Episode 25 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

پانچواں باب
اسلام… اقبال کی نظر میں
زہد و رندی کی نظم میں اقبال کے متعلق ایک مولوی صاحب نے اس خیال کا اظہار کیا تھا:
اس شخص کی ہم پر تو حقیقت نہیں کھلتی
ہوگا یہ کسی اور ہی اسلام کا بانی
مولوی صاحب کو خدشہ اس سے پیدا ہوا کہ اقبال اپنے مذہبی عقائد کو جس انداز میں بیان کرتا تھا وہ عام راسخ العقیدہ ملاؤں اور فقیہوں کے انداز سے الگ تھا،انداز کا نرالا پن اقبال کے اندر آخر تک قائم رہا،اس انوکھے پن کی وجہ سے وہ شروع ہی میں کہہ رہا تھا:
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں
اقبال کے دینی قد کو چند صفحات میں بیان کرنا دشوار ہے لیکن یہ کوشش لازمی ہے۔
اقبال موحد ہے اور توحید میں کسی قسم کے اشتراک کو گوارا نہیں کرتا۔

(جاری ہے)

مسلمانوں میں بعد میں وحدت وجود اور وحدت شہود کی بحثیں چھڑ گئیں،اقبال کے نزدیک یہ بحثیں دینی بحثیں نہیں بلکہ فلسفیانہ مسائل و مباحث ہیں،اسلام میں توحید کے مقابلے میں فقط شرک ہے،وحدت و کثرت کی بحث اسلامی بحث نہیں اور نہ ہی اشاعرہ اور معتزلہ کے یہ کلامی مباحث اصل اسلام سے کچھ تعلق رکھتے ہیں کہ وحدت ذات کے اندر کثرت صفات الٰہیہ عین ذات ہیں یا غیر ذات۔


اس کے نزدیک خدا ایک نفس کلی یا ایک ”انا“ ہے،انائے کامل و مطلق فقط خدا ہے،اس کی عینی اور اساسی صفت خلاقی ہے،”کل یوم ھو فی شان“ کے معنی اقبال کے نزدیک یہی ہیں کہ اس کی خلاقی مسلسل اور لامتناہی ہے،”کن فیکون“ کی صدا ہر لمحے میں آ رہی ہے۔
انگریزی لیکچروں میں اس نے اس عقیدے کا اظہار کیا ہے کہ خدا اپنی ماہیت میں چونکہ ایک نفس ہے اس لئے وہ نفوس ہی کو خلق کرتا ہے،تمام کائنات نفوس ہی پر مشتمل ہے جو قوت و شعور کے لحاظ سے ارتقا کے مختلف مدارج میں ہیں۔
یہ عقیدہ پہلے مسلمان حکما و صوفیہ میں بھی ملتا ہے،یہ عقیدہ عارف رومی کے اساسی عقائد میں سے ہے،چنانچہ مثنوی کے آغاز ہی میں یہ خیال ملتا ہے کہ کائنات ارواح کا ایک نیستان ہے،ہر روح خدا ہی میں سے الگ ہوئی ہے اور اس کے اندر بے تابی اور فریاد کی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے اصل کی طرف عود کرنا چاہتی ہے،”کل شی یرجع الی اصلہ“:
ہر کسی کو دور ماند از اصل خویش
باز جوید روزگار وصل خویش
اسی وجہ سے تمام موجودات میں ایک جذبہ ارتقا پایا جاتا ہے۔

”انا“ کی سب سے زیادہ ارتقا یافتہ صورت انسان میں ملتی ہے لیکن چونکہ خدا تک واپسی کا راستہ لامتناہی ہے اس لئے انائے انسانی کے ممکنات ارتقا بھی لامحدود ہیں۔
انائے انسانی مخلوق ہے لیکن اس میں ابد قرار ہونے کی صلاحیت موجود ہے۔ اقبال نے عرفان نفس کا نام خودی رکھا ہے جو اس کی اپنی وضع کردہ اصلاح ہے،خودی کا لفظ اقبال سے پہلے انائیت کے معنوں میں نہیں بلکہ انانیت کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا اور یہ معنی مستحسن نہیں بلکہ مذموم تھے۔
جذبہ تخلیق و ارتقا کا نام عشق ہے،سعی تخلیق و ارتقا حرکت کے بغیر ناممکن ہے اس لئے زندگی سراپا حرکت و انقلاب ہے۔
مقصود حیات اور غایت دین انسان کی خودی کو بیدار کرنا اور اس کے جذبہ عشق میں اضافہ کرنا ہے،دنیا ہو یا آخرت،یہ عالم ہو یا وہ عالم،ہر جگہ،ہر حالت اور ہر مقام پر جذبہ عشق اور شوق ارتقا کا پایا جانا لازمی ہے۔
اسلام اسی لئے ایک دین کامل ہے کہ اس کی تعلیم میں انسان پر زندگی کی ماہیت کو واضح کر دیا گیا ہے اور اس کو تکمیل خودی کے سیدھے راستے بتا دیئے گئے ہیں،ان طریقوں کا عرفان جدوجہد ہی سے پیدا ہوتا ہے،قلزم حیات کے کنارے پر بیٹھ کر جو حکمت حقیقت تک پہنچنا چاہتی ہے،اس کو کبھی کامیابی نہیں ہو سکتی اس لئے کہ زندگی حرکت ہے اور سکون سے سمجھ میں نہیں آ سکتی،فقط جدوجہد کرنے والوں کو خدا حقیقت حیات سے آشنا کرتا ہے الذین جاھدا قینا لنھد ینھم سبلنا۔
ساحل افتادہ گفت گرچہ بسے زیستم
ہیچ نہ معلوم شد آہ کہ من کیستم
موجے ز خود رفتہ تیز خرامید و گفت
ہستم اگر می روم گرنہ روم نیستم
تمام احکام شریعت کا مقصود یہی ہے کہ انسان اپنے نفس کو پاکیزہ اور قوی بنائے،جو طریق عمل اس کی وسعت اور قوت میں خارج ہوتے ہیں ان سے اجتناب کی تلقین کرے۔
اسلام پیش کرنے والے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خودی تمام انبیا اور انسانوں کے مقابلے میں زیادہ بیدار اور استوار تھی،اسی لئے ان کی زندگی نوع انسان کیلئے اسوہ حسنہ بن گئی۔
اسلام ایک خالص ترین پیغامات حیات ہے،نہ نبی کی ترقی کی کوئی انتہا ہے اور نہ عام انسانوں کی ترقی کی کوئی آخری حد،ارتقا جاری ہے اور جاری رہے گا،لیکن نبوت کا مقصد حقیقت حیات کو واضح کر دینے کے بعد پورا ہو گیا، ”اکملت لکم دینکم“ کے یہی معنی ہیں۔ اگر قرآن نے واضح طور پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہ بھی کہا ہوتا تو بھی وضاحت مقصود دین کے بعد کسی اور نبی کا آنا تحصیل حاصل ہوتا،اقبال بڑی شدت کے ساتھ ختم نبوت کے قائل تھے،ایک مغربی مفکر نے اقبال کے عقائد پر یہ اعتراض کیا ہے کہ ارتقائے لامتناہی کا قائل ختم نبوت کا کس طرح قائل ہو سکتا ہے؟ جب زندگی ابد الآباد تک نئے اقدار نئے انداز حیات پیدا کر سکتی ہے تو کسی ایک شخص کی تعلیم یا زندگی خاتم کیسے ہو سکتی ہے؟
 دراصل یہ تناقض ایک ظاہری تناقض ہے،اقبال کے ہاں اس کا جواب یہ ہے کہ زندگی کے لامتناہی ارتقا اور اس کے لامحدود ممکنات کو واضح کر دینا ہی نبوت کا منتہیٰ تھا۔
یہ کام پورا ہو گیا تو نبوت بھی لازماً ختم ہو گئی،خود نبی کے انسان کامل ہونے کے بعد یہ معنی نہیں ہیں کہ اس کی اپنی ذات کیلئے کوئی بلند تر درجہ ارتقا باقی نہیں رہا۔ ارتقا کی آخری منزل تو خدا ہے مگر کوئی شخص لامتناہی ارتقا سے بھی خدا نہیں بن سکتا،نہ عمل کی کوئی انتہا ہے اور نہ علم کی اسی لئے نبی مسلسل استغفار بھی کرتا ہے اور ”رب زدنی علما“ کی دعا بھی مانگتا ہے۔
عرفان کی بھی کوئی انتہا نہیں اس لئے مدارج میں بھی ”ماعرفناک حق معرفتک“ کہتا ہے۔
اسلام کا مقصد زندگی کو کسی ایک صورت میں جامد کرنا نہ تھا بلکہ اسے لامتناہی انقلاب و ارتقا کا راستہ بتانا تھا۔ نبوت کا ایک انداز ختم ہو گیا لیکن ارتقائے حیات ختم نہیں ہوا۔ اسلام کے دین کامل ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اس نے انسانی زندگی کی کوئی آخری صورت معین کر دی بلکہ اس کا کمال یہ ہے کہ اس نے یہ تلقین کی کہ کوئی صورت قابل پرستش نہیں:
”صورت نہ پرستم من“
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی
اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے
اقبال قرآن کریم کو دین کو ایک مکمل کتاب سمجھتا ہے،اکثر مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ فقط قرآن اسلام کیلئے کافی نہیں اور حدیث کے بغیر قرآن کی تکمیل نہیں ہوتی۔
اقبال کا عقیدہ یہ ہے کہ صحیح اور مستند احادیث مقاصد قرآن اور مقاصد اسلام کو واضح کرتی ہیں اور خاص حالات پر اسلامی عقائد کا اطلاق ہیں،لیکن جہاں تک اصول اور اساس اسلام کا تعلق ہے،قرآن سے باہر جانے کی ضرورت نہیں،احادیث کی صداقت و صحت کا معیار بھی قرآن ہی ہے:
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن
قرآن بھی ماہیت حیات اور نفس انسانی کی طرح اپنے اندر لامتناہی زندگی رکھتا ہے،انسانی زندگی کے مزید ارتقا میں کوئی دور ایسا نہیں آ سکتا جس میں قرآنی حقائق کا نیا انکشاف ترقی حیات میں انسان کی رہبری نہ کر سکے۔
زندگی کی نو بہ نو صورتیں پیدا ہوتی جائیں گی لیکن قرآن کے اساسی حقائق کبھی دفتر پارینہ نہ بنیں گے۔
اقبال کے ہاں عذاب و ثواب اور جنت و دوزخ کا تصور بھی عام عقائد سے بہت کچھ الگ ہو گیا ہے،وہ جنت کو مومن کا مقصود نہیں سمجھتا اور نہ ہی اسے ابدی عشرت کا مقام خیال کرتا ہے۔ اس کے نزدیک جنت یا دوزخ مقامی نہیں بلکہ نفسی ہیں:
جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے
دحور و خیام سے گزر بادہ و جام سے گزر

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط