Episode 19 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 19 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

بلکہ ان اقوام کو فرنگ سے باہر ایشیا اور افریقہ میں کمزور اقوام کا شکاری بنا دیا تھا۔ جن اقوام کے پاس فرنگ کے سے ہلاکت آفرین ہتھیار نہ تھے،ان کی جان و مال و آبرو فاتحین کیلئے مال غنیمت تھے۔ بعد میں اس مال غنیمت کی تقسیم پر ڈاکوؤں میں تصادم ہو گیا اور دو عظیم جنگوں میں مشرق و مغرب میں وہ تباہی اور بربادی ہوئی جس کے مقابلے میں چنگیز اور تیمور کی غارت گری بچوں کا کھیل معلوم ہوتی ہے۔
اقبال کو یہ خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں ملت اسلامیہ فرنگ کی نقالی میں اس قسم کی نیشنلزم کا شکار نہ ہوجائے اسی لئے اقبال نے یہ پکارنا شروع کیا کہ مسلمان کا وطن کہیں نہیں ہے یا یہ کہ مشرق و مغرب میں تمام روئے زمین مسلمان کا وطن ہے:
ہر ملک ملک ماست کہ ملک خدائے ماست
نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا
بنا ہمارے حصار ملت کی اتحاد وطن نہیں ہے
کہاں کا آنا، کہاں کا جانا، فریب ہے امتیاز عقبیٰ
نمود ہر شے میں ہے ہماری کہیں ہمارا وطن نہیں ہے
دوسرے شعر میں اقبال حسب عادت تصوف اور فلسفے میں غوطہ لگا گیا ہے۔

(جاری ہے)

تمام کائنات انسان کا وطن ہے،بلکہ دنیا و عقبیٰ کا امتیاز زمانی و مکانی بھی فریب ادراک ہی ہے۔ یہ جہان اور وہ جہان یعنی کونین حقیقت میں ایک ہی ہیں۔ مومن کا وطن کوئی ایک مقام نہیں۔ حقیقت کلی یا بہ الفاظ دیگر خدا اس کا وطن ہے۔ وہی اس کا مقام ہے اور وہی اس کی منزل،بقول عارف رومی:
منزل ماکبریاست
یورپ ہی میں اقبال میں یہ احساس پیدا ہوا کہ میرے اندر انفرادی اور اجتماعی آرزوؤں کا ایک محشر ہے جو عنقریب ایک رستخیز پیدا کرنے والا ہے۔
لوگ سمجھتے ہوں گے کہ اقبال یورپ میں پہنچ کر خاموش ہو گیا ہے۔وہ ان کو بتا دینا چاہتا ہے کہ ذرا صبر کرو اور دیکھو کہ یہ طوفان آرزو گفتگو کا کیا ہنگامہ پیدا کرتا ہے:
زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا مری خموشی نہیں ہے گویا مزار ہے حرف آرزو کا
شیخ عبد القادر کے نام دعوت شعلہ نوائی بھی اسی زمانے کے احساس کی پیداوار ہے کہ سخن گرم سے شعلے پیدا ہو سکتے ہیں اور اس نار سے ظلمت ربا نور ظہور میں آ سکتا ہے۔
اس دور کی نظموں میں وہ مضامین بھی موجود ہیں جو شروع سے اقبال کے کلام کا جزو تھے۔ کائناتی عشق و حسن بھی ہے لیکن مخصوص محبوبوں کی محبت میں بھی اعلیٰ درجے کی نظمیں ہیں جو نہ پہلے دور میں ملتی ہے اور نہ بعد میں ملیں گی۔ لیکن فلسفے اور تصوف میں ابھی تک اکثر صوفیاء کی طرح اقبال کی طبیعت پر وحدت وجود کا نظریہ طاری ہے۔ اقبال کے استاد فلسفہ میک ٹیگرٹ نے اسرار خودی کے شائع کرنے کے بعد ایک خط میں اس کی طرف ٹھیک اشارہ کیا تھا کہ کیمبرج میں تم ہمہ اوستی تھے اب کچھ اور ہو گئے ہو۔
اس زمانے کی ایک نظم قریباً پوری وحدت وجود پر ہے:
چمک تیری عیاں بجلی میں آتش میں شرارے میں
جھلک تیری ہویدا چاند میں سورج میں تارے میں
بلندی آسمانوں میں زمینوں میں تیری پستی
روانی بحر میں افتادگی تیری کنارے میں
وجودی صوفیہ طریقت اور معرفت میں جو کچھ کہہ جاتے ہیں وہ بظاہر شریعت کے منافی معلوم ہوتا ہے،اس سے اہل ظاہر ان پر بہت کچھ رو و قدح کرتے ہیں۔
اگر عابد و معبود اور شاہد و مشہود کو ایک ہی سمجھا جائے تو امتیاز اور فرق مراتب غائب ہو کر خالق و مخلوق میں کوئی حد فاصل نہیں رہتی اور خیر و شر کی تمیز کو قائم رکھنا بھی دشوار معلوم ہوتا ہے۔ ہمہ اوست اور ہمہ از اوست دونوں نظریات شریعت کے مخالف معلوم ہوتے ہیں اور کہنے والے کی مصلوب ہونے تک نوبت پہنچتی ہے۔ مرزا غالب شدت کے ساتھ ہمہ اوستی تھے،ان کا اُردو اور فارسی کا کلام جابجا اس کا شاہد ہے،کہیں استعجاب سے پوچھتے ہیں:
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے
لیکن کہیں یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے لیکن عابد و معبود دراصل ہیں ایک ہی:
دیدہ بیرون و درون از خویشتن پر وانگہی
پردہٴ رسم پرستش درمیان انداختہ
خدا نے ظاہر و باطن کے درمیان فریب ادراک سے یوں ہی پرستش کا ایک پردہ حائل کر دیا ہے جو حقیقت میں موجود نہیں۔
اس عقیدے کو بالکل کھلم کھلا بیان کرنے سے فساد کا اندیشہ ہوتا ہے اس لئے صوفیاء نے ان عقائد کو بہت کچھ استعاروں میں چھپانے کی کوشش کی ہے،چنانچہ اقبال نے بھی یہی روش اختیار کی ہے:
شریعت کیوں گریباں گیر ہو ذوق تکلم کی
چھپا جاتا ہوں اپنے دل کا مطلب استعارے میں
جو ہے بیدار انساں میں وہ گہری نیند سوتا ہے
شجر میں پھول میں حیواں میں پتھر میں ستارے میں
جگنو پر اقبال کی نظم کے دوسرے بند کا ان اشعار سے مقابلہ کرکے دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ اقبال پر یورپ جانے سے قبل بھی وحدت وجود کا نظریہ طاری تھا اور یورپ کے قیام دوران میں اور محرکات اور جذبات پیدا ہونے کے بعد بھی یہ عقیدہ قائم رہا۔

وحدت وجود کے عقیدے میں اور کچھ خلل ہو یا نہ ہو لیکن اتنا ضرور ہے کہ یہ نظریہ انسانی اختیار کے منافی پڑتا ہے۔ اخلاقیات کی تمام بنیاد یہ ہے کہ انسان ایک صاحب اختیار ہستی ہے،خدا نے خیر و شر کو اس پر واضح کر دیا ہے،اب وہ چاہے یہ راستہ اختیار کرے اور چاہے وہ،ادھر جائے گا تو اجر و ثواب حاصل کے گا اور ادھر جائے گا تو جہنم واصل ہو گا۔
لیکن اگر تمام انسانی اعمال بھی خدا ہی کے اعمال ہیں تو پھر خیر و شر میں کیا تمیز رہتی ہے اور ثواب و عذاب مہمل بن جاتے ہیں۔ 
اسی خطرے کی وجہ سے اقبال رفتہ رفتہ اس عقیدہ سے ہٹ گئے۔ ان کا نظریہ خودی درحقیقت اس روایتی وجودی فلسفے کی تردید ہے،اقبال نے فلسفہ خودی کے ماتحت انسان کو بھی خالق قرار دیا اور اس خیال کو طرح طرح سے بیان کیا کہ کائنات مادی ذات پر نہیں بلکہ نفوس پر مشتمل ہے جو خودی کے لحاظ سے مختلف مدارج میں ہیں اور کسی نہ کسی حیثیت میں کائنات میں بے شمار خالق موجود ہیں جو مختلف ہونے کے باوجود خالق کی صفت خلق سے بھی متصف ہیں۔
ایک گفتگو میں انہوں نے فرمایا کہ قرآن خدا کو احسن الخالقین کہتا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ کائنات میں اور خالق بھی موجود ہیں۔ حضرت آدم کے قصے کے متعلق بھی ان کی تاویل یہ تھی کہ خدا کے حکم کی خلاف ورزی سے آدم نے اپنی خودی کی بیداری کا ثبوت دیا جو انسانیت کا آغاز ہے،یہی افتادگی عروج آدم خاکی کا پیش خیمہ بنی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی اس دور تک خودی اور خدا کا باہمی رابطہ اقبال پر پوری طرح واضح نہیں ہوا،ابھی اس کا تفکر خدا کی وحدت اور نفوس کی کثرت کا تعلق سمجھنے سے قاصر ہے،کبھی وحدت موجود میں بہہ جاتا ہے اور کبھی عشق اور خودی کی خلاقی کی طرف کھنچا آتا ہے۔
اقبال کی اس دور کی نظموں میں مارچ ۱۹۰۷ء کی لکھی ہوئی نظم کئی حیثیتوں سے قابل غور ہے۔ یہ نظم پیشگوئیوں سے لبریز ہے اس لئے ”ہو گا“ کی ردیف استعمال کی ہے۔ پہلے دو اشعار میں کہتا ہے کہ اس سے پہلے ادوار میں زندگی کے بہت سے اسرار سربستہ تھے،اب افشائے راز کا زمانہ ہے،اس سے قبل اگر کسی کو کچھ معلوم بھی تھا تو وہ کچھ کہتا نہ تھا اس خیال سے کہ:
فاش گر گویم جہاں برہم زنم
اب زمانہ ایسا آنے والا ہے کہ نیکی ہو یا بدی،حق ہو یا باطل،سب کچھ ببانگ دہل ظاہر ہو گا:
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا
گزر گیا اب وہ دور ساقی کے چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان مے خانہ ہر کوئی بادہ خوار ہوگا

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط