گبن جیسے مورخ کا نظریہ ہے کہ اس زوال کی ذمہ دار عیسائیت تھی جس نے لوگوں کا نظریہ حیات بگاڑ دیا۔ ٹائن بی اور بعض دوسرے مقتدر مورخ اس سے متفق نہیں ہیں لیکن یہ واقعہ ہے کہ نشاة ثانیہ سے قبل کا قریباً ہزار سال فرنگ ارتقائے حیات سے محروم،جامد اور ہر قسم کے دینی،ذہنی اور سیاسی استبداد کا شکار تھا۔ اس دور میں مسلمان تہذیب و تمدن اور علوم و فنون میں موجد و خلاق تھے اور وہ فرنگ کو اسی زاویہ نگاہ سے دیکھتے تھے جس سے فرنگ نے سترہویں اور اٹھارویں صدی میں ایشیا کو دیکھنا شروع کیا۔
ابن خلدون جیسا حکیمانہ نظر رکھنے والا مورخ بھی اس زمانے کے فرنگ کے متعلق یہ سوچنے لگتا ہے کہ یہ قومیں اس قدر غبی کیوں ہیں۔ جس طرح بعض علمائے فرنگ ایشیا اور افریقہ کی پسماندگی کو گرم آب و ہوا پر محمول کرتے تھے جو ذہنوں میں جودت اور جدت اور بدن میں قوت اور ہمت پیدا نہیں ہونے دیتی،اسی طرح مغرب کے علوم و فنون سے بے بہرہ ہونے کو مسلمان فرنگ کی آب و ہوا پر محمول کرتے تھے کہ ان ملکوں میں سردی ایسی شدید ہوتی ہے کہ دماغ میں افکار بھی منجمند ہو جاتے ہیں۔
(جاری ہے)
یہی فرنگ جس نے ایشیا والوں کو یہ سبق پڑھانا شروع کیا کہ قوموں کا احیاء نہیں ہوتا،اس سے یہ پوچھنا چاہئے کہ خود تمہارا احیاء کیوں کر ہوا؟ اور اپنے احیاء کو وہ خود نشاة ثانیہ کہتے ہیں یعنی جمود اور موت کے بعد زندگی کا ازسر نو ابھرنا۔ تمہاری نشاة ثانیہ ہو سکتی ہے تو دوسروں کی کیوں نہیں ہو سکتی؟
تم نے اس نشاة ثانیہ کے بعد وہ زور باندھا کہ دنیا پر چھا گئے۔
علوم و فنون اور وسعت مملکت میں ملل ماضیہ میں سے کوئی بھی اہل فرنگ کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ قرآن کریم میں اصحاب کہف کا قصہ غالباً اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انسانوں کے بعض گروہ صدیوں کی مرگ نما نیند کے بعد دوبارہ زندگی پا سکتے ہیں۔ فرنگ کا عروج اس کی پہلی تہذیبوں اور تمدنوں کے مقابلے میں بہت عظیم تھا۔ اگر اقبال ملت اسلامیہ کے متعلق اس قسم کی امید رکھتا ہے تو اسے محض ایک سہانا خواب سمجھنا جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا کیسے درست ہو سکتا ہے؟ اقبال کی بعض شاندار نظمیں یاس و حرماں کے تاثر سے شروع ہوتی ہیں لیکن ہمیشہ امید پر ختم ہوتی ہیں۔
شمع و شاعر کے شروع کے اشعار پڑھئے:
قیس پیدا ہوں تری محفل میں یہ ممکن نہیں
تنگ ہے صحرا ترا محل ہے بے لیلا ترا
اے در تابندہ اے پروردہ آغوش موج
لذت طوفاں سے ہے ناآشنا دریا ترا
اَب نوا پیرا ہے کیا؟ گلشن ہا برہم ترا
بے محل تیرا ترنم نغمہ بے موسم ترا
#
آہ جب گلشن کی جمعیت پریشاں ہو چکی
پھول کو باد بہاری کا پیام آیا تو کیا
بجھ گیا وہ شعلہ جو مقصود ہر پروانہ تھا
اب کوئی سودائی سوز تمام آیا تو کیا
#
پھول بے پرواہ ہیں، تو گرم نوا ہو یا نہ ہو
کارواں بے حس ہے آواز درا ہو یا نہ ہو
#
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
ایسے کئی اشعار کہہ کر یہ امید کا پیامبر یک بیک چونکتا ہے تو ظلمت شب کے بعد اس کو کچھ روشنی دکھائی دینے لگتی ہے:
شام غم لیکن خبر دیتی ہے صبح عید کی
ظلمت شب میں نظر آئی کرن امید کی
مژدہ اے پیمانہ بردار خمستان حجاز
بعد مدت کے ترے رندوں کو پھر آیا ہے ہوش
اب زمانہ قریب آ گیا ہے کہ یہ ملت اپنی خود داری کے عوض بادہ اغیار نہ خریدے گی،اب ملت کو اپنی خودی اور اپنے مقام کا احساس ہونے والا ہے۔
اقبال اس احساس کو تیز کرنا چاہتا ہے اور مقصود تک پہنچنے کیلئے جو کچھ ضروری ہے اس کی تلقین کرتا ہے۔ اب تن آسانی کو چھوڑ کر کیوں کہ ذوق تن آسانی ہمت کا راہزن ہے،جوئے گلشن ہونے کی بجائے قلزم متلاطم بن جاؤ،اپنی اصلیت پر قائم ہو جاؤ،قطرے سے اسرار حیات سیکھو کہ وہ شبنم اور آنسو ہونے کے علاوہ گوہر بھی بن سکتا ہے۔
افراد میں قوت تنہا روی سے نہیں بلکہ ربط ملت سے پیدا ہوتی ہے،افراد دریائے ملت کی موجیں ہیں،دریا کے باہر موج کا کوئی مستقل وجود نہیں ہو سکتا،دریا کی حقیقت کے مقابلے میں افراد کا وجود مجازی ہے شرق و غرب ہو یا جدید و قدیم،ان میں سے کسی کی تلقید نہ کرو،حیات تحقیق اور جدت کوشی کا نام ہے:
خیمہ زن ہو وادی سینا میں مانند کلیم
شعلہ تحقیق کوغارت کر کاشانہ کر
زندگی اپنے انداز بدلتی رہتی ہے،صوفیہ کہتے ہیں کہ تجلی میں تکرار نہیں،زندگی جو مظہر ذات و صفات الٰہیہ ہے وہ بھی ”کل یوم ھو فی شان“ ہے،اب اس نشاة ثانیہ میں جو قریب آ رہی ہے تم اپنی قدیم تہذیب و تمدن کے ڈھانچوں کو واپس نہ لا سکوں گے۔
ہر نئی زندگی نئے قالب کی متقاضی ہوتی ہے:
کیفیت باقی پرانے کوہ و صحرا میں نہی
ہے جنوں تیرا نیا پیدا نیا ویرانہ کر
یہ مضمون کسی قدر دوسرے انداز میں اس شعر میں بھی ملتا ہے جو پہلے درج ہو چکا ہے:
کبھی جو آوارہ جنوں تھے وہ بستیوں میں پھر آبسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہوگا
مسلمانوں کی تقدیر آخر کار وہی ہے جو اسلام کی تقدیر ہے،اگر اسلام کا چراغ حوادث کی پھونکوں سے بجھایا نہیں جا سکتا تو اسلام پر عمل کرنے والی امت کیوں آئی اور فانی ہو:
بے خبر تو جوہر آئینہ ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
مسلمانوں کا مستقبل اقبال کو نہایت درخشندہ نظر آتا ہے،بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اقبال کے نزدیک اسلام نوع انسان کی تقدیر اور اس کے ارتقا کا جادہ ہے اور منزل بھی۔
شمع و شاعر کے آخری بند میں پیش گوئیاں ہیں،ظالموں کا ظلم ختم ہو کر اس کے نتائج خود اس کی طرف پلٹنے والے ہیں۔ اب پرندے خوشی سے چہچہائیں گئے اور صیاد نالہ و زاری کریں گے،خون کلچیں سے کلی رنگیں قبا ہونے والی ہے،قوت کے نشے میں سرمست قومیں آپس میں ٹکرا کر پاش پاش ہو جائیں گی،دنیا کا پہلا نظام تہہ و بالا ہونے والا ہے اور اس کی جگہ جو نیا عالم ظہور میں آنے والا ہے وہ چشم بصیرت کو نظر آ رہا ہے لیکن وہ اس قدر حیرت انگیز ہوگا کہ اس کے بیان کیلئے الفاظ نہیں مل سکتے۔
یہ انقلاب عالمگیر ہو گا،صرف ملت اسلامیہ ہی اس سے دگرگوں نہ ہو گی بلکہ تمام نوع انسان کا رنگ بدل جائے گا اور یہ انقلاب انسانوں کو اسی مقصود کی طرف لے جائے گا جو اسلام کا منشاء تھا۔ لہٰذا سب سے زیادہ مسلمانوں کیلئے باعث مسرت ہوگا،تمام جھوٹے معبودوں کی پرستش ختم ہو جائے گی۔ لاالہ کے بعد الا اللہ کا دور آئے گا:
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے