Episode 51 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 51 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

بال جبریل کی ایک دوسری نظم فرشتوں سے فرمان خدا ایسی ہیجان انگیز اور ولولہ خیز ہے کہ اس کے جذبے کو برقرار رکھتے ہوئے اگر روسی زبان میں اس کا موثر ترجمہ ہو سکتا اور وہ لینن کے سامنے پیش کیا جاتا تو وہ اسے بین الاقوامی اشتراکیت کا ترانہ بنا دینے پر آمادہ ہو جاتا سو اس کے کہ ملحد لینن کو اس میں یہ خلل نظر آتا کہ اس میں خدا یہ پیغام اپنے فرشتوں کو دے رہا ہے اور اس کے نزدیک وجود نہ خدا کا ہے اور نہ فرشتوں کا۔
یہ کہتا کہ کیا افسوس ہے کہ خدا دشمن مگر انسان دوست انقلابی تعلیم کو بھی قدیم توہمات کے سانچوں میں ڈھالا گیا ہے۔
 یہ نظم کو میونسٹ مینی فسٹو (اشتراکی لائحہ عمل) کا لب لباب ہے اور محنت کشوں کیلئے انقلاب بلکہ بغاوت کی تحریک ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ علامہ اقبال اشتراکیت کے تمام پہلوؤں سے اتفاق رائے رکھتے تھے سو اس کے کہ اس تمام تنظیم جدید نے انسان کے دل و دماغ پر یہ غلط عقیدہ مسلط کر دیا ہے کہ تمام زندگی مادی اسباب کی عادلانہ یا مساویانہ تقسیم سے فروغ اور ترقی حاصل کر سکتی ہے۔

(جاری ہے)

علامہ اقبال انسانی زندگی کا مقصود جسمانی ترقی نہیں بلکہ روحانی ترقی سمجھتے تھے۔ روح انسانی آب و گل کی پیداوار نہیں اور اس کیلئے آب و گل میں پھنس کر رہ جانا اسے غایت حیات سے بے گانہ کر دیتا ہے۔
 علامہ کے نزدیک اشتراکیت نے قدیم لغو طریقوں اور اداروں کی تخریب کا کام بہت کامیابی سے کیا ہے۔ جس مذہب کی اس نے تنسیخ کی ہے وہ قابل تنسیخ ہی تھا۔
اس نے سلطانی اور امیری اور سرمایہ داری کا خاتمہ کیا اور بہت اچھا کیا،کیوں کہ ان طریقوں نے مل کر انسانوں کا درجہ حیوانوں سے بھی نیچے گرا دیا تھا لیکن روٹی کپڑے اور رہائش کی آسودگی انسان کا مقصود حیات نہیں۔ انسانی ارتقا کے مدارج لامتناہی ہیں۔ اشتراکیت نے کچھ کام تعمیری کیا اور کچھ تخریبی۔ اس کا ایک پہلو سلبی ہے اور دوسرا ایجابی۔
اس نے جن اداروں کا قلع قمع کیا اور جن عقائد کو باطل قرار دیا وہ انسان کی روحانی ترقی کے راستے میں بھی سد راہ تھے لیکن اشتراکیت چونکہ مغرب کی مادی جدوجہد کی پیداوار تھی اور طبیعی سائنس کے اس نظریے سے پیدا ہوئی تھی کہ مادی فطرت کے علاوہ ہستی کی اور حقیقت نہیں،اس لئے وہ اس تاریخی حادثے کا شکار ہو گئی اور مادی زندگی میں عادلانہ معیشت کو الحاد کے ساتھ وابستہ کر دیا حالانکہ اس تمام انقلاب کا مادیت کے فلسفہ الحاد کے ساتھ کوئی لازمی رابطہ نہیں اقبال کا عقیدہ تھا کہ یہ تمام انقلاب اسلام کے ساتھ وابستہ ہو سکتا ہے۔
بلکہ معاشی تنظیم اسلام کے منشا کے عین مطابق ہے۔ فرماتے تھے کہ خدا اور روح انسانی کے متعلق جو صحیح عقائد ہیں،وہ اگر اس اشتراکیت میں شامل کر دیئے جائیں تو وہ اسلام بن جاتی ہے۔ اقبال کو اشتراکیت پر جو اعتراض ہے وہ ہم آگے چل کر پیش کریں گے،لیکن جس حد تک اسے اشتراکیت سے اتفاق ہے اس حد تک اس کے افکار اور جذبات ایسے ہیں جو لینن اور کارل مارکس اور انکل کی زبان سے بھی ہو بہو اسی طرح ادا ہو سکتے تھے۔
خدا فرشتوں کو جو کچھ حکم دے رہا ہے،وہی تقاضا ائمہ اشتراکیت تمام محنت کشوں سے کرتے ہیں،لیکن ان کے ہاں انسان انسان کو ابھار رہا ہے خدا کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ خدا سے وہ اس لئے بے زار اور اس کے وجود کے منکر ہیں کہ خدا کے نام کو زیادہ تر ہر قسم کے ظلم و استبداد ہی نے اپنے اغراض کیلئے استعمال کیا ہے۔
اقبال کے نزدیک خدا فرشتوں کو جو پیغام دے رہا ہے کہ اسے انسانوں تک پہنچا دو،وہ درحقیقت اس اسلامی انقلاب کے پیغام کا ایک حصہ ہے،جس کا اقبال آرزو مند تھا۔
یہ انقلاب ایسی معاشرت پیدا کرے گا جس میں غریبوں کی محنت سے پیدا شدہ ناکردہ کار امیری مفقود ہو جائے گی۔ غلام اپنے ایمان کی قوت سے بڑے بڑے فرعونوں سے ٹکر لیں گے۔ اس میں اس انداز کی سلطانی جمہور پیدا ہو گی جو موجودہ مغربی انداز کی جمہوریت کی طرح سرمایہ داری کا دام فریب نہ ہو گی،بلکہ اس میں مساوات حقوق عوام کا وہ انداز ہو گا جو اسلام نے اپنی ابتدا میں کیا تھا۔
جہاں امیر سلطنت بھی عوام کا ہم رنگ اور حقوق و فرائض میں ان کے برابر تھا۔ اس میں تمام فرسودہ رسوم و رواج اس طرح ملیا میٹ ہو جائیں گے جس طرح اسلام نے زمانہ جاہلیت کے نقوش مٹا دیئے۔ جہاں کاشتکار کی پیدا کردہ روزی کو نکھٹو زمیندار جبر سے حاصل نہ کر سکے گا،جہاں خالق اور مخلوق کے درمیان دیر و حرم کے دلال اور کمشن ایجنٹ وسیلہ نجات بن کر حائل نہ ہوں گے،جہاں مذہب کے ظواہر پابندی سے ریاکار دیندار دوسروں پر اپنا سکہ نہ جما سکیں گے اور جہاں اس جدید تہذیب کے پیدا کردہ ڈھونگ کا صفایا ہو جائے گا جس نے انسانوں کو ان کی اصلیت سے بے گانہ کر دیا ہے۔
اب اقبال کی اپنی زبان سے یہ پیغام سنئے:
فرمان خدا
(فرشتوں سے)
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دو
گرماؤ غلاموں کا لہو سوز یقیں سے
کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو
حق را بسجودے صنماں را بطوافے
بہتر ہے چراغ و دیر بجھا دو
میں ناخوش ہو بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے
میرے لئے مٹی کا حرم اور بنا دو
تہذیب نوی کارگہ شیشہ گراں ہے
آداب جنوں شاعر مشرق کو سکھا دو
اقبال نے منکر خدا لینن کو بھی آخرت میں خدا کے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔
عاقبت میں عاصی و عابد مومن و کافر سب کو خدا کے سامنے پیش ہونا ہے۔ بقول عارف رومی قیامت کے معنی انکشاف حقیقت کے ہیں۔ خدا کے روبرو ہونے کے معنی حقیقت سے آشنا ہونا ہے کیوں کہ اصل حقیقت خدا ہی ہے:
والسما انشقت آخر از چہ بود
از یکے چشمے کہ ناگہ بر کشود
پس قیامت شو قیامت را بہ بیں
دیدن ہر چیز را شرط است این
لینن نے خدا کے سامنے کفر کے اسباب بیان کرکے معذرت کی ہے اور جو انقلاب اور ہیجان اس نے پیدا کیا اس کا جواز بھی دلنشیں طریقے سے پیش کیا ہے۔
اس نے کفر و الحاد کے سوا باقی جو کچھ بھی کیا وہ حسن خدمت ہی تھا،جو عقوبت کی بجائے مستحق انعام ہے۔ اقبال بھی یہی چاہتا تھا کہ کوئی مرد مومن و مجاہد اس فرسودہ مشرقی اور جدید مغربی تہذیب کا تختہ الٹ دے۔ یہ کام لینن جیسے مجاہد نے کیا جسے مذہب کے استبداد نے ملحد بنا دیا تھا۔ بہر حال اس نے جو کام کیا وہ اقبال کے نزدیک مستحسن اور ارتقائے انسانی کیلئے ایک لازمی اقدام تھا مگر اشتراکیت لا سے الا کی طرف قدم نہ بڑھا سکی۔
یہ کام آئندہ مستقبل قریب یا بعید میں ہو جائے گا لیکن قدیم استبدادوں کا خاتمہ بہت کچھ اشتراکیت ہی نے کیا۔ اقبال کو افسوس ہے کہ توحید اور روحانیت سے معرا ہونے کی وجہ سے یہ اصلاحی کام ادھورا رہ گیا اور اس کی وجہ سے اس میں ایک نئے استبداد کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ محض مادیات کی مساویانہ تقسیم سے روح کے اندر وہ جوہر پیدا نہیں ہو سکتا جسے اقبال عشق کہتا ہے۔ مادیات کی حرص انسان کو مسلسل ایک اسفل سطح پر کشمکش میں مبتلا رکھتی ہے۔ ہر قسم کی تعمیر کیلئے پہلے شکست و ریخت ضروری ہوتی ہے،پہلا قدم سلبی ہوتا ہے اور دوسرا ایجابی۔ بقول عارف رومی:
ہر بنائے کہنہ کاباداں کنند
اول آں تعمیر را ویراں کنند

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط