غالب کی اسی انداز کی شاعری تھی جس سے اقبال متاثر ہوا،لیکن غالب میں اسی انداز کا جو تفکر و تخیل ہے وہ اقبال میں نہایت درجہ ارتقا یافتہ صورت میں ملتا ہے۔ پھولوں کے رنگ و بو میں مماثلت ہے لیکن غالب کے ہاں کے گلدستے اقبال کے کلام میں سدا بہار گلزار بن گئے ہیں۔
اقبال کی شاعری میں ابتدائی دور میں جو محرکات و اثرات نظر آتے ہیں وہ گونا گوں ہیں،جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے مغربی انداز فکر نے اپنے نتائج پیدا کئے ہیں،کئی نظمیں انگریزی شعراء کے ترجمے ہیں لیکن ترجمے ایسے ہیں کہ ترجمے معلوم نہیں ہوتے۔
کسی زبان کی نظم نفسیات میں غوطہ لگا سکے اس کے خم میں اپنا ساغر ڈبونے اور پھر اس کو اپنے کوثر میں ڈال کر نکالے:
راہے ز کنج دیر بہ مینو کشدہ ام
از خم کشم پیالہ و در کوثر افگنم
انگریزی زبان میں شیلے #جیسے شاعر نے بھی گوئٹے #کی بعض نظموں کے ترجمے کئے ہیں اور لانگ فیلو# کے کلیات میں بھی گوئٹے کے علاوہ دوسری زبانوں کے شعراء کے بعض شاہکاروں کے ترجمے ملتے ہیں اور یہ سب ترجمے ایسے ہیں جو شاعری میں ایک مستقل حیثیت بھی رکھتے ہیں،ان میں دو اعلیٰ درجے کے شاعروں کی طبیعتوں کے دو ساز ہم آہنگ ہو کر بجتے ہیں جس سے نغمے کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔
(جاری ہے)
فطز جیرالڈ کا عمر خیام #کی رباعیوں کا ترجمہ انگریزی شاعری میں ادب حالیہ میں داخل ہو گیا ہے۔ اقبال کے ہاں ترجمے زیادہ نہیں ملتے لیکن جتنے بھی ہیں نہایت روا نادر سلیس ہیں،جہاں صرف فکر کے سانچے لئے ہیں ان کو بھی بڑی خوبی سے اپنایا ہے۔ داغ کے مرثیے #کا آغاز بعنیہ ویسا ہے جیسا کہ میتھیو آرنلڈ کے ورڈز ورتھ کے مرثیے کا ہے،جہاں وہ دو تین اور تازہ مرحوم شاعروں کی نوحہ گری کے بعد کہتا ہے کہ آج ہم ورڈز ورتھ کی قبر پر کھڑے ہیں:
عظمت غالب ہے اک مدت سے پیوند زمیں
مہدی مجروح ہے شہر خموشاں کا مکیں
توڑ ڈالی موت نے غربت میں مینائے امیر
چشم محفل میں ہے اب تک کیف صہبائے امیر
آج لیکن ہم نوا سارا چمن ماتم میں ہے
شمع روشن بجھ گئی بزم سخن ماتم میں ہے
اسی طرح گرے کی مشہور ایلیجی نظم کا ایک بند ہے جس میں زندگی کی گہما گہمی اور ہنگامہ و شورش کو بیان کرکے کہتا ہے کہ شہر خموشاں کے سونے والوں کو اب کسی قسم کا ہنگامہ خواب سے بیدار نہیں کر سکتا۔
اقبال نے اس کو اس طرح ڈھالا ہے:
شورش بزم طرب گیا عود کی تقریر کیا
دردمندان جہاں کا نالہ شب گیر کیا
خون کو گرمانے والا نعرہ تکبیر کیا
سینہ ویراں میں جان رفتہ آسکتی نہیں
مغربی شاعری کے اثر کے علاوہ بہت کچھ روایتی تصوف اور وحدت الوجود بھی موجود ہے۔ شمع کے عنوان سے ایک متصوفانہ اور فلسفیانہ نظم لکھی ہے:
یک بین تری نظر صفت عاشقانہ راز
میری نگاہ مایہ آشوب امتیاز
کعبے میں، بتکدے میں ہے یکساں تری ضیا
میں امتیاز دیر و حرم میں پھنسا ہوا
ہاں آشناے لب نہ ہو راز کہن کہیں
پھر چھڑ نہ جائے قصہ دار و رسن کہیں
جگنو والی نظم اُردو شاعری کا ایک شاہ کار ہے،اس کے پہلے بند میں جگنو کے متعلق نادر تشبیہات ملتی ہیں‘ یہ اپنے اندر سے روشنی پیدا کرنے والے چھوٹا سا کرمک شب تاب آخر تک اقبال کیلئے روح انسانی کی نور طلبی اور نور آفرینی کی تمثیل اور علامت بنا رہا۔
فارسی میں بھی جگنو پر اقبال نے بڑے دلکش اشعار لکھے ہیں۔ اُردو کی یہی نظم دوسرے بند میں وحدت و کثرت کا مضمون بن گئی ہے اور تیسرے بند میں فطرت کی بو قلمونی میں وحدت وجود نمایاں ہو گئی ہے:
جسن ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے
انسان میں وہ سخن ہے غنچے میں وہ چٹک ہے
یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا واں
چاندنی ہے جو کچھ یاں درد کی کسک ہے
انداز گفتگو نے دھوکے دیئے ہیں ورنہ
نغمہ ہے بوئے بلبل بو پھول کی چہک ہے
کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی
جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک ہے
یہ اختلاف پھر کیوں ہنگاموں کا محل ہو؟
ہر شے میں جبکہ پنہاں خاموشی ازل ہو
۱۹۰۵ء سے پہلے کا اقبال آٹھ دس برس کے قلیل عرصے میں تمام اُردو داں ہندوستان میں مقبول خاص و عام ہو گیا۔
اس سریع السیر شہرت کے کئی اسباب تھے،ایک یہ کہ غالب کے بعد سے اُردو زبان نے کوئی مفکر شاعر پیدا نہ کیا تھا جس میں ہوس کی غزل سرائی اور محض قافیہ بندی اور دور از حقیقت مضمون آفرینی اور ادئی درجے کے فن برائے فن سے پوری طرح رو گردانی کرکے ایک شاعر قلب انسانی کی آواز اور فطرت کے دل کی دھڑکن بن گیا ہو اور جس کی طبیعت میں وطن و ملت اور انسانی زندگی کے حقیقی اور ابدی مسائل پر سوز اظہار کیلئے بیتاب ہوں۔
یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان کے تعلیم یافتہ طبقے میں بیداری،غلامی سے بیزاری اور آزادی کی طلب انگڑائیاں لینے لگی تھی،یہ طلب انگریزی تعلیم اور مغربی تہذیب سے تصادم کا نتیجہ تھی،نئے تعلیم یافتہ گروہ نے دیکھا کہ انگریزوں نے اور مغرب کی دیگر اقوام نے حب الوطنی اور وطن پرستی کے جذبے سے ترقی کی ہے،کیا وجہ ہے کہ یہ قومیں آزاد ہیں اور ہم غلام ہیں؟ آؤ ہم بھی وہی جذبہ پیدا کریں اور ان کی طرح آزاد اور ترقی یافتہ اقوام کی صف میں کھڑے ہو جائیں،لیکن اس مسئلے کا حل اتنا آسان نہیں تھا،ہندوستان ایک وسیع ملک بلکہ ایک برکبیر تھا جس میں مختلف مذاہب رکھنے والے اور مختلف طریق معاشرت پر زندگی بسر کرنے والے ایک دوسرے سے متغائر گروہ اور ملتیں موجود تھیں،انگلستان کی طرح یہاں ایک قوم ایک مذہب اور ایک زبان سے مربوط و منسلک ملت ناپید تھی اور مغرب کے انداز کا وطن کا تصور اور اس کے ساتھ وابستہ جذبہ یہاں تاریخ کے کسی دور میں بھی موجود نہ تھا ۔
مغربی اقوام نے اپنے لئے جو حل تلاش کیا تھا وہ یہاں قابل اطلاق نہ تھا،یہاں صرف ہندو اور مسلمان ہی دو مختلف العقائد اور مختلف المعاشرت گروہ نہ تھے،ہندوؤں میں سینکڑوں میں مذہبی فرقے موجود تھے اور کوئی عقیدہ بھی ایسا نہ تھا جو ان سب میں مشترک ہو۔ تمام ہندوستان کا بحیثیت وطن کوئی ایک نام بھی نہ تھا،یہاں تک کہ ہندو مذہب کا بھی کوئی نام نہ تھا۔
ہندوستان اور ہندو کے الفاظ باہر سے آنے والے مسلمانوں کے وضع کردہ ہیں،دریائے سندھ کو ہند کہہ کر یہ اصطلاحیں وضع ہوئی تھیں،مسلمانوں میں دینی اور لسانی وحدت بہت زیادہ موجود تھی اور اس لحاظ سے تمام ملک کے مسلمان ایک قوم یا ملت کہلا سکتے تھے لیکن مذہبی تنگ نظری نے یہاں بھی فرقے بنا رکھے تھے جو ملت کے اندر کوئی پائیدار وحدت پیدا کرنے میں مانع تھے۔ اس قسم کا انتشار غیر ملکی ملوکیت کو بہت راس آتا ہے،ملوکیت ہمیشہ اقوام کے تفرقے سے فائدہ اٹھا کر غلامی کا جوا ان کی گردن پر رکھتی رہی ہے۔