اقبال کا عقیدہ یہ ہے کہ جہاں حرکت و ارتقا اور مسلسل خلاقی نہیں وہاں زندگی کا فقدان ہے،جنت اگر جزائے اعمال حسنہ ہو تو وہ اس کیفیت نفس کا نام ہونا چاہئے جہاں عرفان خودی،استحکام خودی اور عشق خلاق ترقی یافتہ صورتوں میں پایا جائے،دوزخ خودی کے سوخت ہو جانے کا نام ہے اس لئے نار دوزخ کی ماہیت کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں واضح کیا ہے کہ وہ ایک آگ ہے جس کے شعلے کسی خارجی ایندھن سے نہیں بلکہ قلب انسانی میں سے بلند ہوتے ہیں۔
”تطلع علی الافندة“
بقائے روح کی نسبت علامہ اقبال کا خیال تھا یہ بقا غیر مشروط نہیں،جسمانی موت کے بعد روح کا باقی رہنا یا نہ رہنا یا اس کا کسی ایک مخصوص حالت میں رہنا انسان کی خودی پر موقوف ہے۔ اگر کسی شخص نے صحیح علم و عمل سے اپنی خودی کو استوار نہیں کیا تو اس کا امکان ہے کہ وہ فنا ہو جائے اور اگر اچھی زندگی سے اس نے اپنی روح کو قوی بنا لیا ہے تو وہ باقی رہے گی۔
(جاری ہے)
کچھ اسی قسم کے خیال کی طرف مثنوی مولانا روم میں بھی ایک اشارہ ملتا ہے،وہاں بحث یہ ہے کہ ”کل شیی ھالک الا وجہہ“ اور ”کل من علیہا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام“ اگر درست ہے تو انسانوں کے انفرادی نفسوس کا باقی رہنا کس طرح ممکن ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب عارف رومی یہ دیتے ہیں۔ ”کل شی ھالک کے بعد الاوجہہ“ موجود ہے لہٰذا انسان کی بقا اسی حالت میں ممکن ہو سکتی ہے کہ وہ وجہ الٰہی یعنی صفات ذات الٰہی میں داخل ہو کر اپنی زندگی کو قائم رکھے،صحیح زندگی بسر کرنا وجہ الٰہی میں داخل ہو کر زندہ رہنا ہے،خواہ وہ اس عالم میں ہو یا کسی اور عالم میں۔
خدا سے باہر رہ کر کوئی زندگی نہیں ہو سکتی اور خدا کے اندر رہ کر زندگی ہی زندگی ہے۔ روح انسانی بقائے ذات الٰہی سے بہرہ اندوز ہو سکتی ہے لیکن یہ عشق الٰہی ہی کی بدولت ہو سکتا ہے۔ اقبال بھی کہتا ہے کہ عشق سے انسان اپنی روح کو قوی اور پائیدار کرتا ہے،اگر اس نے ایسا نہ کیا تو وہ فنا ہو جائے گا:
بمیری گر بہ تن جانے نداری
وگر جانے بہ تن داری نہ میری
اسی عقیدے کے مطابق مرض الموت کے آخری ایام میں فرمایا کرتے تھے کہ میں معالجے سے جسمانی صحت کی درستی میں اس لئے کوشاں ہوں کہ مجھے خدشہ ہے کہ جسمانی اضمحلال اور اختلال میری خودی کو کمزور نہ کر دے اور اس جسم کو چھوڑتے ہوئے میرا ”انا“ ضعیف نہ ہو،میں دوسرے عالم میں ایک قوی ”انا“ کے ساتھ داخل ہونا چاہتا ہوں۔
یہ بھی فرماتے تھے کہ اس عالم اور دوسرے عالم کے درمیان ایک برزخ ہے لیکن اس برزخ کی وسعت بھی مختلف انسانوں کیلئے مختلف ہوتی ہے،شہدا کیلئے کوئی بزرخ نہیں وہ براہ راست ایک برتر عالم میں داخل ہو جاتے ہیں۔
جنت کی طرح دوزخ کو بھی اقبال ایک نفسی کیفیت سمجھتا ہے،دوزخ کی آگ نفس ہی کی آگ ہے،اس عقیدے کے بیان میں یہ اشعار ملتے ہیں۔
دور جنت سے آنکھ نے دیکھا
ایک تاریک خانہ، سرد و خموش،
طالع قیس و گیسوے لیلیٰ
اس کی تاریکیوں سے دوش بدوش
خنک ایسا کہ جس سے شرما کر
کرہ زمہریر ہو روپوش
میں نے پوچھی جو کیفیت اس کی
حیرت انگیز تھا جواب سروش
یہ مقام خنک جہنم ہے
نار سے نور سے تہی آغوش
شعلے ہوتے ہیں مستعار اس کے
جن سے لرزاں ہیں مرد عبرت کوش
اہل دنیا یہاں جو آتے ہیں
اپنے انگار ساتھ لاتے ہیں
اقبال کی تعلیم میں وقار آدم اور عروج آدم کا نظریہ ایک مرکزی عقیدہ ہے۔
اقبال نے اس عقیدے پر افتخار و تاثرات کی ایک عظیم الشان عمارت کھڑی کی ہے اور انسانی زندگی کے ممکنات اور تسخیر حیات کو اسلامی تعلیم کی اساس قرار دیا ہے۔ اسلام نے انسان کے اندر اعتماد نفس پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ اپنے تئیں نائب الٰہی سمجھ کر فطرت پر حکمرانی کرے اور فطرت کے عناصر اور اس کی قوتوں سے مرعوب ہونے کی بجائے ان کو بلا استثنا قابل تسخیر سمجھے اس قوت تسخیر میں اضافہ اقبال کے ہاں استحکام خودی کی تلقین بن گیا ہے،اسلام میں توحید کا عقیدہ اور وقار انسانی ایک دوسرے سے وابستہ ہیں،نہ کوئی فطرت کی قوت انسان کی معبود ہو سکتی ہے اور نہ کوئی ایک انسان دوسرے انسانوں کا معبود بن سکتا ہے،انسان کے اوپر خدا کے سوا کچھ نہیں،”لا غالب الا اللہ“۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق علامہ اقبال کے زاویہ نگاہ کی طرف اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے۔ احادیث کے بارے میں افراط اور تفریط نے مسلمانوں کے دو گروہ بنا دیئے ہیں،ان دونوں گروہوں کے عقائد میں اعتدال مفقود ہے،ایک گروہ علی الاعلان اس کا مدعی ہے کہ حدیث قرآن کا ایک لازمی تکملہ ہے،تمام اسلام کو محض قرآن میں سے اخذ نہیں کر سکتے،اس گروہ میں سے بعض افراد نے یہاں تک غلو کیا ہے کہ بعض احادیث کو نصوص قرآنی کا ناسخ بتاتے ہیں،اس لحاظ سے حدیث قرآن کے مقابلے میں زیادہ مستند ہو جاتی ہے۔
ایک دوسرا گروہ،جو مقابلتاً قلیل ہے،اپنے آپ کو اہل قرآن کہتا ہے اور احادیث کے تمام مجموعے کو نہ صرف ناقابل اعتبار سمجھتا ہے بلکہ مخرب اسلام قرار دیتا ہے۔ علامہ اقبال اس بارے میں نہایت معقول رائے رکھتے تھے،ان کے نزدیک اساسی اور ابدی اسلام قرآن میں موجود ہے اور قرآن کریم کا یہ دعویٰ اس میں تمام باتوں کی تبیین اور تفصیل ہے،ان کے نزدیک بالکل برحق ہے،اس سے زندگی کی جزئی تفصیلات مراد نہیں ہو سکتیں اس لئے کہ زندگی کی تفصیلات اس کے تغیرات اور تنوع کی وجہ سے لامتناہی اور ناقابل احصار ہیں۔
قرآن کریم جن تفصیلات پر حاوی اور اپنی تعلیمات کے لحاظ سے جامع اور مانع ہے وہ زندگی کے ان بنیادی اصولوں کی تفصیلات ہیں جو قوانین فطرت کی طرح ناقابل تغیر اور اٹل ہیں۔ قرآن کریم نے خود وضاحت سے اپنے آپ کو قوانین فطرت اور قوانین حیات انسانی کا آئینہ بنایا ہے اور دین قیم اسی دین کو بتایا ہے جس کے متعلق ”لاتبدیل لحلق اللہ“ اور ”لن تجد لسنتہ اللہ تبدیلا“ کہہ سکیں۔
ملت اسلامیہ میں حامیان دین کے دو گروہ عرصہ دراز سے چلے آتے ہیں،ایک کو ملا اور دوسرے کو صوفی کہتے ہیں،ملا کا گروہ وہی ہے جسے شیخ کا لقب دے کر شعراء اور متصوفین نے بہت کچھ برا بھلا کہا ہے۔ اقبال ان دونوں طبقوں سے بیزار تھے،انہیں تخریب اسلام کا ذمہ دار قرار دیتے تھے۔ ملا پر یہ طعن تشنیع دو اطراف سے شروع ہوئی،ایک تو اہل دل اور اہل باطن کی طرف سے،جنہوں نے دیکھا کہ فقہا اور علم برداران دین کا ایک بڑا حصہ ایسے افراد پر مشتمل ہے جن کی زندگی میں دین کے کچھ ظواہر تو ملتے ہیں لیکن ہیں بھی ظاہر کی تہہ میں تزکیہ اور بصیرت قلب نظر نہیں آتی،یہی طبقہ فروعات کے متعلق ایک دوسرے سے برسر پیکار اور دست و گریبان رہتا ہے،چھوٹے چھوٹے اختلافات پر ایک نیا فرقہ بن جاتا ہے جو اس فرقے سے باہر خدا کے نیک بندوں کی تکفیر کو باعث نجات سمجھتا ہے،ایسے اخلاق والے لوگ بھلا عامتہ الناس کی کیا اصلاح کریں گے؟ ”او خویشتن گم است کرا رہبری کند“ ان لوگوں کے پاس دین کا چھلکا ہوتا ہے جو ان کی خوراک بن جاتا ہے لیکن اس پر چھلکے کے اندر کے گودے سے ان کا کام و دہن آشنا نہیں ہوتا:
جنگ ہفتاد و دو ملت ہمہ را عذر بنہ
چوں نہ دیدند حقیقت رہ افسانہ زوند(حافظ)
ہفتاد و دو طریق حسد کے عدد سے ہیں
اپنا ہے یہ طریق کہ باہر حسد سے ہیں(ذوق)