یہ اشعار فقط بال جبریل کی غزلوں اور نظموں میں سے چنے گئے ہیں۔ اقبال کے کلام کے اور مجموعوں میں بھی مغرب کی تہذیب اور نظریہ حیات پر مخالفانہ مگر حکیمانہ تنقید ملتی ہے۔ یہ مضمون اقبال کے محوری افکار میں سے ہے۔ اگر تمام اعتراضات کا استقرا کیا جائے تو مفصلہ ذیل نکات حاصل ہوتے ہیں:
مغربی تہذیب جس سے مراد زیادہ تر وہ تہذیب و تمدن ہے جو گزشتہ تین سو سال میں پیدا ہوئی،زیادہ تر عقلیت،مادیت یا نیچریت کی پیداوار ہے۔
لیکن عقلیت جو اپنے کمال اور کلیت میں بھی پوری طرح حقیقت رس نہیں ہو سکتی اسے مغرب نے اور زیادہ محدود و محصور کر دیا۔ اس نے فقط مادی فطرت کے مظاہر کا مشاہدہ اور مطالعہ کیا اور اس کے قوانین کا ادراک کرنے کے بعد اس کو زیادہ تر مادی اور جسمانی اغراض کیلئے مسخر کیا۔
(جاری ہے)
اس تسخیر نے مغرب کو مادی حیثیت سے غیر معمولی طاقت بخشی۔ اس اقتدار اور تسخیر سے سرشار ہو کر اس نے علمی اور عملی طور پر یہ نظریہ حیات قائم کر لیا کہ عالم مادی یا عالم محسوسات ہی حیثیت کا کلی ہے،حاضر کے باہر غائب کوئی چیز نہیں،یہاں تک کہ انسان اپنی روح ہی کے وجود سے منکر ہو گیا۔
اس کا نتیجہ وہی ہوا جو عارف رومی کے ارشادات میں ملتا ہے۔ علم ایک بے طرف قوت ہے،وہ حکمت روحانی اور عشق الٰہی کے ساتھ یار جان ہو سکتا ہے لیکن خالی علم و ہنر سے وہ زیرکی پیدا ہوتی ہے جو ابلیس کی صفت ہے:
می شناسد ہر کہ از سر محرم است
زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است
علم را برتن زنی مارے شود
علم را برجاں زنی یارے شود
عشق سے معرا ہو کر تسخیر فطرت ایک قسم کی جادو گری ہے۔
جادوگر بھی غیر معمولی مادی اور نفسی قوتوں پر قابو پاکر ان کو فساد و تخریب میں استعمال کرتا ہے۔ مغرب میں طبیعی سائنس نے جو قوتیں پیدا کیں انہوں نے ظاہری قوت اور شان و شوکت تو بہت پیدا کر دی لیکن انسانیت کے اصلی جوہر کو نقصان پہنچایا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ان قوتوں کی مالک اقوام نے ایک طرف ان اقوام کو مغلوب کر لیا جو ان رموز تسخیر سے آشنا نہ تھیں اور دوسری طرف یہ جنات اپنی قوت کے بل بوتے پر آپس میں اس طرح ٹکرائے کہ تمام عالم انسانی میں زلزلہ آ گیا اور خود اس سائنس کا پیدا کردہ تمدن پاش پاش ہو گیا۔
اس طبیعی سائنس کی ترقی نے ایسا سامان پیدا کیا کہ ہر ذرے میں جو محشر پنہاں تھا وہ نمودار ہو گیا۔ مغرب کا انسان وہی کچھ بن گیا جس کے متعلق مرزا غالب فرما گئے کہ:
قیامت میدمد از پردہ خاکے کہ انساں شد
اس عالم گیر علم کے ساتھ عالم گیر محبت پیدا نہ ہوئی،یہ علم رفتہ رفتہ عشق اور روحانیت سے ایسا بیگانہ ہوا کہ نہ صرف نوع انسان بلکہ تمام کرہ ارض جماد و نبات و حیوانات سمیت معرض خطر میں پڑ گیا۔
انہیں آثار کو دیکھ کر اقبال نے قیام فرنگ کے دوران ہی میں یہ پیش گوئی کی تھی:
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیا اور فرنگ روحانیت کی طرف لوٹتا نظر نہ آیا تو اقبال تیس برس تک اس پیش گوئی کو دہراتا چلا گیا کہ مجھے فرنگ رہگزر سیل بے پناہ کی زد میں آتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
اس کا تمدن سست بنیاد ہے اور اس کی دیواریں شیشے کی ہیں جو ایک دھماکے سے چکنار چور ہو جائیں گی۔ عقل بے عشق کی معموری دل کی خرابی میں اضافہ کرتی گئی،غیب کی منکر دانش حاضر انسان کیلئے عذاب بن گئی،محسوسات کے ادراک کیلئے آنکھیں روشن ہوتی گئیں لیکن درد انسان سے نمناک نہ ہوئیں۔ اس تہذیب کی تجلی نے آنکھوں کو خیرہ اور دل کو اندھا کر دیا،بجلی کے چراغوں کی روشنی کو نور حیات سمجھ لیا گیا،غیب اور مرئی عالم کا منکر ہونے کی وجہ سے فرنگ اس کوشش میں پڑ گیا کہ اسی دنیا کو جنت بنایا جائے اور اس چند روزہ زندگی میں اسی میں عیش کیا جائے۔
وہ اس سے غافل رہا کہ اس فردوس کی تعمیر میں خرابی کی مضمر صورتیں بھی اپنا پنہاں مگر موثر عمل کر رہی ہیں۔ جس فکر گستاخ نے فطرت کی طاقتوں کو عریاں کیا وہ اس سے بے خبر رہا کہ اس سے پیدا کردہ بجلیاں خود اس گلشن اور آشیانے کو راکھ کا ڈھیر بنا دیں گی اور دنیا جہنم کے کنارے تک پہنچ جائے گی۔
طبیعی سائنس کی ترقی اور صنعت میں اس کے اطلاق نے مصنوعات کے عظیم الشان،کارخانے بنائے جو بے درد سرمایہ اندوزوں کے ہاتھ میں آ گئے،کارخانوں میں کام کرنے والے مزدور ایک دوسری قسم کی غلامی میں آزادی اور خود داری سے محروم ہو گئے،صناعوں کی انفرادی جدت اور صناعی ختم ہو گئی۔
کارخانے کا ہر مزور ایک بے پناہ مشین کا پرزہ بن گیا،اس کی انسانی انفرادیت رفتہ رفتہ سوخت ہوتی گئی۔ پہلے زمانے میں ممالک حکومت کرنے کیلئے فتح کئے جاتے تھے،اب کمزور اقوام پر ہر قسم کی یورش تجارت سے نفع اندوزی کی خاطر ہونے لگی کہ کمزور اقوام کو خام پیداوار کی غلامانہ مشقت میں لگایا جائے اور پھر مصنوعات کو انہیں کے ہاتھوں گراں قیمت میں فروخت کیا جائے۔
خود سرمایہ داروں میں گلا کاٹ مقابلہ اور مسابقت شروع ہو گئی جس کی وجہ سے ایسی دو عظیم جنگیں ہوئیں جن کے سامنے چنگیز،ہلاکو،تیمور اور نپولین کی ترکتاز بازیچہٴ اطفال معلوم ہوتی ہے۔ یہ جنگیں اس ظالمانہ سرمایہ داری کی پیداوار تھیں جس کو طبیعی سائنس سے فروغ حاصل ہوا تھا۔ انسان کی اپنی تسخیر نفس تسخیر فطرت کا ساتھ نہ دے سکی۔ الف لیلہ کی کہانی کا لوٹے میں مقید دیو آزاد ہو کر فضا میں پھیل گیا اور اسے دوبارہ لوٹے میں بند کرنے کا سحر ہاتھ نہ آیا۔
مغرب کے دین سے بیگانہ ہونے کے دو بڑے اسباب تھے،ایک سبب تو کلیسا کی استبدداد تھا،جس نے ہزار سال سے زائد عرصے تک انسانوں کا دینی اور دنیاوی نظریہٴ حیات غلط کر دیا تھا۔ وہ استبداد کسی قدر یورپ کی نشاة ثانیہ کے دور میں ٹوٹا لیکن اس پر ایک کاری ضرب لو تھرکی پروٹسٹنٹزم (احتجاج) نے لگائی۔ اس کے بعد اسی اصلاح کے اندر سے ایک نئی آفت پیدا ہوئی اور نئے فرقے کچھ قدیم کلیسا کے خلاف اور کچھ آپس میں ایسے متعصبانہ انداز میں دست و گریبان ہوئے کہ طویل مذہبی جنگوں نے تمام یورپ کو تباہ کر ڈالا،یہ تباہی اتنی شدید تھی کہ اس کے خلاف زور شور کا ردعمل ہوا اور امن کی یہی صورت نظر آئی کہ دین کو سیاست سے الگ کر دیا جائے کیوں کہ سب سے زیادہ دینی عقائد کا اختلاف ہی عقل و صلح کا دشمن ہے۔
یورپ دین کے متعلق اسی نتیجے پر پہنچا جسے حالی نے اس شعر میں بیان کیا ہے:
فساد مذہب نے ہیں جو ڈالے نہیں وہ تا حشر مٹنے والے
یہ جنگ وہ ہے کہ صلح میں بھی یونہی ٹھنی کی ٹھنی رہے گی
دین سے اس بیزاری کے ساتھ ساتھ طبیعی سائنس ترقی کرتی گئی،یہ ترقی ناممکن تھی جب تک کہ بر خود غلط حامیان دین سے چھٹکارا حاصل نہ ہو جو تمام طبیعیات اور فلکیات کو بائبل کی کسوٹی پر پرکھتے تھے اور جن کا عقیدہ یہ تھا کہ انسان کو فقط روحانیت،الہیات اور اخلاقیات ہی از روئے وحی حاصل نہیں ہوئے بلکہ تمام طبیعی علوم کے متعلق بھی وہی باتیں قابل یقین ہیں جو صحیفہ آسمانی میں درج ہیں۔
سائنس کا ہر انکشاف قدم قدم پر اس جامد دین سے ٹکراتا تھا،جب اس قسم کے مذہب کو سائنس سے ٹکرایا گیا تو کلیسا کا جبر اور اس کی تلوار بھی مفکرین کا رخ حقائق کی طرف سے نہ پھیر سکیں۔ سرگزشت آدم میں اقبال کہتا ہے:
ڈرا سکیں نہ کلیسا کی مجھ کو تلواریں
سکھایا مسئلہ گرش زمیں میں نے
دین ایک تخریبی اور جامد صورت کو مغرب نے عین دین سمجھ لیا تھا،علم کی روشنی میں جب وہ عقائد باطل ثابت ہوئے تو سائنس کی پیدا کردہ تہذیب نے دین ہی سے منہ پھیر لیا،حکومتیں غیر دینی اور سیکولر ہو گئیں،مغرب اگر بودے دین کو چھوڑ کر دین کی حقیقت کی طرف آ جاتا تو خارجی فطرت کی تسخیر اور علوم و فنون میں اس کی غیر معمولی ترقی انسانیت کے غیر معمولی ارتقاء کا باعث ہوتی لیکن مذہب کے بودا ہونے کی وجہ سے مغرب ظاہر کی روشنی کے باوجود باطن کو منور نہ کر سکا۔
سیاست نے دین سے معرا ہو کر ماکیا ویلی کا ابلیسانہ مذہب اختیار کر لیا:
آں فلارنساوی باطل پرست
سرمہٴ او دیدہٴ مردم شکست
مغرب کے خلاف اقبال نے اس قدر تکرار کے ساتھ لکھا ہے کہ پڑھنے والا اس مغالطے میں مبتلا ہو سکتا ہے کہ اقبال بڑا مشرق پرست،جامد ملا اور رجعت پسند ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال نہ مشرق پرست ہے اور نہ مغرب پرست اور نہ وہ عقل کا ایسا مخالف ہے کہ اسے دین و دنیا کیلئے بے کار سمجھے۔
وہ اہل مشرق کے جمود،ان کی پستی اور دین نما بے دینی سے کچھ کم بیزار نہیں۔ اقبال اس سے بخوبی واقف ہے کہ گزشتہ تین صدیوں میں،جن کے متعلق وہ کہتا ہے کہ:
تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند
جب مشرق جلد اور غافل اور خفتہ رہا مغرب میں طرح طرح کی حرکت پیدا ہوئی اور اس کی ہر حرکت میں کچھ نہ کچھ برکت بھی تھی۔ نشاة ثانیہ سے لے کر آج تک یورپ میں طرح طرح کی ہلچل ہوئی اور رنگا رنگ کے انقلابات ظہور میں آئے۔
ہر انقلاب زندگی کے جمود اور استبداد کو بتدریج توڑتا گیا۔ دیکھئے اقبال جب اپنی ملت کیلئے انقلاب کا آرزو مند ہوتا ہے تو پہلے یورپ کے انتخابات پر نظر ڈالتا ہے جن کی بدولت مغرب زندگی کے اسلوب بدلتا گیا اور فکر و عمل کی آزادی کی طرف قدم بڑھاتا گیا۔ لوتھرکی تحریک سے لے کر،جس نے کلیسا پر ضرب لگائی،انقلاب فرانس سے گزرتا ہوا مسولینی تک کی حرکت کا ذکر کرتا ہے،اسی سلسلے میں روس کے زلزلے کا ذکر بھی ہو سکتا تھا لیکن وہ یہاں چھوٹ گیا ہے،اگرچہ اور جگہ اس کا کافی جائزہ لیا ہے اور اس کی داد دی ہے کہ اس اتحادی اشتراکیت نے بھی بڑے بڑے بت توڑے ہیں۔
ہر قسم کا انقلاب اسی جذبے اور اسی قوت کی بدولت ہوتا ہے جسے اقبال عشق کہتا ہے۔ اس کے نزدیک یورپ کی یہ تمام تحریکیں بھی عشق ہی کی بلاخیزی کا نتیجہ تھیں جن کی وجہ سے فکر انساں اور روح انسان استبداد کے طوق و زنجیر توڑتی چلی گئی۔