اقبال کا نظریہ حیات ارتقائی ہے اور یہ ارتقاء انسان کو مسلسل تسخیر فطرت سے حاصل ہوا ہے۔ اس کے نزدیک زندگی مسلسل جدوجہد اور تخلیق کا نام ہے۔ فطرت کے جبر پر قابو پاکر خود کی استواری اس کی تلقین کا ایک اہم عنصر ہے۔ کائنات انفس و آفاق پر مشتمل ہے اور ان دونوں کی تسخیر انسان کا وظیفہ حیات ہے۔ طبیعی سائنس آفاق کی تسخیر کا نام ہے،اس لئے اقبال اس کو غلط اندیشی اور غلط روی قرار نہیں دے سکتا،اس کو صرف یہ شکایت ہے کہ اس یک طرفہ تسخیر نے انسان کی روحانی زندگی کا توازن بگاڑ دیا ہے۔
حقیقت از روئے قرآن ظاہر بھی ہے اور باطن بھی،ظاہر و باطن ایک حقیقت کے دو پہلو ہیں۔ اقبال نے یہ فلسفہ قرآن سے اخذ کیا ہے جو اس کائنات کو باطل نہیں سمجھتا اور حقیقت مطلقہ کی بابت ”ھوالظاہر وھو الباطن“ کی تعلیم دیتا ہے۔
(جاری ہے)
قرآن مظاہر فطرت کے مسلسل مطالعے اور اس کی کثرت کو ایک وحدت کی طرف راجع کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ اپنے انگریزی خطبات میں اقبال نے اس کو وضاحت سے لکھا ہے کہ طبیعی اور تجربی سائنس مسلمانوں کی پیداوار ہے،جسے یورپ نے اولاً مسلمانوں سے حاصل کیا اور اس کے بعد مسلمانوں کی خفتگی کی صدیوں میں اس کو بے انتہا ترقی دی۔
پہلے ہی خطبے میں ہی کہا ہے کہ زمانہ حال میں مسلمانوں کے تفکر کا رخ مغرب کی طرف ہے اور میرے نزدیک یہ میلان خوش آئند ہے،کیوں کہ یہ انداز تفکر یورپ نے خود مسلمانوں سے حاصل کیا تھا۔
اقبال مغرب سے یہ نہیں چاہتا کہ وہ علم و ہنر میں اپنی تمام ترقیوں کو حرف غلط کی طرح مٹا کر کسی قدیم روش پر آ جائے جب کہ انسان مظاہر فطرت اور اس کی قوتوں کے مقابلے میں اپنے آپ کو بے بس پاتا تھا۔
یورپ کے علم و ہنر نے ظاہری زندگی میں صفائی پیدا کی ہے اور مشرق بدستور گندا ہے۔ اس نے بے شمار امراض کا علاج ڈھونڈا ہے مگر مشرق کی ارواح کی طرح اس کے ابدان بھی ضعیف اور طرح طرح کے امراض کا شکار ہیں۔ فرنگ کے ہر قریے کو فردوس کی مانند دیکھ کر اس کا یہ جی چاہتا ہے کہ ہماری بستیاں بھی جنت کا نمود بن جائیں۔ یورپ کے کافروں کو وہ اپنے مسلمانوں سے زیادہ عملاً اسلام کا پابند سمجھتا ہے اور یورپ کو اس زندگی کی جو نعمتیں حاصل ہوئی ہیں ان کو وہ اس اسلام کا اجرا شمار کرتا ہے جو ان کی زندگیوں کے بعض پہلوؤں میں پایا جاتا ہے:
مسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حور و قصور
فارسی میں ایک جگہ وضاحت سے کہتا ہے کہ فرنگ رقص دختراں کا نام نہیں،اس کی طاقت کا سرچشمہ علوم و فنون ہیں۔
مشرقی انسان عام طور پر جب جدید تہذیب کا گرویدہ ہوتا ہے تو مغرب کے ظواہر کی نقالی کرتا ہے،جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ:
چلا جب چال کوا ہنس کی اس کا چلن بگڑا
یورپ نے پہلے علم و ہنر سے فراواں سامان حیات پیدا کیا اور پھر وہ فراوانی اس کی رہائش اور خورد و نوش میں جلوہ افروز ہوئی۔ مشرق کا مفلس بغیر کچھ کئے دولت مند قوموں کی نقالی کرکے اپنے تئیں ان کا مثیل سمجھنے لگتا ہے۔
مشرق صدیوں سے سیاسی استبداد میں آسودہ رسوئی رہا لیکن مغرب میں انسانی حقوق اور مساوات کی جدوجہد نے جمہوریت پر تجربے کرنے شروع کئے۔ ابتداء میں ان جمہوریتوں میں بھی انسان کو مساوات حاصل نہ ہوئی جس کی وہ توقع کرتا تھا اور بقول اقبال دیو استبداد ہی جمہوری قبا میں رقصاں رہا،لیکن بقول عارف رومی:
کوشش بے ہودہ بہ از خفتگی
یہ نیم کامیاب کوششیں انگلستان میں اس انداز کی سوشلزم تک پہنچ گئیں جو اقبال کے نظریہ حیات کے مطابق اسلام سے بہت قریب ہے۔
اقبال کو مغرب کی تمام کوششوں میں کچھ نہ کچھ خلل نظر آتا ہے۔ خود مغرب کے مفکرین اور مصلحین بھی ان خرابیوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اقبال نے جو تنقید مغرب پر کی ہے اس سے کہیں زیادہ مغربی مفکرین نے اپنے عیوب گنوائے اور ان کے علاج تجویز کئے ہیں۔
اقبال اس کا آرزو مند ہے کہ مغرب نے گزشتہ تین سو سال میں سائنس اور علم و ہنر میں جو ترقی کی ہے مسلمان بھی اس سے بہرہ اندوز ہوں،لیکن دنیا کو سنوارنے میں اپنی خودی اور اپنے خدا سے غافل نہ ہو جائیں:
ست دنیا از خدا غافل شدن
نے قماش و نقرہ و فرزند و زن
مغربی مادیت اور حاضر پرستی کی معراج روسی اشتراکیت میں نظر آتی ہے،لیکن اقبال اس کا بھی مداح ہے کہ اس نے سلبی کام بہت اچھا کیا ہے اور اس نے کلیسا و سرمایہ کاری اور امتیاز رنگ و نسل اور تفوق طبقات کے بہت سے چھوٹے معبودوں کا قلع قمع کر دیا ہے،توحید کے کلمے میں بھی ”لا الہ“ جزو ثانی ”الا اللہ“ سے پہلے اور مقدم ہے۔
مغرب نے عام طور پر اور روسی اشتراکیت نے خاص طور پر لا الہ کا کام خوبی انجام دیا ہے لیکن مغرب اس لا الہ کے دریا میں سے ابھی تک الا اللہ کے موتی نہیں نکال سکا۔ اس کے مقابلے میں مشرق کو ابھی بہت کچھ بت شکنی کرنی ہے۔
مغرب نے اپنے دینی جمود کو بہت کچھ رفع کر لیا اور بقول اقبال وہاں فکر کی کشتی نازک رواں ہو گئی،لیکن لوتھرکی طرح کی کوئی تحریک ابھی مسلمانوں میں پیدا نہیں ہوئی جو ان کو جامد ملائیت،اجتہاد دشمن تفقہ اور ٹیکس وصول کرنے والے پیروں سے نجات دلوا سکے۔
ترکوں نے ملائیت سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہا تو تحقیق کے بجائے مغرب کی اندھی تقلید کو اپنا شعار بنا لیا۔ ترکوں کے بعض لیڈر اس کے مدعی نہیں کہ ہم اسلام کے پروٹسٹنٹ ہیں لیکن ان کا یہ ادعا غلط ہے۔ لوتھر نے کلیسا کے خلاف بغاوت اس بناء پر کی کہ عیسائیوں نے مسیح اور اس کی انجیل پر ایمانداری اور آزادی سے غور کرنے کی بجائے ارباب کلیسا کے پاس اپنا ذہن اور اپنا ضمیر بیچ رکھا ہے،لیکن ترکوں نے جوش تقلید فرنگ میں فقہ کے معاملے میں قرآن ہی کو بالائے طاق رکھ دیا۔
رضا شاہ نے مجتہدین ایران سے چھٹکارا حاصل کرکے ایرانیوں کو ایک ترقی پسند اور مہذب ملت بنانا چاہا تو وہ بھی مصطفی کمال کی طرح غرب کے ظواہر کی تقلید میں پڑ گیا اور یہ کوشش نہیں کی کہ اسلامی اساس پر ایک تہذیب کی تعمیر کرے جو شرق و غرب کی موجودہ تہذیبوں پر فائق ہو:
نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی
کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی
اقبال مغرب کے عیوب کے ساتھ ساتھ اس کی خوبیوں سے بھی بخوبی واقف اور ان کا مداح تھا،وہ چاہتا تھا کہ مسلمان وہ خوبیاں اپنے اندر پیدا کریں۔
علم مومن کا گمشدہ مال ہے،علم جہاں سے بھی ملے،فرنگ میں ہو یا چین میں،مسلمان کو اس کی طرف اسی طرح لپکنا چاہئے جس طرح انسان باز یافتہ گمشدہ مال کی طرف لپکتا ہے۔ اقبال نے محدود عقلیت اور مادیت کے خلاف بہت کچھ لکھا ہے،کیوں کہ اگر انسان اس کے اندر محصور ہو کر رہ جائے تو اس کا اصلی جوہر گم ہو جاتا ہے لیکن اقبال اس سے بھی آگاہ ہے کہ عقل اور مادی زندگی سے روگردانی کرکے خالی روحانیت میں کوشش کرنا بھی لاحاصل ہے۔
خدا نے جس حکمت کو خیر کثیر کہا ہے اس میں ظاہر اور باطن دونوں کا عرفان شامل ہے۔ اقبال کو شکایت ہے کہ مغرب مادی ترقی میں بری طرح الجھ گیا اور عقل طبیعی پر اتنا بھروسا کرنے لگا کہ روح انسانی کے غیر متناہی امکانات اس کی نظر سے اوجھل ہو گئے۔ عقل طبیعی نے عقل ایمانی کی طرف رہبری نہ کی۔
مغرب اور مشرق کی تہذیبوں اور ان کے اندر حیات کا موازنہ اور مقابلہ کرنے کیلئے یہ بات ضروری معلوم ہوتی ہے کہ اقبال کے کلام پر نظر ڈال کر دیکھا جائے کہ عام طور پر مشرق سے متعلق اور مشرق میں خاص طور پر ملت اسلامیہ کی موجودہ حالت کے متعلق اس مبصر کی کیا رائے ہے۔
اس سے پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اقبال نہ مشرق کا مداح ہے اور نہ مغرب کا ستائش گر،اسے دونوں طرف بنیادی خامیاں نظر آتی ہیں اور چونکہ وہ ایک عالم گیر نصب العین پیش کرنے والا محقق اور مبلغ ہے جو انسانی زندگی میں توازن پیدا کرنا چاہتا ہے،اس لئے وہ جانبداری سے کام نہیں لے سکتا۔
ہر طرفدار آدمی جادہ صداقت سے ہٹ جاتا ہے،اسلام اور ملت اسلامیہ کے عشق کے باوجود،بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اسی عشق کی وجہ سے وہ کسی عیب کو صواب نہیں سمجھ سکتا۔
مرض کی حقیقت سے آنکھیں بند کرنے والا مریض یا طبیب نہ صحیح تشخیص کر سکتا ہے اور نہ موثر علاج تجویز کر سکتا ہے۔ چونکہ زندہ اسلام کی ایک معین تصویر اس کی چشم باطن کے سامنے ہے،وہ حیات المسلمین کے ہر پہلو کو بغور دیکھ کر اس تصویر سے مقابلہ کرکے دیکھتا ہے کہ کہاں کہاں وہ صورت دگرگوں ہو گئی ہے۔ جس طرح توحیدی مذاہب میں بھی رفتہ رفتہ خدا کا تصور کیا سے کیا ہو جاتا ہے،اسی طرح تعلیمات اور شعائر کی بھی نہ صرف صورت بدل جاتی ہے بلکہ صورت کے ساتھ ساتھ ہی معنی بھی متغیر ہو جاتے ہیں۔
عرفی نے اس بارے میں کیا حکیمانہ رباعی کہی ہے:
حرم جویاں درے را می پرستند
فقیہاں دفترے را می پرستند
برافگن پردہ تا معلوم گردد
کہ یاراں دیگرے را می پرستند
اسی مضمون سے ملتا جلتا ایک دوسرا شعر ہے:
آنانکہ حسن روئے تو تفسیر می کنند
خواب ندیدہ را ہمہ تعبیر می کنند
اقبال محی الملت بھی ہے اور محی الدین بھی،اسے اپنی ملت کی حالت ہر جگہ اور ہر پہلو میں ناگفتہ بہ معلوم ہوتی ہے،وہ دیکھتا ہے کہ شرق و غرب دونوں میں دین مسخ ہو گیا ہے،وہ ایک صحیح نظریہ حیات پر اپنی ملت کا بھی احیا چاہتا ہے اور تمام نوع انسان کا ارتقاء بھی،جو اس کے عقیدے کا ایک اساسی عنصر ہے،اسی صورت میں ممکن ہے کہ قدامت پرستی اور تقلید کی راہوں سے ہٹ کر انسان تحقیق اور حریت سے اپنی خودی کو استوار کرے۔
ملت اسلامیہ کے ماضی خصوصاً آغاز اسلام کا نقشہ اس کی روح میں اہتزاز پیدا کرتا ہے،وہ یہ چاہتا ہے کہ روح اسلام نئے نئے قالب اختیار کرے اور زنگی کی تخلیقی اور جدت آفرین قوتوں سے نئے مظاہر اور نئے عوالم میں ظہور پذیر ہو۔ وہ فردا کو دوش کے آئینے میں دیکھتا ہے،لیکن حیات انفرادی یا حیات اجتماعی کی صورتوں میں اعادے اور تکرار کا قائل ”کل یوم ھو فی شان“ کی قرآنی تعلیم کے مطابق صوفیہ کا عقیدہ اور تجربہ ہے کہ تجلی میں تکرار نہیں۔
حیات ازلی کے لامتناہی مضمرات ہمیشہ امکان سے وجود میں آتے رہتے ہیں۔ اقبال میں مجددانہ انداز ہے اور وہ زندگی کے ہر پہلو میں تجدید کا آرزو مند ہے،لیکن اصلی تجدید وہ ہے جس میں روح خود ارتقاء کیلئے مناسب قالب اختیار کرے،محض جدت آفرینی زندگی کا ثبوت نہیں،بقول عارف رومی:
قالب از ما ہست شد نے ما ازو
بادہ از مامست شد نے ما ازو