اقبال صرف صوفی اور ملا ہی سے بیزار نہیں وہ ان فلاسفہ سے بھی کچھ توقع نہیں رکھتا جو فقط عقل جزوی اور استدلال کی بنا پر حقیقت رس ہونے کے مدعی ہیں،ایسے فلسفے سے دماغ کی ورزش تو ہو جاتی ہے لیکن دل محبت اور بصیرت سے بیگانہ ہو کر مردہ ہو جاتا ہے:
نہ فلسفی سے نہ ملا سے ہے غرض مجھ کو
یہ دل کی موت وہ اندیشہ و نظر کا فساد
اقبال کے نزدیک اسلام سراپا حرکت ہے اور ہمہ سمتی جدوجہد کا نام ہے،حفاظت دین اور حمایت حق میں تلوار اٹھانا اس جہاد کا فقط ایک ہنگامی پہلو ہے۔
ہمارے فقہا اور حامیان دین کیلئے کوئی اچھا میدان عمل باقی نہ رہا،نہایت دور از کار باتوں پر معرکہ آرائی شروع کر دی اور مختلف گروہوں کو آپس میں لڑانا ان کیلئے جہاد کا بدل بن گیا:
میں جانتا ہوں انجام اس کا
جس معرکے میں ملا ہوں غازی
دین کے مدعی ایسے ہی لغو معرکوں میں حریفوں کو شکست دے کر غازی بن بیٹھے۔
(جاری ہے)
تصوف کی بابت اقبال نے اپنے انگریزی خطبات میں بھی یہ بات کہی ہے کہ روحانی وجدان حاصل کرنے کیلئے صوفیوں کے قدیم سلسلے کارآمد نہیں رہے:
تیری طبیعت ہے اور، تیرا زمانہ ہے اور
تیرے موافق نہیں خانقہی سلسلہ
دور حاضر کے انسانوں کے نفسیات میں بہت کچھ تبدیلی واقع ہوئی ہے،اب روحانی ترقی کے حصول کیلئے پرانے طریقوں کے افکار اور صوفیانہ مشقیں کار آمد نہیں ہیں:
تھا جہاں مدرسہ شیری و شا ہنشاہی
آج ان خانقہوں میں ہے فقط روباہی
اقبال کو یقین تھا کہ اس شمشیر برہنہ تنقید کی وجہ سے تمام فقہا ان کے مخالف ہو جائیں گے لیکن یہ صورتحال پیدا نہ ہوئی،اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے جو کچھ کہا وہ شعر میں کہا اور مسلمانوں کی ذہنی روایات میں عرصہ دراز سے یہ بات داخل ہو گئی ہے کہ شعر میں جو کچھ کہا جائے وہ معاف ہے۔
رندی و ہوس ناکی ہو یا کفر،یا عناں گسیخنہ آزاد خیالی اور بے راہ روی،اگر اس کا بیان شعر میں ہو تو مسلمان اسے شیر مادر کی طرح پی جاتا ہے لیکن وہی بات اگر نثر میں کہی جائے تو پھر جان و آبرو کی خیریت نہیں،خوش قسمتی سے اقبال کی یہ توقع کہ:
یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کیلئے
کہ یک زباں ہیں فقیہان شہر میرے خلاف
پوری نہ ہوئی۔
ہاں اگر فقہ و تفسیر و حدیث پر نثر میں کچھ لکھتے تو سید احمد خاں سے کہیں زیادہ ہدف ملامت بنتے،نثر میں لکھنے کے ارادے ہی کرتے رہے لیکن یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوا،ملت اسلامیہ کی تشکیل نو کے متعلق خطبات انگریزی میں لکھے اور وہ بھی ایسے فلسفے کی زبان میں جو ملا تو درکنار اعلیٰ انگریزی داں طبقے کیلئے بھی آسانی سے قابل فہم نہیں۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی ان کو اُردو زبان میں منتقل کرے کیوں کہ ان کو خطرہ تھا کہ بغیر تشریح و توضیح ان سے شدید غلط فہمی پیدا ہو گی:
میں جانتا ہوں جماعت کا حشر کیا ہوگا
مسائل نظری میں الجھ گیا ہے خطیب
اس شعر میں یہ شکایت ہے کہ زندگی کے حقیقی مسائل عملی ہوتے ہیں اور خیر و شر کا معیار بھی عمل ہی سے قائم ہوتا ہے لیکن جب کسی قوم کی قوت عمل میں ضعف آ جاتا ہے تو فقہا،خطیب اور حکما نظری بحثوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔
ملا میں لفظی اور فروعی بحث و تکرار کا شوق اس قدر غالب ہے کہ اگر وہ یہی سیرت لے کہ جنت میں بھی داخل ہوا تو اس کو اس دارالسلام میں بھی کچھ لطف نہ آئے گا،وہاں صلح و سکون کی فضا میں بحث و تکرار کی گنجائش نہیں اور مذاق فتنہ کیلئے تسکین کا سامان نہیں:
ملا اور بہشت
میں بھی حاضر تھا وہاں ضبط سخن کر نہ سکا
حق سے جب حضرت ملا کو ملا حکم بہشت
عرض کی میں نے الٰہی مری تقصیر معاف
خوف نہ آئیں گے اسے حور و شراب و لب کشت
نہیں فردوس مقام جدل و قال و اقوال
بحث و تکرار اس اللہ کے بندے کی سرشت
ہے بد آموزی اقوام و ملل کام اس کا
اور جنت میں نہ مسجد نہ کلیسا نہ کنشت
اقبال کو اس کا افسوس ہے کہ متصوفین نے تصوف کو خراب یا،شریعت کے حامیوں نے اس کی وسعت،اس کی حکمت اور اس کے جمال کو مسخ کیا اور متکلمین کے علم کلام نے اسلام کو عجمی اور یونائی افکار کا گورکھ دھندا بنا دیا،اب یہ حال ہے کہ ہر ایک سند کیلئے پرانی لکیریں ڈھونڈتا ہے:
”خیال زلف بتاں میں نصیر پیٹا کر
گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر“
علم و عشق دونوں غائب ہیں اور ملت میں فقط روایت پرستی رہ گئی ہے:
تمدن تصوف شریعت کلام
بتان عجم کے پجاری تمام
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
لبھاتا ہے دل کو کلام خطیب
مگر لذت شوق سے بے نصیب
بیاں اس کا منطق سے سلجھا ہوا
لغت کے بکھیڑوں میں الجھا ہوا
وہ صوفی کہ تھا خدمت حق میں مرد
محبت میں یکتا حمیت میں فرد
عجم کے خیالات میں کھو گیا
یہ سالک مقامات میں کھو گیا
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
اب تسبیح و مناجات میں بھی روح باقی نہیں رہی،تسبیح کی دانہ شماری ایک میکانکی فعل بن گیا،ایران،عربی ممالک اور ترکی میں یہ رواج عام ہے کہ ہر کس و ناکس کے ہاتھ میں تسبیح ہوتی ہے،دنیا داری کی لغو باتیں ہو رہی ہیں لیکن ہاتھ میں تسبیح گردانی جاری ہے۔
میں نے ان ممالک میں کئی مرتبہ لوگ سے پوچھا کہ تم اس تسبیح میں کیا ذکر یا ورد کر رہے ہو؟ ہمیشہ جواب یہی ملا کہ یوں ہی عادت ہو گئی ہے،ہم پڑھتے کچھ نہیں،معلوم ہوا کہ جمادات و نباتات کی طرح ایک غیر شعوری حرکت ہے:
یا وسعت افلاک میں تکبیر مسلسل
یا خاک کے آغوش میں تسبیح و مناجات
یہ مذہب ملا و جمادات و نباتات
وہ مذہب مردان خود آگاہ و خدا مست
جن طرہ باز،خطاب یافتہ،جاگیردار پیروں کا اوپر ذکر ہو چکا ہے،وہ پنجاب میں کافی تعداد میں ملتے ہیں۔
اگرچہ ان کا جو زور شور سندھ میں ہے وہ شاید کہیں اور نہیں۔ بنگال میں بھی پیروں کا کافی دور دورہ ہے لیکن غالباً وہاں ان کو زیادہ امیری اور جاگیرداری میسر نہیں آئی۔ اقبال کو پنجاب کا تجربہ تھا اس لئے یہاں کی پیری کے متعلق ایک مستقل نظم لکھ دی ہے:
پنجاب کے پیر زادوں سے
حاضر ہوا میں شیخ مجدد کی لحد پر
وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلع انوار
اس خاک کے ذروں سے ہیں شرمندہ ستارے
اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحب اسرار
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفس گرم میں ہے گرمی احرار
وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہبان
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار
کی عرض یہ میں نے کہ عطا فقر ہو مجھ کو
آنکھیں میری بینا ہیں و لیکن نہیں بیدار
آئی یہ صدا سلسلہ فقر ہوا بند
ہیں اہل نظر کشور پنجاب سے بیزار
عارف کا ٹھکانا نہیں وہ خطہ کہ جس میں
پیدا کلہٴ فقر سے ہو طرہ دستار
باقی کلہٴ فقر سے تھا و لولہ حق
طروں نے چڑھایا نشہ خدمت سرکار