انگریزوں کو اس ملک میں تفرقہ اندازی کی ضرورت نہ تھی کیوں کہ یہاں ہزاروں برس سے انسانی گروہوں کے درمیان ناقابل عبور خلیجیں حائل تھیں،ایسی حالت میں یہ غیر ملکی حکومت اور استحصال کرنے والی ملوکیت سے نجات ہو تو کس طرح ہو۔ آزادی طلب نوجوانوں کی سمجھ میں پہلے یہی بات آئی کہ ہم بھی انگریزوں کی طرح ایک قوم بن جائیں اور تمام ملک کو اپنا وطن قرار دے کر اس کے متعلق جذبہ وطنیت کو ابھاریں،مذہبی اختلافات کو غیر اصلی قرار دیا جائے اور وطن کی عظمت کے گیت گائے جائیں تاکہ غیر ملکی حکومت نے جو احساس کمتری پیدا کر دیا ہے اس کے خلاف ایک زبردست ردعمل ہو،پرانے دیوتاؤں کی پوجا کو باطل قرار دے کر وطن کے بڑے بت کی پوجا کی جائے۔
اسی حال اور اسی جذبے کے ماتحت نوجوان اقبال کا حساس قلب وطن کے ترانے گانے لگا۔
(جاری ہے)
چونکہ ہندو قوم کا وطن اور اس کا مذہب گونا گونی کے باوجود باہم وابستہ ہیں،اس لئے وطن پرستی کی تحریک ہندوؤں میں مسلمانوں سے قبل پیدا ہوئی،لیکن ہندو قوم کوئی ایسا شاعر پیدا نہ کر سکی جو اس کے اس جذبے کو ابھار سکے اور اس کے قلوب کو گرما سکے۔ ہندو قوم کے پاس وطنیت کا کوئی ترانہ موجود نہیں تھا۔
اقبال نے جب اپنے شاعرانہ کمال کو وطنیت کی خدمت کیلئے وقف کیا تو مسلمانوں کے علاوہ،بلکہ ان سے زیادہ ہندو اس سے متاثر ہوئے:
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ملک کے طول و عرض میں گونجنے لگا،بعض ہندو مدارس میں مدرسہ شروع ہونے سے قبل تمام طالب علم اس کو ایک کورس میں گاآئے تھے۔ ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کے وقت آزاد ہندوستان کی تاسیس میں نصف شب کے بعد آزادی کی شراب سے سرشار ہندوؤں نے جناگن کے ساتھ ساتھ یہی ترانہ گایا اور یہ بات بھول گئے کہ یہ ترانہ پاکستان کے نظریاتی بانی کا لکھا ہوا ہے۔
گاندھی جی کی راکھ جب گنگا جی میں ڈالی جا رہی تھی تو دیوان چمن لعل اُردو میں ریڈیو پر ”رواں بیاں“ کر رہے تھے اور یہ شعر نشر کر رہے تھے:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
یہ ایک جملہ معترضہ تھا،یہاں فقط یہ بیان کرنا مقصود تھا کہ ہندوستان میں وطنیت کے جذبے کو جس شاعر نے پہلے گرمایا وہ اقبال باکمال تھا۔
ہندوستان اگر ایک وطن اور ایک قوم بن سکتا تو اقبال کا وطنیت کا کلام اس کیلئے الہامی صحیفہ ہوتا،لیکن ملک کے حالات ایسے تھے کہ یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔
یورپ سے واپس ہونے کے بعد اقبال اس نتیجے پر پہنچا کہ ہندوستان ایک مختلف الملل براعظم ہے،اس کے مسائل کا حل مغربی انداز کی جمہوریت نہیں بلکہ ایک نظام سیاست ہے جس میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو اپنے اپنے زاویہ نگاہ کے مطابق زندگی بسر کرنے کا موقع حاصل ہو اور ملک کے جس حصے میں جس قوم کی اکثریت ہے اس کو وہاں کامل دینی اور معاشرتی آزادی حاصل ہو۔
کوئی ملت دوسری ملت پر ناجائز غلبہ حاصل نہ کر سکے اور عادلانہ طور پر فیڈریشن کا انتظام ہو سکے۔ پاکستان کا مطالبہ اقبال نے سب سے پہلے اسی انداز میں پیش کیا۔ اس ساسی ادھیڑ پن سے بہت پہلے ہی اسلام اور مسلمانوں سے متعلق اقبال کے خیالات میں ایک تغیر عظیم واقع ہوا تھا،اقبال نے مغربی میں جغرافیائی،نسلی اور لسانی قومیت کے تاریک پہلو کا بھی بغور مطالعہ کیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ مغربی انداز کی نیشنلزم انسانیت کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان مصنوعی مِلّتوں کو ایک دوسرے کی جانی دشمن بنا رہی ہے،یہ تنازع للبقا کی بھیانک صورت ہے،علوم و فنون اور جذبہ وطنیت نے ان قوموں میں جو قوتیں پیدا کر دی ہیں ان کا انجام یہی ہوگا کہ کمزور قوموں کو لوٹنے اور مغلوب کرنے میں ان کی سعی مسابقت سب کو ایک عالم گیر جنگ میں جھونک دے۔
جنگ عظیم سے کوئی پچاس سال قبل انگلستان کے ایک دیدہ ور اور عارف ادیب نے پیش گوئی کی تھی کہ:
” اگر انگلستان اسی روش پر گامزن رہا تو کوئی نصف صدی کے عرصے میں اسے جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔“ پہلی جنگ عظیم کے بعد میں نے ایک روز علامہ اقبال سے کار لائل کی اس پیش گوئی اور اس کے پورا ہونے کا ذکر کیا تو فرمایا کہ کار لائل بڑی گہری روحانی بصیرت کا شخص تھا،اپنی قوم کی معاشرت اور سیاست کے رخ کو دیکھ کر اس کا یہ پیش گوئی کرنا کوئی تعجب خیز بات نہیں۔
اقبال اس نتیجے پر پہنچے کہ جغرافیائی،نسلی،لسانی معاشیاتی وحدت منصوعی چیز ہے ، اصلی وحدت فکری اور نظریاتی وحدت ہے،اس لحاظ سے تمام دنیا کے مسلمان ایک وحدت ہیں۔ وطن کی محبت ایک فطری اور لازمی چیز ہے،چنانچہ وطنیت کے خلاف جہاد کرنے کے بعد بھی یہ جذبہ ان میں موجود تھا لیکن حب وطن،وطن پرستی سے الگ چیز ہے،اس وطن پرستی سے لوگوں نے وطن کو معبود بنا لیا ہے اور اس جھوٹے معبود کے مذبح پر انسانوں کو بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔
بعض لوگوں کا یہ خیال کہ آخری دور میں وطن کی محبت اقبال کے دل سے نکل گئی تھی بالکل باطل ہے۔ ہندوستان اور اس کے رہنے والوں سے اس کا رشتہ قلبی آخر تک نہیں ٹوٹا،اقبال ہندوستان کی زبوں حالی اور غلامی پر آخر تک آنسو بہاتا رہا اور اس ملک کے ساتھ غداری کرنے والوں کا عالم عقبیٰ میں کیا حشر ہوا،اس کا نقشہ اقبال نے جاوید نامہ میں کس قدر بھیانک کھینچا ہے:
”ارواح رذیلہ کہ باملک و ملت غداریکردہ و دوزخ ایشاں راقبول نکردہ“
ان ارواح خبیثہ کو ایسے سیارے میں پھینکا ہے جس کی عقوبت کا یہ حال ہے کہ:
صد ہزار افرشتہ تندر بدست
قہر حق را قاسم از روز الست
درہ پیہم می زند سیارہ را
ازمدارش برکند سیارہ را
منزل ارواح بے یوم النشور
دوزخ از احراق شاں آمد نفور
جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگ آدم ننگ دیں ننگ وطن
اور دیکھئے ہندوستان کی عرفانی عظمت کس قدر اقبال کے دل میں جاگزیں ہے،فرماتے ہیں:
می ندانی خطہٴ ہندوستان
آں عزیز خاطر صاحبدلاں
خطہٴ ہر جلوہ اش گیتی فروز
درمیان خاک وخوں غلطد ہنوز
اقبال کشمیری الاصل تھے،ان کے اجداد کشمیر سے ترک وطن کرکے پنجاب میں سیالکوٹ کے شہر میں آباد ہو گئے تھے لیکن عرصہ دراز گزرنے کے بعد بھی کشمیر سے ان کی والہانہ محبت کبھی کبھی ان سے نہایت جذباتی اشعار نکلواتی تھی۔
وہ ابھی تک اپنے کالبد خاکی کو کشمیر ہی کی گلزار آفریں خاکث کا پتلا سمجھتے تھے:
تم گلے ز خیابان جنت کشمیر
دل از حریم حجاز و نوا ز شیراز است
زندگی کے تمام ادوار میں کشمیر اور اہل کشمیر سے اقبال کی محبت اور ان کی غلامی اور کسمپرسی پر اقبال کی جگر کاہی مسلسل قائم رہی۔ ”ارمغان حجاز“ میں ملا زادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض اقبال کا اپنا بیاضِ قلب ہے،اس میں کشمیر کے متعلق اقبال کا جذبہ اور اضطراب اس کے فلسفہ حیات کی آمیزش سے ہایت درد و گداز کے ساتھ ظاہر ہوا ہے۔
اگرچہ اقبال جاہلانہ اور متعصبانہ وطن پرستی کے خلاف آواز بلند کرتا ہوا کہتا ہے کہ:
پاک ہے گرد وطن سے سر داماں تیر ا
تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعان تیرا
لیکن وہ اپنے قلب کی گہرائیوں میں اپنے آپ کو کشمیر ہی کے کنعان کا گم گشتہ یوسف سمجھتا تھا:
پانی ترے چشموں کا تڑپتا ہوا سیماب
مرغان سحر تیری فضاؤں میں ہیں بے تاب
اے وادی لولاب
اقبال کو اس جنت میں چشموں اور مرغان سحر کی نواؤں میں بھی تڑپ محسوس ہوتی ہے،لیکن اس خطے کے جلوہ گران منبر و محراب کے قلوب میں اس کو کوئی ہنگامہ نظر نہیں آتا۔
یہاں کے ملا و صوفی کیلئے دین فقط افیون بن کر رہ گیا ہے:
گر صاحب ہنگامہ نہ ہو منبر و محراب
دیں بندہ مومن کیلئے موت ہے یا خواب
اے وادی لولاب
ملا کی نظر نور فراست سے ہے خالی
بے سوز ہے میخانہ صوفی کی مے ناب
اے وادی لولاب
اس کے دل میں یہ تمنا شعلہ فگن ہے کہ یہ خطہ کوئی درویش قائد پیدا کرے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح اس قوم کو غلامی سے نجات دلوائے:
بیدار ہوں دل جس کی فغان سحری سے
اس قوم میں مدت سے وہ درویش ہے نایاب
اے وادی لولاب
دیکھئے اپنے آبائی وطن کی حالت پر وہ کیسی درد ناک اور حسرت انگیز آہیں کھینچتا ہے:
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر
سینہ افلاک سے اٹھتی ہے آہ سوز ناک
مرد حق ہوتا ہے جب مرعوب سلطان و امیر
کہہ رہا ہے داستان بیداری ایام کی
کوہ کے دامن میں وہ غم خانہ دہقان پیر
آہ یہ قوم نجیب و چرب دست و تر دماغ
ہے کہاں روز مکافات اے خداے دیر گیر