اسلام کی نسبت علامہ اقبال کے افکار حکیمانہ ہیں۔ انگریزی خطبات میں بھی اور اشعار میں بھی جابجا یہ زاویہ نگاہ ملتا ہے کہ اسلام ماہیت حیات و کائنات کے عرفان اور اس کے مطابق زنگی کے رحجان اور میلان کا نام ہے۔ جس طرح طبیعیات کے قوانین بلا امتیاز مذہب و ملت سب پر مساوی عمل کرتے ہیں،اسی طرح اخلاقیات اور روحانیت کے آئین بھی عالم گیر ہیں۔
اسلام کسی ایک قبیلے کسی ایک قوم یا کسی ایک ملک کا مذہب نہیں۔
ریاضیات کی طرح اس کی صداقتیں بھی کائنات کے ہر شعبے پر حاوی ہیں۔ قرآن کریم نے اسلام کے عالم گیر ہونے کو جابجا بیان کیا ہے۔ جب وہ ”فطرت اللّٰہ التی فطر الناس علیہا“ کہہ کر اس کو دین قیم قرار دیتا ہے تو وہ انسانوں کے کسی مخصوص گروہ کا ذکر نہیں کرتا۔ وہ اسے تمام نوع انسان کا دین قرار دیتا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر اسلام کائنات بھر کا دین ہے۔
(جاری ہے)
”یسبح للہ مافی السموات و ما فی الارض“ کائنات میں ہر شے کی تسبیح خوانی اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان سے باہر لامتناہی کائنات کا بھی ایک دین اور یہ دین بھی مشیت و آئین الٰہی کی پابندی ہے۔ از روئے قرآن اطاعت طوعاً بھی ہوتی ہے اور کرہاً بھی۔
عبادت اختیار سے بھی ہو سکتی ہے اور جبر سے بھی۔ اسلام سے قبل مختلف ادیان نے جنت اور نجات کو اپنے لئے مخصوص کر لیا تھا اور ہر گروہ میں یہ عقیدہ راسخ ہو گیا تھا کہ وہ گروہ اپنے مخصوص عقائد کی وجہ سے خدا کی مخصوص اور منتخب قوم ہے اور دنیا و آخرت کی بھلائیوں کی وہی اجارہ دار ہے۔
ادیان کی تاریخ میں سب سے پہلے قرآن کریم نے اس اجارہ داری کو توڑا اور واضح الفاظ میں اس خیال باطل کا قلع قمع کیا کہ اجر و نجات کسی ایک ملت کا اجارہ ہیں خواہ اس کے اعمال کچھ ہی ہوں۔
قَالَتِ الْیَھُودُ لَیْسَت النّصٰارٰی عَلٰی شَیی وَقَاَلتِ النَّصَارٰی لَیستِ الْیَھُوُدَ عَلی شیی وَھُمْ یَتْلُوْنَ الْکِتَابَ ط کَذَالِکَ قَالَ الَذِیْنَ لَایَعْلَمُوْن مثل قولھم (۲:۱۱۳)
”یہودی کہتے ہیں کہ نصاریٰ کی کوئی مذہبی بنیاد نہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہود کی کوئی مذہبی بنیاد نہیں حالانکہ یہ دونوں ہی فریق کتاب الٰہی پڑھتے ہیں۔
“
ان الذین امنوا والذین ھادوا و الصابئون و النصاریٰ من آمن باللہ والیوم الاخر و عمل صالحا فلا خوف علیھم و لاھم یحزنون (۵: ۶۹)
جو مسلمان ہیں اور جو یہودی ہیں اور صابی اور نصاریٰ ان میں سے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان لائیں اور نیک عمل کریں تو ان پر نہ کوئی خوف ہے نہ یہ غمگین ہوں گے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال اگر اسلام کو اسی طرح کا ایک عالم گیر دین قرار دیتا ہے،جو قانون فطرت کی طرح تمام انسانوں کی زندگی پر حاوی ہے تو ملت اسلامیہ میں کیا خصوصیات اور امتیازی شان ہے کہ وہی ہمیشہ تمام نوع انسان پر فائق رہے؟ اس کا جواب قرآن کریم سے بھی مل سکتا ہے اور اقبال کے کلام میں بھی کئی مواقع پر اس کا حل موجود ہے۔
قرآن کریم میں صاف طور پر تنبیہ موجود ہے کہ اے ملت مومنین! تمہاری فوقیت اور تمہارا شہدا علی الناس ہونا اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ تم آئین الٰہی کی پابندی،امر المعروف اور نہی عن المنکر کو لائحہ عمل بناؤ۔ جب تم میں یہ بات نہیں رہے گی تو اسلام کسی اور ملت کے حوالے کر دیا جائے گا جس کے عقائد و اعمال خدا کی کسوٹی پر کھرے ثابت ہوں۔
ملت اسلامیہ کی جو موجودہ حالت ہے وہ اقبال کی نظر سے اوجھل نہیں۔ اس کے اندر مرور ایام سے جو عیوب پیدا ہو گئے ہیں،اس کے عقائد میں اب جو فساد ہے،اس کے اعمال میں اب جو اختلال و انتشار ہے اس کا درد ناک احساس اقبال کے اشعار میں جا بجا ملتا ہے۔ پہلے شکوہ اور جواب شکوہ پر نظر ڈالئے۔ شکوہ اسی ذہنیت کا آئینہ دار ہے جو عیسائیوں اور یہودیوں اور دوسری امتوں میں پائی جاتی تھی کہ ہم خدا کی منتخب قوم ہیں۔
ہم ہی خدا کے بیٹے ہیں لہٰذا دوسرے کے مقابل میں ہمیں کسی حالت میں ذلیل اور بے بس نہیں ہونا چاہئے۔ اعمال کا کوئی سوال نہیں،ہمارے عقائد تو برقرار ہیں۔ ہم بھی اپنے خدا کو مانتے ہیں،اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو برحق سمجھتے ہیں اور اس کی نازل کردہ کتاب کو سراپا صداقت یقین کرتے ہیں۔ خدا کو یہ تو نہیں چاہئے تھا کہ اپنوں کو ذلیل کر دے اور تمام نوازشوں کی بارش اغیار ہی پر کرے۔
اقبال کا شکوہ اس کے اپنے قلب کی گہرائیوں میں سے نکلتی ہوئی آواز نہیں ہے۔ اس شکایت میں اس نے فقط عامتہ المسلمین کی غیر شعوری کیفیت کو بیان کیا ہے کہ مسلمان یوں محسوس کرتے،یوں کہتے اور سمجھتے ہیں۔ اس شکوے میں مسلمانوں نے اپنے اعمال کی کوتاہی کو نظر انداز کیا ہے یا اسے بہت مدھم انداز میں بیان کیا ہے۔ زیادہ تر شکایت کا انداز یہی ہے:
”ہم نیک ہیں یا بد ہیں پر آخر ہیں تمہارے“
اپنوں کے ساتھ تو ایسی بدسلوکی نہیں ہونی چاہئے:
”با بندہ خود ایں ہمہ سختی نمی رسد“
اس میں جن کارناموں کو زور شور سے بیان کرکے اپنا حق جتایا ہے وہ سب اسلاف کے کارنامے ہیں۔
”تلک امتہ قد خلت“ اپنی موجودہ زندگی میں سے ایک خوبی کا بھی نشان نہیں دیا۔ برائیوں سے انکار تو نہیں کر سکتے تھے لیکن اپنا بچاؤ وہاں یہ پیدا کیا ہے کہ اگر یہ سب تذلیل گنہگاری کی پاداش ہے تو عصیاں کار صرف ہم ہی نہیں:
امتیں اور بھی ہیں ان میں گنہگار بھی ہیں
عجز والے بھی ہیں مست مے پندار بھی ہیں
ان میں کاہل بھی ہیں غافل بھی ہیں ہشیار بھی ہیں
سینکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بیزار بھی ہیں
رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر
شکوہ میں اخلاق و ایثار و جہاد فی سبیل کے جتنے دعوے ہیں وہ اسلاف کے متعلق تو درست ہیں لیکن اخلاف کے متعلق سر بسر بے بنیاد ہیں۔
ایسے دعوے اقبال کی طرف سے تو پیش نہیں ہو سکتے تھے۔ یہ سب کوتاہ اندیش اور خود شناسی سے محروم مسلمانوں کے بے بنیاد دعوے ہیں۔ یہ کس قدر سفید جھوٹ ہے کہ سلمان رضی اللہ عنہ، اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ اور بلال حبشی رضی اللہ عنہ ہم ہی ہیں اور توحید کے امین ہم ہی چلے آ رہے ہیں،محض اس لئے کہ منہ سے لا الہ الا اللہ کہتے ہیں۔
تجھ کو چھوڑا کہ رسول عربی کو چھوڑا؟
بت گری پیشہ کیا بت شکنی کو چھوڑا؟
عشق کو عشق کی آشفتہ سری کو چھوڑا؟
رسم سلمان و اویس قرنی کو چھوڑا؟
آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں
زندگی مثل بلال حبشی رکھتے ہیں
مسلمانوں میں ایک جاہل اور ملائی طبقہ ایسا ہے جو یہ کہہ کر طبیعت کو خوش کر لیتا ہے کہ دنیا چند روزہ ہے۔
فرنگیوں اور کافروں کا یہ جاہ و جلال اور ان کی مساعی کی یہ خلد آفرینی اور مسلمانوں کے مصائب سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ ”الدنیا سجن المومنین و جنت الکافر“ دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے۔ دوسری قوموں کا یہ عیش و اقتدار کیا ہے:
ہنگامہ گرم ہستی نا پائیدار کا
چشمک ہے برق کی کہ تبسم شرار کا
اس کے بعد ابد الاباد تک قائم رہنے والے جنات النعیم اس کا حصہ ہیں جو لا الہ الا اللہ کہتا ہوا اس دنیا سے عبور کر گیا ہے،لیکن اقبال کے ہاں دین کا یہ تصور نہیں اور وہ اس ابلہ فریبی کے عقیدے کی لپیٹ میں نہیں آتا۔
اقبال کا عقیدہ ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں کی نعمتیں مومن کا حق ہیں۔ جو سچے مومن تھے ان کو دنیا میں غلبہ بھی حاصل ہوا اور دنیا کی تمام جائز اور حلال نعمتیں بھی ان کو حاصل ہوئیں،وہ وارث ارض بھی بنے۔
دنیا کی دیگر اقوام جب جھونپڑوں میں رہتی تھیں تو یہ صاف ستھرے مکانوں میں رہتے تھے۔ دوسری قومیں چیتھڑے لٹکائے پھرتی تھیں یا ننگی تھیں تو مسلمان خوش پوش تھے اور اعلیٰ سے اعلیٰ پارچہ بانی کی صنعت کے موجد تھے۔
اسلام رہبانیت کا دین نہیں وہ بے نوائی اور بے سرو سامانی کو روحانیت کا لازمہ قرار نہیں دیتا۔ اسی لئے اقبال کو بجا طور پر اس کا رنج ہے اور وہ زندگی سے لطف اٹھانے والی قوموں پر رشک کرتا ہے:
بادہ کش غیر ہیں گلشن میں لب جو بیٹھے
سنتے ہیں جام بکف نغمہ کوکو بیٹھے
دور ہنگامہ گلزار سے یک سو بیٹھے
تیرے دیوانے بھی ہیں منتظر ہو بیٹھے
اپنے پروانوں کو بھی ذوق خود افروزی دے
برق دیرینہ کو فرمان جگر سوزی دے
ایک اور شعر میں بھی اقبال مغرب کی متمدن اور مہذب زندگی پر رشک کرتے ہوئے خدا سے کہتا ہے:
فردوس جو تیرا ہے کسی نے نہیں دیکھا
افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کی مانند