فکر کی خامی کا علاج ذکر ہے۔ عقل کی کمی کو نالہ شب گیر اور فغان صبح گاہی ہی پورا کر سکتی ہے۔ خرد زمان و مکان میں محدود ہو کر لازمانی اور لامکانی حقیقت کو تلاش کرتی ہے اور اس میں کامیاب نہیں ہوتی:
نگہ الجھی ہوئی ہے رنگ و بو میں
خرد کھوئی گئی ہے چار سو میں
نہ چھوڑ اے دل فغان صبح گاہی
اماں شاید ملے اللہ ہو میں
#
ترے سینے میں دم ہے دل نہیں ہے
ترا دم گرمی محفل نہیں ہے
گذر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے
دین نے بھی عقل کو چراغ راہ ہی قرار دیا ہے۔
انسان کی آخری منزل تو کبریا ہے اور وہاں تک مسافت دراز ہے۔ بقول اقبال:
کار جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر
جب تک انسان منزل تک نہیں پہنچتا تب تک راستے کی ظلمتوں کیلئے چراغ کی ضرورت ہے۔
(جاری ہے)
جو شخص ابھی راستہ ہی طے کر رہا ہے مگر چراغ سے بے نیازی ظاہر کرتا ہے وہ ضرور اندھیرے میں ٹھوکریں کھائے گا لیکن جس نے چراغ ہی کو مقصود و منتہا سمجھ لیا وہ چراغ ہی کو معبود بنا لے گا،جیسا کہ بعض حکما نے کیا۔
اسلام نے جو عقل کے استعمال پر بہت زور دیا ہے وہ اسی لئے ہے کہ صراط مستقیم پر چلنے کیلئے وہ چراغ کا کام دے گی۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ نجات یافتہ جنتیوں کا نور قلب رہنمائی کیلئے ان کے آگے آگے اور گرد و پیش ہوگا۔ نور کا کام بہرحال راستے کو روشن کرنا ہے۔ نور فی نفسہ مقصود نہیں ہو سکتا۔ مقصود تو خدا ہے جس سے تمام انوار وجود کا اشراق ہوتا ہے:
نہ شبم نہ شب پرستم کہ حدیث خواب گویم
ہمہ آفتاب بینم ہمہ آفتاب گویم(رومی)
خرد کے چراغ راہ ہونے کے متعلق اقبال کا ایک دوسرا قطعہ بھی بصیرت افروز ہے:
خرد سے راہرو روشن بصر ہے
خرد کیا ہے؟ چراغ رہ گزر ہے
درون خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا
چراغ رہ گزر کو کیا خبر ہے
عقل اگر جذبات کی غلامی سے گور و تاریک نہ ہو گئی ہو اور جادہ حیات میں مسلسل رہنمائی کرتی رہے تو عقل کی منزل اور عقل کا حاصل ایک ہو جاتا ہے۔
علامہ اقبال نے اپنے انگریزی خطبات میں بھی اس خیال کا اظہار کیا ہے اور ویسے گفتگو میں بھی فرمایا کرتے تھے کہ عقل اپنے کمال میں وجدان میں مبدل ہو جاتی ہے۔ مرد مومن کے متعلق فرماتے تھے:
عقل کی منزل ہے وہ عشق کا حاصل ہے وہ
حلقہ آفاق میں گرمی محفل ہے وہ
اندلس کے مسلمان حکما کی تعریف میں بھی کہتے ہیں:
جن کی نگاہوں نے کی تربیت شرق و غرب
ظلمت یورپ میں تھی جن کی خرد راہ بیں
یہ مادیات اور طبیعیات میں محصور خرد بے وحی و وجدان خدا کی ہستی کے متعلق یقین پیدا نہیں کر سکتی اور انسان کو تشکیک اور تذبذب کی بھول بھلیاں سے نہیں نکال سکتی۔
اس عقیدے کو اقبال نے کئی جگہ مختلف پیرایوں میں ادا کیا ہے۔ لینن بھی خدا کے حضور میں یہی معذرت کرتا ہے کہ مغربی سائنس کے پاس خرد کے سوا کوئی ذریعہ علم نہ تھا اور خرد کے نظریات متغیر اور باہم متصادم تھے۔ ایسی حالت میں مجھے تیری ہستی کا یقین کہاں سے پیدا ہو سکتا تھا:
میں کیسے سمجھتا کہ تو ہے یا کہ نہیں
ہر دم متغیر تھے خرد کے نظریات
”فرشتوں کا گیت“ میں ملائکہ کی زبان سے اقبال اس پر افسوس ظاہر کرتا ہے کہ انسان ابھی عشق ہی میں خام نہیں بلکہ اس نے ابھی تک عقل کا بھی صحیح اور پورا استعمال نہیں کیا۔
جب تک یہ دونوں خامیاں دور نہ ہوں اور عقل و عشق اپنے کمال میں ایک دوسرے کے معاون نہ بن جائیں تب تک انسانیت کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔ عقل ابھی تک بے عنان،راہ شناس سواری کے جانور کی طرح ہے اور اس کی وجہ سے انسان کا وہی حال ہے جو غالب نے اس شعر میں بیان کیا ہے:
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر ایک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
اور کچھ ایسا ہی حال عشق کا ہے کہ ادھر ادھر آنی جانی اشیا کے ساتھ لگاؤ پیدا کرتا ہے۔
ایک کو پکڑتا اور دوسرے کو چھوڑتا ہے۔ ”ازیک بگستی بد گرپیوستی“ کہیں مطمئن نہیں ہوتا،اس لئے کہ وہ اپنی منزل اور اپنے مقام سے آگاہ نہیں،عشق خام بھی عقل خام کی طرح ہر زہ گرد اور ہرجائی ہے:
عقل ہے بے زمام ابھی عشق ہے بے مقام ابھی نقش گر ازل ترا نقشہے نا تمام ابھی
کوتاہ کمند خرد کی حکیمی بے کلیمی،اقبال کے نزدیک خودی کی نا مسلمانی ہے۔
محدود عقلیت کو جو اپنے محدود مشاہدات اور تجربات سے اصول حیات کا استقرا کرنا چاہتی ہے نہ کسی ولی کی ولایت سمجھ میں آ سکتی ہے اور نہ کسی نبی کی نبوت۔ ابلیس نے اسی محدود خرد سے آدام کو دیکھا تو اس کے اندر پھونکی ہوئی روح الوہیت اور ارتقا انسانی کے لامحدود امکانات اس کی سمجھ میں نہ آ سکے۔ اسے نصب العینی آدم محض ایک خاک کا پتلا دکھائی دیا۔
آدم ابلیس کا یہی قصہ تاریخ نے کئی بار دہرایا ہے۔ مسیح کو بنی اسرائیل نہ سمجھ سکے،ان کے نزدیک وہ منکر شریعت اور منحرف ملت ہونے کی وجہ سے سزائے موت کا مستوجب تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی ابوجہل اور ابو لہب کیلئے قابل فہم نہ ہوئے۔ ان لوگوں میں محدود سی دنیاوی عقل تو تھی لیکن عشق الٰہی سے ان کا ضمیر خالی تھا:
تازہ مرے ضمیر میں معرکہ کہن ہوا
عشق تمام مصطفی! عقل تمام بولہب
خارجی فطرت کی تسخیر کی وجہ سے عقل طبیعی میں ایک قسم کا پندار پیدا ہو جاتا ہے۔
جس طرح پندار زہد اور فقیہانہ غرور انسان کو روحانیت سے دور کر دیتا ہے،اسی طرح پندار عقل بھی انسان کو بیباک اور گستاخ کر دیتا ہے۔ روحانیت کے بغیر حکیم طبیعی میں جتنی قوت پیدا ہوتی ہے وہ ایک ساحر کی قوت کی طرح تخریب حیات میں صرف ہونے لگتی ہے۔ طبیعی سائنس اور فلسفہ کوس ”لمن الملک“ بجانے لگتا اور ”انار بکم الا علے“ کا نعرہ بلند کرنے لگتا ہے۔
یہ عقلیت فرعون کی طرح انا الحق کہہ کر انسانوں کو اپنا پرستار بنانا چاہتی ہے لیکن اس پرستاری کا انجام غرقابی اور تباہی کے ساتھ اور کچھ نہیں:
وہ فکر گستاخ جس نے عریاں کیا ہے فطرت کی طاقت کو
اسی کی بیتاب بجلیوں سے خطر میں ہے اس کا آشیانہ
روحانیت سے معرا محض عقلیت کی پیدا کردہ تہذیب کے متعلق اقبال کی پیش گوئی پہلے درج ہو چکی ہے جو اس کی زندگی ہی میں پوری ہونی شروع ہو گئی تھی:
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
اقبال کے کلام میں کئی جگہ خبر اور نظر کا موازنہ ملتا ہے،اس کی کسی قدر توضیح کی ضرورت ہے۔
ایک موٹی سی بات یہ ہے کہ انسان کے پاس علم کے دو ذریعے ہیں۔ خود دیکھا ہوا اور محسوس کیا ہوا علم کم ہے اور دوسروں سے سنا ہوا،کتابوں میں پڑھا ہوا یا روایات سے حاصل کردہ علم کی مقدار نسبتاً بہت زیادہ ہے۔ اکثر لوگوں کا دین بھی تقلید ہوتا ہے۔ محسوسات اور عقل کی بجائے اس کا مدار نقل پر زیادہ ہوتا ہے۔ جو خبریں لوگوں تک پہنچی ہیں ان میں سے بعض انبیا کی طرف بتحقیق یا بلا تحقیق منسوب ہیں اور بعض دیگر بزرگان دین اور ائمہ فقہ کی طرف۔
بعض اولیا کے روحانی تجربات اور وجدانات ہیں وہ بھی عام لوگوں کیلئے خبر ہی ہیں۔ معقولات اور علوم طبیعی کا جو ذخیرہ ہے وہ بھی بہت حد تک بطور خبر ہی عوام تک پہنچتا ہے۔ حیات و کائنات کے بہت کم حقائق ایسے ہیں جن کا تجربہ کسی ایک انسان کو براہ راست ہو۔ ایک حکیم مغربی نے درست فرمایا ہے کہ انسان کا اصلی علم،جو جزو حیات پر اس کی زندگی میں موثر ہو،اتنا ہی ہوتا ہے جتنا کہ اس کی اپنی زندگی کے تجربہ میں آ چکا ہے،باقی معلومات یوں ہی سطح شعور پر تیرتے رہتے ہیں۔
دنیا میں جو کثرت سے علماء بے عمل ملتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کا علم بطور خبر ان تک پہنچا ہے اور وہ اس خبر کو دوسروں تک پہنچاتے رہتے ہیں۔ چونکہ وہ تلقین ان کے اپنے قلوب کی گہرائیوں میں سے نہیں ابھری اور خود ان کا کچھ تجربہ اور مشاہدہ نہیں اس لئے ان کا وعظ بھی دوسروں کے قلوب کو مرتعش نہیں کرتا۔