Episode 26 - Fasana E Mubtala By Deputy Nazir Ahmad

قسط نمبر 26 - فسانہء مبتلا - ڈپٹی نذیر احمد

     پندرہواں باب
میرمتقی کی اچانک رام پور روانگی

میرمتقی نے مبتلا کی اصلاح پر توجہ شروع کی تھی کہ اتنے میں چپکے چپے اس گمنام عرضی کی تحقیقات ہونے لگی جو ناظر کی شرارت سے میرمتقی کی شکایت میں گورنر کے پاس پہنچی تھی اور تو کچھ حال نہ کھلا مگر خلافِ عادت پولیس کے لوگ وقت بے وقت کوئی وعظ سننے کے بہانے سے کوئی نماز کے حیلے سے آمدورفت کرنے لگے ان میں جو زیادہ ہوشیار تھے پتے دے دے کر ٹیڑھے ٹیڑھے مسئلے پوچھتے تھے۔
مثلاً یہ کہ کیوں حضرت ہندوستان آپ کے نزدیک دارالحرب ہے یا نہیں۔ انگریزوں سے اور ہنود سے سود لینا روا ہے یا نہیں۔ انگریز اگر کابل پر چڑھائی کریں اور ایک پلٹن کو امیر کے مقابلے میں لڑنے کا حکم دیں اور ایک مسلمان اس پلٹن میں پہلے سے نوکر ہو تو اس کو کیا کرنا چاہیے۔

(جاری ہے)

مہدی جنہوں نے مصر میں خروج کیا ہے، مہدی موعود ہیں یا نہیں اور ان کو مدد دینا ازروئے شرع شریف کیا حکم رکھتا ہے۔

انگریزی دواؤں کا استعمال درست ہے یا نہیں، کچہری سے برابر سود کی ڈگریاں ہوتی ہیں، اس سود کا دینا گناہ ہے یا نہیں۔ انگریزوں کے ساتھ کھانا اور لباس اور طرز تمدن میں ان کے ساتھ تشبیہہ کیا حکم رکھتا ہے۔ میرمتقی جہاندیدہ آدمی تھے۔ ان باتوں کو دیکھ کر ان کے کان کھڑے ہوئے اور سمجھے کہ ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔ کوتوال شہر سے معرفت اور دور کی صاحبِ سلامت تو تھی ہی۔
ایک جمعہ کی نماز کو جاتے ہوئے راہ میں کوتوال سے آمنا سامنا ہو گیا۔
میرصاحب نے کہا مجھ کو آپ سے کچھ کہنا ہے۔ وقت فرصت معلوم ہو تو میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ کوتوال نے کہا آج بعد نماز مغرب میں خود آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گا۔ غرض کوتوال کے ساتھ تخلیہ ہوا تو میر صاحب نے فرمایا کیوں کوتوال صاحب یہ ماجرا کیا ہے کہ چند روز سے پولیس کے لوگ میری نگرانی کرنے لگے ہیں۔
میں دیکھتا ہوں کہ جتنی دیر میں باہر رہتا ہوں پولیس کا ایک نہ ایک آدمی ضرور موجود ہوتا ہے۔ مسئلے پوچھتے ہیں تو پیچدار، باتیں کرتے ہیں تو اکھڑی ہوئی۔ میں نے دھوپ میں داڑھی سفید نہیں کی۔ یہ لوگ مجھ سے چھپاتے ہیں اور میں سب سمجھتا ہوں، مجھ سے پردہ کرتے ہیں اور میں ان کے تیور پہچانتا ہوں۔ آپ کو معلوم ہے میں یہاں کا رہنے والا نہیں۔ سات برس بعد سفر حجاز سے واپس آیا۔
رام پور جانا چاہتا تھا میں نے کہا کہ لاؤ لگے ہاتھ بھائی سے ملتا جاؤں۔ یہاں پہنچ کر معلوم ہوا ہے کہ بھائی کا انتقال ہو چکا ہے۔ ان کے معاملات خانہ داری کو دیکھا، سب کے سب ابتر، ناچار ٹھہرنا پڑا۔ اکثر معاملات خدا کے فضل سے درست ہو گئے ہیں۔ بعض باتیں باقی ہیں۔ اگر میرے حال سے تعرض نہ بھی کیا جائے، تب بھی تین چار مہینے سے زیادہ ٹھہرنا منظور نہیں اور ٹھہر سکتا بھی نہیں۔
لیکن اس نظربندی کی حالت میں تو میں ایک دن بھی نہیں رہ سکتا۔ بے اطمینانی کی وجہ سے وہ مطلب بھی فوت ہوتا ہے جس کی وجہ سے میں ٹھہرا ہوں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں نے سرکار کا ایسا کون سا قصور کیا ہے۔ درس میں نہیں دیتاکہ میرے پاس مجمع رہے خطا یا قصور اگر ہے تو یہی کہ جو اللہ کا بندہ پاس آ بیٹھتا ہے تو نصیحت کی دوچار باتیں اس سے کہہ دیتا ہوں اور یہ کام ایسا ہے کہ دنیا کی حکومت کیسی ہی قاہرہ کیوں نہ ہو مجھ کو اس سے باز نہیں رکھ سکتی۔
نصیحت تو لوگوں کو میں نے کی ہے اور کرتا ہوں اور آئندہ بھی جہاں رہوں گا، ضرور کروں گا۔ اگر یہ بغاوت ہے تو میں پکارے کہتا ہوں کہ میں باغی۔ سرکاو کو اختیار ہے مجھے قید کرے مگر انشاء اللہ وہاں بھی قیدیوں کو نصیحت کرتا رہوں گا۔ سرکار شہنشاہ زبردست اور میں اس کی ایک ادنیٰ رعیت، میرے واسطے ایسی کارروائی کی کیا ضرورت ہے۔
اگر کچھ اشتباہ پیدا ہوا ہے تو مجھ کو طلب کرے میں جوابدہی کو اور اگر قصور ثابت ہو تو سزا کو حاضر ہوں۔
مگر ابنائے جنس کی نظر میں ناحق نکو بنانا مشتبہ ٹھہرنا شیوئہ انصاف سے بہت بعید ہے۔ کوتوال یہ سب باتیں چپ بیٹھا ہوا سنتا رہا اور آخر بولا تو یہ بولا کہ میں ارادت مندانہ اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ جب حضرت کا ارادہ تین چار مہینے بعد خود رام پور روانہ ہونے کا ہے۔ اگر ابھی قصد فرمائیے تو مناسب۔ یہاں کا اگر کوئی کام ہو تو مجھ کو سپرد کر جائیے۔
انشاء اللہ اس کا سرانجام خاطر خواہ میرے ذمے۔ میرمتقی نے سمجھا کہ اب ٹھہرنا مصلحت نہیں اور زیادہ کاوش کرنے سے بھی حاصل نہیں فوراً سفر رام پور کا ارادہ کر دیا۔ غیرت بیگم باپ کے مرنے پر تو کیا روئی تھی جیسا کہ چچا کے جانے کا اس نے ماتم کیا۔ مبتلا کے خیالات میں بھی تھوڑے ہی دنوں میں اتنا فرق پڑ گیا تھا کہ اس کو بھی چچا کے چلے جانے کا رنج ہوا۔
میرمتقی نے ہر ایک کو اس کی جگہ تسلی دی۔ چلتے چلتے مبتلا سے اتنا کہہ گئے کہ سید حاضر کے خیالات بہت راستے پر آگئے ہیں۔ اگر تم ان سے مشورہ لو گے تو امید ہے کہ نیک صلاح کے دینے میں دریغ نہ کریں گے یا میاں عارف جن کو تم میرے پاس اکثر دیکھتے تھے، تمہارے ہی مدرسے کے طالب علم ہیں۔ بڑے اچھے دل کا لڑکا ہے۔ ہے تو تمہارا ہم عمر مگر استعداد اور معلومات کے اعتبار سے پورا مولوی ہے، بڑی خوبی اس میں یہ کہ اس کے خیالات حکیمانہ اور شگفتہ ہیں۔ میں نے اس سے بھی بتاکید کہہ دیا ہے اور وہ ہفتے میں ایک دو بار تمہارے پاس آیا کریں گے۔ تم بھی رابطہ بڑھا لینا ان سے تم کو سب طرح مدد ملے گی۔
                           #…#…#

Chapters / Baab of Fasana E Mubtala By Deputy Nazir Ahmad