اس شعر میں اقبال نے خرد کی افادیت کا بھی اقرار کیا ہے اور اس نے جو کچھ عطا کیا اس کا شکر گزار ہے،مگر تکمیل نفس عشق کے بغیر نہیں ہوتی۔ یہ بھی فیضان الٰہی سے حاصل ہو گیا:
مقام عقل سے آساں گزر گیا اقبال
مقام شوق میں کھویا گیا وہ فرزانہ
اقبال اس کا منکر نہیں کہ خارجی فطرت کی تسخیر خرد ہی کی بدولت ہو سکتی ہے اور یہ کام بھی کرنے کا ہے جسے فرنگ نے کیا مگر شوق سوتا ہی رہا۔
فطرت کی تنظیم اور اس کے آئین بہت دلکش اور نظر افروز ہیں مگر انسان عقل سے اس تنظیم میں بھی بہتری پیدا کر سکتا ہے ’تو شب آفریدی چراغ آفریدم‘ کے مضمون کے پانچ سات اشعار فطرت خارجی میں انسان کی ترمیم و اصلاح کو دلکش انداز میں پیش کرتے ہیں:
فطرت کو خرد کے روبرو کر
تسخیر مقام رنگ و بو کر
بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت
جو اس سے نہ ہو سکا وہ تو کر
#
تازہ پھر دانش حاضر نے یا سحر قدیم
گزر اس عہد میں ممکن نہیں بے چوب کلیم
عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بیچارہ نہ ملا ہے نہ زاہد و حکیم
عقل کی عیاری کا ذکر اقبال نے اور بھی بعض اشعار میں کیا ہے۔
(جاری ہے)
حقیقت یہ ہے کہ عقل بھی علم کی طرح ایک بے طرف قوت ہے۔ اس کی خوبی یا خرابی ان مقاصد پر منحصر ہے جن کے حصول کیلئے اسے استعمال کیا جائے۔ نفسیات کے بعض علما اس طرف گئے ہیں کہ عقل میں فی نفسہ اپنی کوئی قوت نہیں۔ انسان کے اندر کچھ خواہشات اور جذبات موروثی اور جبلی ہیں اور انہیں کی بدنظمی یا امارگی سے بعض مفید آرزوئیں یا معاملات بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔
عقل ان جذبات اور جبلتوں کی محض تماشائی ہے۔ جو تمنا دوسروں کو شکست دے کر قوی ہو جاتی ہے وہ عقل کو حصول مقصد کیلئے بطور آلہ کار بحیثیت غلام استعمال کرتی ہے۔
عقل اس جذبے کے خیر و شر پر تنقید نہیں کرتی،فقط اپنی عیاری اور ہوشیاری سے غرض کو پورا کرنے کی راہیں سمجھاتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ عقل حیوانی سطح اسفل پر جذبات کی غلامی ہی کرتی ہے،البتہ تزکیہ نفس سے عقل میں روحانی تنویر پیدا ہوتی ہے تو وہ اس غلامی اور حیلہ گری سے نجات حاصل کرتی اور حکمت بالغہ کے حصول میں معاون بن جاتی ہے۔
اقبال جس عقل کی عیاری اور حیلہ گری کی طرف اشارہ کر رہا ہے وہ ابھی تک جذبات اسفل سے پابہ زنجیر عقل ہے۔ نجات کا راستہ یہ ہے کہ انسان پہلے اپنی عقل کو آزاد کرے اور یہ کام نہایت دشوار ہے۔ جو لوگ تعلی سے اپنے تئیں آزاد خیال سمجھتے ہیں وہ بھی غیر شعوری طور پر عقل سے یہی کام لے رہے ہوتے ہیں کہ وہ ان کے میلانات،تعصبات اور آرزوؤں کی حمایت کرے۔
امراض نفسیات کی تحقیقات نے اس پر بہت روشنی ڈالی ہے کہ عقل کس کس طرح بھیس بدل کر اور قباحت کو لطافت کے رنگ میں پیش کرکے دھوکے پیدا کرتی ہے۔ یہی باتیں ہیں جنہیں من کی چوریاں کہتے ہیں ذلیل و خبیث و ظالم انسان بھی اپنے اعمال کے جواز میں بظاہر محکم دلائل تراش لیتے ہیں،جس کا نتیجہ بقول سقراط یہ ہوتا ہے کہ یہ شریر انسان شر کو بوقت عمل خیر ہی سمجھ کر کرتا ہے۔
اس عقل کو عارف رومی زیرکی کہتا ہے جو روحانیت اور عشق سے معرا ہو کر امتیازی خصوصیات رہ جاتی ہے:
مے شناسد ہر کہ از سر محرم است
زیر کی زابلیس و عشق از آدم است
اقبال جو ”خودی“ کا پیغامبر ہے،انسانوں کو تقویت و تکمیل نفس کا پیغام دیتا ہے۔ اس کو اس امر کا بخوبی احساس ہے کہ نفس انسانی کی انفرادی حیثیت کا ایک پہلو عقل کے استعمال اور علم کے حصول سے محکم ہوتا ہے۔
لیکن خالی فہم انسانی محرک عمل نہیں بن سکتی۔ انسان جو کچھ کرتا ہے وہ کسی تدبیر اور جذبے کی بدولت کرتا ہے۔ اگر اس میں کمی ہو تو عقل زندگی کی تماشائی رہے گی یا اس کی نظری تنقید سے آگے نہ بڑھ سکے گی۔ مسلمان صوفیہ اور بعض حکما نے جبرئیل کو عقل کا مظاہر قرار دیا جو زندگی کے حقائق سے آشنا ہے اور ان میں سے بعض حقائق کو بحکم ایزدی انبیاء پر منکشف کرتا ہے جسے وحی کہتے ہیں۔
معراج نبوی کے بارے میں بعض مسلمانوں نے جو تخیل آرائی کی ہے اس میں اس بات کو بطور واقعہ پیش کیا ہے کہ سول کریم کی ہم رکابی میں وہ فرشتہ ایک مقام پر پہنچ کر رک گیا اور عرض کیا کہ آپ آگے تشریف جلے جایئے بندے کی پرواز کی آخری حد تک یہی تھی،اگر میں اس سے آگے اڑنے کی جرأت کروں تو میرے پر جل جائیں گے:
اگر یک سر موے برتر پرم
فروغ تجلی بسوزد پرم
عارف رومی نے بھی ”فیہ مافیہ“ میں بیان کیا ہے کہ ملائکہ عقل کل ہی کی متنوع اور متمثل صورتیں تھیں۔
جبرئیل ہوں یا اس سے کمتر درجے کے ملائکہ سب اس عقل ہی کی صورتیں ہیں جو نظام عالم میں کارفرما ہے۔ اقبال نے بھی اسی تصور کو قبول کرکے اس شعر میں بیان کیا ہے:
خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل
اگر ہوعشق سے محکم تو صور اسرافیل
جبرئیل کا کام عاقلانہ پیغام پہنچانا ہے لیکن اسرافیل کا کام قیامت انگیزی ہے۔ یہ حشر خیزی انسان کی فطرت میں مضمر ہے۔
بقول غالب:
قیامت می دمد از پردہ خاکے کہ انسان شد
لیکن یہ قیامت جذبہ عشق سے بپا ہوتی ہے۔ عشق ہی خلاق اور فعال ہے۔ محض عقل کی کیفیت انفعالی ہے۔ انسانی ارتقا میں جو قدم بھی اٹھتا ہے وہ جذبہ عشق کی بدولت اٹھتا ہے۔ عالم علم میں مست رہتا ہے اور عابد عبادت میں لیکن عاشق عشق کے اندر لمحہ بہ لمحہ نئے احوال پیدا کرتا ہے۔ یہ انقلابات و تغیرات صرف نفس تک محدود رہتے بلکہ اپنے گرد و پیش کے عالم انسانی کی بھی کایا پلٹ دیتے ہیں۔
قیامت کے معنی ہیں پہلے عالم کی موت اور ایک دوسرے عالم کا ظہور۔ قیامت کبریٰ کی حقیقت خدا کے سوا کسی کو معلوم نہیں لیکن دنیا میں جو کبھی کبھی قیامت صغرا سی بپا ہوتی ہے اور کسی مرد مجاہد کی بدولت کوئی بڑا انقلاب ظہور میں آتا ہے،اس کا سر چشمہ عقل بلکہ عشق محشر انگیز ہوتا ہے:
بے خطر گود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
عقل ابراہیمی نے عقل کے سمجھائے ہوئے مادی و جسمانی نفع و ضرر سے قطع نظر کرنے کی بدولت بت پرستوں کے اڈے میں توحید کا علم گاڑ دیا اور تربیت انسان کیلئے ایک ملت موحدہ کی بنا ڈالی۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق نے اور زیادہ زور سے صور پھونکا جس سے صدیوں کی مردہ نفس ملتیں زندہ اور بیدار ہو گئیں:
سر مکنون دل او ما بدیم
نعرہ بیباکانہ زد افشا شدیم
لیکن خودی علم سے محکم اسی حالت میں ہوتی ہے کہ یہ علم عقل جزوی کی پیداوار نہ ہو جو انسان کو عالم مادی میں پاگل کر دے۔ دانش برہانی دانش روحانی اس وقت بنتی ہے جب دل و دماغ کے تمام دریچے کھلے رہیں اور انفس و آفاق کے نور کی کرنوں کے سامنے دیواریں حائل نہ ہوں۔
محض مادی علوم کی تعلیم نے خودی کو مستحکم کرنے کی بجائے اس کو ضعیف کر دیا ہے۔ مادی اسباب تو پیدا ہو گئے لیکن روح پژمردہ ہو کر رہ گئی۔ اقبال اس محدود دانش کے نتائج سے خوب آگاہ تھا:
عذاب دانش حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل
اسی آگ کے متعلق اقبال کا دوسرا شعر ہے:
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا
اقبال نے عالم عقلی کی بہت سیر کی ہے لیکن روحانیت کے بارے میں اس صحرا میں اس کو سراب ہی نظر آیا،اگر اسی صحرا میں سرگرداں رہتا تو تشنہ سیری کے سوا چارہ نہ تھا۔
مغرب میں وہ فلاسفہ مغرب کی صحبت میں اسرار حیات کو دلائل سے فاش کرنے میں سعی بلیغ کرتا رہا لیکن آخر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ یہی وہ علم ہے جسے صوفیہ نے حجاب الاکبر کہا ہے:
فلسفی خود را زد اندیشہ بکشت
ہاں بگو او را سوئے گنج است پست(رومی)
استدلال کی تقدیر میں حضور نہیں۔ استدلالیوں کا پائے چوبیں ان کو لنگڑاتے اور لڑکھڑاتے ہوئے چند قدم تک لے جاتا ہے لیکن کسی منزل پر نہیں پہنچاتا۔
دماغی کاوشوں سے دل کے اندر آب حیات کا چشمہ نہیں پھوٹتا۔ اقبال جب اپنے اس دور تفلسف پر ایک نگاہ بازگشت ڈالتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ اس تگ و دو سے کچھ بھی حاصل نہ ہوا:
مجھے وہ درس فرنگ آج یاد آتے ہیں
کہاں حضور کی لذت کہاں حجاب دلیل
فلسفے نے اس کو آستانے تک لے جا کر چھوڑ دیا،درون خانہ داخل ہونے کا راستہ نہ بتایا:
عقل گو آستاں سے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
#
رہ عقل جز پیچ در پیچ نیست
بر عاشقاں جز خدا ہیچ نیست