گے…“
اس نے میگزین بیڈ پر پھینکے اور چلا گیا۔
شرمندگی سی شرمندگی تھی جو وہ محسوس کر رہی تھی۔
اب اسے احساس ہو رہا تھا۔ یہ اس گھر میں کی جانے والی اس کی باقاعدہ غلطی تھی۔ وہ حقیقتاً اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ ڈرتے ڈرتے وہ کمرے سے باہر نکلی۔
”میں بہت شرمندہ ہوں جنت! میری غلطی ہے۔
“ مہران کے سامنے تو وہ ایک لفظ نہیں کہہ سکی۔
”جو ہونا تھا ہو گیا،حرا بی بی! اب آپ پریشان نہ ہوں۔“
”میں واقعی میں بہت شرمندہ ہوں،تم میری طرف سے ان سے معذرت کر لو۔“
”میں کہہ دوں گی…“ جنت مسکرائی۔
سارا وقت وہ کمرے میں رہ رہ کر اپنی حرکت پر کڑھتی رہی۔
رات گئے ہمت کرکے کمرے سے باہر آئی تاکہ جنت کے ساتھ جاکر خود سے مہران سے سوری کہہ آئے۔ لاؤنج میں روشن دان کے پاس ہی وہ کتاب لیے بیٹھا تھا،قریب ہی لیپ ٹاپ پر انگلش میوزک بج رہا تھا۔

Chapters / Baab of Chalo Jaane Do By Sumaira Hamed