بسم اللہ الرحمن الرحیم
(یہ نظم علامہ اقبال کی وفات پر کہی گی)
ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم
سینہ تھا ترا بام مشرق و مغرب کا خزینہ
دل تھا ترا اسرار و معارف کا دفینہ
ہر شعر ترا بام ترقی کا ہے زینہ
مانند مہ نو تھا فلک سیر سفینہ
اس ساز کے پردے میں تھی عرفان کی آواز
کیا عرش سے ٹکرائی ہے انسان کی آواز
سچ تلخ تھا لیکن اسے شیریں کیا تو نے
تلخابہ غم کو شکر اگیں کیا تو نے
تعلیم خودی دے کے خدا بیں کیا تو نے
کنجشک فرومایہ کو شاہیں کیا تو نے
پر ٹوٹے تھے جن کے انہیں پرواز عطا کی
گونگے تھے جو انساں انہیں آواز عطا کی
دل تیرا مئے عشق سے لبریز تھا ساقی
اور درد کی لذت سے طرب خیز تھا ساقی
قطرہ تری مے کا شرر انگیز تھا ساقی
ساغر ترا گل بیز و گہر ریز تھا ساقی
تف مے پہ جو سنبھلے ہوئے انساں کو گراں لے
وہ مے تھے ترے خم میں جو گر توں کو سنبھالے
وہ عشق جو انسان کی ہمت کو ابھارے
وہ عشق جو دنیا میں بگڑتے کو سنوارے
جس عشق سے اغیار بھی بن جاتے ہیں پیارے
جس عشق کے اشکوں سے فلک پر بنے تارے
وہ عشق تھا تیرے دل و جاں میں رگ و پے میں
جس طرح نشہ مے میں ہے، اور نغمہ ہے نے میں
(ر)
منزل ہی نہیں جس کی کہیں پر وہ ترا شوق
سیارہٴ گردوں کو نہ ہے تحت نہ ہے فوق
آزادی انسان کا ترے دل میں تھا کہ کیا ذوق
زنجیر علائق نہ توہم کا کوئی طوق
وہ بحر تفکر کہ نہیں جس کا کنارا
سیلاب نہیں ڈھونڈتا ساحل کا سہارا
حکمت ہمیں دی شعر کی صہبا میں ڈبو کر
حق پیش کیا سوز نہانی میں سمو کر
جس نخل کا دنیا میں گیا بیج تو بو کر
اک روز رہے گا وہ فلک بوس ہی ہو کر
رس عشق کا اس نخل کی رگ رگ میں چلے گا
ہر سمت میں وہ پھولے گا پھیلے گا پھلے گا
سمجھایا ہمیں کیا ہے بری چیز غلامی
تھے جس سے زبوں ہو کوئی گمنام کہ نامی
محکوم ہے تو، تو تری فطرت کی ہے خامی
آزادی افکار سے انساں ہے گرامی
آزاد ہی دنیا میں ہے اللہ کا شہکار
ہر بندہ آزاد ہے تقدیر کا معمار
ہندی تھے غلامی کے نشے میں سبھی مدہوش
تھے سر پہ رکھے فخر سے اغیار کی پاپوش
حیوانی کا مقصد تھا فقط خواب و حور و نوش
بے عزت و بے غیرت و بے ہمت و بے ہوش
رسوائی میں جو مست تھے ہشیار ہوئے ہیں
صدیوں سے جو سوتے تھے، وہ بیدار ہوئے ہیں
(س)
ڈھانچہ جو غلط تھا تہ و بالا کیا تو نے
دنیا کے اندھیرے میں اجالا کیا تو نے
اس قوم میں کیا کام نرالا کیا تو نے
منہ جھوٹ کا اور مکر کا کالا کیا تو نے
تہذیب و سیاست کے طلسمات کو توڑا
سچائی سے ہر جھوٹی کرامات کو توڑا
اقبال! تو پیغام بر عشق و عمل ہے
انساں کی ترقی کا یہ قانون اٹل ہے
یہ نغمہٴ جاوید ہے یہ ساز ازل ہے
ہاں زیست کی مشکل کا فقط ایک ہی حل ہے
جاں صرف عمل اور ہو دل عشق سے لبریز
اٹھتا ہے یونہی جادہٴ ہستی میں قدم تیز
عاقل تھا مگر عقل کے پیچاک سے آزاد
اور حکمت افرنگ کے فتراک سے آزاد
دنیا میں تھا دنیا کے غم و باک سے آزاد
خاکی تو وہ بے شک تھا مگر خاک سے آزاد
ہے دل کی جگہ دور کہیں ارض و سما سے
ہوتا ہے جہاں بندہ ہم آغوش خدا سے
ہادی ہے و انساں کو جو آگے کو بڑھا دے
تاریکی میں انساں کے ہاتھوں میں دیا دے
جو عقل پہ پردے ہیں پڑے ان کو اٹھا دے
صیقل کرے آئینہٴ دل اس کو جلا دے
ہر قلب کو تقدیر حقیقی نظر آئے
اور آنکھ کی تصویر حقیقی نظر آئے
(ش)
اقوام ہوں جس بانگ سے بیدار وہ پیغام
انسان ہوں مے عشق سے سرشار وہ پیغام
ہو بار امانت سے گرانبار وہ پیغام
ہر روح، حقیقت سے ہو دو چار وہ پیغام
وہ جوش کہ انسان ابھر جاتے ہیں جس سے
کھوٹے بھی کھرے بن کے نکھر جاتے ہیں جس
سے کہتے ہیں سخنور کہ تھا شاہ سخن اقبال
ظاہر میں فقط شعر میں تھا اہل فن اقبال
ہے اصل حقیقت یہ کہ تھا بت شکن اقبال
مولا کو وطن کہتا تھا یہ بے وطن اقبال
اس جسم میں روح کی معراج کا طالب
انساں کیلئے دل کے سواراج کا طالب
عارف کی نظر اپنے وطن تک نہیں محدود
کیوں اس کی نظر ہو در و دیوار میں مسدود
گو حُب وطن اس میں تھی اک جذبہٴ محدود
اقبال نے دھرتی کو بنایا نہیں معبود
خاکی جو نہیں کرتا ہے افلاک کی پوجا
کس طرح سے کر سکتا ہے وہ خاک کی پوجا
عارف کی نظرگاہ وہی اس کا وطن ہے
پورب ہے نہ پچھم ہے نہ اتر نہ دکن ہے
ندی کوئی اس میں ہے نہ پربت ہے نہ بَن ہے
نہ دیر و حرم کی کوئی تعمیر کہن ہے
نہ شوق کا گرویدہ نہ افرنگ کا عاشق
کس طرح سے ہو وہ جمن و گنگ کا عاشق
(ص)
کم کوئی ہے اس عمکدہٴ دہر میں آیا
جس نے وطن اپنا دل انساں میں بنایا
انسان کی توقیر کا وہ راگ ہے گایا
موسیقی جاں بن کے جو جانوں میں سمایاں
یہ راگ ہے وہ، کون و مکان ساز ہے جس کا
روحوں میں نہاں اور عیاں راز ہے جس کا
تھا شیخ سے بیزار برہمن سے بھی بیزار
نہ اس کا پرستار تھا نہ اس کا گرفتار
دولت کا شکار اور نہ سیاست کا گنہگار
افکار سے مستقبل اقوام کا معمار
جن ابلہ فریبوں میں ہے مکتی کا اجارہ
تعلیم سے تیری ہے بہت ان کو خسارہ
ہر شعر سے اٹھتا ہے سدا نعرہٴ تکبیر
خوں تیری سیاہی ہے قلم تیری ہے شمشیر
اشعار ترے کاتب تقدیر کی تحریر
آئینہ بکف جس میں ہے اقوام کی تقدیر
مضراب ترے شعر ہیں انسان کا دل ساز
فطرت ترے نغموں پہ رہی گوش بر آواز
یہ شعر ہے، کہتے ہیں جسے جزو نبوت
یہ شعر ہے شاگردی رحمان کی آیت
یہ شعر بدل دیتا ہے انسان کی حالت
اس شعر میں ہے عالم لاہوت کی دولت
یہ شعر حقیقت میں ہے پروردہٴ الہام
نعمت ہے بہت خاص مگر فیض بہت عام
(ض)
جس کا ہو کلام ایسا کلیم اس کو ہیں کہتے
حکمت سے ہو لبریز حکیم اس کو ہیں کہتے
افکار کی جنت ہے، نعیم اس کو ہیں کہتے
اے صاحب دل، طبع سلیم اس کو ہیں کہتے
انسان ہے اللہ کا مشعوق اسی سے
خاکی پہ ہوا اشرف مخلوق اسی سے
اقبال کے ہیں شعر سنحنداں کی زباں پر
اقبال کے اقوال ہوئے نقش ہیں جاں پر
اقبال کے ہیں تیر سیاست کی کماں پر
تیغوں کو جلا دیتے ہیں اس تنگ فساں پر
اقبال نے رنگ اپنا ادیبوں پہ چڑھایا
رنگ اپنی خطابت کا خطیبوں پہ چڑھایا
اب دل میں ہے ہر ایک کے پیدا وہی انداز
اب قوم کی آواز بنی ہے تری آواز
الفاظ میں تیرے ہے کوئی سحر کے اعجاز
بجتا ہے ہر اک رنگ کی محفل میں ترا ساز
اشعار ترے پیر و جواں سب کو ہیں ازبر
محفل کی ہیں رونق تو کہیں گرمی منبر
تھے صاحب دل رومی و عطار و سنائی
تھی جن کی خودی آئینہٴ راز خدائی
لے عالم ارواح کی انساں کو سنائی
کچھ لذت وصل اس میں ہے کچھ درد جدائی
ایسے ہی فقیروں کا ہم آہنگ تھا اقبال
مردان خدا دوست کا ہم رنگ تھا اقبال
(ط)
انسان کا کیا قحط ہے اس دیر کہن میں
اک مرد حق آتا ہے کئی ایک قرن میں
سمجھائے انہیں کون جو یاں مست ہیں دھن میں
دولت جو حقیقی ہے وہ انساں کے ہے من میں
اس دولت سرمد کا شہنشاہ تھا اقبال
فطرت کی گواہی ہے حق آگاہ تھا اقبال
کام ایسا جو کرتا ہے وہ مرتا نہیں ہرگز
ایسے جو جیے موت سے ڈرتا نہیں ہرگز
دنیا سے گیا، دل سے گزرتا نہیں ہرگز
اس صحفے سے یہ نقش اترتا نہیں ہرگز
جب تک کہ دل افروز یہ پیغام ہے باقی
عالم کے جریدے پہ ترا نام ہے باقی