Episode 27 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 27 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

حقیقت شناس اہل دل کے علاوہ ایک دوسرا گروہ بھی موقع دیکھ کر اور صوفیہ کے کلام سے شہ پاکر علمائے ظاہر کے خلاف پھبتیاں کسنے لگا،یہ رندوں کا گروہ تھا جو دین کے ظاہر اور باطن دونوں سے بری ہونا چاہتا تھا۔ اس گروہ نے ملا یا شیخ کو ہدف ظرافت بنا لیا،ان کے علاوہ مسلمانوں میں ایک قلیل تعداد حکماء کی تھی جو ملا سے اس لئے بیزار تھے کہ وہ شعائر اسلام،احکام شریعت اور عقائد دینیہ کی حکمت سے ناآشنا ہے اور اسی لئے اس کے اقوال و اعمال تمام تر تقلیدی ہوتے ہیں،حیات و کائنات کے کچھ حقائق کا انکشاف عقل سے ہوتا ہے اور کچھ اسرار حیات ایسے ہیں جو عشق کی بدولت منکشف ہوتے ہیں،ملا نے حکمت کو بھی دین سے خارج کر دیا اور محبت خدا و خلق سے بھی بیگانہ رہا۔

تصوف کے سلسلے مسلمانوں میں ظاہر پرستوں کے ردعمل کے طور پر شروع ہوئے تاکہ لوگوں کو ظاہر سے باطن کی طرف متوجہ کیا جائے اور دین کو مرد مومن کیلئے ایک ذاتی تجربہ حیات بنایا جائے تاکہ لوگ محض مقلدانہ طور پر دین کی حقیقت کو تسلیم نہ کریں لیکن جس طرح فقہ میں جمود اور تقلید نے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کو جامد اور بے روح بنا دیا تھا،اسی طرح تصوف میں غیر اسلامی عناصر نے دخل پاکر اسلامی زاویہ نگاہ کو خراب کیا اور رفتہ رفتہ تصوف جو تحقیق سے شروع ہوا تھا،خود ایک دوسری قسم کی تقلید بن گیا اور تصوف کے سلسلے بھی جامد ہو گئے،دونوں طبقوں نے دین کو دنیاوی منافع اور مفاد حاصل کرنے کیلئے دام تزویر بنا لیا۔

(جاری ہے)

ملا کہلانے والا طبقہ تو در حقیقت قابل رحم ہے،ایک طرف حکومت یا دولت والوں کی طرف سے اس کی کوئی سرپرستی نہیں اور دوسری طرف بے چارے ملا کی تعلیم نہایت محدود ہوتی ہے،مفلسی اور کم علمی کی وجہ سے وہ سوسائٹی میں بے حیثیت ہو گیا ہے،اس سے مسجد کی صفائی اور مردہ شوئی کا کام لیا جاتا ہے،حقوق و فرائض کے متعلق اس کا علم بہت خام ہوتا ہے،کئی اسباب اس کی ذہنی اور اخلاقی پستی کے ذمہ دار ہیں،فیضی اس کے متعلق کہتا ہے:
مشاجرات فرائض کہ کس نخوانادش
زمن مجوے کہ ایں علم مردہ شویان است
اچھی معیشت اور اچھے گھرانوں کے لوگ اپنے بیٹوں کو ملا بنانا نہیں چاہتے اس لئے کہ ملا کیلئے نہ عزت کی روزی ہے اور نہ سوسائٹی میں وقار،یہ لوگ زیادہ تر ایسے ہی طبقوں سے آتے ہیں جن میں تعلیم و تربیت نہیں اور خود داری پیدا کرنے والی دنیاوی جاہت نہیں،پھر وہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ ان بے چاروں سے لوگ بلند خیالی اور بلند حوصلگی کی توقع رکھتے ہیں اور جب وہ توقع پوری نہیں ہوتی تو ان کو متہم کرکے ان پر فقرے کسنے لگتے ہیں۔
جب تک حکومت اور ملت علوم دینیہ میں زندگی وقف کرنے والوں کیلئے باوقار روزگار اور اجتماعی وقار کا بندوبست نہ کرے تب تک ان کی حالت ایسی ہی ناگفتہ بہ رہے گی۔
کچھ ہوشیار ملا ایسے بھی ہیں جنہوں نے دنیا طلبی کیلئے سیاسی لیڈری شروع کر دی ہے،اس طریقے سے روزگار کا بھی اچھا بندوبست ہو جاتا ہے اور سوسائٹی میں بھی چرچا ہوتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے یہ افراد سیاست میں دخل انداز ہوتے ہیں ویسے ویسے رہا سہا دین بھی ان کے ہاتھوں سے نکل جاتا ہے،کسی صحت مندانہ سیاست کی ان سے توقع نہیں ہو سکتی کیونکہ جتنے یہ دین سے بے بہرہ ہوتے ہیں اس سے زیادہ معاشرتی اور سیاسی مسائل سے ناآشنا ہوتے ہیں،صدیوں پہلے ابن خلدون نے ان کے متعلق فتویٰ دیا تھا کہ (العلماء ابعد الناس عن السیاستہ)۔
موجودہ دنیا میں سیاست ایک بڑی پیچدار چیز بن گئی ہے،معاشیات کے پیچ در پیچ مسائل اس کے ساتھ الجھے ہوئے ہیں،اسلامی بنا پر سیاست اور معیشت میں قابل عمل مشورہ دینے کیلئے علوم جدیدہ اور حالات حاضرہ سے گہری واقفیت درکار ہے جو اس گروہ میں نہیں پائی جاتی،ملت اسلامیہ کی خرابی یہ ہے کہ اہل سیاست دین سے بیگانہ ہیں اور مدعیان دین سیاست کے ابجد سے واقف نہیں۔
ملا کے علاوہ ہمارے ہاں کے صوفی ہیں جنہیں لوگ پیر کہتے ہیں۔ پیر کا سلسلہ اکثر کسی اہل دل سے شروع ہوتا ہے جو تزکیہ باطن اور بصیرت روحانی کی بدولت مرجع خلائق بن جاتا ہے،ایسے شخص میں عشق الٰہی،اصلاح ذات اور فلاح خلق کے سوا اور کوئی جذبہ یا محرک نہیں ہوتا،وہ انبیاء کی طرح لوگوں سے کسی اجرت کا طالب نہیں ہوتا،اس مرد خدا کے گزر جانے کے بعد اس کی اولاد اس کی جانشین ہو جاتی ہے اور سجادہ نشینی ایک قسم کی جاگیرداری بن جاتی ہے،عقیدت مند نقدی اور نذرانے بھی پیش کرتے ہیں،جو رفتہ رفتہ ایک مستقل ٹیکس کی صورت اختیار کر لیتے ہیں،زمینوں کے عطیے سے اوقاف قائم ہو جاتے ہیں،پھر کسی طرح سے یہ اوقاف پیروں کی ذاتی ملکیت بن جاتے ہیں،یہاں تک کہ سجادہ نشین صاحب جاگیر ہو جاتا ہے اور سرمایہ داروں کی سی زندگی بسر کرنے لگتا ہے،جہالت کی وجہ سے معتقدین کے اعتقاد میں کچھ خلل نہیں آتا،رفتہ رفتہ ہر شخص (الا باستثنائے مردے چند) جس کو پیری ورثے میں ملی ہے اس کو زمینداری اور امیری بھی ورثے میں مل جاتی ہے،حکومت کی طرف سے بڑے بڑے خطابات ہوتے ہیں،پھر کونسلوں میں داخل ہو کر پیری کے بعد وزیری کے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔
اقبال کے دل میں یہ تڑپ تھی کہ مسلمانوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیلئے ایک طبقہ پیدا ہو لیکن اس اہم فریضے کیلئے اہل دل اور اہل علم ہونے کی ضرورت ہے اور زبردست جذبہٴ ایثار اس کیلئے لازم ہے۔ جب وہ دیکھتا تھا کہ عوام کو دین کی خبر نہیں (اگرچہ اس بے خبری کے باوجود ان کے خلاق خواص سے کچھ بہتر ہی ہوتے ہیں) اور حامیان شرع متین،ملا اور صوفی کا یہ حال ہے تو بعض اوقات مایوسی میں یہ پکار اٹھتا تھا کہ اے خدا اس ملت کو دنیا سے اٹھا لے اور حسب وعدہ کوئی اور ملت اسلام کی خدمت کیلئے پیدا کر:
کہ ایں ملت جہان را بار دوش است
اقبال نے ملا کی نسبت عام شاعروں کی طرح فقط لطیفہ بازی نہیں کی،اس نے جو کچھ کہا ہے وہ بر بنائے بصیرت اور بربنائے تجزبہ کہا ہے،اس کا انداز ظریفانہ نہیں بلکہ اس کی تہہ میں درد و رنج ہے،اکثر اشعار میں ملا پر جو اعتراض کیا ہے اس کی وجہ بھی بتائی ہے۔
ملا میں روا داری نہیں ہوتی:
کوئی یہ پوچھے کہ واعظ کا کیا بگڑتا ہے
جو بے عمل پہ بھی رحمت وہ بے نیاز کرے
ملا کے خدا کا تصور بھی ادنیٰ تشبیہی اور مکانی تصور ہے:
بٹھا کے عرش پر رکھا ہے تو نے اے واعظ
خدا وہ کیا ہے جو بندوں سے احتراز کرے
بھلا نبھے گی تری ہم سے کیوں کر اے واعظ
کہ ہم تو رسم محبت کو عام کرتے ہیں
اسلام کا خدا رب العالمین اور اس کا نبی رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ہے،تنگ نظری نے خدا کو صرف رب المسلمین اور نبی کو صرف رحمتہ للمسلمین بنا دیا اور یہ رحمت بھی تمام مسلموں کیلئے نہیں بلکہ اپنے فرقے کے چند افراد کیلئے ہے بشرطیکہ وہ تمام فروع میں آپ کے ہم خیال اور ہم نوا ہوں۔
اسلام کا تقاضہ یہ تھا کہ رسم محبت کو عام کیا جائے اور عدل و رحم کو صرف اپنے گروہ تک محدود نہ رکھا جائے،تنگ نظر علماء نے محبت کو عام کرنے کی بجائے نفرت کو عالمگیر بنا دیا اس لئے کہ خلق خدا کی کثیر تعداد تو کسی ایک ملت اور ایک فرقے سے خارج ہی ہوتی ہے،نفرت اور تکفیر کا بازار گرم ہو گیا،جو تم سے پوری طرح متفق نہیں اس کے ساتھ مل کر نماز بھی نہ پڑھو،جو فلاں امام کے پیچھے نماز پڑھے گا اس کی بیوی پر طلاق عائد ہو جائے گی،مسجدوں میں اس مضمون کے بورڈ لگنے شروع ہو گئے کہ مسلمانوں کے فلاں فلاح فرقوں کے افراد کیلئے اس مسجد میں نماز پڑھنا ممنوع ہے (ایک بڑی مسجد میں اس قسم کا بورڈ راقم الحروف نے طالب علمی کے زمانے میں دیکھا ہے) بلند آواز سے آمین کہنے پر لوگ مسجدوں میں ہی پٹ گئے اور اس کے بعد مسجد کو غسل دیا گیا کہ بلندی آمین کی ناپاکی رفع ہو جائے؟ مسلمان غیر مسلموں سے تو کسی قدر روا داری برتنے بھی لگے لیکن اپنی ملت کے اندر تشدد میں اضافہ کرتے گئے،نئے متنبی اور مجدد ایسے نکلے کہ ملت کے اندر اتحاد کو ترقی دینے کی بجائے افتراق کی آگ کو ہوا دینے لگے،جو ان کے دعوؤں کو نہ مانے وہ خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے کے باوجود کافر یا کم از کم یہ کہ اس سے معاشرتی تعلقات منقطع کر لئے جائیں،رشتہ ناطہ بند،نماز میں شرکت ممنوع اور یہ سب کوشش احیائے ملت اور تجدید دین کے نام پر۔
اگر اسلام دیگر مذاہب کے مقابلے میں رسم محبت کو عام کرنے کا نام نہیں ہے تو پھر اس میں اور کونسی فضیلت باقی رہ جاتی ہے۔
ایک شعر میں اقبال نے کہا ہے کہ محبت کی فراوانی اور جہانگیری ہی کا نام اسلام ہے،اسلام نے تو عملاً روا داری کو ترقی دینے کیلئے یہاں تک اجازت دے دی تھی کہ ایک اہل کتاب عورت تمہاری اولاد ماں کی ہو سکتی ہے اور اس کی خدمت مسلمان اولاد کیلئے ویسی ہی فرض ہے جیسی کہ اس ماں کے مسلمان ہونے کی حالت میں ہوتی،لیکن ملائی اسلام نے اس دین کو اتنا تنگ کر دیا کہ فقہی اور فروعی اختلافات کی بنا پر ایک دوسرے کے ہاں کھانا پینا،خدا کی عبادت کرنا اور بیاہ شادی ممنوع و مقطوع ہو گئی۔
جن مکتبوں میں ایسی تعلیم دی جاتی ہے ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ ایسی تنگ نظری میں رعنائی افکار کہاں سے آئے گی؟ عجیب بات یہ ہے کہ یہ روا داری خانقاہوں سے بھی مفقود ہو گئی ہے حالانکہ یہی خانقاہیں اچھے زمانوں میں گبر و نصاریٰ اور یہود و ہنود کیلئے بھی کشش کا باعث تھیں،کثرت سے غیر مسلم صوفیہ کی روا داری اور حسن سلوک ہی کی وجہ سے اسلام میں داخل ہوئے:
مکتبوں میں کہیں رعنائی افکار بھی ہے؟
خانقاہوں میں کہیں لذت اسرار بھی ہے؟
پیروں کے ہاں اب قوالی تو ہوتی ہے لیکن وہاں خود انگیختہ وجد و حال کی تہہ میں کہیں پائیدار روحانی عشق کا جذبہ نہیں ابھرتا جو قلب کو گرما دے اور روح کو تڑپا دے،خانقاہوں میں اب کرامات کا بیان بیچا جاتا ہے اور یہ کرامات جن کا حقیقی روحانیت سے کوئی واسطہ نہیں روحانیت کا معیار بن گئی ہیں،ملا بیچارہ ظاہر پرستی سے بے عرفان اور محروم عشق رہ گیا اور صوفی کی باطنیت فقط ہو حق اور کرامات کا افسانہ بن گئی:
رہا نہ حلقہ صوفی میں سوز مشتاقی
فسانہ ہائے کرامات رہ گئے باقی
کرے گی داور محشر کو شرمسار اک روز
کتاب صوفی و ملا کی سادہ اوراقی

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط