Episode 48 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 48 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

آٹھواں باب؛
اشراکیت
جسے جدید مغربی تہذیب و تمدن کہتے ہیں اس کا ارتقاء ازمنہ متوسطہ کے اختتام پر نشاة جدید سے ہوا،اس کے بعد سے رفتہ رفتہ مختلف اقسام کے استبداد سے نجات حاصل کرنے کی جدوجہد جاری رہی،معاشی زندگی میں تاجروں نے جاگیرداری کی قوت کو توڑا اور پروٹسٹنٹزم نے مذہبی فکر میں آزادی کو ترقی دی۔ اٹھارویں صدی میں جسے انلائٹن منٹ یا دور تنویر کہتے ہیں،مذہب،فلسفہ،سیاست اور معیشت کے اہم مسائل آزادانہ طور پر حل کرنے کی کوششیں کی گئیں۔
گرویٹس،والٹیر روسو،ہیوم اور کانٹ کی ان کوششوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ انسان کے بنیادی حقوق کسی قدر وضاحت سے متعین ہو گئے۔ 
پہلے امریکہ میں اور اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد انقلاب فرانس میں عوام نے جابر حکومتوں،بے رحم سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے خلاف دستور حکومت اور عدالت کے بارے میں بہت کچھ مساوات حاصل کر لی۔

(جاری ہے)

اسی زمانے میں طبیعی علوم نے غیر معمولی ترقی کی اور صنعت پر ان کے اطلاق نے وسیع کارخانہ داری کو جنم دیا۔

اقوام مغربی میں خاص و عام کے دلوں میں یہ قوی امید پیدا ہو گئی کہ اب شاہی مطلق العنائی نہ رہے گی،ہر جگہ دستوری حکومت ہوگی،تجارت اور صنعت پر سے رکاوٹیں ہٹ جائیں گی،مملکت کو کلیسا سے بے تعلق کرنے کی وجہ سے مذہبی استبداد ختم ہو جائے گا،اس ترقی کے دستور کچھ عرصے تک جاری رہنے کی بدولت امن قائم ہو جائے گا اور زندگی کی نعمتیں وافر اور عام ہو کر غریبوں کے کلبہ احزان کو بھی جنت ارضی میں بدل دیں گی۔
 لیکن یہ سہانا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوا۔ جاگیرداروں کے بعد تاجروں کا دور دورہ آیا اور تاجروں کے بعد قومی دولت کارخانہ داروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں مرتکز ہونے لگی۔ وہ کاشتکار جنہوں نے جاگیرداروں اور بڑے بڑے زمینداروں کے پنجہ آہنیں سے نجات پائی تھی وہ زمینوں کو چھوڑ کر کارخانوں میں مزدور بن کر روز افزوں تعداد میں بھرتی ہوتے گئے۔
ایک قسم کی غلامی سے رہائی حاصل کرکے دوسری قسم کی غلامی میں مبتلا ہو گئے،جو بعض حیثیتوں سے پہلی غلامی کے مقابلے میں بدتر اور انسانیت کش ثابت ہوئی۔ صنعتی انقلاب کی ابتدا انگلستان میں ہوئی۔ کارخانہ داروں کی بے دردی اور ظالمانہ زر اندوزی نے مزدورں کے ساتھ جو برتاؤ کیا اس کو پڑھ کر بدن پر رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں،عورتوں اور بچوں سے سولہ سولہ گھنٹے تک مسلسل کام لیا جاتا تھا،ان کی رہائش کا کوئی انتظام نہ تھا،دھڑا دھڑ بیمار ہوتے اور بے علاج مرتے جاتے تھے۔
 کارخانہ داروں کو اس کی کچھ پروا نہ تھی،بیماروں کو مالکان کارخانہ برخاست کر دیتے تھے اور مرنے والوں کی جگہ لینے والے اور ہزاروں مل جاتے تھے۔ انگلستان کے بعد فرانس اور جرمنی اور یورپ کے دیگر ممالک میں بھی جدید صنعتوں کی کارخانہ داری آتی گئی اور وہاں بھی وہی صورت حال پیدا ہوئی جو انگلستان میں خلق خدا کیلئے تباہی کا باعث ہوئی تھی۔
انسان دوست مصلحین نے اس کے خلاف زور شور سے احتجاج کیا لیکن نقار خانوں میں طوطی کی آواز کسی نے نہ سنی،جابجا سوشلزم اور کہیں کمیونزم کی تحریکیں شروع ہوئیں لیکن تمام ممالک کی حکومتیں ان میں حصہ لینے والوں کو مفسد اور باغی قرار دے کر ان کی سرکوبی میں کوشاں رہیں۔
 پیرس میں اشتراکیوں نے اپنی حکومت قائم کر لی لیکن بہت جلد اسے فنا کر دیا گیا۔
ایک المانوی یہودی کارل مارکس نے انگلستان میں سکونت اختیار کرکے کارخانہ داری،زمینداری اور سرمایہ داری کے خلاف ایک مبسوط تحقیقی تصنیف مرتب کی جس کا نام ہی ڈاس کاپیٹل یعنی سرمایہ ہے۔ اس کتاب کو اشتراکیت کا صحیفہ گردانا جاتا ہے۔ اس کتاب کے مضمون کا لب لباب یہ ہے کہ کارخانہ داری،زمینداری اور سرمایہ داری چوری اور ڈاکے کی قسمیں ہیں،ان کا مدار مزدوروں اور کسانوں کا خون چوسنے پر ہے۔
جدید صنعتی سرمایہ داری میں رفتہ رفتہ یہ ہوگا کہ سرمایہ چند ہاتھوں میں مرتکز ہوتا جائے گا اور باقی تمام خلق خدا پرولیتاریہ بن جائے گی جو مطلقاً بے گھر اور بے زر ہوگی،مزدوروں کا گروہ ان کا محتاج اور بے بس ہو گا جو غلامی اور جاگیرداری کے زمانے میں بھی نہ تھا۔ کارخانوں میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں ہزاروں لاکھوں مزدوروں کا اجتماع ہو گا جو محتاجی اور بے بسی کے اسفل السافلین میں پہنچ کر متحد ہو کر آمادہ بغاوت ہوں گے۔
شروع میں حکومتیں جو سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ہوں گی ان کی سرکوبی کریں گی لیکن یہ سیلاب آخر کناروں کو توڑ ڈالے گا۔
مغرب میں حکما اور مصلحین کی کوششوں سے جو جمہوری حکومتیں قائم ہوئیں ان پر بھی عوام کو دھوکا دے کر سرمایہ دار قابض ہو گئے۔ پہلی حکومتوں میں اقتدار سلاطین اور جاگیرداروں کے ہاتھ میں تھا،اب سرمایہ دار حکومتوں میں امیر و وزیر مشیر ہو گئے اور کوئی قانون ایسا وضع نہ ہو سکتا تھا،جس سے ان کی نفع اندوزی پر زد پڑتی ہو۔
ایسی حالت میں یہ آواز بلند ہوئی کہ کوئی انقلاب تشدد کے بغیر پیدا نہ ہو سکے گا۔ تمام محنت کشوں کو متحد ہو کر بغاوت کرنی چاہئے تاکہ وہ تمام جائدادوں اور کارخانوں پر قابض ہو جائیں۔
اشتراکیت آغاز میں ایک اقتصادی یا معاشی نظریے اور حصول حقوق کیلئے ایک لائحہ عمل تھا لیکن کارل مارکس،اس کے رفیق کار انکل اور بعض دیگر اہل فکر نے اس کی تعمیر مضبوط کرنے کیلئے حیات و کائنات کی ایک ہمہ گیر نظریاتی اساس قائم کر دی جس نے اشتراکیوں کے نزدیک پہلے تمام ادیان اور فلسفوں کو منسوخ کرکے ان کی جگہ لے لی۔
اس نظریہ حیات نے دین اور اخلاق کے متعلق یہ عقیدہ پیش کیا کہ تمام پہلی تہذیبوں اور تمدنوں کا قیام طبقاتی تفوق کا رہین منت تھا اور دینی تعلیم کا زیادہ مصرف یہ تھا کہ استحصال بالجبر پر الٰہیاتی مہر لگا کر محتاجوں و اس پر راضی کرے کہ وہ خوشی سے اس کو قبول کر لیں،منعموں سے کچھ رشک و حسد نہ برتیں کیوں کہ یہ دنیا چند روزہ اور اس کی نعمتیں ناپائیدار ہیں،آخرت میں ابدی جنت اور اس کی مسرتیں سب اِن کے محتاجوں کیلئے وقف ہیں جنہیں دنیائے دوں میں کچھ حاصل نہیں ہوا۔
 اخلاق میں صبر و قناعت،توکل اور تسلیم و رضا کو اعلیٰ اخلاقی اور روحانی اقدار قرار دے کر سلاطین اور امرا کیلئے حفاظت کا سامان پیدا کر دیا۔ اشتراکیت نے تاریخ عالم پر نظر ڈال کر اس کا ثبوت پیش کیا کہ مذہبی پیشوا اکثر و بیشتر حکومتوں کے آلہ کار رہے ہیں،مذہبی استبداد نے ہمیشہ سیاسی اور معاشی ظلم کی معاونت کی ہے،روس میں زاریت اور کلیسائیت کا زبردست تعاون تھا اور ممالک میں بھی مذہبی پیشواؤں نے معاشی لوسٹ کھسوٹ کے خلاف خلاف کبھی آواز بلند نہیں کی،بعض قدیم اور جدید مذاہب فلسفہ بھی عوام کو انسانی اور مساواتی حقوق عطا کرنے کے خلاف تھے۔
جمہوریہ افلاطون میں عوام کو امور سلطنت میں حصہ لینے کی اجازت نہیں،مشرق میں بھی حکمت عملی کا یہی تقاضا بن گیا تھا کہ ”رموز مملکت خویش خسرواں دانند“ مگر یہ رموز غریب کشی کے سوا کچھ نہ تھا۔
اشتراکیت کے سر اٹھانے سے قبل ہی مغرب کے سائنسدانوں اور اہل فکر کے نزدیک مذہبی عقائد کے بہت کچھ دفتر پارینہ بن چکے تھے اور عملاً بھی زندگی پر مادیت طاری ہو رہی تھی۔
اشتراکیت انہی میلانات کی پیداوار ہے،اشتراکیت نے الحاد اور مادیت کو یکجا کر دیا اور عوام کی حقوق طلبی میں اور شدت پیدا کر دی،اشتراکیت نے پہلی روحانیت،قدیم اخلاقیت،قدیم معاشرت،قدیم سیاسی،قدیم معاشیات سب کے خلاف بیک وقت بغاوت کا علم بلند کیا۔ اس نے کہا کہ تدریجی اصلاحات کی تلقین بھی سرمایہ داروں کی ایک چال ہے،ایک ہمہ گیر انقلاب کے سوا چارہ نہیں جو حیات اجتماعی کے تمام قدیم ڈھانچوں کا قلع قمع کر دے۔
علامہ اقبال جب تک یورپ میں تھے سوشلسٹوں اور کیمونسٹوں کے گروہ جابجا مصرف کار تھے لیکن ان کو کہیں اقتدار حاصل نہ تھا۔ اشتراکیوں کو پہلی زبردست کامیابی روس میں ہوئی۔ پہلی جنگ علیم میں روس کا اندرونی معاشی اور سیاسی شیرازہ بکھر گیا تو کیمونسٹوں کے ایک گروہ نے لینن کی قیادت میں حکومت پر قبضہ کرکے اپنے پروگرام پر عملدرآمد شروع کیا۔
یورپ کی سرمایہ دارانہ حکومتوں نے ان کو کچلنے کی بہت کوشش کی لیکن ان کو کامیابی نہ ہوئی۔ روس کا علاقہ کرہ ارض کا پانچواں حصہ ہے،اس وسیع خطے میں جہاں نہ انسانوں کی تعداد قلیل ہے اور نہ فطرت کے مادی ذرائع کی کمی ہے،زندگی کے تمام شعبوں میں نئے تجربے ہونے لگے۔ کوئی ادارہ اپنی پہلی حالت پر قائم نہ رہا۔ دنیا کے ہر سیاستدان اور ہر مفکر کو اِس نئے تجربے کا جائزہ لینا پڑا اور تمام دنیا میں ہر سوچنے والا اس پر مجبور ہو گیا کہ وہ اس انقلابی نظریہ حیات اور انداز معیشت کے متعلق موافق یا مخالف خیالات کا اظہار کرے۔
شخصی ملکیت کے طرفداروں اور مذہب کے حامیوں نے اس کو خطرہ عظیم سمجھا کیوں کہ اس کی کامیابی سے ان کا صفایا ہوتا ہوا نظر آتا ۔
اقبال نے مذہب و تہذیب کے تمام مسائل کو اپنا موضوع سخن بنایا تو یہ لازم تھا کہ اشتراکیت کے فطری اور عملی پہلوؤں پر غور کرکے اپنے نتائج فکری سے ملت کو آگاہ کرے۔ سب سے پہلے پیام مشرق میں اس کے متعلق رائے زنی شروع کی۔
ہم اس سے پہلے لکھ چکے ہیں کہ اقبال طبعاً انقلاب پسند تھا اس لئے یہ ضروری تھا کہ اس انقلاب عظیم کو اچھی طرح پرکھنے اور اس کے تعمیری اور تخریبی پہلو اور اس کی ایجابی و سلبی حیثیتوں کا موازنہ اور مقابلہ کرے۔
پیام مشرق میں اس موضوع کی تین نظمیں ہیں۔ پہلی نظم کا عنوان ہے: ”محاورہ مابین حکیم فرانسوی آگسٹس کومٹ و مرد مزدور“ (فرانسیسی زبان میں اس فلسفی کا تلفظ ”کونت“ ہے۔
اقبال نے انگریزی تلفظ کے مطابق کو اس کومٹ لکھا ہے)۔
کونت،جون اسٹیورٹ،ہربرٹ اسپنسر اور ڈارون وغیرہ کا معاصر ہے،اس کے فلسفے کو پوزیٹوزم یا ایجابیت کہتے ہیں۔ اس کے فلسفے کا لب لباب یہ ہے کہ انسانی تفکر مذہب اور مابعد الطبیعیات سے گزر کر فطرت محسوس کی طرف آ گیا ہے اور یہ اس کی ترقی کی آخری منزل ہے۔ انسان کو مذہب کی ضرورت ہے اس لئے ان دیوتاؤں اور ایک خدا اور آخرت کو چھوڑ کر انسانیت کو دین بنا دینا چاہئے۔
 دنیا میں جو عظیم الشان انسان گزرے ہیں ان کی پرستش کے دن مقرر کر لینے چاہئیں۔ چنانچہ اس نے ایک کیلنڈر (جنتری) بھی بنایا تھا جس میں سال کا ہر دن کسی بڑے انسان کی یاد کا دن تھا۔ تمام نوع انسان کو نفس واحد اور مختلف اعضا کا ایک جسم تصور کرنا چاہئے۔ جس طرح جسم انسانی میں ہر عضو کا ایک مخصوص وظیفہ ہے اسی طرح معیشت کے کاروبار میں بھی فطرت تقسیم کار ہے۔
بعض لوگ کارندے ہیں اور بعض کار فرما،کوئی دماغ سے کام لیتا ہے اور کوئی ہاتھ پاؤں ہلا کر محنت مزدوری کرتا ہے۔ یہ تعلیم تہذیب و تمدن کے معاصرانہ ڈہانچے کو درست قرار دیتی ہے لیکن اقبال کے نزدیک یہ محنت کشوں کو دھوکا دینے والی بات ہے۔ کونت فلسفی سعدی کا ہم زباں ہو کر کہتا ہے!
بنی آدم اعضائے یک دیگر اند
ہماں نخل را شاخ و برگ و براند

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط