Episode 59 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 59 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

مغربی جمہوریت نے اپنے بعض عیوب کو رفتہ رفتہ رفع کرکے ارتقا کی طرف جو صحیح قدم اٹھائے ہیں،اس کا نمونہ انگریزوں کی موجودہ جمہوریت میں ملتا ہے۔ انگریزوں کی قوم میں ہمیشہ سے یہ غیر معمولی صلاحیت رہی ہے کہ جو انقلاب کہیں دیگر اقوام میں بڑے ظلم و تشدد سے پیدا ہوتا ہے اور انقلاب کے بعد بھی نتائج حسب توقع نہیں نکلتے،وہی انقلاب اعتدال اور خوش اسلوبی کے ساتھ انگریز اپنی سلامت روی سے پیدا کر لیتے ہیں۔
انقلاب فرانس سے فرانس کی سیاسی اور معاشی زندگی کو اس قدر فائدہ نہ پہنچا جتنا کہ انگریزوں کو،جنہوں نے نپولین کو شکست دے کر وہ تمام باتیں اپنے آئین میں داخل کر لیں،جن کیلئے عوام دوسری جگہ ہیجان اور تشدد پیدا کر رہے تھے۔ روسی اشتراکی انقلاب کا اثر بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ شرق و غرب کے ہر ملک پر پڑا ہے اور اس نے ہر ملک و ملت کو اس نئی روشنی اور نئے تقاضوں کے مطابق سوچنے اور عمل کرنے پر مجبور کیا ہے،لیکن سب سے زیادہ فائدہ انگریزوں نے اٹھایا ہے۔

(جاری ہے)

جنگ کے بعد یہاں بھی محنت کشوں کی حکومت قائم ہو گئی لیکن بغیر اس کے کہ سرمایہ داروں کے خون کا ایک قطرہ بھی بہایا جائے۔ انگلستان میں قدیم انداز کی امیری اب ختم ہے اور جنہیں امیر کہہ سکیں ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہے اور یہ سب کچھ اس انداز سے ہوا ہے کہ افراد کے بنیادی حقوق برقرار رہے ہیں،آزادی ضمیر بدستور قائم ہے،کسی کو جبر مذموم کی شکایت نہیں اور مملکت افراد کی بنیادی ضرورتوں کی کفیل ہو گئی ہے۔

 جمہوریت کا یہ انداز اس تصور کے قریب پہنچ گیا ہے جو اقبال کے ذہن میں تھا اور جو اس کے نزدیک مقصود اسلام تھا۔ اقبال کو مغربی جمہوریت پر جو اعتراض تھا اس کا ایک پہلو یہ تھا کہ یہ جمہوریت ملوکیت کی حامی ہے اور اس کو قوت پہنچاتی ہے۔ اس معاملے میں بھی انیسویں صدی کی سب سے بڑی علمبردار ملوکیت انگریزوں کی قوم نے غیر اقوام پر استعماری حکمرانی سے دست برداری شروع کی اور ہندوستان جیسی وسیع سلطنت کو اپنی بلیغ حکمت عملی اور غیر معمولی سیاسی بصیرت کی بدولت چھوڑ دیا۔
فرانسیسیوں جیسے سیاسی احمقوں نے جنہوں نے سب سے پہلے یورپ میں آزادی،برابری اور برادری کا اعلان کیا تھا،ابھی تک نہ انگریزوں سے کچھ سبق حاصل کیا اور نہ زمانے کی بدلتی ہوئی روشنی سے۔ وہ ابھی تک اپنی ملوکیت کو برقرار رکھنے کیلئے اپنا اور دوسروں کا خون بہا رہے ہیں۔
بہرحال حقیقت یہ ہے کہ دین کی طرح جمہوریت بھی ایک نصب العین ہیں۔
کامل جمہوریت ابھی کہیں بھی نہیں۔ تھوڑا بہت ذوق ملوکیت ابھی انگریزوں میں بھی باقی ہے۔ انگریزوں کے بعد زیادہ کامیاب جمہوریت امریکہ کے ممالک متحدہ میں نظر آتی ہے،لیکن وہاں بھی کالے اور گورے کا فرق ابھی معاشرت کے اندر ایک مسموم مادے کی طرح باقی ہے۔ امریکہ کے مصلحین اور روشن ضمیر لوگ بتدریج مساوات میں کوشاں ہیں تاہم ابھی اس کی تکمیل میں کچھ وقت لگے گا،لیکن وہ زمانہ دور نہیں جب کہ وہاں کے حبشیوں کو صرف قانوناً نہیں بلکہ عملاً بھی مساوات حاصل ہو جائے۔
علامہ اقبال مغربی جمہوریت کے اس طریق کار کے مخالف تھے جس کی وجہ ے قوم کے صالح اور عاقل افراد مجالس آئین ساز میں داخل نہیں ہو سکتے۔ بعض مشرقی ممالک نے مغربی طریق انتخاب اعضائے مجلس کا ڈھانچہ تقلید اختیار کر لیا ہے یا ان کے گذشتہ فرنگی حکمران مصلحتاً اس کو رائج کر گئے ہیں،اس میں یہ عجیب و غریب نتیجہ نکلتا ہے کہ علم و فضل والے اہل الرائے لوگ منتخب نہیں ہو سکتے۔
ووٹ ایسے جاہل زمینداروں کو ملتے ہیں جو اپنا نام تک نہیں لکھ سکتے۔ کسی شخص کو نہ تو اس کے علم کی بنا پر،نہ موجودہ سیاست و معیشت کے فہم کی بنا پر اور نہ اس کے اخلاق حسنہ کی بنا پر منتخب کرکے واضع قوانین بنایا جاتا ہے بلکہ کہیں ووٹ برادری کی بدولت ملتے ہیں،کہیں زمینداری اور سرمایہ داری کی بدولت اور کہیں کہیں عوام کی ابلہ فریبی اور بے خلوص خطابت سے بھی مطلب حاصل ہوتا ہے۔
غرضیکہ نہ علم،نہ سیرت،نہ معاملہ فہمی یا زر و زمین سے حکمرانی میں حصہ ملتا ہے یا نہایت ذلیل دروغ بافی اور جذبات انگیزی ہے۔ اسی جمہوریت کے متعلق علامہ فرماتے ہیں کہ اس میں انسانوں کو گنا جاتا ہے اور تولا نہیں جاتا اور اس قسم کے دو سو گدھے بھی اگر ایک ایوان میں ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے کیلئے جمع ہو جائیں تو کوئی انسانیت کی آواز تو ہاں سنائی نہیں دے سکتی:
متاع معنی بیگانہ از دوں فطرتاں ہوئی؟
ز موراں شوخی طبع سلیمانے نمی آید
گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کارے شو
کہ از مغز دو صد خر فکر انسانے نمی آید
فکر صالح رکھنے والا ہر شخص سوچتا ہے کہ اگر مغرب کا یہ طرز جمہوری ناقص ہے تو اس کا بدل کس طرح پیدا کیا جائے۔
مغرب تو آخر کار اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کا جو بھی بدل ہو گا وہ اس سے ناقص تر اور اس سے زیادہ خطرات سے لبریز ہوگا،لہٰذا اسی کی مسلسل اصلاح کی جائے تاکہ یہ عیوب سے پاک ہوتا جائے اور تمام رعایا کے بنیادی حقوق کی حفاظت کا زیادہ سے زیادہ اور بہتر سے بہتر انتظام ہو سکے۔ اس جمہوریت سے مایوسی اور کامل بیزاری نے مغرب میں یا مسولینی اور ہٹلر پیدا کئے یا روسی اشتراکیت۔
اقبال نے ان سب کو ناقص سمجھا اور اپنے ذہن میں اسلامی جمہوریت کا ایک تصور جماتے رہے جس کو عملاً معین صورت اس وقت کسی کی سمجھ میں نہیں آئی۔ کوئی قابل عمل جدید اسلامی نظام کا خاکہ پیش کرنے کی بجائے اب وہ کہتے ہیں کہ اس طرز جمہوری سے بھاگ کر کسی پختہ کار کی غلامی اختیار کر لو۔ اس پختہ کار سے ان کی مراد کوئی عاقل و مجاہد درویش منش مرد مومن ہے۔
ایسا مرد کامل ملت اسلامیہ میں تو کہیں نظر نہیں آتا تو پھر کیا کیا جائے۔ سوائے اس کے کہ انتظار کریں کہ:
مردے از غیب بروں آید و کارے بکند
اقبال ہی کا نظریہ ہے کہ ”عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد“ اگر کوئی کلیم پیدا بھی ہوا تو اس کے پاس عصا کہاں سے آئے گا۔ عصا تو اب فوج کے ہاتھ میں ہے اور فوجی قوت سے جو عصا دار پیدا ہوتے ہیں وہ کلیم نہیں ہوتے۔
وہ یا ہٹلر ہوتے ہیں یا مسولینی یا مصطفی کمال یا رضا شاہ پہلوی یا نجیب و ناصر یا سوریا میں یکے بعد دیگر پیدا ہونے والے اور ایک دوسرے کی گردن مارنے والے آمر۔ ایسوں سے بھی اقبال راضی نہیں ہو سکتا:
نہ مصطفی نہ رضا شاہمیں نمود اس کی
کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی
اب عمر فاروق رضی اللہ عنہ کہاں سے آئیں اور اگر اس سیرت کا انسان پیدا بھی ہو تو اس کو وہ قوت کہاں نصیب ہو گی،جو صبحت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور زندہ اسلام کی بدولت اس کو حاصل تھی۔
اقبال کے ذہن میں ابو بکر و عمر کی خلافت اور اسلام کی ابتدائی جمہوریت ہے۔ وہ کچھ اسی قسم کی چیز چاہتا ہے،لیکن کیا عصر حاضر میں اس کا اعادہ ہو سکتا ہے؟ مسلمانوں کیلئے اس کے سوا کوئی چارہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ جمہوریت سے گریز کرکے ڈکٹیٹروں کی تلاش نہ کریں بلکہ عقل و ہمت اور ایثار سے اسی جمہوری نظام میں رفتہ رفتہ ایسی اصلاحات کریں کہ اس کی خوبیوں کا پلڑا اس کے نقائص کے مقابلے میں بھاری ہو جائے۔
انگریزوں نے اپنی جمہوریت میں بتدریج بہت کچھ اسلامی انداز پیدا کر لیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ مسلمان ایسا بلکہ اس سے بہتر انداز پیدا نہ کر سکیں؟ روح اسلام میں بہترین جمہوریت کے عناصر موجود ہیں اور بقول اقبال ان کو خاص اداروں میں مجسم ہونے کی تلاش ہے۔ آخر تمام رعایا کیلئے مساوات حقوق کا سبق اسلام ہی نے تو پڑھایا تھا اور اس پر عمل بھی کرکے دکھایا تھا۔
اسلام ہی نے ریپبلک کو اپنی دینی تعلیم کا لازمی رکن قرار دیا تھا۔ اسلام ہی نے یہ تعلیم دی تھی کہ حکومت مشورت سے ہونی چاہئے۔
 اسلام ہی نے یہ نمونہ پیش کیا تھا کہ امیر المومنین کو رعیت کا معمولی فرد عدالت میں جواب دہی کیلئے حاضر کرا سکتا تھا۔ آزادی ضمیر کا اعلان سب سے پہلے اسلام ہی نے کیا تھا۔ اسلام ہی نے سب سے پہلے رفاعی مملکت قائم کی تھی،جس کا کام صرف حفاظت مملکت اور نظم و نسق ہی نہ تھا بلکہ رعایا کی بنیادی ضرورتوں کا پورا کرنا بھی اس کے فرائض میں داخل تھا۔
اس جمہوریت میں رنگ و نسل کی کوئی تمیز نہ تھی،عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہ تھی۔ ہر شخص دین کے معاملے میں اور طرز بود و باش میں آزاد تھا۔ اسلام ہی نے معاشیات میں یہ تعلیم دی تھی کہ قومی دولت کو چند ہاتھوں میں مرتکز نہ ہونا چاہئے۔ افسوس یہ ہے کہ خلافت کے سلطنت میں تبدیل ہو جانے کی وجہ سے اسلام کا یہ پروگرام بہت کچھ درہم برہم ہو گیا۔
 اسلامی معاشرت اور اس کے نصب العین کے مطابق اجتماعی زندگی بسر کرنے کیلئے جن اداروں اور جن روایات کی ضرورت تھی،وہ قائم اور مستحکم نہ ہو سکیں۔ لیکن قرآن اور اسلام کی تعلیم موجود ہے اور ملت اسلامیہ کا احیاء اسی کی بدولت ہو سکتا ہے۔ مسلمانوں کو دوسروں سے جمہوریت،حریت،اخوت اور مساوات کا سبق حاصل کرنے کی ضرورت نہیں لیکن دوسروں نے جس حد تک اسلام پر عمل کرکے سیاسی اور معاشی زندگی کو درست کیا ہے اور صدیوں کے تجربے سے جو ادارے قائم کئے ہیں،ان کا مطالعہ کرنا اور ”خذ ماصفا و دع ماکدر“ پر عمل کرنا مسلمان کیلئے لازمی ہے۔
اسلام کسی ایک ملت کے ساتھ وابستہ نہیں،وہ کچھ اصول حیات کا نام ہے،جس نے بھی ان کو اپنایا اس نے انسانیت کی خدمت کی۔ روح اسلام نے کئی قالب دوسری ملتوں میں بھی اختیار کئے ہیں،جہاں کہیں وہ نظر آئیں وہ اسلام ہی ہیں۔ روح اسلام اب ملت اسلامیہ میں کیا قالب اختیار کرے گی،اس کا علم خدا ہی کو ہے،لیکن روح اسلام میں بہترین قسم کی شوشلزم موجود ہے۔
اگر اسلام کو تنگ نظر فقیہوں کے جمود اور ان کی رجعت پسندی سے نجات حاصل ہو جائے اور مسلمان صورت پرستی کی بجائے روح پروری پر آمادہ ہو جائیں تو پھر دنیا کے سامنے انگریزوں اور امریکیوں کے نظام کم قیمت دکھائی دیں،لیکن جہاں حامیان دین کو باہمی تکفیر سے فرصت نہیں اور جہاں اجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا ہے وہاں حیات نو کہاں سے پیداہو گی۔ زانکہ ملا مومن کافر گراست:
دین کافر، و تدبیر و جہاد
دین ملا فی سبیل اللہ فساد
لیکن مومن کو مایوس نہیں ہونا چاہئے۔
اگر اسلام زندہ جاوید ہے تو اس پر عمل کرنے والے بھی دنیا میں ہمیشہ موجود رہیں گے۔ ہم نہ سہی کوئی اور سہی۔
گلشن راز جدید میں بھی سوال (۷) کے جواب میں فرنگ کی جمہوریت پر کچھ اشعار کہے ہیں۔ ان کا لب لباب یہ ہے کہ عوام کو عالم محسوسات کا گرویدہ بنا کر اور اضافہ فرض سے ان کو حقوق طلب بنا کر فرنگ کی سیاست اور معاشرت نے انسانیت کی باگ جو مادہ پرست جمہور کے ہاتھ میں دے دی ہے،اس سے نوع انسان کو کسی خیر کی امید نہ رکھنا چاہئے۔
جب تک زندگی کے متعلق انسانوں کا زاویہ نگاہ درست نہ ہو اور ان کے قلوب اخوت و محبت سے لبریز نہ ہوں تب تک جمہور کی سلطانی ایک دیو بے زنجیر کی تباہ کاری ہے:
فرنگ آئین جمہوری نہاد است
رسن از گردن دیوے کشاد است
چو رہزن کاروانے در تگ و تاز
شکم ہا بہر نانے در تگ و تاز
گروہے را گروہے در کمین است
خدایش یار اگر کارش چنین است
ز من دہ اہل مغرب را پیامے
کہ جمہور است تیغ بے نیامے
چہ شمشیرے کہ جاں ہا می ستاند
تمیز مسلم و کافر نداند
###

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط