دو بھائیوں کے مرحوم باپ کی جائیداد کا ترکہ فقط ان کا رہائشی مکان تھا۔ اس کو دو مساوی حصوں میں تقسیم کرنا تھا۔ ایک بھائی مکار اور چالاک تھا دوسرا صلح پسند۔ مکار نے کہا میں تو قانع آدمی ہوں اور سنگ و خشت کی ہوس نہیں رکھتا۔ صحن خانہ سے لے کر کوٹھے کی چھت تک مکان کا جو حصہ ہے وہ مجھے دے دو اور مکان سے اوپر لب بام سے اوج ثریا تک جو لامتناہی فضا ہے،وہ میں کمال ایثار سے برضا و رغبت سے تمہارے حوالے کرتا ہوں۔
علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ مکار سرمایہ دار نے غریب محنتی مزدور کے ساتھ کچھ ایسی ہی تقسیم کی ہے۔
سب مال و دولت اور اسباب زندگی خود لپیٹ لئے ہیں،مگر مزدور کو یہ دھوکا دیتا ہے کہ جو کچھ تمہارے لئے چھوڑا ہے وہ اس متاع ناپائیدار سے افضل ہے۔ کارخانوں کا غوغا اور ان کے انتظامات اور فکر نفع و نقصان کی درد سری میرے لئے رہنے دو۔
(جاری ہے)
اس کے مقالے میں تسکین دین اور ارغنون کلیسا کا روح پرور نغمہ لطف اندوزی کیلئے تم لے لو۔
جن باغوں پر سلطنت نے ٹیکس لگا رکھا ہے ان کی ملکیت ایک مصیبت ہے۔ اس بلا کو میرے لئے چھوڑ دو اور آخرت کے باغ بہشت پر کوئی محصول نہیں وہ غریبوں کی عطیاتی جاگیر ہے،اسے میں تمہارے حوالے کرتا ہوں۔ بقول سعدی درویش ہی کو حقیقی فروغ حاصل ہے:
کس نیابد بخانہ درویش
کہ خراج زمین و باغ بدہ
یا بہ تشویش و غصہ راضی شو
یا جگر بند پیش زاغ بنہ
دنیا کی شرابیں خمار آور ہوتی ہیں۔
جنت میں آدم و حوا کو جو شراب طہور ملتی تھی اس کی لذت اور سرور کے کیا کہنے؟ دنیا کی یہ خمار والی شراب میرے لئے رہنے دو اور تم اس بہتر شراب کیلئے تھوڑا انتظار کر لو۔ صبر تلخ معلوم ہو تو سمجھ لو کہ اس کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ مرغابیاں اور تیتر بیٹر مجھے کھانے دو اور تم ان پرندوں کی تاک میں لگے رہو جو اس دنیا میں نظر نہیں آتے۔ یہاں ایک شاعر کے ساقی نامے کا مطلع یاد آ گیا ہے:
امروز ساقیا مجھے عنقا شراب دے
شاہانہ ہے مزاج ہما کے کباب دے
یہ دنیائے دوں میرے لئے چھوڑ دو،باقی عرش معلی تک جو کچھ ہے وہ تمہارا مال ہے۔
اس ساری نظم کا مضمون ائمہٴ اشتراکیت کا یہ مقولہ ہے کہ مذہب محتاجوں کیلئے افیون ہے اور مسجد،مندر اور کلیسا میں اسی افیون کے ڈھیر لگے ہیں:
قسمت نامہ سرمایہ دار و مزدور
غوغائے کار خانہ آہنگری زمن
گلبانگ ارغنون کلیسا ازان تو
نخلے کہ شہ خراج برومی نہہ زمن
باغ بہشت و سدرہ و طوبا ازن تو
تلخابہ کہ درد سر آرد ازان من
صہبائے پاک آدم و حوا ازان تو
مرغابی و تدرو و کتوبر ازن من
ظل ہما و شہپر عنقا ازان تو
ایں خاک و آنچہ در شکم او ازان من
وز خاک تا بہ عرش معلا ازان تو
اسی کے ساتھ ایک دوسری نظم نوائے مزدور ہے جو دنیا کے محنت کشوں کیلئے پیام انتقام ہے۔
کھدر پوش مزدور کہتا ہے کہ ہماری محنت کے سرمائے سے ناکردہ کار سرمایہ دار ریشمین قبا پہنتے ہیں۔ ان کے لعل و گہر ہمارے خون کے قطرے اور ہمارے بچوں کے آنسو ہیں۔ کلیسا بھی ایک جونک ہے جو ہمارا خون چوس کر موٹی ہو رہی ہے سلطنتیں ہمارے قوت بازو سے مضبوط ہوتی ہیں،لیکن ان سے ہمیں کچھ حاصل نہیں۔ یہ تمام باغ و بہار ہمارے گریہ سحر اور خون جگر کی پیداوار ہے۔
یہ آؤ ان تمام اداروں کے ساغروں میں ایک شیشہ گداز شراب انڈیل دیں۔ آؤ اس چمن حیات میں ہمارے خون جگر سے لالہ و گل پیدا کرنے والوں سے انتقام لیں۔ بے درد شمعوں کے طواف میں اپنے آپ کو پروانہ وار سوخت کرنا ختم کریں اور اپنی خودی سے آگاہ ہو کر خود داری اور آزادی کی زندگی بسر کریں:
ز مزد بندہ کرپاس پوش و محنت کش
نصیب خواجہٴ نا کردہ کار رخت حریر
ز خوئے فشانی من لعل خاتم والی
ز اشک کودک من گوہر ستام امیر
ز خون من چو زلو فربہی کلیسا را
بزور بازوئے من دست سلطنت ہمہ گیر
خرابہ رشک گلستان ز گریہ سحرم
شباب لالہ و گل از طراوت جگرم
بیا کہ تازہ نوا می ترادد از رنگ ساز
مے کہ شیشہ گدازد بہ ساغر اندازیم
مغان و دیر مغاں را نظام تازہ دہیم
بنائے میکدہ ہائے کہن بر اندازیم
ز رہرتاں چمن انتقام لالہ کشیم
بہ بزم غنچہ و گل طرح دیگر اندازیم
بطوف شمع چو پروانہ زیستن تا کے
ز خویش ایں ہمہ بیگانہ زیستن تا کے
اقبال کی ایک رباعی کا مضمون بھی اسی مقطع کے مضمون کے مماثل ہے۔
اپنی زندگی کو دوسروں کے استحصال ناجائز میں وقف کر دینا تضییع حیات ہے:
گل گفت کہ عیش نو بہارے خوشتر
یک صبح چمن ز روزگارے خوشتر
زاں پیش کہ کس ترا بہ دستار زند
مردن بکنار شا خسارے خوشتر
اشتراکیت کی تعلیم کا ایک بڑا اہم جزو مسئلہ ملکیت زمین ہے۔ اس بارے میں ہر قسم کے سوشلسٹ بھی کیمونسٹوں کے ہم خیال ہیں کہ سرمایہ داری اور محنت کشوں سے ناجائز فائدہ حاصل کرنے کی یہ بدترین صورت ہے جس کے جواز کا از روئے انصاف کوئی پہلونہیں نکلتا۔
اقبال جسے مسلم سوشلسٹ کہنا چاہئے،ہر قسم کی سوشلزم اور کومیونزم سے اس مسئلے پر اتفاق رائے رکھتا ہے کہ زمین خدا کی پیدا کی ہوئی ہے اور اس کی حیثیت ہوا اور پانی کی سی ہے جس پر کسی کی کوئی شخصی ملکیت نہیں۔ یہ درست ہے کہ زمین انسان کی محنت کے بغیر زیادہ رزق پیدا نہیں کرتی،مگر از روئے انصاف محض افزائش سے فائدہ اسی کو حاصل ہونا چاہئے جس نے ہل جوتا،آبیاری کی اور فصل کی نگہداشت کی۔
زمین کا غیر حاضر مالک اس کیلئے کچھ نہیں کرتا،پھر وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھے کس حق سے اس میں سے ایک کثیر حصے کا طالب ہوتا ہے۔ ملکیت زمین کے بارے میں اسلامی فقہا کے درمیان ہمیشہ کم و بیش اختلاف رہا ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم اس بارے میں کچھ اشارے کرتی ہے جن کی تعبیر اپنے اپنے افکار و اغراض کے مطابق مسلمان مفسرین اور مفکرین مختلف کرتے ہیں۔ اس بارے میں اکثر احادیث بھی بظاہر باہم موافق معلوم نہیں ہوتیں۔
اس لئے ہر شخص اپنے مطلب کی احادیث کو لے لیتا ہے اور جو اس کے مخالف معلوم ہوتی ہیں،ان کو یا ضعیف الاسناد بتاتا ہے یا ان کی تاویل کرتا ہے۔ زمین کے متعلق قرآن کریم میں جو اشارے ہیں وہ اس قسم کے ہیں ”الارض للہ“ زمین اللہ کی ہے۔ جو شخص زمین میں شخصی ملکیت کو درست نہیں سمجھتا،اس کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین کے معاملے میں ذاتی ملکیت جائز نہیں۔
اس کا مخالف یہ کہتا ہے کہ اس آیت سے اس قسم کا کوئی مطلب حاصل نہیں ہو سکتا،اس لئے کہ قرآن بار بار کہتا ہے ”للہ ما فی السماوات و ما فی الارض“ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ اللہ ہی کا ہے۔ انسان نے کسی چیز کو پیدا نہیں کیا،اس لئے وہ کسی چیز کا مالک حقیقی نہیں کہلا سکتا۔ لیکن سب کچھ خدا کا ہونے کے باوجود آخر باقی تمام اشیاء میں اسی اسلام نے ذاتی ملکیت کو تسلیم کیا ہے اور فقہ کا ایک کثیر حصہ اس ملکیت کے جھگڑوں کے چکانے کیلئے ہے۔
البتہ ”لیس للانسان الا ماسعی“ سے اس تعلیم کو اخذ کر سکتے ہیں کہ جس چیز کے متعلق کسی انسان نے کچھ محنت نہیں کی اس چیز پر اس کا کوئی حق نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی شخص بادشاہوں کے عطیہ یا جبر و مکر اور ناجائز استعمال سے زمین کے وسیع قطعات پر قابض ہو گیا ہے اور اس کی کاشت کے متعلق آپ خود کچھ نہیں کرتا بلکہ دوسروں کی محنت سے پیدا کردہ رزق اور دولت میں سے حصہ طلب کرتا ہے تو اس کا مطالبہ ناجائز ہے۔
اس کتاب میں اس بحث کا فیصلہ کرنا ہمارے احاطہ موضوع سے باہر ہے۔ یہاں فقط یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ علامہ اقبال زمین کے معاملے میں قومی ملکیت کے قائل ہیں۔ کاشتکار سے ملت کا خزانہ عامرہ تو بجا طور پر پیداوار کا کچھ حصہ طلب کر سکتا ہے لیکن کسی ناکردہ کار مالک کا اس پر کوئی حق نہیں۔ اپنے اس خیال کو اقبال نے بڑے زور شور سے کئی جگہ بیان کیا ہے،چنانچہ الارض للہ بال جبریل کی ایک نظم کا عنوان ہی ہے:
الارض للہ
پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون؟
کون دریاؤں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب؟
کون لایا کھینچ کر پچھم سے باد سازگار؟
خاک یہ کس کی ہے؟ کس کا ہے یہ نور آفتاب؟
کس نے بھر دی موتیوں سے خوشہ گندم کی جیب؟
موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوے انقلاب؟
دہ خدایا یہ زمیں تیری نہیں تیری نہیں
تیرے آبا کی نہیں تیری نہیں میری نہیں