Episode 1 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 1 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

تمہید
اقبال شاعر بھی ہے اور مفکر بھی،وہ حکیم بھی ہے اور کلیم بھی،وہ خودی کا پیغامبر بھی ہے اور بے خودی کا رمز شناس بھی،وہ تہذیب و تمدن کا نقاد بھی ہے اور محی الملت والدین بھی،وہ توقیر آدم کا مبلغ بھی ہے اور تحقیر انسان سے درد مند بھی۔ اس کے کلام میں فکر و ذکر ہم آغوش ہیں اور خبر و نظر آئینہٴ یک دگر۔ ایسے ہمہ گیر دل و دماغ کے مالک اور صاحب عرفان و وجدان کے افکار اور تاثرات کا تجزیہ اور اس پر تنقید کوئی آسان کام نہیں۔
اس نے زیادہ تر شعر ہی کو ذریعہٴ اظہار بنایا،کیوں کہ فطرت نے اس کو اسی حیثیت سے تلمیذ الرحمان بنایا تھا۔
کسی بڑے شاعر کے کلام میں سے ایک مربوط نظریہٴ حیات و کائنات کو اخذ کرنا ایک دشوار ہے۔ شاعری منطق کی پابند نہیں ہوتی اور شاعر کا کام استدلالی حیثیت سے کسی نظام فلسفہ کو پیش کرنا نہیں ہوتا۔

(جاری ہے)

اقبال نے نثر میں اپنے افکار کو بہت کم پیش کیا ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کا فکر کبھی جذبے سے خالی نہیں ہوتا تھا اور حقیقت میں وہ اسرار حیات کو نثری استدلال میں پیش کرنے کا قائل ہی نہ تھا۔

وہ رازی اور بوعلی کا مداح نہ تھا‘ اس کے پیش نظر ہمیشہ رومی جیسا عارف رہتا تھا،جس کے فکر کا ساز بے سوز نہ تھا۔ اس فرق کو اقبال نے لاتعداد اشعار میں نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ فقط اس قطعے سے بھی یہ فرق و تضاد واضح ہو جاتا ہے:
بو علی اندر غبار ناقہ گم
دست رومی پردہٴ محمل
گرفت حق اگر سوزے ندارو حکمت است
شعر می گردد چو سوز از دل گرفت
نثری تقید و تشریح میں فکر اقبال کو پیش کرنے والا کبھی اس کے ساتھ پورا انصاف نہیں کر سکتا۔
گوئٹے نے کیا خوب کہا ہے کہ ”زندگی تو ایک ہرا بھرا درخت ہے لیکن اس کے متعلق نظریات برگ خزاں کی طرح زرد ہوتے ہیں۔“ مضمون کو خشکی سے بچانے کی ایک ہی ترکیب ہو سکتی ہے کہ ہر موضوع کے متعلق اقبال کے اشعار بکثرت پیش کر دیئے جائیں اور نثر کی تشریح اور تنقید کے رشتے میں ان انمول موتیوں کو پرو دیا جائے۔ مالا میں دھاگا موتیوں کے مقابلے میں بے قیمت اور بے حیثیت ہوتا ہے لیکن ایک بڑی خدمت انجام دیتا ہے،دھاگا نہ ہو تو موتی منتشر رہیں گے۔
دشواریوں کے باوجود اقبال کے افکار کو کسی نظم و ربط میں لانا نہایت ضروری معلوم ہوتا ہے تاکہ مجموعی حیثیت سے اس کا نظریہٴ حیات واضح ہو سکے مگر شعر جیسی وجدانی اور جذباتی چیز منطقی تنقید و تجزیہ کی متحمل نہیں ہو سکتی اور شاعر اس سے بے زار ہو کر انوری کی طرح کہہ اٹھتا ہے کہ
”شعر مرا بمدرسہ کہ برو“
لیکن سمجھنے اور سمجھانے کا اور کوئی طریقہ بھی نہیں۔
اقبال کے کلام کو محض شاعری کی حیثیت سے بھی دیکھ سکتے اور پرکھ سکتے ہیں،اگرچہ وہ کہہ گئے ہیں کہ خدا اس شخص کو نہ بخشے جس نے مجھے شاعر جانا۔ خود فرماتے تھے کہ: ”اس کا امکان ہے کہ مستقبل میں فن شعر کے نقاد مجھے شاعروں کی فہرست میں سے خارج کر دیں“ لیکن شاعری،شاعری میں فرق ہے۔ اقبال کی شاعری وہ شاعری ہے جو شاعر کے تلمیذ الرحمان ہونے کا نتیجہ ہوتی ہے اور جسے پیغمبری کا ایک جزو قرار دیا گیا ہے اور جس کی نسبت ایک استاد بلیغ شعر کہہ گیا
مشو فنکر کہ در اشعار ایں قوم
ورائے شاعری چیزے گر ہست
فرماتے تھے کہ میں نے شاعری پر بحیثیت فن توجہ نہیں کی،اس کیلئے خاص محنت اور فرصت درکار ہے۔
جواب شکوہ پر ایک صاحب نے فنی تنقید کی اور زبان و محاورہ کے لحاظ سے اشعار کو قابل اصلاح قرار دیا۔ اس کے جواب میں علامہ نے فرمایا کہ میں نے اپنے مسودے میں اس سے زیادہ اشعار اور الفاظ پر نشان لگا رکھے ہیں جن کے متعلق مجھے خود تسلی نہیں،لیکن تزئین کلام اور اصلاح زبان کیلئے فرصت چاہئے،جو مجھے میسر نہیں۔ تمام ملک میں شاعر غرا مشہور ہو جانے کے بعد بھی وہ بانگ درا کے مجموعے کی طباعت و اشاعت کو تعویق میں ڈالتے رہے کہ اکثر نظموں پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
اس کے باوجود ان کا کلام محض فن کی حیثیت سے بھی قسم کے کمالات کا آئینہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو فطرت نے شاعر بنایا تھا اور بقول غالب:
خواہش شعر خود آں بود کہ گردد فن ما
اُردو اور فارسی کے تمام اساتذہ میں سے شاید ہی کوئی دوسرا شاعر اس قماش کا مل سکے جس نے بغیر اپنی باطنی نفسی تحریک کے کبھی شعر نہیں کہا۔ اقبال کا تمام کلام آمد کا نتیجہ ہے،آورد کو اس میں کہیں دخل نہیں،اپنے متعلق بالکل بجا فرماتے ہیں کہ مجھے آرائش بیان میں کوشش کرنے کی ضرورت نہیں:
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی
اقبال کی شاعری میں بغیر کوشش کے سخن نغز کے تمام تقاضے پورے ہو جاتے ہیں۔
انسان کیلئے زبان فطرت بناتی ہے لیکن اس کے بعد صرف و نحو کے قواعد اس میں سے اخذ کر لئے جاتے ہیں جو اس کے اندر مضمر ہوتے ہیں،جس طرح شجر اور شگوفہ و ثمر فطرت کا جذبہ نما و نمود پیدا کرتا ہے،لیکن عالم نباتات آفرینش کے بعد ان قوانین کا سراغ لگاتا ہے جن کی تحقیق کی بدولت برگ درخت سبز معرفت کردگار کا دفتر معلوم ہوتا ہے۔
 ایک متشاعر کے کلام میں صنعت مقدم ہوتی ہے اور آفرنیش شعر موخر،لیکن تلمیذالرحمان شاعر کے ہاں معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔
شعر اپنی موزونی اور جمال کے ساتھ بے تکلف طبیعت میں ابھرتا ہے،اس کے بعد نقاد شعر دیکھتا ہے کہ اس میں خود بخود لطیف صنعتیں پیدا ہو گئی ہیں۔ بڑے سے بڑا قادر الکام شاعر جس کا مجموعہٴ کلام اقبال کے برابر ہو نہ تو خود اس کا دعویٰ کر سکتا ہے اور نہ کوئی نقاد اس کا مدعی ہو سکتا ہے کہ اس کے کلام میں کہیں کوئی خامی نظر نہیں آتی:
گر سخن اعجاز باشد بے بلند و پست نیست
دریدِ بیضا ہمہ انگشتہا یک دست نیست
غالب بھی اگرچہ فطرت کا بنایا ہوا شاعر تھا لیکن وہ اپنے شعر کو فنی لحاظ سے کامل اور رفتہ و شستہ بنانے کی کوشش کرتا تھا،اس کے باوجود اس کے مختصر مجموعہ اُردو میں ناقدوں اور شرح نویسوں نے زبان اور محاورے کی بے شمار خامیوں پر انگشت اعتراض دھری ہے۔
اقبال کے متعلق اتنی دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ فن کی طرف سے بے نیاز ہونے کے باوجود اس کے کلام میں قابل قبول اعتراض کی گنجائش کہیں شاذ و نادر ہی ملے گی۔ علامہ اقبال کے احتجاج کے باوجود یہ ناممکن ہے کہ بحیثیت شاعر ان پر نظر نہ ڈالی جائے لیکن شعر اقبال بحیثیت فن اقبال کے فلسفہ حیات سے ایک الگ اور مستقل موضوع ہے۔
قرآن کریم نے سورة شعرأ میں شاعر کی حیثیت اور اس کے انداز حیات کا مختصر مگر جامع الفاظ میں تجزیہ کیا ہے۔
اس کی ضروت اس لئے پیش آئی کہ نبی کریمﷺ کو مخالفین کبھی مجنوں کہتے تھے اور کبھی شاعر قرار دیتے تھے اور وہ محض اس لئے کہ قرآن میں اچھی شاعری کی تمام خوبیاں موجود ہیں: تشبیہ و تمثیل و استعارہ،مسجع اور مقفیٰ سورتیں،دل نشیں انداز کلام،سبھی کچھ اس صحیفے میں بدرجہ کمال موجود ہے۔ اسرار حیات سے نا آشنا اور روح کی گہرائیوں سے بے تکلق ظاہر بینوں کو وہ ایک شاعر کا کلام دکھائی دیا،قرآن کو نازل کرنے والے نے اس کی تردید کی کہ ہم نے اس نبی کو شاعری نہیں سکھائی،پھر کہا ”آؤ تمہیں بتائیں کہ شاعر علی العلوم کیا ہونے ہیں اور انبیاء سے ان کو کس طرح ممتاز کر سکتے ہیں۔
پہلی بات یہ کہ محض شاعر اچھا رہنما نہیں بن سکتا۔ اس کا کوئی مخصوص نظریہ حیات اور مقصود زندگی نہیں ہوتا،اس کی کوئی منزل معین نہیں ہوتی جس کی طرف وہ یقین اور استحکام سے گامزن ہو۔ وہ زندگی کی تمام وادیوں میں ہرزہ گردی کرتا ہے اور جس منظر سے جس طرح ہنگامی طور پر متاثر ہوتا ہے اس کو بیان کے سانچے میں ڈھال لیتا ہے۔ اس کے جذبات اور تاثرات کی لہریں کسی آئین کی پابند نہیں ہوتیں،وہ کسی خاص ضابطہ حیات کا مبلغ نہیں ہوتا،اس لئے کہ وہ خود کسی یقین محکم پر زندگی بسر نہیں کرتا،وہ اپنے آپ کو اس کا پابند نہیں سمجھتا کہ اس کے قول اور فعل میں مطابقت ہو۔
حساس طبیعت رکھنے کی وجہ سے اس کے ہاں فقط تاثر اور اظہار تاثر ہے لیکن چوں کہ اس کا تاثر ہنگامی ہوتا ہے اس لئے وہ کسی مستقل ارادے اور عمل میں تبدیل نہیں ہوتا:
”ایسے شخص کو جس کے مزاج میں تلون اور گونا گوئی ہے،اگر کوئی رہنما سمجھ لے تو وہ یقینا گمراہ ہے۔“

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط