جاوید نامے میں جمال الدین افغانی کا ایک پیغام ملت روسیہ کے نام ہے۔ اس پیغام میں اقبال نے اسلام اور اشتراکیت کے نقطہ ہائے اتصال و افتراق کو بڑی وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اشتراکیت نے پرانے معبودوں اور فرسودہ اداروں کے انہدام میں سعی بلیغ کی ہے،اس کا فراغ دلی سے ذکر کیا ہے،لیکن اس کے ساتھ ہی اس ملت کو ان خطرات سے آگاہ کیا ہے جو اس انقلابی تہذیب و تمدن کو پیش آ سکتے ہیں۔
انقلابات کی تاریخ میں سب سے بڑا انقلاب اسلام تھا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے کرہ ارض کے ایک وسیع حصے میں قدیم فکر و عمل کے حیات کش نقوش کو مٹا کر جدید عالم گیر تہذیب کی بنا ڈالی۔
زندگی کے ہر شعبے کے متعلق اس کا زاویہ نگاہ نادر اور انقلابی تھا۔ اس ہمہ گیر انقلاب کیلئے انسانی طبائع پوری طرح آمادہ نہ تھیں،اس لئے بہت جلد شکست خوردہ رسوم اور ادارے اور انسانی خود غرضیاں بہت کچھ واپس آ گئیں اور اس انقلاب کے خلاف رفتہ رفتہ ردعمل شروع ہوا۔
(جاری ہے)
اسلام کی اصل صورت بہت کچھ مسخ ہوتی گئی،لیکن اسلام کا جتنا حصہ بھی اس ردعمل کے باوجود ملت اسلامیہ کی زندگی میں باقی رہ گیا،اس کی بدولت مسلمان اپنی معاصر دنیا سے کوئی چھ سات صدیوں تک پیش پیش رہے۔ زندگی کا قانون یہ ہے کہ افراد یا اقوام کی زندگی ایک حالت پر قائم نہیں رہ سکتی۔ مسلسل تغیر پذیری آئین حیات ہے،اس لئے ہر لمحے میں انساں یا آگے بڑھ رہا ہے یا پیچھے ہٹ رہا ہے۔
حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس انسان کے دو دن ایک جیسے ہوں یعنی اس نے ترقی کا کوئی قدم نہ اٹھایا وہ شخص نہایت گھاٹے میں ہے ”من استوا یو ماہ فہو مغبون“ اس اصول کے مطابق مسلمان صدیوں سے پیچھے ہٹ ہٹتے گئے اور مغربی اقوام آگے بڑھنا شروع ہوئیں۔ اب اس صدی میں مسلمانوں کو اپنے نقصان،پسماندگی اور بے بسی کا احساس شروع ہوا تو ان میں ہر جگہ کچھ نہ کچھ حرکت پیدا ہوئی۔
اسلام کے انقلاب کے بعد روسی اشتراکیت تک مشرق میں کوئی ایسی حرکت پیدا نہ ہوئی جسے انقلابی کہہ سکیں یعنی جس نے سیاست اور معیشت اور نظریات حیات کو یکسر بدل ڈالا ہو۔ مغرب میں ازمنہ متوسط کے جمود و استبداد کے بعد نشاة ثانیہ نے فکر و عمل میں ہیجان یدا کیا اور رفتہ رفتہ خاص افراد اور خاص طبقات میں زندگی کے انداز بدلنا شروع ہوئے۔ اس کے کچھ عرصے بعد اصلاح کلیسا کی لوتھرکی تحریک سے کلیسا میں زلزلہ آیا اور بقول اقبال فرنگ میں آزادی فکر کی نازک کشتی رواں ہوئی۔
ان تمام تحریکوں کا مجموعی نتیجہ انقلاب فرانس میں نکلا اور اس کے کچھ عرصے بعد انگلستان میں وہ انقلاب ہوا جسے صنعتی انقلاب کہتے ہیں اور جس نے انگریزوں کی زندگی کے ہر شعبے میں کچھ نہ کچھ اچھا یا برا اثر پیدا کیا۔
لیکن یہ تمام تحریکیں مجموعی طور پر بھی اتنی انقلاب آفریں نہ تھیں جتنی کہ اشتراکیت کی زلزلہ انگیز تحریک۔ بقول اقبال:
قہر او کوہ گراں را لرزہ سیماب داد
اس سے قبل کی تحریکوں سے ملوکیت کا خاتمہ نہ ہو سکا،جاگیرداری کی جگہ سرمایہ داری نے لے لی۔
عوام کی حقوق طلبی اور جمہوریت کی کوششیں بھی اتنی بار آور نہ ہوئیں کہ ان کیلئے بنیادی انسانی حقوق محفوظ ہو سکتے۔ صحیح معنوں میں انقلاب اسی کو کہہ سکتے ہیں جو اشتراکیت نے پیدا کیا۔ اشتراکیت قدیم معاشرت میں محض رخنے بند کرنے اور ٹانکے یا پیوند لگانے کی قائل نہ تھی۔ اس نے قدیم اداروں کی بیماری کا علاج دوا یا غذا تجویز نہ کیا۔ بلکہ ایسی جراحی جو اعضائے فاسد کی قطع و برید سے دریغ نہ کرے۔
جہاں اشتراکیت کو کامیابی ہوئی وہاں کوئی ادارہ اور کوئی طریقہ بھی اپنی پہلی حالت پر قائم نہ رہ سکا۔ قیصریت کا صفایا ہو گیا،جاگیرداری کا خاتمہ ہوا،سرمایہ داری کا نام و نشان مٹ گیا اور کلیسا عضو معطل بن گیا۔ مذہب کے خلاف ایسا شدید ردعمل ہوا کہ دین کی بیخ کنی کو روسی سیاست نے اپنے لائحہ عمل میں شامل کر لیا،پوجا پاٹ کی اجازت رہی مگر دین کی تبلیغ ممنوع ہو گئی۔
اشتراک ارباب حل و عقد کیلئے یہ شرط لازمی ہو گئی کہ اعتقاداً اور عملاً ملحد ہوں اور مادیت کے قائل ہوں۔ اس طرح سے حق و باطل کی ایک عجیب قسم کی آمیزش ظہور میں آئی۔ سب سے بڑا ظلم جو اقدار حیات کو فنا کر دیتا ہے،اشتراکیت کا جبری نظام ہے۔ انسانوں کی نقل و حرکت پر قدغنیں لگ گئیں۔ آزادی فکر،آزادی ضمیر اور آزادی بیان جرم بن گئیں۔ جمال الدین افغانی کی روح اس تمام انقلاب کا جائزہ لیتی ہے اور اس سلسلے میں وہ اس انقلابی ملت کے سامنے اسلام کی انقلاب آفریں تعلیم کو پیش کرتی ہے۔
جس کا لب لباب یہ ہے کہ تم نے تخریبی اور سلبی کام تو خوب کیا لیکن اس کا ایجابی پہلو فقط اسلام پورا کر سکتا ہے۔ بقول غالب:
رفتم کہ کہنگی ز تماشا بر افگنم
ور بزم رنگ و بو نمطے دیگر افگنم
در رقص اہل صومعہ ذوق نظارہ نیست
ناہید را بہ زمزمہ از منظر افگنم
افغانی بتاتا ہے کہ یہ ”نمطے دیگر“ کیا ہونا چاہئے۔ افغانی کے پیغام کا حاصل مفصلہ ذیل ہے:
اے ملت روسیہ! تو اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کی طرف نظر ڈال اور اس سے کچھ سبق اور کچھ عبرت حاصل کر۔
مسلمانوں نے قیصرو کسریٰ کا طلسم تو توڑا لیکن بہت جلد ان کے تحت ملوکیت پر خود متمکن ہو گئے اور قیصریت کے جاہ و جلال کو اپنی شاہانہ شوکت سے ملت کر دیا۔ فرعون کے آبنوس کے تخت کی جگہ،نو کروڑ روپے کا تخت طاؤس شان اسلام کا مظہر بن گیا۔ ملوکیت کے عروج میں افراج کی حریت سوخت ہو گئی۔ تحقیق و اجتہاد کے دروازے بند ہو گئے۔ اس سے عجمی افکار اور غیر اسلامی طرز زندگی نے اسلام کے افکار کی طرف غفلت پیدا کر دی۔
ملوکیت وہ چیز ہے جو سیاست اور انقلابی معیشت ہی پر اثر انداز نہیں ہوتی بلکہ عقل و ہوش اور رسم و رہ سب دگرگوں ہو جاتے ہیں۔ غرضیکہ اسلام کے انقلاب کو ملوکیت کھا گئی۔ ظالم اور مستبد سلاطین ”ظل اللہ“ بن گئے اور علمائے سو،فقیہ اور فتویٰ فروش بن کر ان کے آلہ کار ہو گئے۔ جس طرح رومتہ الکبریٰ کے شہنشاہ دیوتا بن گئے تھے،جن کی پوجا رعیت کے ہر فرد پر لازم تھی،اسی طرح مسلمان سلاطین علماء سے بھی سجدے کرانے لگے اور علماء سے یہ فتویٰ حاصل کر لیا کہ یہ سجدہ تعظیمی ہے،سجدہ عبادت نہیں۔
یہ سلاطین خلفا بن کر اس رسول کی جانشینی کا دعویٰ کرتے تھے جو راستہ چلتے ہوئے بھی اصحاب سے دو قدم آگے نہ چلتے تھے اور محفل میں اپنی آمد کے وقت تعظیماً اصحاب کو کھڑا ہونے سے منع کرتے تھے:
خود طلسم قیصر و کسریٰ شکست
خود سر تخت ملوکیت نشست
تا نہال سلطنت قوت گرفت
دین او نقش از ملوکیت گرفت
از ملوکیت نگہ گردد دگر
عقل و ہوش و رسم و رہ گردد دگر
اے ملت روسیہ! کچھ کام تو تو نے وہی کیا ہے جو اسلام کرنا چاہتا تھا اور جس کا نمونہ کچھ عرصے کیلئے دنیا کے سامنے پیش بھی کیا گیا تھا۔
تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے خلفائے راشدین کی طرح قیصریت کی ہڈی پسلی توڑ ڈالی ہے مگر تجھ کو تاریخ اسلام سے عبرت حاصل کرنی چاہئے،کہیں یہ نہ ہو کہ تو بھی عالمگیر اخوت کا دعویٰ کرتے کرتے ایک نئی قسم کی ملوکیت کا شکار ہو جائے۔ تو بھی کہیں جبر و ظلم کے ساتھ جہانگیری شروع نہ کر دے۔ خوفناک آلات ہلاکت پیدا کرکے تو نوع انسان کو خوف زدہ نہ کرے۔
قوت ضروری چیز ہے،لیکن دنیا ایسی ملت کی طالب ہے جو صرف نذیر ہی نہ ہو بلکہ بشیر بھی ہو۔ تمہارے طریق عمل میں انسانوں کیلئے ایک اعلیٰ تر زندگی کی بشارت ہونی چاہئے۔ تمہاری تقدیر اقوام مشرق کے ساتھ وابستہ ہے،اس لئے تمہارا رخ زیادہ تر ایشیا کی طرف ہونا چاہئے،جو نئے شب و روز پیدا کر سکتا ہے۔ افرنگ کا آئین و دین کہنہ اور فرسودہ ہو گیا ہے۔
اگر تم نے بھی اس کی نقالی شروع کر دی اور ایک طرف بے دینی کو ترقی دی اور دوسری طرف محض سامان حیات اور سامان حرب پیدا کرنے ہی کو مقصود بنا لیا تو تمہارا انجام بھی وہی ہوگا جو فرنگ کا ہوا ہے۔ تم اگر درحقیقت نئی تہذیب پیدا کرنا چاہتے ہو تو مغرب کی طرف مت دیکھو،اس تقلید اور مطابقت میں تم اسی کے رنگ میں رنگے جاؤ گے۔ یہ مغرب لا سے الا کی طرف نہیں بڑھ سکا اور مادیت کے آب و گل میں پھنس کر رہ گیا ہے۔
ارتقائی زندگی کا ایک قدم نفی کی طرف اور دوسرا اثبات کی طرف اٹھتا ہے۔ اگر تم جدید نظام عالم پیدا کرنا چاہتے ہو تو اب وقت ہے کہ تم اثبات کی طرف آ جاؤ۔
کہنہ شد افرنگ را آئین و دیں
سوئے آں دیر کہن دیگر مبیں
کردہٴ کار خداونداں تمام
بگذر از لا جانب الا خرام
در گذر اڑ لا اگر جویندہ
تا رہ اثبات گیری زندہٴ
جس انقلاب آفرینی پر تم فخر کرتے ہو اس کا سبق دنیا کو سب سے پہلے قرآن نے پڑھایا تھا۔
اسی قرآن لانے والے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان کیا تھا کہ لاقیصر و لاکسریٰ۔ اسی نے حبشیوں کو روشن ضمیر بنا کر ان کی ظاہری سیاہی کو نور قلب سے بدل دیا تھا۔ اسی نے رنگ و نسل کی تمیز کو خرام کیا تھا۔ فرنگی اقوام ابھی تک مساوات اور اخوت کے دعاوی کے باوجود کالوں کو گوروں کے مطابق حقوق دینے کی روا دار نہیں۔ مغربیوں کی تمام سیاست ماکیا ویلی جیسے ابلیس کی سکھائی ہوئی روباہی ہے۔ اس روباہی کا تمام فن دوسروں کو محتاج رکھ کر اپنے لئے سامان حیات کی فراوانی پیدا کرنا ہے:
گر ز مک غریباں باشی خبیر
روبہی بگذار و شیری پیشہ گیر
چیست روباہی تلاش ساز و برگ
’شیر مولا جوید آزادی و مرگ‘