Episode 60 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 60 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

دسواں باب:
عقل پر اقبال کی تنقید
زندگی کے متعلق اقبال کا زاویہ نگاہ جیسے جیسے معین اور پختہ ہوتا گیا،ویسے ویسے وہ عقل استدلالی کا نقاد بنتا گیا۔اقبال فلسفی بھی ہے اور شاعر بھی اور وہ نادر چیز بھی اپنے سینے میں رکھتا تھا جسے دل کہتے ہیں۔ مشہور ہے کہ شاعر بنانے سے نہیں بنتا جب تک کسی کو فطرت کی طرف سے یہ ملکہ عطا نہ ہو۔ وہ کوشش سے صناع،قافیہ پیما اور ناظم تو بن سکتا ہے لیکن شاعر نہیں بن سکتا۔
فطرت کی طرف سے اگر کسی کو یہ جوہر عطا کیا گیا ہو تو مشق اور اصول فن سے اس میں جلا پیدا ہوتی ہے لیکن ہیرا اگر مبداً فیاض نے نہیں بنایا تو محنت اور تراش و خراش سے وہ شعاعوں کا منبع نہیں بن سکتا۔ شاعری میں اقبال کسی کا شاگرد نہیں۔ مرزا داغ کو مراسلت میں دو چار طالب علمانہ غزلیں بغرض اصلاح بھیجنے سے کوئی خاص تلمیذ قابل ذکر پیدا نہیں ہوتا۔

(جاری ہے)

شاگردی کی درخواست کرنے والوں کو فرمایا کرتے تھے کہ شاعری ایک بے پیرا فن ہے،مطلب یہ تھا کہ شاگردی اس میں خدا ہی کی ہو سکتی ہے،اسی لئے شاعر کو تلمیذ الرحمن کہا گیا ہے اور شاعری کو جزو پیغمبری قرار دیا ہے۔ شاعری اقبال کو مبداً فیاض سے عطا ہوئی،لیکن فلسفے کی تعلیم اس نے اساتذہ سے حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج میں آرنلڈ جیسے ہیڈ فلسفی سے فیض حاصل کیا۔
درسیات کے علاوہ اقبال کا شرق و غرب کے فلسفوں کا مطالعہ نہایت وسیع تھا۔ فلسفیانہ ذوق بھی اقبال میں فطری تھا۔ اقبال کو یگانہ روزگار وجہ کمال اسی دو گونہ عطیہ فطری نے بنایا۔ اس کی شاعری کا بڑا حصہ فلسفیانہ شاعری ہے،جہاں کہیں دماغ کی تائید کرتا ہے اور کہیں دونوں حریف نظر آتے ہیں۔ اقبال آخر تک اسی کشمکش میں مبتلا رہا کہ کبھی عقل سے اسرار حیات کی گروہ کشائی کرنے میں کوشاں ہے اور کہیں اس سے بیزار اور مایوس ہو کر عشق و وجدان کی طرف گریز کرتا ہے:
اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و ساز رومی کبھی پیچ و تاب رازی
عمر بھر کر اس پیکار کے انجام میں اس کو ایسا محسوس ہونے لگا کہ اس مصاف عقل و دل میں ”جیتا ہے رومی ہارا ہے رازی“ لیکن اقبال کی رفتار افکار کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پچھاڑیں کھا کر بھی رازی بار بار زور آزمائی کیلئے آمادہ ہو جاتا ہے۔
اسلامی نظریہ حیات کی توجیہ نثر میں اقبال نے منظم طور پر صرف اپنے مدارس والے انگریزی خطبات میں کی ہے اور وہاں پیشہ ور فلسفی کی طرح فلسفیانہ استدلال کا تانا بانا بنا ہے جس کا اہم حصہ غیر فلسفی کیلئے قابل فہم بھی نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ آخر تک اقبال کی وہی کیفیت ہے کہ:
طور ہوں، یخ پیرہن عقل خنک فطرت سے ہوں
شاعری کا سرچشمہ و جدانات،تارات اور جذبات ہیں۔
اچھی شاعری فلسفیانہ استدلال سے پیدا نہیں ہوتی۔ محض علم کے زور پر جو شاعری کی جاتی ہے اور خاقانی کی طرح علوم کو شعر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اس کا نتیجہ عام طور پر نہ علم ہوتا ہے اور نہ دل نشین شعر۔ اقبال کو فطرت نے اگرچہ شاعر بھی بنایا تھا اور مفکر بھی،لیکن اس کی طبیعت میں شعریت کو تفلسف پر غلبہ حاصل تھا۔ بعض نظموں اور بعض اشعار میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عارضی طور پر فلسفہ شعر پر غالب آ گیا ہے،لیکن شاعر اقبال بہت جلد شعریت کی طرف عود کر آتا ہے کیوں کہ اس کی طبیعت کا اصل جوہر شعریت ہی ہے ”کل شی یرجع الی اصلہ۔
“ فلسفے اور شاعری کے باہمی تعلق میں ایک تضاد ہے۔ کہیں باہمی تعاون ہے اور کہیں باہمی تخالف۔ ”ان من الشعر حکمتہ وان من البیان سحرا“ میں اس حقیقت کا اظہار ہے کہ اچھا شعر حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ اگر استدلال سے شعر کی آفرینش نہ بھی ہوئی ہو تو بھی اس میں سے حکمت اخذ کر سکتے ہیں لیکن خشک فلسفہ اور استدلال اگر شعریت پر غالب آ جائے تو شعر کو شاعری کے پائے سے گرا دیتا ہے۔
فلسفے کے متعلق ایک عربی نقاد کا قول کس قدر صحیح ہے کہ فلسفے کی حیثیت کھاد کی سی ہے،علوم ہوں یا اشعار اگر ان میں فلسفے کی ایک مناسب مقدار میں آمیزش ہو تو ان کے نشوونما میں معاون ہوتی ہے،لیکن خالی استدلالی فلسفہ محض کھاد ہی کھاد ہے جس کی کثافت میں اگر کوئی جوہر لطیف مضمر ہے تو وہ محسوس و ظہور پذیر نہیں۔
اقبال نے کالج کی طالب علمی کے زمانے میں شاعری شروع کی اور اسی زمانے میں وہ فلسفے کی تعلیم بھی حاصل کر رہے تھے۔
کچھ اپنی فطرت کے تقاضے سے اور کچھ تعلیم کی بدولت یہ لازمی تھا کہ ابتداء ہی سے اقبال کی شاعری میں فکر اور تصور کا دل کش امتزاج پایا جائے۔ اُردو کے شعرا میں اقبال نے غالب اور داغ دونوں کی مدح سرائی کی ہے۔ داغ کو ہوس کی شاعری میں استاد مانا،اگرچہ استاد کے احترام کی وجہ سے ہوس کی بجائے عشق کا لفظ استعمال کیا ہے:
ہو بہو کھینچے گا لیکن عشق کی تصویر کون
اٹھ گیا ناوک فگن مارے گا دل پر تیر کون
داغ کے ہاں لفظ آوارہ،مجنونے،رسوا سر بازارے،عشاق اور بازاری و ہرجائی معشوقوں کے وصل و رقابت کی تصویر کشی ہے،لیکن غالب،اقبال کی طرح فلسفی بھی ہے اور شاعر بھی۔
اس لئے اقبال دل سے غالب ہی کا ستائش گر ہے،جسے وہ جرمنی کے مفکر شاعر گوئٹے کا ہم نوا قرار دیتا ہے اور غالب کی خصوصیت بھی اقبال کے ہاں یہی ہے کہ اس کے کلام میں تصور اور فکر کی آمیزش ہے اور شاعری حکمت سے ہم آغوش معلوم ہوتی ہے:
آہ تو اجڑی ہوئی دلی میں آرامیدہ ہے
گلشن ویمر میں تیرا ہم نواخوابیدہ ہے
لطف گویائی میں تیری ہمسری ممکن نہیں
ہو تخیل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیں
آخری زمانے کے فارسی کلام میں بھی اقبال نے غالب کے فلسفیانہ اشعار کی توضیع میں لطیف نکتے پیدا کئے اور اسے مشرق و مغرب کے اکابر شعرا کے دوش بدوش کھڑا کیا ہے:
شاعری کے اندر فلسفہ سنائی اور عطار میں بھی ہے اور رومی و جامی میں بھی،عرفی اور فیضی بھی حکمت پسند شعرا ہیں۔
فیضی اپنے حکیم ہونے کو شاعر ہونے سے افضل سمجھتا ہے۔ چنانچہ نل دمن کی تمہید میں فخریہ لکھتا ہے:
امروز نہ شاعر حکیم دانندہ حادث و قدیم
بانگ درا کے مجموعے میں بڑی کثرت سے فلسفیانہ اشعار ملتے ہیں۔ اقبال کی طبیعت تصور اور تفکر کے درمیان رقص کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ اس کی میزان طبیعت کے دو پلڑوں میں ایک طرف فلسفہ ہے اور دوسری طرف شاعری۔
کبھی یہ پلڑا جھک جاتا ہے اور کبھی وہ۔ دل کا وجدان اور بلند پایہ عشق کا میلان جابجا ابھرتا ہے لیکن عقل پر اس مخالفانہ تنقید کا زور شور نظر نہیں آتا جو بعد کے فارسی اور اُردو کلام میں دکھائی دیتا ہے۔ عقل و دل پر ایک نہایت صاف اور سلیس نظم ہے جس میں دونوں کا مقام بتایا ہے۔ اس نظم کا حوالہ پہلے ایک اور ضمن میں اس کتاب میں آ چکا ہے۔ عقل نے اس میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ میں بھولے بھٹکوں کی رہنما ہوں،میں زمین پر ہوتے ہوئے فلک پیما بھی ہوں،میں شان کبریا کی مظہر اور کتاب ہستی کی مفسر ہوں۔
دل نے کہا یہ سب دعوے درست ہیں لیکن دانش اور بینش میں فرق ہے۔ عین الیقین علم الیقین سے افضل ہے۔ تیرا کام مظاہر میں علت و معلول کے رشتے تلاش کرنا اور مظاہر کی کثرت کو آئین کی وحدت میں پرونا ہے لیکن میں براہ راست باطن ہستی سے آشنا ہوں۔ تو خدا جو ہے،میں خدا نما ہوں۔ ”رہ عقل جز پیچ ر پیچ نیست“ اس کی وجہ سے تو مضطرب ہی رہتی ہے۔ تیری بیتابی کا علاج فقط میرے پاس ہے۔
تو صداقت کی تلاش کرتی ہے اور میں کائنات کے حسن ظاہر و باطن کی محفل کا چراغ ہوں۔ تو محسوسات کے دائرے سے نہیں نکل سکتی جو زمان و مکان سے رشتہ بپا ہیں اور میرا ادراک ان حقائق کا ہے جو نہ زمانی ہیں اور نہ مکانی۔ میں رب جلیل کا عرش ہوں،میرے مقام کو تو کہاں پہنچ سکتی ہے۔
اس نظم میں عقل کی نہ کوئی تنقیص ہے اور نہ اس کی کوتاہی اور حقیقت رسی پر وہ برہمی جو اقبال کے بعد کے کلام میں نظر آتی ہے۔
عقل و دل کے اس مکالمے میں اعتدال،صلح مندی اور توازن ہے۔ اقبال نے عقل اور عشق کے موازنے اور مقابلے میں سینکڑوں اشعار لکھ ڈالے اور دل نواز نکتے پیدا کئے ان سب کا لب لباب درحقیقت وہی ہے جو اس سادہ سی نظم میں آ گیا ہے۔
بانگ درا کی بعض نظموں سے اس کا پتہ چلتا ہے کہ اقبال اس دور میں ابھی تک زندگی کے متعلق مقام حیرت میں ہے،وہ سراپا استفسار معلوم ہوتا ہے،وہ زندگی کے عقدوں کو کبھی سوچ بچارسے حل کرنا چاہتا ہے اور کبھی دل کے وجدان سے اسرار حیات کی گرہ کشائی میں کوشاں ہے۔
اس کا نقش وجود مصور ازلی کی شوخی تحریر کا فریادی معلوم ہوتا ہے۔ وہ حیرت زدہ ہے مگر ابھی تک عقل کی حقیقت رسی سے مایوس نہیں ہوا۔ انسان کے عنوان سے جو نظم لکھی ہے وہ حقیقت میں اس کی اپنی کیفیت کا اظہار ہے:
قدرت کا عجیب یہ ستم ہے
انسان کو راز جو بنایا
راز اس کی نگاہ سے چھپایا
بیتاب ہے ذوق آگہی کا
کھلتا نہیں بھید زندگی کا
حیرت آغاز و انتہا ہے
آئینے کے گھر میں اور کیا ہے؟
جس طرح بعد میں اقبال نے عقل کو عشق کا غلام بنانا چاہا اس دور میں وہ عقل کو حسن کا غلام سمجھتا ہے،لیکن جس حسن مجازی اور حسن حقیقی کی طرف اس کا دل کھینچتا ہے اس کے حقیقی وجود کی نسبت ابھی تک اس کے دل میں یقین پیدا نہیں ہوا۔
تشکیک اور تذبذب بڑی بے تابی کے ساتھ نمایاں ہے:
جلوہ حسن کہ ہے جس سے تمنا بیتاب
پالتا ہے جسے آغوش تخیل میں شباب
ابدی بنتا ہے یہ عالم فانی جس سے
ایک افسانہ رنگیں ہے جوانی جس سے
جو سکھاتا ہے ہمیں سر بگربیاں ہونا
منظر عالم حاضر سے گریزاں ہونا
دور ہو جاتی ہے ادراک کی خامی جس سے
عقل کرتی ہے تاثر کی غلامی جس سے
آہ موجودبھی وہ حسن کہیں ہے کہ نہیں؟
خاتم دہر میں یا رب وہ نگیں ہے کہ نہیں؟

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط