Episode 41 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 41 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

لیکن ایسی عرفانی غزل میں بھی مقطع سے پہلے فرنگ پر ایک ٹھوکر مارنا لازمی سمجھتے ہیں،خواہ اس شکریے کے ساتھ ہی سہی کہ خدا کا شکر ہے کہ کم از کم من کی دنیا میں تو افرنگی کا راج نہیں:
من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج
من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ و برہمن
افرنگی کا راج کچھ ختم ہو گیا اور باقی جاں بلب ہے،آئندہ نسلوں کیلئے افرنگی کا راج تاریخ کا ایک قصہ پارنیہ بن جائے گا۔
اس زمانے میں اس شعر سے کون لطف اٹھائے گا؟ پچاس یا سو سال کے بعد غالباً اس وجد آور غزل کو گانے والے اس شعر کو ساقط کر دیں گے لیکن غلبہ افرنگ نے بے چارے اقبال کو اس قدر بے زار کر رکھا ہے کہ وہ ایسی غزل میں بھی اس کے ذکر سے باز نہیں آ سکتا۔
بال جبریل کی اور غزلوں میں سے اس مضمون کے بعض اور اشعار یہاں یکجا درج کئے جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

مختلف اشعار سے اس کا کسی قدر اندازہ ہو سکتا ہے کہ اقبال تہذیب فرنگی کے کس کس پہلو کو قابل اعتراض سمجھتا ہے:

وہ آنکھ کہ ہے سرمہ فرنگ سے روشن
پرکار و سخن ساز ہے نمناک نہیں ہے
#
یہ حوریان فرنگی دل و نظر کا حجاب
بہشت مغربیاں جلوہ ہائے پا برکاب
#
دل و نظر کا سفینہ سنبھال کر لے جا
مہ و ستارہ ہیں بحر وجود میں گرداب
#
تو اے مولائے یثرب آپ میری چارہ سازی کر
مری فطرت ہے افرنگی مرا ایماں ہے زناری
#
سوال مے نہ کروں ساقی فرنگ سے میں
کہ یہ طریقہ رندان پاک باز میں
#
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
#
برا نہ مان ذرا آزما کے دیکھ اسے
فرنگ دل کی خرابی خرد کی معموری
#
جسے کساد سمجھتے ہیں تاجران فرنگ
وہ شے متاع ہنر کے سوا کچھ اور نہیں
#
مے خانہ یورپ کے دستور نرالے ہیں
لاتے ہیں سرور اول دیتے ہیں شراب آخر
#
اعجاز ہے کسی کا یاگردش زمانہ
ٹوٹا ہے ایشیا میں سحر فرنگیانہ
#
حکیم نطشہ کے متعلق:
اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں
تو اقبال اس کو سمجھاتا مقام کبریا کیا ہے
#
نہ کر افرنگ کا اندازہ اس کی تابناکی سے
کہ بجلی کے چراغوں سے ہے اس جوہر کی براقی
#
تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم
گزر اس عہد میں ممکن نہیں بے چوب کلیم
#
ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیش جہاں کا دوام
وائے تمنائے خام! وائے تمنائے خام
#
عذاب دانش حاضر سے با خبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل
#
مجھے وہ درس فرنگ آج یاد آتے ہیں
کہاں حضور کی لذت کہاں حجاب دلیل
#
پیر میخانہ یہ کہتا ہے کہ ایوان فرنگ
سست بنیاد بھی ہے آئینہ دیوار بھی ہے
#
ہوا نہ زور سے اس کے کوئی گریباں چاک
اگرچہ مغربیوں کا جنوں بھی تھا چالاک
#
یا عقل کی روباہی یا عشق یداللھی
یا حیلہٴ افرنگی یا حملہٴ ترکانہ
#
خبر ملی ہے خدایان بحر و بر سے مجھے
فرنگ رہگزر سیل بے پناہ میں ہے
#
یہ مدرسہ، یہ جواں، یہ سرور و رعنائی
انہیں کے دم سے ہے میخانہ فرنگ آباد
#
نئی تہذیب تکلف کے سوا کچھ بھی نہیں
چہرہ روشن ہو تو کیا حاجت گلگونہ فروش
#
سرور و سوز میں ناپائیدار ہے ورنہ
مئے فرنگ کا تہ جرعہ بھی نہیں نا صاف
#
سمجھ رہے ہیں وہ یورپ کے ہم جوار اپنا
ستارے جن کے نشیمن سے ہیں زیادہ قریب
#
رہ و رسم حرم نا محرمانہ
 کلیسا کی ادا سوداگرانہ
#
یقیں مثل خلیل آتش نشینی
یقیں اللہ مستی خود گزینی
#
سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار
غلامی سے بہتر ہے بے یقینی
#
کوئی دیکھے تو میری نے نوازی
نفس ہندی مقام نغمہ تازی
#
نگہ آلودہٴ انداز افرنگ
 طبیعت غزنوی قسمت ایازی
#
اشتراکیت نے مغربی تہذیب و تمدن کے خلاف جو بغاوت کی اس کے وجود زیادہ تر وہی ہیں جن سے اقبال بھی متفق ہے۔
لینن نے خدا کے حضور میں اس تہذیب کا جو خاکہ کھینچا ہے اس میں اقبال لینن سے ہم نوا ہے:
مشرق کے خداوند سفیدان فرنگی
مغرب کے خداوند درخشندہ فلزات
یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات
رعنائی تعمیر میں، رونق میں صفا میں
گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات
ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کیلئے مرگ مفاجات
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات
بیکاری و عرفانی و میخواری و افلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات؟
وہ قوم کہ فیضان سماوی سے ہو محروم
حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات
ہے دل کیلئے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
آثار تو کچھ کچھ نظر آتے ہیں کہ آخر
تدبیر کو تقدیر کے شاطر نے کیا مات
میخانے کی بنیاد میں آیا ہے تزلزل
بیٹھے ہیں اسی فکر میں پیران خرابات
چہروں پہ جو سرخی نظر آتی ہے سر شام
یا غازہ ہے یا ساغر و مینا کی کرامات
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تری منتظر روز مکافات
امت نے مذہب سے پیچھا چھڑایا
چلی کچھ نہ پیر کلیسا کی پیری
ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی
ہوس کی امیری ہوس کی وزیری
دوئی ملک و دیں کیلئے نامرادی
دوئی چشم تہذیب کی نابصیری
ترے صوفے افرنگی ترے قالیں ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیب حاضر کی تجلی میں
کہ پایا میں نے استغنا میں معراج مسلمانی
#
ہوا اِس طرح فاش راز فرنگ
کہ حیرت میں ہے شیشہ باز فرنگ
پرانی سیاست گری خوار ہے
زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے
گیا دور سرمایہ داری گیا
تماشا دکھا کر مداری گیا
#
وہ فکر گستاخ جس نے عریاں کیا ہے فطرت کی طاقتوں کو
اسی کی بیتاب بجلیوں سے خطر میں ہے اس کا آشیانہ
جہان نو ہو رہا ہے پیدا وہ عالم پیر مر رہا ہے
جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا ہے قمار خانہ
#
زہراب ہے اس قوم کے حق میں مئے افرنگ
جس قوم کے بچے نہیں خود دار و ہنرمند
#
اٹھا نہ شیشہ گران فرنگ کے احساں
سفال بند سے مینا و جام پیدا کر
#
جاں لاغر و تن فربہ و ملبوس بدن زیب
دل نزع کی حالت میں خرد پختہ و چالاک
ناپاک جسے کہتی تھی مشرق کی شریعت
مغرب کے فقیہوں کا یہ فتویٰ ہے کہ ہے پاک
#
تاک میں بیٹھے ہیں مدت سے یہودی سود خوار
جن کی روباہی کے آگے ہیچ ہے زور پلنگ
خود بخود گرنے کو ہے پکے ہوئے پھل کی طرح
دیکھئے پڑتا ہے آخر کس کی جھولی میں فرنگ(ماخوذ از نطشہ)

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط