ایک گہری بات خبر و نظر کے متعلق یہ ہے کہ زندگی کے حوادث اور کائنات کے مظاہر انسان کو کسی حقیقت ازلی کی خبر دیتے رہتے ہیں۔ یہ آیات یا نشانیاں ہیں ان حقائق کی جو نظر سے اوجھل ہیں لیکن بصیرت پر منکشف ہو سکتے ہیں۔ آیات قرآنی کی طرح قرآن نے مظاہر فطرت کو بھی آیات کہا ہے۔ کیوں کہ یہ تمام نشانیاں ہیں جو ایک خلاق حکیم و رحیم کی طرف رہنمائی کرتی ہیں اور اس کا تقاضا کرتی ہیں کہ انسان میں وہ نظر پیدا ہو جائے جو منظور حقیقی کو براہ راست دیکھ سکے۔
غرضیکہ تقلیدی دین کی طرح سائنس بھی خبر ہی خبر ہے۔ عقل طبیعی دین تقلید کی طرح خبر سے نظر کی طرف ترقی نہیں کرتی،حالانکہ انسان کا مقصود براہ راست وجدان حقائق ہے۔ دین بھی اسی شخص کا خالص اور کامل ہے جس کیلئے دین ایک شخصی اور روحانی تجربہ اور وجدان ہے۔
(جاری ہے)
تقلید سے تحقیق کی طرف ترقی علم انفس و آفاق کا جادہ ارتقا اور منزل مقصود ہے۔ جس طرح دین تقلید محض سے ناقص رہ جاتا ہے اور ایمان میں عین الیقین والی پختگی پیدا نہیں ہوتی اسی طرح حکیم طبیعی اگر مظاہر کی پیش کردہ خبر یا علامات سے آگے نہ بڑھ سکے تو وہ بھی مقصود تک نہیں پہنچتا۔
مرید ہندی اور پیر رومی کے سوال و جواب میں اقبال نے مرشد سے ایک سوال کیا ہے کہ:
خاک تیرے نور سے روشن بصر
غایت آدم خبر ہے یا نظر
اس کا جواب عارف رومی یہ دیتے ہیں کہ:
آدمی دید است باقی پوست است
دید آں باشد کہ دید دوست است
فلسفہ اور سائنس دانش ہے اور وجدان و عرفان بینش۔ حضرت ابو سعید ابو الخیر اور بوعلی سینا کے مکالمے کا حال ہم پہلے درج کر چکے ہیں جس میں جو کچھ بولی سینانے کہا وہ عقل کی خبر تھی لیکن جو کچھ ابو سعید جانتے تھے وہ ’چشم بصیرت‘ کا براہ راست مشہود تھا۔
شنیدہ کے بود مانند دیدہ۔
بال جبریل میں ایک نظم فلسفہ و مذہب کے عنوان سے ہے۔ اس میں فلسفی کے تذبذب کا حال تو اچھی طرح بیان کیا ہے لیکن مذہب کی نظر بطور تقابل اس میں نہیں۔ صرف اتنا کہا ہے کہ بندہ صاحب نظر کہیں نظر نہیں آتا کہ اس کی بدولت یا خود مجھ میں نظر پیدا ہو یا اس کی نظر یقین آفرین ہو:
یہ آفتاب کیا یہ سپہر بریں ہے کیا؟
سمجھا نہیں تسلسل شام و شحر کو میں
اپنے وطن میں ہوں کہ غریب الدیار ہوں
ڈرتا ہوں دیکھ دیکھ کے اس دشت و در کو میں
کھلتا نہیں مرے سفر زندگی کا راز
لاؤں کہاں سے بندہ صاحب نظر کو میں
حیراں ہے بو علی کہ میں آیا کہاں سے ہوں
رومی یہ سوچتا ہے کہ جاؤ کدھر کو میں
”چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں“
اقبال نے کئی اشعار میں اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ بے یقینی فرد اور ملت دونوں کی موت ہے۔
اقبال نے اسی لئے ملت کو فلسفے سے گریز کی تعلیم دی کہ عوام و خواص سب کا ایمان پہلے ہی ضعیف معلوم ہوتا ہے،اگر سوچنے والے اس حیرت میں پڑ گئے جو فلسفے کا آغاز اور اس کی انتہا ہے تو وہ پوری قوت کے ساتھ کوئی راہ عمل اختیار نہ کر سکیں گے۔ حکمت بے عشق کے متعلق بال جبریل کے آخری حصے میں فلسفی پر دو اشعار ہیں:
بلند بال تھا لیکن نہ تھا جسور و غیور
حکیم سر محبت سے بے نصیب رہا
پھرا فضاؤں میں کرگس اگرچہ شاہیں وار
شکار زندہ کی لذت سے بے نصیب رہا
یہ اشعار تھوڑی سی شرح کے محتاج ہیں۔
فلسفی کے بلند بال ہونے پر کیا شک ہے۔ فلسفی خاک سے افلاک تک اور ثریٰ سے ثریا تک مظاہر عالم کی پیمائش کرتا اور ان کو علت و معلول کے عالمگیر قوانین میں منسلک کرنے کی کوشش کرتا ہے،لیکن جرأت راندانہ کی طرح جرأت عارفانہ بھی ایک چیز ہے جو کشف حقائق کیلئے بہت ضروری ہے۔ فلسفی زمانی اور مکانی طبیعی اور مادی عالم سے آگے پرواز کرتے ہوئے گھبراتا ہے اور سمجھتا ہے کہ جتنا عالم معقولات کے احاطے میں آ گیا ہے اس کے آگے خلا ہی خلا ہے۔
جن لوگوں نے اس سے آگے بھی کچھ دیکھا اور تجربہ کیا ہے ان کے مشاہدات کو توہمات سمجھ کر ٹھکرا دیتا ہے۔ وہ خود اس خوف میں مبتلا ہے کہ اگر محدود عقلیت کی زمین میرے پاؤں تلے سے نکل گئی تو میں خلائے لامتناہی میں گر جاؤں گا۔ وہ حاضر سے غائب کی طرف جرأت کا قدم نہیں اٹھا سکتا،آگے اس کو تاریکی ہی نظر آتی ہے اور تاریکی سے انسان فطرتاً خائف ہوتا ہے۔
ایک حکیم عارف نے عالم مادی کو چمٹنے والے اور اس پر سے اپنی گرفت کو ڈھیلا نہ کرنے والے شخص کا حال ایک تمثیل میں بیان کیا ہے کہ کوئی شخص رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ایک پہاڑ کی چوٹی پر سے پھسلا،نیچے گہری کھڈ تھی جس کے پہلوؤں میں جا بجا درخت کھڑے تھے،تھوڑی دور لڑھکنے کے بعد ایک درخت کی شاخ پر اس کا ہاتھ پڑ گیا،اس نے اس شاخ کو دونوں ہاتھوں سے بڑی مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیا،زبردست قوت ارادی سے اپنے دونوں پنجوں کو پنجہ آہنیں کرکے تمام رات خوف سے لرزتا رہا اور لٹکتا رہا کہ اگر ہاتھ چھوٹ گئے تو ہزار فٹ نیچے گرونگا اور میرا خاتمہ ہو جائے گا۔
اسی حالت میں وہ صبح تک لٹکا رہا،لیکن جب پو پھٹی اور کچھ دکھائی دینے لگا تو اس نے دیکھا کہ تھوڑی سی سطح زمین اس کے قدموں سے صرف ایک فٹ نیچے تھی۔ خیر اس کی جان میں جان آئی لیکن اپنی لاعلمی کی بدولت اس نے جو درد و کرب اور خوف میں رات گزاری تھی اس پر افسوس کرنے لگا،اندھیرے کی وجہ سے وہ جسارت نہ کر سکا تھا۔ اقبال کے نزدیک معقولات میں محصور حکیم طبیعی کا بھی یہی حال ہے کہ وہ جسور نہیں،اگر جسارت کرے تو فنا نہیں بلکہ بقا کے قریب ہو جائے اور اس خدا سے اقرب ہو جائے جو کسی قعر عمیق میں نہیں اور نارسا بلندیوں پر عرش نشیں نہیں بلکہ شہ رگ سے قریب تر ہے۔
دوسرا اعتراض حکیم طبیعی پر اقبال نے یہ کیا ہے کہ غیور نہیں۔ یہ اعتراض غور طلب ہے۔ علم میں حیرت کا کیا سوال ہے،اس غیرت کا تعلق اقبال کے فلسفہ خودی سے ہے۔ غیور انسان اپنی خودی کا محافظ ہوتا ہے۔ خودی کا گہرا تصور انسان کو دنیا و مافیہا سے بے نیاز کر دیتاہے۔ اس سے وقار نفس پیدا ہوتا ہے لیکن وقار نفس اسی حالت میں پیدا ہو سکتا ہے کہ انسان اپنے نفس کو عالم طبیعی کی پیداوار نہ سمجھے اور حوادث کے تھپیڑے نہ کھاتا رہے۔
لیکن اگر نفس کی لامتناہی قوتوں پر ایمان نہ ہو تو انسان ہر حادثے سے مرعوب اور مغلوب ہو جائے گا۔ وہ مادی قوتوں کے سامنے سر تسلیم خم کرے گا اور جابر یا ذی اقتدار انسانوں کے سامنے بھی اس کی گردن جھکی رہے گی۔ ایسے انسان کو غیور کیسے کہہ سکتے ہیں۔ اقبال نے ایک جگہ خوب کہا ہے کہ خدائے کائنات کے سامنے ایک سجدہ انسان کو ہزار سجدوں سے نجات دلواتا ہے۔
خدا کا پرستار کسی مادی یا انسانی قوت کے سامنے نہیں جھکتا۔ ”تخلقوا خلاق اللہ“ کی تعلیم کے مطابق خدا کے غیور ہونے کی صفت مرد مومن میں بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ ماسویٰ اللہ کے سامنے جھکنے سے تن اور من دونوں جھوٹے معبودوں کی غلامی میں ذلیل ہو جاتے ہیں:
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من
خرد کی کوتاہیوں کا ذکر اقبال عام طور پر اس انداز سے کرتا ہے کہ اس میں خلل ہی خلل معلوم ہوتا اور کوئی خوبی دکھائی نہیں دیتی لیکن حقیقت یہ ہے کہ عقل خود اپنے حدود کے اندر بھی مسلسل اپنی خامیوں سے آگاہ ہوتی رہتی ہے۔
فلسفے پر عام طور پر اقبال کا اعتراض یہ ہے کہ استدلالی،مکانی اور حیوانی عقلیت کے ماوریٰ نہ اس کو کچھ نظر آتا ہے اور نہ ہستی کے ان ماورائی پہلوؤں کا وہ قائل ہوتاہے۔ یہ اعتراض فلسفے کے کثیر حصے پر ضرور وارد ہوتا ہے۔ یونان میں فلسفہ ایک قسم کی مادیت سے شروع ہوا اور ترقی کرتا ہوا خالص عقلیت تک پہنچ گیا لیکن سقراط و افلاطون کی عقلیت بھی ماورائے عقل کنہ وجود کے تصور سے مطلقاً معرا نہیں ہے۔
خود افلاطون کے ہاں ایروس یعنی ازلی کا ایک بلند تصور ملتا ہے۔
سقراط نے بھی اقرار کیا ہے کہ میں ایک غیر عقلی الہام سے زندگی کے اہم مواقع پر ہدایت حاصل کرتا ہوں،میرے اندر ایک دیوتاہے جو مجھے ایسے اقدام سے ہمیشہ روک دیتا ہے جو نامناسب اور نامعقول ہو۔ میں اس مصدر ہدایت کے راز سے واقف نہیں،جو ہدایت مجھے ملتی ہے وہ استدلال کا نتیجہ نہیں ہوتی،اسی لئے کسی استدلال سے میں اس کی صحت کا ثبوت بھی پیش نہیں کر سکتا۔
یہ آواز مجھے کچھ کرنے کا حکم نہیں دیتی،اس میں کوئی امر نہیں ہوتا،خالص نہیں ہوتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ میرے وطن میں الوہیت کا یہ سرچشمہ میری ایجابی زندگی کو اس مقصد کے موافق سمجھتا ہے جس کو پورا کرنے کا مشن میرے حوالے کیا گیا ہے،لیکن جہاں غلط روی کا امکان ہو وہاں مجھے روک دیتا ہے۔