Episode 12 - Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر12 - دِل اَدل بَدل - شکیل احمد چوہان

میں چھت پر غصے میں ٹہل رہا تھا۔ دو بچوں نے مجھے آکر اطلاع دی کہ نبیل بھائی آپ کو بلا رہے ہیں۔ میں چھت کے رستے نبیل کے گھر چلا گیا۔میرے ابّو اور نبیل کے ابّا خاندان کے چند بڑے بوڑھوں کے ساتھ، سیڑھیوں کے پاس ہی کوئلوں کی انگیٹھی کے گرد دائرے کی شکل میں بیٹھے ہوئے حقہ پی رہے تھے۔ نبیل کے ابّا مجھے دیکھ کر کہنے لگے :
”عالی نبیل کے ساتھ ساتھ تمھاری بھی بہن ہے۔
جاؤ نبیل کا ہاتھ بٹاؤ… کل سے غائب ہو۔“نبیل کے ابّا کے لہجے میں شکوے کے ساتھ حکم بھی تھا۔
”پریشان ہے بیچارہ۔“ وہاں سے جاتے ہوئے ابّو کی آواز بھی میرے کان میں پڑی تھی۔ صحن میں ہی مجھے نبیل مل گیا۔ اُس نے مجھے گلی میں سے حلیم کی دیگ لانے کو کہا۔ میں نائی کے ساتھ قینچی کی مدد سے دیگ اُٹھائے گھر میں داخل ہوا ہی تھا، نبیل نے مجھے اگلا حکم دے دیا :
”مہروز ! بڑے تو حقہ پی رہے ہیں۔

(جاری ہے)

تم ہی دیگوں پر بیٹھ جاوٴ۔میں کھانا لگاتا ہوں۔“ میں دیگوں پر ابو اور نبیل کے ابّا سے تھوڑے فاصلے پر بیٹھ گیا۔ نبیل اور اُس کی بھابھی اپنے چند کزنوں کی مدد سے مہمانوں کو کھانا کھلانے لگے۔ میرے سامنے چکن حلیم ، مٹن قورمہ اور کشمیری چائے کی تین دیگیں پڑی ہوئی تھیں۔
”بی بی جی نے دو گھروں کو برباد ہونے سے بچا لیا۔“نبیل کے ابّا کی آواز مجھے سنائی دی ۔
وہ ابّو کے ساتھ سب سے بے نیاز گپ شپ میں مصروف تھے۔
”ٹھیک کہہ رہے ہو لالہ جی․․․․․․ بھائی ساجد نے تو کلثوم کی طلاق کا ذہن بنا لیا تھا․․․․․․ وہ ہر حال میں عارفہ کا نکاح مہروز سے کروانا چاہتے تھے۔ پھر بی بی جی نے ہم سب کو سمجھایا کہ ایسا مت کرو اور یہ فیصلہ مجھے کرنے دو۔“
”سُنا ہے کہ حق مہر میں پلاٹ لکھوائے ہیں بی بی جی نے؟“میرے کان اُن کی طرف تھے۔
ایک آدمی نے ابّو سے پوچھا تھا ۔
”قورمہ پورا ہوجائے گا۔“ نبیل نے میرے سامنے قورمے کی پرات کرتے ہوئے پوچھا۔ میں جلدی سے دیگ میں سے قورمہ نکال کر خالی پرات میں ڈالنے لگا۔
”حلیم کو تو کوئی ہاتھ بھی نہیں لگا رہا سب قورمے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔“ نبیل نے وہاں سے جاتے ہوئے کہا ۔
”ویسے ماجد ایک بات ہے۔ پتر تیرا ہے بڑا شریف۔“نبیل کے ابّا نے کہا۔
ابّو یہ سُن کر فخر سے مسکرائے اور پھر میری طرف بڑی محبت سے نگاہ ڈالی۔ میں انجان بن گیا اور جلدی سے کشمیری چائے کی دیگ چیک کرنے لگا کہ کہیں وہ ٹھنڈی تو نہیں ہوگئی۔ نائی نے عقلمندی کا ثبوت دیا تھا۔ اُس نے دیگیں رکھنے سے پہلے اُن کے نیچے کوئلے رکھے تھے۔ کھانے کے بعد کشمیری چائے کا دور چل پڑا۔رات دس بجے کے آس پاس عالی کے مایوں کا کھانا ختم ہوا ۔
سب کام ختم کرنے کے بعد میں اور نبیل حسب معمول چھت پر چلے گئے۔
…#…
”شکر ہے یار ، قورمہ پورا ہوگیا۔ ابّا جی نے مجھے کہا بھی تھا نبیل پُتر حلیم کون کھاتا ہے۔ یہاں لوگ گوشت کھاتے ہیں گوشت۔ دونوں دیگیں قورمے کی بنوا لو۔ میں نے ضد کرکے چکن حلیم کا پنگا لیا تھا۔“
”بارات پر کیا پکانے کا ارادہ ہے۔“ میں نے نہ جانے کیوں پوچھ لیا ، حقیقت میں مجھے عالی کی شادی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
اپنی شادی نہ ہونے پر جانے کیوں مجھے عالی سے جلن سی محسوس ہو رہی تھی۔ عالی کا خیال آتے ہی مجھے ایک خیال اور آیا تھا کہ میں نے تو آج عالی کو دیکھا ہی نہیں ہے۔
”بھائی دودھ“ عالی کو یاد کیا تو وہ شیطان کی طرح حاضرہو گئی۔
”دودھ تو سارا دیگ میں ڈال دیا تھا۔“ نبیل عالی کی طرف دیکھ کر حیرانی میں بولا۔ ساتھ ہی اُس نے ٹرے سے اپنا پیالہ اُٹھا لیا۔

”میں نے آپ دونوں کے لیے پہلے سے نکال لیا تھا۔“ عالی نے میرے سامنے ٹرے کرتے ہوئے مجھ پر اِک نظر ڈالتے ہوئے کہا۔ میں نے ایک لمحہ اُسے دیکھنے کے بعد فوراً ہی اپنی نگاہ کو قابو میں کیا۔ نبیل نے گرم دودھ کی چُسکی لینے کے بعد کہا :
”بہن ہو تو تمھارے جیسی․․․․․․اللہ تجھے اپنے گھر خوش رکھے۔“
”آمین․․․․․․“ میرے منہ سے بھی بے ساختہ نکل گیا۔
عالی ہمیشہ کی طرح دودھ دینے کے بعد فوراً ہی جانے لگی۔
”سب مہمانوں کو بستر مل گئے ناں․․․․․․؟“
”جی بھائی․․․․․․سب سو بھی گئے۔“
”تم بھی جا کے سو جاوٴ۔“ نبیل نے بڑی محبت سے کہا ۔
اگلی رات عالی کی تیل مہندی تھی۔ نانی سمیت ہم سب گھر والے نبیل کے گھر پر موجود تھے۔ عالی پیلے لباس میں ملبوس ایک جھولے پر بیٹھی ہوئی تھی ۔عالی کے ہاتھوں میں گلاب اور موتیے کے گجرے تھے اور بالوں میں گیندے اور موتیے کے پھول سجے ہوئے تھے ۔
پھولوں کے اوپر، اُس کے سرپر ایک پتلا سا دوپٹہ تھا اور اُس نے جو پیلا جوڑا پہنا ہوا تھا وہ بھی پتلاسا ہی تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی بارہ مہینے چادر میں لپٹی رہنے والی عالی کوکیا ہو گیا ہے۔ آج اتنے سارے لوگوں کے درمیان اُس کے سر پر صرف ایک پتلا سا دوپٹہ ہے ؟ بس…
جب عالی سے نظر ہٹا کر ارد گرد دیکھا تو سب عورتوں کا یہی حال تھا۔ سخت سردی میں بھی سب عورتوں نے ریشمی لباس پہنے ہوئے تھے۔
سوئیٹرز اور گرم چادروں کے بغیر۔ کچھ خواتین نے تو آدھے بازؤں والی قمیضیں بھی پہن رکھی تھیں۔
”یا اللہ․․․․․․! شادی کے موقعے پر اِن عورتوں کو سردی کیوں نہیں لگتی۔“ میں نے دل میں سوچا ۔ خیر میرے سوچنے سے کیا ہوتا ہے۔ یہ تو عورتوں کا ذاتی معاملہ تھا۔
سب نے عالی کو مہندی لگائی اور منہ میٹھا کروایا۔ جب میری باری آئی تو میں وہاں سے کھسک گیا۔
نہ جانے کیوں مجھے اچھا نہیں لگ رہا تھا۔
بارات کے کھانے کے لیے نبیل کے ابّا نے ایک بیل خرید رکھا تھا۔ نبیل کے گھر کے پاس ہی ایک اسکول میں برات کے لیے کھانا تیار ہو رہا تھا۔ رات بھر میں اور نبیل براتیوں کے لیے کھانا تیار کرواتے رہے۔ نبیل کے ابّا کو صرف ایک فکر تھی کہ کہیں کھانا کم نہ پڑ جائے…اُن کی پریشانی سمجھ آتی تھی، کیونکہ بارات گوجرانوالہ سے جو آ رہی تھی۔
صبح فجر کے بعد نبیل کے ابّا اور اُن کے کچھ قریبی رشتے دار وہاں آئے۔
”شاباش پترو․․․․․․! تم لوگ اب جا کے سو جاؤ․․․․․․ دس بجے اُٹھ جانا۔ پھر جنج(بارات ) کے بیٹھنے کا انتظام بھی کرنا ہے۔“ نبیل کے ابّا نے مجھے اور نبیل کو شاباش دی۔ ہم دونوں تھکے ہوئے تھے۔ نبیل کے گھر پر تو مہمانوں کا رش تھا۔ میں نبیل کو اپنے ساتھ اپنے ہی گھر لے آیا۔
ہم دونوں میرے کمرے میں سوگئے۔
…#…
ہمارے گھر کے صحن میں ایک شور اُٹھا۔ میری آنکھ کھل گئی۔ دیوار پر لگی گھڑی کی طرف دیکھا تو ساڑھے آٹھ ہی ہوئے تھے۔ نبیل کی طرف دیکھا تو وہ مزے سے سو رہا تھا۔ صحن کا شور چیخوں میں بدل گیا۔ مجھے کچھ تشویش ہوئی۔ میں آنکھیں ملتے ملتے اپنے بستر سے اُٹھا۔ میں کمرے کا دروازہ کھولنے ہی لگا تھا کہ دروازے کا تختہ میرے ماتھے پر زور سے لگا۔
میرا سر چکرا گیا۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ خلیل گجر ہاتھ میں پستول تھامے اندھیرے سے نمودار ہو اور اُس نے آتے ہی مجھے گریبان سے پکڑ کر پستول کی نلی میری گردن پر رکھ دی۔
”اوئے! بے غیرتا․․․․․․ آستین کے سَپ․․․․․․تجھے ہماری بہن ہی ملی تھی․․․․․․“ میری آنکھوں سے اندھیرا ہٹا تو میں نے دیکھا میر ی دونوں بہنیں خلیل کی ٹانگوں سے لپٹی ہوئی تھیں اور میری امّی خلیل کے آگے ہاتھ جوڑ کر کھڑی تھیں۔

”خلیل پتر معاف کر دے اِسے․․․․․․“
”امّی جی! آپ کیوں معافی مانگ رہی ہیں۔“ مجھ سے اپنی ماں کا رونا نہیں دیکھا گیا۔ اسی دوران نبیل کی آنکھ کھل گئی۔ وہ میرا گریبان اپنے بھائی کے ہاتھ سے چھڑاتے ہوئے چیخا :
”لالہ خلیل چھوڑ اِسے․․․․․․یہ میرا یار ہے․․․․․․“
”یہ یار نہیں یار مار ہے․․․․․․ پوچھ اِ س بے غیرت سے․․․․․․“ خلیل آنکھوں میں انگارے لیے گرجا۔

”کیا پوچھوں․․․․․․“ نبیل میرے اور اپنے بھائی کے درمیان آتے ہوئے غصے سے چلایا۔
”اِس نے ہماری بہن کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔“
خلیل نے غصے سے نبیل کو دھکا دیا۔ اُس دھکے کی وجہ سے میرا گریبان بھی خلیل کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ نبیل دیوار کے ساتھ گرا اور میں اپنے پلنگ پر خلیل نے مجھ پر پستول تان دی ۔اِس سے پہلے کہ خلیل کی چلائی ہوئی گولیاں مجھ تک پہنچتیں عالی مجھ پر زرہ بن کر تن گئی۔
دونوں گولیاں عالی کو لگیں۔
”اللہ کی قسم لالہ․․․․․․مہروز بے قصور ہے․․․․․․مہروز بے قصور ہے۔ یہ سب ظفرو نے کیا ہے۔“ عالی کے ہونٹوں پر یہ الفاظ تھے۔
”عالی․․․․․․“ عالی کے جسم سے بہتے ہوئے خون کو دیکھ کر نبیل درد سے تڑپا اور فوراً اُسے اپنے بازؤں میں اُٹھاتے ہوئے باہر کی طرف بھاگا۔ سب اُسی کے پیچھے بھاگے سوائے میرے اور خلیل کے۔
خلیل بُت بنا کھڑا تھا اور میں اُسے دیکھ رہا تھا۔ خلیل کو تو چُپ سی لگ گئی تھی اور میں خود کو مجرم سمجھ رہا تھا۔ میں اپنی ہی نظروں میں گر گیا تھا۔
خلیل کی نظریں عالی کے خون پر تھیں جو فرش پر کئی جگہ بکھرا ہوا تھا۔ اور میری نظریں چند منٹ پہلے والا منظر دیکھ رہی تھیں۔ جب اُسی فرش پر میری دونوں بہنیں خلیل کی ٹانگوں سے لپٹی ہوئی تھیں اور میری ماں ننگے سر اور ننگے پاؤں کھڑی ہو کر ہاتھ جوڑے خلیل سے میری زندگی کی بھیک مانگ رہی تھی۔
خلیل نے اب بھی پستول کو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا۔ میں اُس کے سامنے کھڑا ہوگیا اور اُس کا پستول والا ہاتھ تھام کرکہنے لگا :
”خلیل لالہ دو گولیاں میرے سینے میں بھی اتار دو․․․․․․اُس بے قصور کو تو تم نے مار ڈلا۔“ خلیل زور سے چیخ مارتے ہوئے وہاں سے بھاگا:
”عالی․․․․․․“ میری نظروں نے بھاگتے ہوئے خلیل کا تعاقب کیا تو سامنے نانی کھڑی ہوئی تھیں۔
اُنہوں نے میرے ماتھے سے بہتے ہوئے خون پراپنے شانوں سے چادر اُتار کر رکھ دی۔ دروازہ لگنے سے میرے ماتھے سے خون بہہ رہا تھا، جس کی مجھے خبر ہی نہیں تھی۔ میرے ماتھے سے خون کا ایک قطرہ فرش پر بکھرے ہوے عالی کے خون پر جا کر گرااور اُس میں گم ہو گیا۔
…#…
ماتھے کی مرہم پٹی کے بعد میں ہسپتال جانے لگا تو امّی نے مجھے روک لیا:
”مہروز تم ہسپتال مت جاؤ․․․․․․ خلیل تمھیں بھی قتل کر دے گا۔

”عائشہ جانے دو اِسے۔“ نانی نے امّی کو حکم دیا۔
”کیسے جانے دوں ماں جی! میرا ایک ہی بیٹا ہے۔“
”جس نے اِس کے حصے کی گولیاں اپنے جسم پر کھائی ہیں وہ بھی ایک ہی ہے۔“ نانی نے میری طرف دیکھ کر مجھے کہا :
”تم جاؤ مہروز۔“ میں جانے ہی لگا تھا کہ ابو جی پھولی ہوئی سانس کے ساتھ گھر کے اندر داخل ہوئے۔ مجھے غور سے دیکھنے کے بعد محبت کے ساتھ سینے سے لگا لیا۔
پھر میرے ماتھے کی چوٹ کو دیکھنے لگے۔ اُس کے بعد میرے سارے جسم کا جائزہ لیا۔ جب اُن کو تسلی ہوگئی کہ مجھے صرف ماتھے پر ہی چوٹ لگی ہے۔ پھر ایک زور دار تھپڑ میرے گال پر مارنے کے بعد پوچھنے لگے :
”تم نے عالی کے منگیتر کو خط کیوں لکھا․․․․․․؟“یہ سننے کے بعد میں دنگ رہ گیا تھا۔ میں نے ابّو سے اپنی صفائی میں صرف اتنا کہا :
”میں نے کوئی خط نہیں لکھا۔

”مہروز جھوٹ مت بولو ۔ دو دفعہ تم نے اُس لڑکے کو فون کیا تھا۔ اُس نے تمھاری بات پر یقین کرنے سے انکار کر دیا تو پھر تم نے اُسے خط لکھا۔ میں وہ خط خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آ رہا ہوں۔“
”کبھی کبھی آنکھوں دیکھا بھی جھوٹ ہوتا ہے۔“ نانی نے بتایا۔
”ٹھیک کہہ رہی ہیں بی بی جی آپ۔“ ابو نے نانی کی بات سے اتفاق کرنے کے بعد میری طرف دیکھتے ہوئے مجھے کہا :
”تم بھی ہسپتال سے ہو آؤ۔
“ ابو یہ بول کر اپنے کمرے کی طرف جانے لگے تو نانی نے فکر مندی سے پوچھا
”ماجد بیٹا! عالی کیسی ہے․․․․․․؟“
”بی بی جی! ڈاکٹر بتا رہا تھا کہ جان بچ جائے گی اُس کی۔“ ہم سب گھر والوں کی جان میں جان آئی۔ خاص طور پر میری بہنوں کی جو گھر کے ایک کونے میں سہمی ہوئی کھڑی تھیں۔ ابوجی اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے میری طرف دیکھ کر بولے :
”اب چلے بھی جاؤ․․․․․․“
”آپ بھی کمال کرتے ہیں اُسے ہسپتال کیوں بھیج رہے ہیں۔
“ امّی نے ابّو کے پیچھے جاتے ہوئے فکر مندی سے پوچھا۔
”مہروز بے قصور ہے۔“
”پھر اُسے تھپڑ کیوں مارا۔“
”محبت میں․․․․․․“ اپنے کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے آخری بات ابّو کی مجھے سنا دی۔
”محبت میں․․․․․․“ نانی نے ذہین مسکراہٹ کے ساتھ ابّو کے الفاظ دہرائے جیسے وہ سب کچھ سمجھ گئی ہوں۔ مگر مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی میں سوچ میں پڑ گیا :
”انور کو کس نے فون کیا... ؟ اور خط کس نے لکھا.... ؟عالی نے تو ظفرو کا نام لیا تھا۔

…#…
میں ہسپتال پہنچا تو کوریڈور میں ہی مجھے عالی کا تقریباً سارا خاندان نظر آگیا ۔ عالی کے سسرال میں سے بھی چند لوگ وہاں موجود تھے۔
خلیل مجھے دیکھ کر میری طرف خود ہی آگیا اور مجھے ایک کونے میں لے جاتے ہوئے بولا:
”سب پتہ چل گیا ہے․․․․․․یہ کس کی شرارت تھی۔“ میں نے حوصلہ کرکے پوچھا:
”کس کی․․․․․․؟“
”یہ پتہ نہیں چلا۔
“ خلیل نے بھولی صورت بناتے ہوئے جواب دیا۔ میں اُس کی عقلمندی پر دل ہی دل میں مسکرایا۔ اس کے با وجود خلیل نے اپنی طرف سے دانشمندانہ انداز اپناتے ہوئے مجھے بتا یا :
”بارات کا کھانا میں نے گوجرانوالہ بھجوا دیا ہے۔ جیسے ہی عالی ٹھیک ہوتی ہے ہم انور اور عالی کا نکاح بھی کر دیں گے۔“
”لالہ اب عالی کا نکاح انور کے ساتھ نہیں ہوگا۔ “نبیل نے خلیل کے سامنے آتے ہوئے حتمی لہجے میں کہا ۔

”کیا بکواس کر رہا ہے تو․․․․․․“ خلیل غصے میں بھڑک اُٹھا۔
”تیرا دماغ تو نہیں خراب ہوگیا۔“ خلیل کی گھن گرج سے سارے رشتے دار اکٹھے ہو گئے تھے۔
”ہاں میرا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ یہ سب تیرے سالے کا کیا کرایا ہے ۔ اگر وہ میرے سامنے آگیا تو میں اُسے نہیں چھوڑوں گا۔“ نبیل نے چیخنے کی بجائے رعب دار آواز میں کہا۔
”کیوں شور مچایا ہوا ہے خلیل؟“ نبیل کے ابّا جی نے وہاں آنے کے بعد پہلا سوال یہی پوچھا تھا۔

”ابّا جی یہ کہتا ہے․․․․․․عالی کا نکاح انور کے ساتھ نہیں ہوگا۔“ خلیل نے شکایتی انداز میں اپنے ابّا جی کو بتایا۔
”کچھ سوچ کر ہی کہا ہوگا اُس نے ․․․․․․پڑھا لکھا ہے تیری طرح ڈنگر نہیں․․․․․․آدھی بات سُن کر ہی پستول لے کر نکل پڑا تھا․․․․․․دعا کر میری دھی بچ جائے اگر اُسے کچھ ہو گیا تو باقی گولیاں میں تیرے سینے میں ماروں گا۔
“نبیل کے ابا جی نے بڑے ضبط کے ساتھ یہ بات کہی۔ وہ سب کے سامنے رونا نہیں چاہتے تھے۔
نبیل اپنے ابّا جی کو وہاں سے لے گیا۔ باقی رشتے دار بھی دائیں بائیں ہو گئے۔ آخر میں خلیل اور میں ہی وہاں کھڑے تھے۔ یہ دیکھ کر بھابھی صغریٰ جلدی سے وہاں آئی اور آتے ہی سرگوشی کے انداز میں خلیل سے کہنے لگی :
”دماغ تو تیرا خراب ہو گیا ہے خلیل․․․․․․اچھا ہی ہے جو عالی کی برات نہیں آئی۔
اب دیکھتی ہوں کہاں بیاہتے ہیں عالی کو․․․․․․“
”تو اپنی بک بک بند کر۔ تیرا بھائی اتنا بے غیرت ہوگا یہ میں نے بھی نہیں سوچا تھا۔“ خلیل نے صغریٰ کو گھُوری ڈالی۔
”آنکھیں مت دکھا بات کو سمجھ․․․․․․گوجرانوالہ عالی کی شادی نہیں ہوگی تو کس سے ہوگی․․․․․․؟“
”کس سے ہوگی؟“ خلیل نے پوچھا۔
”ظفرو سے“ صغریٰ نے اپنے بھائی ظفر کا نام لیا تو خلیل کی آنکھیں کھل گئیں۔

”یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا۔“ خلیل نے صغریٰ بھابھی کو قہر برساتی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”مہروز تیرے لالے کو بات دیر سے سمجھ آتی ہے۔“ صغریٰ بھابھی نے میری طرف دیکھ کر کہا ۔جیسے ہی صغریٰ بھابھی نے خلیل کی طرف دیکھا تو خلیل نے ایک زور کا تھپڑ صغریٰ بھابھی کے گال پر رکھ دیا۔
”سب سمجھ گیا ہوں میں۔“ خلیل نے دانت پیستے ہوئے کہا ۔
صغریٰ بھابھی ہکی بکی اپنے گال پر اپنا ہاتھ رکھے ہوئے کھڑی تھی۔ اِس سے پہلے کہ میں صغریٰ بھابھی کو کوئی تسلی دیتا ۔
”مہروز․․․․․․“
نبیل نے مجھے دُور سے آواز دی ۔ ہم تینوں نے نبیل کی طرف دیکھا۔ میں نبیل کی طرف جانے لگا تو صغریٰ بھابھی نے بُرا سا منہ بناتے ہوئے مجھ سے درخواست کی :
”نبیل سے کچھ مت کہنا مہروز!“
”جی بھابھی!“ میں نے یہ کہا اور نبیل کی طرف چل پڑا۔

Chapters / Baab of Dil Adal Badal By Shakeel Ahmed Chohan