ایک اور شعر میں افسوس کیا ہے کہ ”ستارے جن کے نشیمن سے ہیں زیادہ قریب“ ان ترکوں نے اپنے تئیں فرنگ کا ہمسایہ سمجھ رکھا ہے اور اس وہم باطل میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ ہمارا شمار بھی اقوام فرنگ میں ہو۔
مصر اور ہندوستان کے مسلمان رہنما بھی قوم کو جو سبق پڑھا رہے تھے اس میں اقبال کو ملت اسلامیہ کیلئے حققی ترقی کی شاہراہیں نظر نہ آتی تھیں،تہذیبی نقطہ نظر سے یہ بھی مغلوب الغرب ہی تھے۔
بانگ درا کی نظموں میں ایک قطعے میں یہ اشعار ملتے ہیں:
کل ایک شوریدہ خواب گاہ نبی پہ رو رو کے کہہ رہا تھا
کہ مصر و ہندوستان کے مسلم بنائے ملت مٹا رہے ہیں
یہ زائران حریم مغرب ہزار رہبر بنیں ہمارے
ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے ناآشنا رہے ہیں
ملتوں کے اندر اضطراب و تب و تاب،کشاکش،تراش خراش،شکست و فشار کے بغیر انقلاب پیدا نہیں ہو سکتا۔
(جاری ہے)
سکونی حالت اور سکونی تصورات حالات میں کوئی تغیر پیدا نہیں کر سکتے۔ تعمیر کہن کی شکست و ریخت سے گھبرانا نہیں چاہئے،بقول عارف رومی:
ہر بنائے کہنہ کا باداں کنند
اول آں تعمیر را ویراں کنند
نظام کہن کو برقرار رکھنے کے آرزو مند وہی لوگ ہیں جن میں حرارت حیات باقی نہیں ہوتی۔ اقبال انقلاب چاہتا ہے اور ارتقائی انقلاب جو محض تغیر حال نہ ہو بلکہ زندگی کیلئے نئی وسعتیں اور جدید قوتیں پیدا کرے۔
مسلمان عصر حاضر کے تزلزل سے پریشان دکھائی دیتے ہیں اور اس وہم باطل کا شکار ہو رہے ہیں کہ اس تخریب میں کوئی تعمیری صورت دکھائی نہیں دیتی لیکن رموز حیات سے آشنا اقبال ان کو سرارتقاء سے واقف کرتا اور تسلی دیتا ہے کہ رسوم کہن کے انہدام سے زندگی فنا نہیں ہوتی بلکہ جادہ ارتقاء پر گامزن ہوتی ہے۔ بانگ درا مینایک لاجواب نظم ہے جس کا عنوان ارتقاء ہے۔
یہ ایک مشہور فارسی شعر کی تضیمن ہے:
”مغان کہ دانہ انگور آب می سازند
ستارہ می شکنند آفتاب می سازند“
سیتزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بو لہبی
حیات شعلہ مزاج و غیور و شور انگیز
سرشت اس کی ہے مشکل کشی، جفا طلبی
سکوت شام سے تا نغمہ سحر گاہی
ہزار مرحلہ ہائے فغان نیم شبی
کشا کش زم و گرما تپ و تراش و خراش
زخاک تیرہ دروں تا بہ شیشہ حلبی
مقام بست و شکست و فار و سوز و کشید
میان قطرہ نیسان و آتش غنبی
اسی کشاکش پیہم سے زندہ ہیں اقوام
یہی ہے راز تب و تاب ملت عربی
مغان کہ دانہ انگور آب می سازند
ستارہ می شکنند آفتاب می سازند
تہذیب حاضر کے پرستار نوجوان تقلید فرنگ میں اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں کہ ہم میں نئی روشنی اور علم و فن کی تنویر پیدا ہو گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام نمائش چہل پہل حیات مستعار ہے،ملت کے اپنے نفوس میں سے کچھ نہیں ابھرا،ایسے غلامانہ ذہنیت والے لوگوں کی بیداری بیداری نہیں اور ان کی آزادی غلامی کی پردہ دار ہے۔
یہ تازہ پرواز طیور کی دل کشی سے مسحور ہو کر اپنے آشیانے سے اتنا دور اڑ گئے ہیں کہ بھٹک جانے کی وجہ سے پھر اس پر واپس نہ آ سکیں گے۔ مادی خواہشات کی ہوس اس تہذیب کے مدعی طبقے میں تیز ہو گئی ہے،ایثار کی جگہ خود فروشی اور صبر و استقلال کی جگہ ناشکیبائی کا ظہور ہے۔ یہ اس دھوکے میں ہیں کہ ان کی زندگیوں میں ایک خوش آئند انقلاب پیدا ہو گیا ہے۔
حقیقت اس کے برعکس ہے۔ قلب و نظر میں کوئی حیات آفریں تبدیلی نہیں ہوئی۔ ملت کے اندر سے کسی خلاقی جذبے نے کام نہیں کیا۔ اس فروغ مستعار سے ذرے اس فریب میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ ان میں جگنو کی سی فروزی ہے۔ تہذیب حاضر کے عنوان سے اقبال نے فیضی کے اس شعر کی تضمین کی ہے:
تو اے پروانہ ایں گرمی ز شمع محفلے داری
چو من در آتش خود سوز اگر سوز دلے واری
حافظ کا یہ شعر بھی اس مضمون کے قریب ہے:
آتش آن نیست کہ بر شعلہ اور خندد شمع
آتش آنست کہ اندر دل پروانہ زدند
حرارت ہے بلا کی بادہ تہذیب حاضر میں
بھڑک اٹھا بھبوکا بن کے مسلم کا تن خاکی
کیا ذرے کو جگنو، دے کے تاب مستعار اس نے
کوئی دیکھے تو شوخی آفتاب جلوہ فرما کی
نئے انداز پائے نوجوانوں کی طبیعت نے
یہ رعنائی، یہ بیداری، یہ آزادی، یہ بیباکی
تغیر آ گیا ایسا تدبر میں تخیل میں
ہنسی سمجھی گئی گلشن میں غنچوں کی جگر چاکی
کیا گم تازہ پروازوں نے اپنا آشیاں لیکن
مناظر دلکشا دکھلا گئی ساحر کی چالاکی
حیات تازہ اپنے ساتھ لائی لذتیں کیا کیا
رقابت، خود فروشی، ناشکیبائی، ہوسناکی
فروغ شمع نو سے بزم مسلم جگمگا اٹھی
مگر کہتی ہے پروانوں سے میری کہنہ ادراکی
”تو اے پروانہ این گرمی ز شمع محفلے داری“
چومن در آتش خود سوز اگر سوز دلے داری“
اقبال کو نہ مشرق کی کہنہ خیالی اور فرسودگی پسند ہے اور نہ فرنگ کی جدت طرازی۔
نہ مروجہ اسلام پسند ہے اور نہ سائنس کی پیدا کردہ تہذیب حاضر،نہ مغربی جمہوریت پسند ہے اور نہ روسی اشتراکیت۔ مغرب پر اقبال کی مخاصمانہ تنقید سے اقبال کا کلام لبریز ہے لیکن موجودہ مشرق کیلئے بھی اس کے ہاں کوئی مدح و ستائش نہیں:
بگذر از خاور و افسونی افرنگ مشو
کہ نیرزد بجوئے ایں ہمہ دیرینہ و نو
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ چاہتا کیا ہے؟ اس کا یہ جواب کافی ہوگا کہ وہ اصلی اسلام اور اس کے پیدا شدہ علم و فن اور سیاست و معاشرت کا آرزو مند ہے۔
یہ بیان بہت مہمل ہے اور جب تک کسی قدر تفصیل سے اس زندگی کے خدوخال کاخاکہ سامنے نہ آئے تب تک ذہن کو تشفی نہیں ہوتی۔
اقبال کے کلام میں سلبی تنقید بہت غالب معلوم ہوتی ہے لیکن ایجابی پہلو بھی غائب نہیں ہے۔ جس انقلاب کا نقشہ اس کے تخیل میں ہے اس کے تجزیے سے مفصلہ ذیل عناصر حاصل ہوتے ہیں۔
۱۔ وہ حیات انسانی کی کسی یک طرفہ ترقی کو مفید نہیں سمجھتا۔
زندگی نفس اور بدن دونوں پر مشتمل ہے اور حقیقت حیات و کائنات میں انفس بھی ہیں اور آفاق بھی۔ ماحول سے منقطع روحانیت،جسے رہبانیت کہتے ہیں،ایک حیات کش طریق حیات ہے جس میں زندگی کا مادی اور جسمانی پہلو فنا ہو جاتا ہے۔ بغیر اس کے کہ روح کو تقویت یا بصیرت حاصل ہو۔ اسلام کے نظریہ حیات میں ہمہ گیری ہے اور وہ ظاہر و باطن کو ایک ہی حقیقت کے دو پہلو قرار دے کر ان کو الگ الگ نہیں کرتا۔
۲۔ انسانی زندگی میں دو بڑی قوتیں کار فرما ہیں،ایک عقل ہے اور دوسری کا نام عشق ہے۔ ایک کا تعلق دماغ سے ہے اور دوسری کا دل سے،مگر دل اس مضغہٴ گوشت کا نام نہیں جو سینے میں بائیں طرف دھڑکتا ہے۔ عقل بے عشق حقیقت رس نہیں ہو سکتی۔ خالی زیر کی سے نہ اقدار حیات کی آفرینش ہوتی ہے اور نہ زندگی کو حقیقی عروج حاصل ہوتا ہے بقول عارف رومی:
مں شناسد ہر کہ از سر محرم است
زیرکی زابلیس و عشق از آدم است