Episode 32 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 32 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

گبن جیسے مورخ کا نظریہ ہے کہ اس زوال کی ذمہ دار عیسائیت تھی جس نے لوگوں کا نظریہ حیات بگاڑ دیا۔ ٹائن بی اور بعض دوسرے مقتدر مورخ اس سے متفق نہیں ہیں لیکن یہ واقعہ ہے کہ نشاة ثانیہ سے قبل کا قریباً ہزار سال فرنگ ارتقائے حیات سے محروم،جامد اور ہر قسم کے دینی،ذہنی اور سیاسی استبداد کا شکار تھا۔ اس دور میں مسلمان تہذیب و تمدن اور علوم و فنون میں موجد و خلاق تھے اور وہ فرنگ کو اسی زاویہ نگاہ سے دیکھتے تھے جس سے فرنگ نے سترہویں اور اٹھارویں صدی میں ایشیا کو دیکھنا شروع کیا۔

 ابن خلدون جیسا حکیمانہ نظر رکھنے والا مورخ بھی اس زمانے کے فرنگ کے متعلق یہ سوچنے لگتا ہے کہ یہ قومیں اس قدر غبی کیوں ہیں۔ جس طرح بعض علمائے فرنگ ایشیا اور افریقہ کی پسماندگی کو گرم آب و ہوا پر محمول کرتے تھے جو ذہنوں میں جودت اور جدت اور بدن میں قوت اور ہمت پیدا نہیں ہونے دیتی،اسی طرح مغرب کے علوم و فنون سے بے بہرہ ہونے کو مسلمان فرنگ کی آب و ہوا پر محمول کرتے تھے کہ ان ملکوں میں سردی ایسی شدید ہوتی ہے کہ دماغ میں افکار بھی منجمند ہو جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

یہی فرنگ جس نے ایشیا والوں کو یہ سبق پڑھانا شروع کیا کہ قوموں کا احیاء نہیں ہوتا،اس سے یہ پوچھنا چاہئے کہ خود تمہارا احیاء کیوں کر ہوا؟ اور اپنے احیاء کو وہ خود نشاة ثانیہ کہتے ہیں یعنی جمود اور موت کے بعد زندگی کا ازسر نو ابھرنا۔ تمہاری نشاة ثانیہ ہو سکتی ہے تو دوسروں کی کیوں نہیں ہو سکتی؟ 
تم نے اس نشاة ثانیہ کے بعد وہ زور باندھا کہ دنیا پر چھا گئے۔
علوم و فنون اور وسعت مملکت میں ملل ماضیہ میں سے کوئی بھی اہل فرنگ کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ قرآن کریم میں اصحاب کہف کا قصہ غالباً اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انسانوں کے بعض گروہ صدیوں کی مرگ نما نیند کے بعد دوبارہ زندگی پا سکتے ہیں۔ فرنگ کا عروج اس کی پہلی تہذیبوں اور تمدنوں کے مقابلے میں بہت عظیم تھا۔ اگر اقبال ملت اسلامیہ کے متعلق اس قسم کی امید رکھتا ہے تو اسے محض ایک سہانا خواب سمجھنا جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا کیسے درست ہو سکتا ہے؟ اقبال کی بعض شاندار نظمیں یاس و حرماں کے تاثر سے شروع ہوتی ہیں لیکن ہمیشہ امید پر ختم ہوتی ہیں۔
شمع و شاعر کے شروع کے اشعار پڑھئے:
قیس پیدا ہوں تری محفل میں یہ ممکن نہیں
تنگ ہے صحرا ترا محل ہے بے لیلا ترا
اے در تابندہ اے پروردہ آغوش موج
لذت طوفاں سے ہے ناآشنا دریا ترا
اَب نوا پیرا ہے کیا؟ گلشن ہا برہم ترا
بے محل تیرا ترنم نغمہ بے موسم ترا
#
آہ جب گلشن کی جمعیت پریشاں ہو چکی
پھول کو باد بہاری کا پیام آیا تو کیا
بجھ گیا وہ شعلہ جو مقصود ہر پروانہ تھا
اب کوئی سودائی سوز تمام آیا تو کیا
#
پھول بے پرواہ ہیں، تو گرم نوا ہو یا نہ ہو
کارواں بے حس ہے آواز درا ہو یا نہ ہو
#
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
ایسے کئی اشعار کہہ کر یہ امید کا پیامبر یک بیک چونکتا ہے تو ظلمت شب کے بعد اس کو کچھ روشنی دکھائی دینے لگتی ہے:
شام غم لیکن خبر دیتی ہے صبح عید کی
ظلمت شب میں نظر آئی کرن امید کی
مژدہ اے پیمانہ بردار خمستان حجاز
بعد مدت کے ترے رندوں کو پھر آیا ہے ہوش
اب زمانہ قریب آ گیا ہے کہ یہ ملت اپنی خود داری کے عوض بادہ اغیار نہ خریدے گی،اب ملت کو اپنی خودی اور اپنے مقام کا احساس ہونے والا ہے۔
اقبال اس احساس کو تیز کرنا چاہتا ہے اور مقصود تک پہنچنے کیلئے جو کچھ ضروری ہے اس کی تلقین کرتا ہے۔ اب تن آسانی کو چھوڑ کر کیوں کہ ذوق تن آسانی ہمت کا راہزن ہے،جوئے گلشن ہونے کی بجائے قلزم متلاطم بن جاؤ،اپنی اصلیت پر قائم ہو جاؤ،قطرے سے اسرار حیات سیکھو کہ وہ شبنم اور آنسو ہونے کے علاوہ گوہر بھی بن سکتا ہے۔
 افراد میں قوت تنہا روی سے نہیں بلکہ ربط ملت سے پیدا ہوتی ہے،افراد دریائے ملت کی موجیں ہیں،دریا کے باہر موج کا کوئی مستقل وجود نہیں ہو سکتا،دریا کی حقیقت کے مقابلے میں افراد کا وجود مجازی ہے شرق و غرب ہو یا جدید و قدیم،ان میں سے کسی کی تلقید نہ کرو،حیات تحقیق اور جدت کوشی کا نام ہے:
خیمہ زن ہو وادی سینا میں مانند کلیم
شعلہ تحقیق کوغارت کر کاشانہ کر
زندگی اپنے انداز بدلتی رہتی ہے،صوفیہ کہتے ہیں کہ تجلی میں تکرار نہیں،زندگی جو مظہر ذات و صفات الٰہیہ ہے وہ بھی ”کل یوم ھو فی شان“ ہے،اب اس نشاة ثانیہ میں جو قریب آ رہی ہے تم اپنی قدیم تہذیب و تمدن کے ڈھانچوں کو واپس نہ لا سکوں گے۔
ہر نئی زندگی نئے قالب کی متقاضی ہوتی ہے:
کیفیت باقی پرانے کوہ و صحرا میں نہی
ہے جنوں تیرا نیا پیدا نیا ویرانہ کر
یہ مضمون کسی قدر دوسرے انداز میں اس شعر میں بھی ملتا ہے جو پہلے درج ہو چکا ہے:
کبھی جو آوارہ جنوں تھے وہ بستیوں میں پھر آبسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہوگا
مسلمانوں کی تقدیر آخر کار وہی ہے جو اسلام کی تقدیر ہے،اگر اسلام کا چراغ حوادث کی پھونکوں سے بجھایا نہیں جا سکتا تو اسلام پر عمل کرنے والی امت کیوں آئی اور فانی ہو:
بے خبر تو جوہر آئینہ ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
مسلمانوں کا مستقبل اقبال کو نہایت درخشندہ نظر آتا ہے،بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اقبال کے نزدیک اسلام نوع انسان کی تقدیر اور اس کے ارتقا کا جادہ ہے اور منزل بھی۔

شمع و شاعر کے آخری بند میں پیش گوئیاں ہیں،ظالموں کا ظلم ختم ہو کر اس کے نتائج خود اس کی طرف پلٹنے والے ہیں۔ اب پرندے خوشی سے چہچہائیں گئے اور صیاد نالہ و زاری کریں گے،خون کلچیں سے کلی رنگیں قبا ہونے والی ہے،قوت کے نشے میں سرمست قومیں آپس میں ٹکرا کر پاش پاش ہو جائیں گی،دنیا کا پہلا نظام تہہ و بالا ہونے والا ہے اور اس کی جگہ جو نیا عالم ظہور میں آنے والا ہے وہ چشم بصیرت کو نظر آ رہا ہے لیکن وہ اس قدر حیرت انگیز ہوگا کہ اس کے بیان کیلئے الفاظ نہیں مل سکتے۔
 یہ انقلاب عالمگیر ہو گا،صرف ملت اسلامیہ ہی اس سے دگرگوں نہ ہو گی بلکہ تمام نوع انسان کا رنگ بدل جائے گا اور یہ انقلاب انسانوں کو اسی مقصود کی طرف لے جائے گا جو اسلام کا منشاء تھا۔ لہٰذا سب سے زیادہ مسلمانوں کیلئے باعث مسرت ہوگا،تمام جھوٹے معبودوں کی پرستش ختم ہو جائے گی۔ لاالہ کے بعد الا اللہ کا دور آئے گا:
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط