Episode 57 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 57 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

ایسی جمہوریتوں کے خلاف سوشلسٹوں اور اشتراکیوں نے یہ غوغا بلند کیا کہ یہ سب عوام کو دھوکا دینے کے سامان ہیں اور عوام کو حقیقی بھلائی ایسی جمہوریتوں میں کبھی نہیں ہو سکتی،یہ سب بورژوا لوگوں کی حکومتیں ہیں اور ناکردہ کار قومی دولت کا،جو محنت کشوں کی پیدا کردہ ہے، سب سے زیادہ حصہ لپیٹ لیتے ہیں۔ مسولینی اور ہٹلر نے بھی اس نظام کو درہم برہم کرنے کی کوشش کی تاکہ آمریت اس کی جگہ لے لے جس میں نیچے سے لے کر اوپر تک آمروں ہی کا ایک تدریجی سلسلہ ہو۔
مجلس شوریٰ بھی اس طرح بنائی جائے کہ ان آمروں کا کوئی مخالف اس میں منتخب نہ ہو سکے۔ اس کو فاشطی نظام کہتے ہیں۔ مسولینی اور ہٹلر دونوں اس کے مدعی تھے کہ یہ بھی جمہوریت ہی ہے جو دوسری قسم کی جمہوریتوں پر فائق ہے۔
 فاشطی نظریہ نسلی اور قومی تھا۔

(جاری ہے)

اس کے برخلاف روس کا اشتراکی نظام ہے جو نسلی اور قومی نہیں بلکہ بین الاقوامی ہونے کا مدعی ہے،مگر انداز وہاں بھی آمرانہ ہے۔

تمام مملکت میں فقط ایک حکمران پارٹی ہے اس کی مخالف کسی پارٹی کا قیام ممنوع ہے۔ یہ پارٹی ایک پروگرام بناتی ہے اور جو شخص کامل اطاعت کا ثبوت نہ دے وہ کسی قسم کی ذی اقتدار مجلس میں منتخب نہیں ہو سکتا۔ روس میں آزادی ضمیر ایک جرم ہے۔ آزادی گفتار ”بخون خویش باید دست شستن“ کے مترادف ہے۔ نقل و حرکت کی بھی آزادی نہیں۔ کوئی شخص حکومت کی اجازت کے بغیر ایک مقام سے دوسرے مقام پر نہیں جا سکتا اور نہ اپنی مرضی سے اپنا پیشہ یا اپنا کام بدل سکتا ہے۔
ملک کے حدود سے باہر جانا ممنوع ہے۔ غرضیکہ نہ آزادی افکار ہے،نہ آزادی گفتار،نہ آزادی کار ہے اور نہ آزادی رفتار۔ غیر ممالک کے لوگ اس مملکت میں آزادی سے چل پھر نہیں سکتے اور کوئی شخص ڈر کے مارے ان سے اپنے دل کی بات نہیں کہہ سکتا جو حکمران طبقے کے عقائد و اغراض کے خلاف ہو۔ اس پر روس کا دعویٰ ہے کہ حقیقی جمہوریت فقط ہماری ہی مملکت میں پائی جاتی ہے۔
اس تمہید اور پس منظر کے بعد آسانی سے سمجھ میں آ سکتا ہے کہ اقبال کیوں جمہوریت کا آرزو مند بھی ہے اور اس کی تمام موجودہ صورتوں کا مخالف بھی۔ اس کے ذہن میں جمہوریت کا وہ نقشہ ہے جسے اسلام نے کچھ عرصے تک دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اس جمہوریت میں حکمرانوں کا کوئی طبقہ نہ تھا،ہر طرح کی آزادی ضمیر تھی۔ مملکت رفاہی تھی جس کے اندر عمر فاروق جیسا جلیل القدر انسان راتوں کو گردش کرکے دیکھتا تھا کہ کہیں ظلم تو نہیں ہو رہا ہے یا کسی غریب کے گھر میں فاقہ تو نہیں۔
اگر کوئی غریب گھرانا نان شبینہ کا محتاج دکھائی دیا تو بیت المال سے اپنی پیٹھ پر لاد کر سامان خورد و نوش معذرت کے ساتھ وہاں پہنچا دیا۔ اگر کسی امیر یا گورنر نے کسی غریب ذمی پر بھی ذرہ بھر ظلم کیا تو عمر کے درے اس پر برسرعام برس گئے۔ یہ تھی مساوات حقوق اور عوام کی حکومت عوام کیلئے۔ اقبال کو یہ صورت کہیں نظر نہ آتی تھی،نہ مشرق میں نہ مغرب میں،نہ ممالک اسلامیہ میں اور نہ فرنگ میں۔
وہ جمہوری نظام چاہتا تھا،جہان خلق خدا کے بنیادی حقوق محفوظ ہوں اور زندگی کی اساسی ضروریات عام ہوں،جہاں حکمران علم و اخلاق کی بنا پر منتخب ہوں اور درویش منش ہوں،خوشامد،جبریا زرپاشی سے عوام سے اپنے حق میں ووٹ کے طالب نہ ہوں۔ اگر یہ صورت نہیں تو حریت اور مساوات سب دھوکا ہی دھوکا ہے۔ سب ملوکیت اور امرانیت کی بھیس بدلی ہوئی شکلیں ہیں۔
اقبال نے اس جمہوریت کے خلاف جو کچھ کہا ہے اس کا انتخاب ذیل میں درج کیا جاتا ہے:
سیاسیاست حاضرہ
می کند بند غلاماں سخت تر
حریت می خواند او را بے بصر
گرمی ہنگامہ جمہور دید
پردہ بر روئے ملوکیت کشید
سلطنت را جامع اقوام گفت
کار خود راپختہ کرد و خام گفت
در فضایش بال و پر نتواں کشود
با کلیدش ہیچ در تنواں کشود
گفت بامرغ قفس ”اے درمند
آشیاں در خانہ صیاد بند
ہر کہ سازو آشیاں در دشت و مرغ
اور نباشد امین از شاہین و چرغ“
از فسونش مرغ زیرک دانہ مست
نالہ ہا اندر گلوے خود شکست
حریت خواہی بہ پیچاکش میفت
تشنہ میر و بر نم تاکش میفت
الحذر از گرمی گفتار او
الحذر از حر پہلو دار او
چشم ہا از سرمہ اش بے نور تر
بندہ مجبور ازو مجبور تر
از شراب ساتگینش الحذر
از قمار بد نشینش الحذر
از خودی غافل نگردد مرد حر
حفظ خود کن حب افیونش نخور
خضر راہ
جب مغلوب اقوام میں بیداری پیدا ہوتی ہے اور وہ حکمران سے اقتدار میں حصہ طلب کرتے ہیں تو حکمران سب سے پہلے یہ چال چلتا ہے کہ ”بہت اچھا“ کہہ کر ایک مجلس آئین ساز بنا دیتا ہے،لیکن نمائندوں کے انتخاب کے قواعد ایسے بناتا ہے کہ اس میں حکومت کے پروردہ زمیندار یا سرمایہ دار لوگ ہی داخل ہو سکیں جن میں حکومت کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت ہی نہ ہو۔
اس طرح جمہوریت کا دھو کا بھی پیدا ہوتا ہے لیکن استبداد میں کوئی فرق نہیں آتا:
آ بتاؤں کو رمز آیہ ان الملوک
سلطنت اقوام غالب کی ہے اک جادوگری
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمران کی ساحری
جادوے محمود کی تاثیر سے چشم ایاز
دیکھتی ہے حلقہ گردن میں ساز دلبری
ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
مجلس آئین و اصلاح و رعایات و حقوق
طب مغرب میں مزے میٹھے اثر خواب آوری
گرمی گفتار اعضائے مجالس الاماں
یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگ زرگری
اس سراب رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو 
آہ! اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط