پانچواں باب
اسلام… اقبال کی نظر میں
زہد و رندی کی نظم میں اقبال کے متعلق ایک مولوی صاحب نے اس خیال کا اظہار کیا تھا:
اس شخص کی ہم پر تو حقیقت نہیں کھلتی
ہوگا یہ کسی اور ہی اسلام کا بانی
مولوی صاحب کو خدشہ اس سے پیدا ہوا کہ اقبال اپنے مذہبی عقائد کو جس انداز میں بیان کرتا تھا وہ عام راسخ العقیدہ ملاؤں اور فقیہوں کے انداز سے الگ تھا،انداز کا نرالا پن اقبال کے اندر آخر تک قائم رہا،اس انوکھے پن کی وجہ سے وہ شروع ہی میں کہہ رہا تھا:
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں
اقبال کے دینی قد کو چند صفحات میں بیان کرنا دشوار ہے لیکن یہ کوشش لازمی ہے۔
اقبال موحد ہے اور توحید میں کسی قسم کے اشتراک کو گوارا نہیں کرتا۔
(جاری ہے)
مسلمانوں میں بعد میں وحدت وجود اور وحدت شہود کی بحثیں چھڑ گئیں،اقبال کے نزدیک یہ بحثیں دینی بحثیں نہیں بلکہ فلسفیانہ مسائل و مباحث ہیں،اسلام میں توحید کے مقابلے میں فقط شرک ہے،وحدت و کثرت کی بحث اسلامی بحث نہیں اور نہ ہی اشاعرہ اور معتزلہ کے یہ کلامی مباحث اصل اسلام سے کچھ تعلق رکھتے ہیں کہ وحدت ذات کے اندر کثرت صفات الٰہیہ عین ذات ہیں یا غیر ذات۔
اس کے نزدیک خدا ایک نفس کلی یا ایک ”انا“ ہے،انائے کامل و مطلق فقط خدا ہے،اس کی عینی اور اساسی صفت خلاقی ہے،”کل یوم ھو فی شان“ کے معنی اقبال کے نزدیک یہی ہیں کہ اس کی خلاقی مسلسل اور لامتناہی ہے،”کن فیکون“ کی صدا ہر لمحے میں آ رہی ہے۔
انگریزی لیکچروں میں اس نے اس عقیدے کا اظہار کیا ہے کہ خدا اپنی ماہیت میں چونکہ ایک نفس ہے اس لئے وہ نفوس ہی کو خلق کرتا ہے،تمام کائنات نفوس ہی پر مشتمل ہے جو قوت و شعور کے لحاظ سے ارتقا کے مختلف مدارج میں ہیں۔
یہ عقیدہ پہلے مسلمان حکما و صوفیہ میں بھی ملتا ہے،یہ عقیدہ عارف رومی کے اساسی عقائد میں سے ہے،چنانچہ مثنوی کے آغاز ہی میں یہ خیال ملتا ہے کہ کائنات ارواح کا ایک نیستان ہے،ہر روح خدا ہی میں سے الگ ہوئی ہے اور اس کے اندر بے تابی اور فریاد کی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے اصل کی طرف عود کرنا چاہتی ہے،”کل شی یرجع الی اصلہ“:
ہر کسی کو دور ماند از اصل خویش
باز جوید روزگار وصل خویش
اسی وجہ سے تمام موجودات میں ایک جذبہ ارتقا پایا جاتا ہے۔
”انا“ کی سب سے زیادہ ارتقا یافتہ صورت انسان میں ملتی ہے لیکن چونکہ خدا تک واپسی کا راستہ لامتناہی ہے اس لئے انائے انسانی کے ممکنات ارتقا بھی لامحدود ہیں۔
انائے انسانی مخلوق ہے لیکن اس میں ابد قرار ہونے کی صلاحیت موجود ہے۔ اقبال نے عرفان نفس کا نام خودی رکھا ہے جو اس کی اپنی وضع کردہ اصلاح ہے،خودی کا لفظ اقبال سے پہلے انائیت کے معنوں میں نہیں بلکہ انانیت کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا اور یہ معنی مستحسن نہیں بلکہ مذموم تھے۔
جذبہ تخلیق و ارتقا کا نام عشق ہے،سعی تخلیق و ارتقا حرکت کے بغیر ناممکن ہے اس لئے زندگی سراپا حرکت و انقلاب ہے۔
مقصود حیات اور غایت دین انسان کی خودی کو بیدار کرنا اور اس کے جذبہ عشق میں اضافہ کرنا ہے،دنیا ہو یا آخرت،یہ عالم ہو یا وہ عالم،ہر جگہ،ہر حالت اور ہر مقام پر جذبہ عشق اور شوق ارتقا کا پایا جانا لازمی ہے۔
اسلام اسی لئے ایک دین کامل ہے کہ اس کی تعلیم میں انسان پر زندگی کی ماہیت کو واضح کر دیا گیا ہے اور اس کو تکمیل خودی کے سیدھے راستے بتا دیئے گئے ہیں،ان طریقوں کا عرفان جدوجہد ہی سے پیدا ہوتا ہے،قلزم حیات کے کنارے پر بیٹھ کر جو حکمت حقیقت تک پہنچنا چاہتی ہے،اس کو کبھی کامیابی نہیں ہو سکتی اس لئے کہ زندگی حرکت ہے اور سکون سے سمجھ میں نہیں آ سکتی،فقط جدوجہد کرنے والوں کو خدا حقیقت حیات سے آشنا کرتا ہے الذین جاھدا قینا لنھد ینھم سبلنا۔
ساحل افتادہ گفت گرچہ بسے زیستم
ہیچ نہ معلوم شد آہ کہ من کیستم
موجے ز خود رفتہ تیز خرامید و گفت
ہستم اگر می روم گرنہ روم نیستم
تمام احکام شریعت کا مقصود یہی ہے کہ انسان اپنے نفس کو پاکیزہ اور قوی بنائے،جو طریق عمل اس کی وسعت اور قوت میں خارج ہوتے ہیں ان سے اجتناب کی تلقین کرے۔
اسلام پیش کرنے والے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خودی تمام انبیا اور انسانوں کے مقابلے میں زیادہ بیدار اور استوار تھی،اسی لئے ان کی زندگی نوع انسان کیلئے اسوہ حسنہ بن گئی۔
اسلام ایک خالص ترین پیغامات حیات ہے،نہ نبی کی ترقی کی کوئی انتہا ہے اور نہ عام انسانوں کی ترقی کی کوئی آخری حد،ارتقا جاری ہے اور جاری رہے گا،لیکن نبوت کا مقصد حقیقت حیات کو واضح کر دینے کے بعد پورا ہو گیا، ”اکملت لکم دینکم“ کے یہی معنی ہیں۔ اگر قرآن نے واضح طور پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہ بھی کہا ہوتا تو بھی وضاحت مقصود دین کے بعد کسی اور نبی کا آنا تحصیل حاصل ہوتا،اقبال بڑی شدت کے ساتھ ختم نبوت کے قائل تھے،ایک مغربی مفکر نے اقبال کے عقائد پر یہ اعتراض کیا ہے کہ ارتقائے لامتناہی کا قائل ختم نبوت کا کس طرح قائل ہو سکتا ہے؟ جب زندگی ابد الآباد تک نئے اقدار نئے انداز حیات پیدا کر سکتی ہے تو کسی ایک شخص کی تعلیم یا زندگی خاتم کیسے ہو سکتی ہے؟
دراصل یہ تناقض ایک ظاہری تناقض ہے،اقبال کے ہاں اس کا جواب یہ ہے کہ زندگی کے لامتناہی ارتقا اور اس کے لامحدود ممکنات کو واضح کر دینا ہی نبوت کا منتہیٰ تھا۔
یہ کام پورا ہو گیا تو نبوت بھی لازماً ختم ہو گئی،خود نبی کے انسان کامل ہونے کے بعد یہ معنی نہیں ہیں کہ اس کی اپنی ذات کیلئے کوئی بلند تر درجہ ارتقا باقی نہیں رہا۔ ارتقا کی آخری منزل تو خدا ہے مگر کوئی شخص لامتناہی ارتقا سے بھی خدا نہیں بن سکتا،نہ عمل کی کوئی انتہا ہے اور نہ علم کی اسی لئے نبی مسلسل استغفار بھی کرتا ہے اور ”رب زدنی علما“ کی دعا بھی مانگتا ہے۔
عرفان کی بھی کوئی انتہا نہیں اس لئے مدارج میں بھی ”ماعرفناک حق معرفتک“ کہتا ہے۔
اسلام کا مقصد زندگی کو کسی ایک صورت میں جامد کرنا نہ تھا بلکہ اسے لامتناہی انقلاب و ارتقا کا راستہ بتانا تھا۔ نبوت کا ایک انداز ختم ہو گیا لیکن ارتقائے حیات ختم نہیں ہوا۔ اسلام کے دین کامل ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اس نے انسانی زندگی کی کوئی آخری صورت معین کر دی بلکہ اس کا کمال یہ ہے کہ اس نے یہ تلقین کی کہ کوئی صورت قابل پرستش نہیں:
”صورت نہ پرستم من“
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی
اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے
اقبال قرآن کریم کو دین کو ایک مکمل کتاب سمجھتا ہے،اکثر مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ فقط قرآن اسلام کیلئے کافی نہیں اور حدیث کے بغیر قرآن کی تکمیل نہیں ہوتی۔
اقبال کا عقیدہ یہ ہے کہ صحیح اور مستند احادیث مقاصد قرآن اور مقاصد اسلام کو واضح کرتی ہیں اور خاص حالات پر اسلامی عقائد کا اطلاق ہیں،لیکن جہاں تک اصول اور اساس اسلام کا تعلق ہے،قرآن سے باہر جانے کی ضرورت نہیں،احادیث کی صداقت و صحت کا معیار بھی قرآن ہی ہے:
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن
قرآن بھی ماہیت حیات اور نفس انسانی کی طرح اپنے اندر لامتناہی زندگی رکھتا ہے،انسانی زندگی کے مزید ارتقا میں کوئی دور ایسا نہیں آ سکتا جس میں قرآنی حقائق کا نیا انکشاف ترقی حیات میں انسان کی رہبری نہ کر سکے۔
زندگی کی نو بہ نو صورتیں پیدا ہوتی جائیں گی لیکن قرآن کے اساسی حقائق کبھی دفتر پارینہ نہ بنیں گے۔
اقبال کے ہاں عذاب و ثواب اور جنت و دوزخ کا تصور بھی عام عقائد سے بہت کچھ الگ ہو گیا ہے،وہ جنت کو مومن کا مقصود نہیں سمجھتا اور نہ ہی اسے ابدی عشرت کا مقام خیال کرتا ہے۔ اس کے نزدیک جنت یا دوزخ مقامی نہیں بلکہ نفسی ہیں:
جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے
دحور و خیام سے گزر بادہ و جام سے گزر