Episode 33 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 33 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

اقبال کے ہاں اسلام اور مسلم اور آدم کے نصب العینی تصورات ملتے ہیں۔ اس کے نزدیک اسلام حیات و کائنات کی ازلی و ابدی صداقتوں کا نام ہے،جہاں تک موجودہ اسلام،دور حاضر کے مسلم اور موجودہ انسان کا تعلق ہے یہ سب نصب العین سے بہت دور ہیں،اس وقت اسلام کو پیش کرنے والوں کے جو نظریات یا اعمال ہیں ان سے وہ بے حد بیزار ہے۔ اسلام اور مسلم دونوں کی صورتیں مسخ ہو چکی ہیں،اقبال کا آدم کا تصور قرآنی تصور ہے جس میں انسان کامل نائب الٰہی اور مسخر کائنات ہے۔

 موجودہ انسانوں میں یہ صفات کہاں،وہ انسان کی احسن تقویم کا قائل ہے اور پھر یہ بھی بخوبی جانتا ہے کہ اس وقت تک وہ اسفل السافلین کی ذلت سے نہیں نکل سکا۔ از روئے قرآن اکثر انسانوں کی یہ حالت ہے کہ وہ نہ صرف جانوروں کی طرح ہیں بلکہ درجہ حیات میں ان سے بھی گرے ہوئے ہیں، ”کالانعام بل ہم اضل“ خدا سے پوچھتا ہے کہ کیا یہی آدم ہے جو سامنے نظر آتا ہے،خلیفتہ اللہ فی الارض ہے،جسے نہ اپنی سمجھ ہے،نہ خدا کی،نہ کائنات کی؟
یہی آدم ہے سلطاں بحر و بر کا؟
کہوں کیا ماجرا اس بے بصر کا
نہ خود بیں نے خدا بیں نے جہاں بیں
یہی شہکار ہے تیرے ہنر کا؟
پھر ایک اور جگہ اس کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انسانوں کو نصب العینی آدم بننے کیلئے ابھی بے شمار مراحل طے کرنے پڑیں گے۔

(جاری ہے)

جادہ ارتقا پر سفر کرتے ہوئے ابھی اس کو بہت لمبی مسافت طے کرنی ہے:
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے، اب مرا انتظار کر
مسلم،مومن یا آدم کے متعلق اقبال جو کچھ کہتا ہے اس میں وہ درحقیقت انسان کامل کے خط و خال کو معین کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کا عقیدہ ہے کہ اسلام ایسے انسان پیدا کر چکا ہے اور آئندہ بھی پیدا کرے گا،اگر ایسے لوگ اس وقت اور ملتوں میں پائے جاتے ہیں تو ان کو بھی مسلم ہی کہنا چاہئے اور مسلمان جو اس فکر و عمل سے عاری ہیں،محض اسلامی نام رکھنے سے کوئی شخص مسلمان نہیں ہو سکتا:
یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
اسی زمین میں غالب کا بھی مطلع ہے،جس میں نصب العینی انسان بننے کی دشواری کو بیان کیا ہے:
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
اقبال کے نزدیک کسی قوم کا ملی شعور اس کی تاریخ سے صورت پذیر ہوتا ہے۔
اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ میں مردان خدا کی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ معرفت کوش مسلمان ان نمونوں سے کسب فیض کرکے اپنے آپ کو بلند کر سکتا ہے۔ توحید کو جس خالص طریقے سے اسلام نے پیش کیا ہے اس کی مثال دوسرے ادیان میں نہیں ملتی۔ ملت اسلامیہ اپنی کوتاہیوں کے باوجود ایک روحانی و عرفانی بصیرت کی وارث ہے،یہ بصیرت توحید کو سمجھنے پر مشتمل ہے،اس صداقت پر عمل کرنا سب سے زیادہ مسلمان کا حق اور اس کا فرض ہے۔
جن مسلمانوں نے اس حق کو پہچانا اور اس صداقت کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالا وہ اسی ملت کے افراد تھے جس ملت کے افراد اس وقت خود فراموشی اور خدا فراموشی سے گہری ظلمتوں میں گھر گئے ہیں،لیکن ہر شب کی آخر سحر ہوتی ہے اور ملتوں کی زندگی میں بھی جزر و مد ہوتا ہے،حالی نے مسدس کے شعر میں ایک بڑی یاس انگیز رباعی لکھی ہے:
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے
مانے نہ کوئی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے
اقبال کی طبیعت میں بھی کبھی کبھی یاس کی ایک ہلکی سی لہر پیدا ہوتی ہے لیکن بہت جلد امید اس پر غالب آ جاتی ہے۔
اقبال ملت کے انحطاط سے خوف واقف ہے لیکن اس کا مرثیہ گو نہیں،جب کسی لمحہ یاس میں کوئی دوسرا اس سے کہتا ہے یا اس کے اندر سے حسرت و اندوہ کی اس قسم کی صدا نکلتی ہے:
ہر نفس اقبال تیرا آہ میں مستور ہے
سینہ سوزاں ترا فریاد سے معمور ہے
زندہ پھر وہ محفل دیرینہ ہو سکتی نہیں
شمع سے روشن شب دوشینہ ہو سکتی نہیں
تو فوراً اسلام اور مسلمان کا ابدی نصب العین اس کے جواب میں گویا ہو جاتا ہے کہ آخر کار کیا یہ صداقت نہیں کہ توحید ہی حقیقت حیات و کائنات ہے اور خدا نے مجھے اس کا شاہد بنایا ہے۔
اگر یہ تصور مٹ گیا تو نوع انسان رسوا ہو جائے گی،میری حالت عارضی طور پر خراب ہو گئی ہے لیکن تقدیر عالم و آدم کی تقدیر ہے،میں ماضی کی داستانیں جھوٹے تفاخر کی بنا پر نہیں دہراتا بلکہ اس کے آئینے میں اپنے مستقبل کی تصویر دیکھتا ہوں۔
 جس زمانے میں اقبال نے اس مضمون کی نظمیں لکھی ہیں اس دور میں مسلمانوں پر حد درجے کی مایوسی طاری تھی۔
سیاسی بے بسی،افلاس،علوم و فنون میں پسماندگی،غالب اقوام کے مقابلے میں بے چارگی،غرضیکہ ہر طرف ہمت شکنی کا سامان تھا،لوگ نہ صرف اپنے آپ سے،بلکہ اسلام سے بھی مایوس ہو رہے تھے کہ یہ دین بھی شاید اپنا کام ختم کرکے اب دفتر پارنیہ ہو گیا ہے۔اچھے اچھے ادیبوں،شاعروں اور مصلحین کی تحریروں اور تقریروں میں یہی فرومایگی نظر آتی تھی کہ سب اچھائیاں اور قوموں میں آئیں اور ہم کچھ نہیں ہیں۔
اس قسم کے احساس کمتری کی شدت سے قومیں فنا ہو جاتی ہیں۔ ہر ملت کی بقا اس کے اس شعور کی رہین منت ہوتی ہے کہ دنیا میں ہم کچھ مخصوص صفات عالیہ کے حامل ہیں،اگر یہ بات جاتی رہے تو قومیں یا فنا ہو جاتی ہیں یا دیگر اقوام میں ضم ہو کر گم ہو جاتی ہیں۔ اقبال نے مسلمانوں کے متعلق یہ شدید خطرہ محسوس کیا،اسی لئے اس کے احساس خودی کو ابھارنا اپنی شاعری کا وظیفہ بنا لیا اور مسلمانوں سے پکار پکار کر کہا کہ آؤ میرے ہم نوا ہو کر اس دعوے کا اعلان کرو۔
ہم نشیں! مسلم ہوں میں توحید کا حامل ہوں میں
اس صداقت پر ازل سے شاہد عادل ہوں میں
اور جس صداقت کو مجھے دنیا میں پھیلانا ہے وہ شخصی یا ملی چیز نہیں،وہ کسی قوم یانسل کا تعصب نہیں،یہ صداقت وہ ہے جس کی بدولت کائنات کا وجود قائم ہے اور جو مقصود تکوین عالم ہے:
نبض موجودات میں پیدا حرارت اس سے ہے
اور مسلم کے تخیل میں جسارت اس سے ہے
حق نے عالم اس صداقت کیلئے پیدا کیا
اور مجھے اس کی حفاظت کیلئے پیدا کیا
دہر میں غارت گر باطل پرستی میں ہوا
حق تو یہ ہے حافظ ناموس ہستی میں ہوا
میری ہستی پیرہن عریانی عالم کی ہے
میرے مٹ جانے سے رسوائی بنی آدم کی ہے
قسمت عالم کا مسلم کوکب تابندہ ہے
جس کی تابانی سے افسون سحر شرمندہ ہے
آشکارا ہیں مری آنکھوں پہ اسرار حیات
کہہ نہیں سکتے مجھے نو مید پیکار حیات
کب ڈرا سکتا ہے غم کا عارضی منظر مجھے
ہے بھروسا اپنی ملت کے مقدر پر مجھے
یاس کے عنصر سے ہے آزاد میرا روزگار
فتح کامل کی خبر دیتا ہے جوش کارزار
ہاں یہ سچ ہے چشم برعہد کہن رکھتا ہوں میں
اہل محفل سے پرانی داستاں کہتا ہوں میں
یاد عہد رفتہ میری خاک کو اکسیر ہے
میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے
سامنے رکھتا ہوں اس دور نشاط افزا کو میں
دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میں

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط