Episode 24 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 24 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

اور اقبال کی قادر الکلامی نے یہ توقع پیدا کر دی تھی کہ اُردو شاعری کو اقبال ہی باثروت بنائے گا۔ اب لوگوں کو یہ خدشہ پیدا ہوا کہ اقبال نے شاید اُردو کو خیر باد کہہ دیا ہے۔ اسرار خودی، بانگ درا کے اُردو مجموعے سے بہت پہلے شائع ہوئی۔ اشاعت کے لحاظ سے اقبال ابھی پوری طرح اُردو دانوں کے سامنے نہیں آیا تھا کہ وہ ایک فارسی شاعر کی حیثیت سے نمودار ہو گیا۔
اسرار خودی کو دیکھ کر ایک دوسری شکایت یہ پیدا ہوئی کہ اس میں زیادہ تر درس فلسفہ ہی ہے،وہ اقبال اس میں نہیں ہے جو درس فلسفہ کے ساتھ ساتھ عشق ورزی بھی کرتا تھا:
کہ درس فلسفہ می داد و عاشقی ورزید
اس کتاب میں مابعد الطبیعیات کو نظم کر دیا ہے،جس میں ماہیت وجود اور زمان و مکان کی ناقابل فہم بحثیں ہیں یا خودی کو تلقین ہے۔

(جاری ہے)

یہ بات بھی کچھ انوکھی معلوم ہوئی کیوں کہ اس سے قبل تمام اُردو اور فارسی شاعری میں بے خودی کو سراہا گیا تھا اور بعض متصوفین نے خودی ہی کو سب سے بڑا گناہ کبیرہ قرار دیا تھا۔

صوفیہ کا یہ مقولہ عام ہو گیا تھا کہ (وجود ک ذنب) تیرا وجود اور انفرادی ہستی کا احساس ہی سب سے بڑا فریب ہے اور اسی ”ہم“ یا ”میں“ کو فنا کرنا ہی روحانیت کی معراج ہے:
گو لاکھ سبک دست ہوئے بت شکنی میں
ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہے سنگ گراں اور
اور اس سے پہلے روایتی تصوف کے زیر اثر اقبال خود بھی کہہ چکا تھا:
میری ہستی ہی تھی خود میری نظر کا پردہ
اٹھ گیا بزم سے میں پردہٴ محفل ہو کر
غرضیکہ اقبال نے جب اپنی شاعری اور اس کے مضامین کا رخ بدلا تو اس سے دو قسم کے نتائج پیدا ہوئے۔
جن لوگوں میں دینی اور ملی جذبہ تھا وہ تو بہت مسرور ہوئے کہ ایک باکمال شاعر نے محض تفنن طبع کو چھوڑ کر اپنی شاعری کو شعور ملی کا ترجمان بنایا ہے،جس نے قوم میں ایک نئی روح پھونکنی شروع کی ہے۔
 اقبال نے اب مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات اور ان کی صداقت و عظمت سے آگاہ کرکے ان کے احساس کمتری کو مٹانے اور ان کے احساس خودی کو ابھارنے کی کوشش کی۔
شرق و غرب جہاں جہاں سے حیات آفرین افکار ملے ان کی پرزور تلقین کی۔ شاعری کو محض چٹخارا سمجھنے والوں کو چھوڑ کر اقبال اب خاص و عام کیلئے ترجمان حقیقت بن گیا۔
مسلمانوں کی شاعری صدیوں کے انحطاط سے ہر قسم کے حقائق سے دور ہو گئی تھی اور غیر شعوری طور پر یہ ایک مسلمہ قائم ہو گیا تھا کہ شاعری کیلئے حقیقت کی ضرورت نہیں،زندگی کی حقیقتیں یا تو پھیکی ہوتی ہیں یا تلخ،شیرینی اور لطف تو حقیقت سے گریز ہی میں پیدا ہوتا ہے۔
قصائد تھے تو سب جھوٹ کا طومار اور عشقیہ شاعری تھی تو فرضی معاملات اور بیان میں دور ازکار صناعی،حالی نے جب سچی شاعری کیلئے حقیقت کو لازمی عنصر قرار دیا اور اسی معیار کے مطابق اپنی شاعری کا رنگ بدلا تو اس کی نئی شاعری قدیم ڈگر پر چلنے والے پیشہ ور شعراء کو بالکل پھیکی معلوم ہوئی،لیکن حالی کو فطرت نے شاعر بنایا تھا اس لئے سادگی اور حقیقت پر استقلال سے قائم رہنے کے بعد اس نے بھی عام و خاص سے اپنا لوہا منوا لیا۔
وہی مسدس جس کو حالی کے معاصر شعراء نے محض اس قابل سمجھا کہ اس پر پھبتیاں کسی جائیں،اسی مسدس سے سید احمد خاں کی روح اس قدر متاثر ہوئی کہ انہوں نے فرمایا کہ اگر آخرت میں خدا نے مجھ سے پوچھا کہ اعمال میں تو کیا چیز اپنی نجات کیلئے لایا ہے تو میں عرض کروں گا کہ میں نے حالی سے مسدس لکھوایا۔ 
حالی نے اپنی وفات سے قبل ہی تمام جھوٹے شاعروں اور کم نظر نقادوں پر فتح پا لی تھی۔
یہی معاملہ اقبال کے ساتھ بھی پیش آیا،پہلے اس کی اُردو شاعری پر مدعیان زباندانی نے اعتراض کرنے شروع کئے اور اس کی شاعری کی جدت اور کمال ان کی نظر سے اوجھل رہا،لیکن کچھ زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ اقبال کی آواز چاروں طرف گونجنے لگی اور معترضین کی آواز صدا بہ صحرا ہو گی۔
اس بات پر اچھی طرح غور کرنے کی ضروت ہے کہ کیا اسلام اور فلسفے اور تبلیغ اور وعظ نے اقبال کی شاعری کو نقصان پہنچایا اور کیا یہ صحیح ہے کہ اس نے اپنے شاعرانہ کمال کو اپنے عقائد اور نظریات پر قربان کر دیا؟ ہمارے نزدیک اس کا جواب نفی میں ہے۔
اقبال کو فطرت نے ایسا قادر الکلام باکمال شاعر بنایا تھا کہ وہ موضوع کچھ بھی منتخب کرے اور شعر خواہ آمد سے کہے اور خواہ آورد سے وہ کبھی حسن کلام سے معرا نہیں ہوتا۔ 
اُردو اور شاعری کی عام روایات کو مدنظر رکھ کر عام ادیبوں اور شاعروں اور نقادوں نے یہ فرض کر لیا تھا کہ شاعری کیلئے کچھ مضامین اور موضوع مقرر ہیں اور ان کو ادا کرنے کیلئے خاص اسالیب بیان اور خاص قسم کی زبان بھی لازم ہے۔
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ شاعری کیلئے نہ کوئی موضوع مقرر اور مفید ہیں اور نہ ہی اسالیب بیان کا احصار ممکن ہے۔ زندگی اور کائنات کی ہر چیز،ہر حادثہ اور ہر واقعہ شعر کا موضوع بن سکتا ہے اور اگر شاعر فطری شاعر ہے اور مبدء فیاض سے جوہر سخنوری اس کو ودیعت ہوا ہے تو وہ جو کچھ بھی کہے گا اس کا انداز دل نشین اور اثر آفرین ہوگا۔ 
ایک زمانہ تھا کہ غزل کا کوئی مستقل وجود نہ تھا،پھر غزل قصائد کی تشبیب کے طور پر نمودار ہوئی،اس کے بعد غزل فقط اظہار تعشق یا رندی کے مضامین کیلئے مخصوص ہو گئی،عطار اور سنائی،سعدی اور رومی کے ہاں غزل میں تصوف کے مضامین داخل ہو گئے اور تصوف کی راہ سے فلسفہ بھی آ گیا،عشق مجازی کے ساتھ عشق الٰہی کی آمیزش نے غزل کو نقصان پہنچانے کی بجائے اس کو اور موثر اور دلآویز بنا دیا۔
حافظ کی غزلوں میں یہی آمیزش یا یوں کہئے مجاز و حقیقت کا التباس و اشتباہ سحر آفرین ہو گیا ہے،جو چاہے اپنے مذاق کے موافق مجازی معنی قرار دے کر لطف اٹھائے اور جو چاہے صہبا و ساغر و مینا کو روحانیت کے استعارے سمجھ لے:
ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر(غالب)
حق را ز دل خالی از اندیشہ طلب کن
از شیشہ بے مے مے بے شیشہ طلب کن(صائب)
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ شاعری میں تبلیغ نہیں ہونی چاہئے وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ رندی و ہوس ناکی کی ستائش بھی تو تبلیغ و ترغیب و تحریص ہی ہے۔
اُردو اور فارسی کی تمام شاعری اس سے بھری پڑی ہے۔ دراصل شعر میں تبلیغ کے مخالف یہ چاہتے ہیں کہ رندی و ہوس کی تبلیغ ہو،اس کے برعکس اگر روحانیت اور اخلاق حسنہ کی تبلیغ ہو تو وہ شاعری نہیں رہتی۔
اقبال کی شاعری سے صدیوں پہلے تصوف اور فلسفہ شاعری کا ایک جزو بن چکا تھا۔ کلام اقبال میں صرف یہ جدت اور وسعت ہے کہ جو فلسفہ یا تصوف حکمت پسند اور روحانیت پسند شعراء میں ملتا ہے اس کے بہترین عناصر بھی کلام اقبال میں موجود ہیں،مگر حکمت کی ایسی باتیں اس میں اضافہ ہو گئی ہیں جو متقدمین میں ملتی ہیں نہ متاخرین میں اور نہ اقبال کے معاصرین میں۔
 
خاقانی اپنے قصائد میں فلکیات اور ریاضی اور دیگر علوم و فنون کی اصطلاحیں داخل کرکے ان سے اپنے غیر حقیقی تخیلات اور افکار کو استوار کرتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی شاعری کو استناد کا درجہ حاصل ہے اور بعد میں آنے والے شاعر،خواہ ،خاقانی کی طرح اس کے مقابلے میں زبان و بیان پر زیادہ قدرت رکھنے والے ہوں،اس کا لوہا مانتے ہیں:
شاہا بہ قاآنی نگر خاقانی ثانی نگر
لیکن اقبال اگر فلسفہ قدیم کے علاوہ جذبہ کی بعض اصطلاحیں اور نظریات اپنے کلام میں داخل کرے تو اس کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ شاعری کے درجے سے گر گیا ہے۔
اسی طرح یہ اعتراض بھی لغو ہے کہ اقبال نے اپنی شاعری کے بیشتر حصے کو احیائے ملت کیلئے کیوں وقف کر دیا؟ کیا شاعری واقعی اس سے خراب ہو جاتی ہے؟ عربی اور فارسی شاعری کا موازنہ اور مقابلہ کرتے ہوئے مولانا شبلی اور دیگر نقادوں نے اس کو تسلیم کیا ہے کہ عجم کے تخیلات سے متاثر ہونے سے قبل سرزمین عرب کے اندر شاعری حقیقت نگاری تھی اور عرب شاعر اپنے کلام میں دروغ سے فروغ نہیں پیدا کرتا تھا،وہ حقیقت کو سادگی کے ساتھ اس انداز میں پیش کرتا تھا کہ وہ سننے والے کے دل کے اندر اتر جاتی تھی۔
 ہر شاعر اپنے شخصی عشق یا ذاتی تاثرات مسرت و الم کے علاوہ اپنے قبیلے کے نفس کا ترجمان ہوتا تھا۔ وہ اپنے قبیلے کے کارناموں کو دہراتا تھا،ہمت و ایثار کی مثالیں اسی قبیلے کے گزرے ہوئے افراد سے لیتا تھا اور دشمنوں کے مقابلے میں اپنے قبیلے والوں کے دل مضبوط کرتا تھا۔ انہیں صفات کی وجہ سے قدیم عربی شاعری اب تک حقیقت شناسوں سے داد حاصل کرتی ہے۔
وہ عربی شاعری قبیلوی عصبیت کی شاعری تھی،اس کے مقابلے میں اقبال کی ملت پرستی کی شاعری غیر معمولی وسعت رکھتی ہے جس میں جذبات عالیہ کی فراوانی ہے اور جذبات اسفل کا فقدان ہے۔ اقبال اپنی ملت کے متعلق بہت کچھ وہی انداز اختیار کرتا ہے جو کسی عرب قبیلے کا اعلیٰ درجے کا شاعر اختیار کرتا تھا۔ اقبال بھی اپنی ملت کے اچھے کارناموں کو دہراتا ہے لیکن اس کی نظر میں وسعت اور اس کے قلب میں زیادہ صداقت پیدا ہو گئی ہے جو تنگ نظر عصبیت پر غالب آ گئی ہے۔
وہ صرف قوم کا قصیدہ نہیں پڑھتا بلکہ اس کے عیوب بھی اس طرح بیان کرتا ہے کہ اس قوم کا دشمن بھی اس سے زیادہ تلخ گوئی سے کام نہیں لے سکتا۔ اس کا مقصد اپنی قوم میں بلند نظری اور مقاصد حیات کی بلندی پیدا کرنا ہے جو نہ صرف اس مخصوص ملت بلکہ تمام نوع انسان کیلئے باعث خیر ہو۔
شاعری کے متعلق یہ ایک لغو نظریہ ہے کہ شاعر نہ کسی خاص عقیدہ زندگی کا مبلغ ہو اور نہ کسی خاص ملت کی وابستگی سے شعر کہے اور یہ کہ شاعر کو تمام نوع انسان کیلئے ایک بے طرف اور غیر جانبدار انسان ہونا چاہئے۔
ہومر خالص یونانی شاعر ہے،اس کے عقائد،اس کے تاثرات،اس کی صنمیات سب یونانی ہیں،اس کے ہیرو یونانی ہیرو ہیں،لیکن اس کے باوجود کوئی صاحب ذوق آدمی اس کی شاعری کو یہ کہہ کر نہیں ٹھکرا دیتا کہ وہ یونانی ماحول کی پیداوار ہے جو تین چار ہزار برس پہلے ایک مخصوص خطہ زمین میں پایا جاتا تھا۔ اس کے دیوتاؤں کا اب کون قائل ہے اور اس کی اخلاقیات بھی اب ہمارے کس کام کی ہے،لیکن عیسوی مغرب کو دیکھئے کہ ہومر کے دیوتاؤں کو باطل سمجھنے کے باوجود اب تک اس کی شاعری کو جزو تعلیم ادب عالیہ بنائے ہوئے ہے اور کلیسا کے بڑے پادری بھی اس کو پڑھتے اور پڑھاتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اقبال کی ملی اور اسلامی شاعری پر ناک بھوں چڑھانے والے اور اسلامیات کی وجہ سے اس کی شاعری کو پست گرداننے والے وہی لوگ ہیں جو دین سے بے بہرہ اور متنفر ہیں اور ملت کے عروج و زوال سے بھی ان کو کوئی واسطہ نہیں،ان کے نزدیک شاعری تفنن طبع کا نام ہے۔ اگر وہ اشتراکی ہیں تو اشراکیت کی تبلیغ کو تو اچھی شاعری اور اعلیٰ درجے کا فن لطیف سمجھتے ہیں اور اسلام کی شاعری ان کے نزدیک محض ملائی وعظ و تلقین ہے۔
الحاد پر شعر کہو تو لطف اٹھاتے ہیں اور توحید پر اعلیٰ درجے کے اشعار بھی لکھو تو انہیں بے لطف معلوم ہوتے ہیں،کیوں کہ ان کی طبیعت میں اس کا کوئی اذعان یا رحجان نہیں۔
فنون لطیفہ کی بھی وہی کیفیت ہے جو علم کی ہے،علم فی نفسہ نہ مفید ہے اور نہ مضر،نہ معاون حیات ہے اور نہ مزاحم زندگی۔ علم ایک بے طرف قوت ہے اور علوم کے بے شمار اقسام ہیں۔
اسی طرح شعر ہر قسم کا ہو سکتا ہے،مختلف اشعار ہر قسم کے افکار اور تاثرات کے حاصل ہو سکتے ہیں،شاعری ادنیٰ جذبات کو بھی ابھار سکتی ہے،بعض اشعار میں جذبہ غالب ہوتا ہے اور بعض میں تفکر،اگرچہ جذبے کی آمیزش سے بالکل معرا شعر بہت ٹھنڈا اور پھیکا ہوتا ہے،وہ کانوں کے راستے سے دماغ سے تو ٹکراتا ہے لیکن دل کا کوئی تار اس سے مرتعش نہیں ہوتا،ایک قسم کی شاعری ہے جو محض مسرت کیلئے کی جاتی ہے،اس کے برعکس ایک دوسری قسم کی شاعری ہے جس کا مقصود اندوہ گینی اور اندوہ افزائی ہے،جیسے لکھنوٴ کی مرثیہ گوئی۔
خالی ہوس پرستی اور رندی نے بھی اُردو اور فارسی شاعری کے کثیر حصے کو گھیر رکھا ہے۔
 اس کے علاوہ وہ شاعری بھی ہے جس میں حکمت اور تجربہ حیات کو دلنشیں اور موثر انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ تصوف نے بھی اعلیٰ درجے کی شاعری کو جنم دیا جس میں حکمت بالغہ اور عشق الٰہی کی آمیزش اور تزکیہ نفس کی ترغیب ہے۔ خوشامد کی جھوٹی شاعری نے قصیدوں کا ایک دفتر بے معنی مہیا کر دیا جو اب تک دارالعلوموں کے نصاب میں داخل ہے۔
شاعری کے تمام اقسام آخر ایک ہی جنس کے انواع ہیں۔
بعض نقاد کہتے ہیں کہ فن کو فن ہی کے معیار سے پرکھنا چاہئے۔ علم علمی معیار سے پرکھا جاتا ہے،اخلاق اخلاقیات کی کسوٹی پر جانچا جاتا ہے،دینیات کیلئے دین معیار ہے،اسی طرح فن لطیف کے صرف فن ہی کو معیار ہونا چاہئے۔ فن کی مملکت ایک آزاد مملکت ہے جس کے اپنے آئین ہیں۔ اس مسئلے پر کسی قدر مفصل اظہار خیال اقبال کے نظریات فن کی بحث میں آئے گا،یہاں صرف یہ کہنا مقصود ہے کہ اقبال کی اسلامی اور ملی شاعری اور اس کی فلسفیانہ شاعری،شاعری کے وسیع حدود سے باہر نہیں۔
 بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس قسم کی تلقین و تبلیغ خطیبانہ نثر میں بھی ہو سکتی ہے بلکہ ہونی ہی نثر میں چاہئے،یہ تقاضا لغو اور بے معنی ہے۔ شاعری کا کام بات کو موثر اور دل نشین بنایا ہے،اگر کوئی شخص خاص عقائد اور خاص نظریات حیات رکھتا ہے اور خدا نے اس کو شاعر بھی بنایا ہے تو وہ کیوں اپنے افکار و تاثرات کو شعر کے سانچے میں نہ ڈھالے،جو نثر کے مقابلے میں زیادہ موثر پیرایہ بیان ہے۔
 میرے نزدیک اقبال نے اسلام اور ملت اسلامیہ کے علاوہ اپنی مخصوص شاعری سے عام نوع انسان کی بے حد خدمت کی ہے،اس کے اشعار بلند افکار اور جذبات عالیہ سے مملو ہیں جو تمام نوع انسان کو روحانی دعوت دیتے ہیں،اس میں کسی مذہب و ملت کی تخصیص نہیں اور اسلام کی تعبیر میں اس نے جو باتیں کہی ہیں وہ بلا تفریق مذہب و ملت تمام دنیا کیلئے پیغام حیات ہیں۔
چونکہ کہنے والا مسلمان ہے،اس کے مخاطبین براہ راست تو مسلمان ہیں لیکن بالواسطہ اس کا خطاب ہر انسان سے ہے خواہ وہ شرقی ہو یا غربی:
گھر میرا نہ دلی نہ صفاہاں نہ سمر قند
اقبال کی شاعری کا زیادہ حصہ ایسا ہے جس میں فلسفے اور دینیات اور احیائے ملت کے تقاضے نے شعر کو شعریت کے زاویہ نگاہ سے بھی پست نہیں ہونے دیا۔ اگر اقبال ایک غیر معمولی صاحب کمال شاعر نہ ہوتا تو اس کی نظموں میں فلسفہ خشک ہوتا،وعظ بے اثر ہوتا اور تبلیغ بے نتیجہ ہوتی ہے۔
یہ اس کا کمال ہے کہ وہ فلسفیانہ اشعار کہتا ہے تو بات خالی فلسفے کے مقابلے میں زیادہ دل نشیں اور یقین آفرین بن جاتی ہے۔ ملت کے عروج و زوال اور مرض و علاج کو بھی جب وہ اپنی ساحرانہ شاعری کے سانچے میں ڈھالتا ہے تو سننے والوں کے دلوں میں ایک زیر و بم پیدا ہوتا ہے۔
اقبال اعلیٰ درجے کا شاعر ہونے کے علاوہ مفکر اور مصلح بھی ہے،بعض نظمیں وہ محض بحیثیت شاعر لکھتا ہے،بعض نظموں میں حکیمانہ افکار شعر کے پیرائے میں ڈھل گئے ہیں اور بعض نظموں میں جذب اصلاح غالب اس لئے اس کے تمام کلام کو محض شاعری کے نقطہ نظر سے نہیں جانچ سکتے،اگرچہ محض فن کی حیثیت سے بھی اس کی اکثر مبلغانہ اور حکیمانہ نظمیں ایک خاص پائے سے نیچے نہیں گرنے پاتیں۔
###

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط