علم دعویٰ کرتا ہے کہ میں ہفت افلاک اور چار عناصر یعنی خاک و افلاک کے رموز سے واقف ہوں اور تمام زمانے کے احوال و حوادث میرے احاطہ ادراک میں ہیں،مجھے بصیرت جہاں بینی کیلئے عطا ہوئی تھی سو اس جہان کو سمجھنے کا کام میں نے بخوبی انجام دیا ہے۔ ستاروں سے آگے اگر کوئی جہان ہیں یا کوئی لازمانی اور لامکانی عوالم کہیں ہیں تو مجھے ان سے کیا واسطہ۔
میں اسرار کو سربستہ رکھنے کا قائل نہیں،جو کچھ معلوم ہوتا ہے تمام ماننے والوں کے سامنے علی روٴس الاشہاد ببانگ کوس اس کا اعلان کر دیتا ہے۔ عشق اس کے جواب میں کہتا ہے کہ آپ کی ساحرانہ قدرت کے تو ہم قائل ہیں مگر آپ نے ہم سے قطع تعلق کرکے دنیا کو نمونہ جہنم بنا دیا ہے،دریاؤں میں بھی آگ لگائی ہے اور ہواؤں میں کہیں زہر پھیلایا ہے اور کہیں آتش فشاں مادوں سے فضا کو شعلہ زار کیا ہے۔
(جاری ہے)
جب تک ہم سے یاری قائم تھی تو نور تھا،ہم سے الگ ہو کر نار بن گیا۔ میری طرح تو بھی لاہوت کے خلوت کدے میں پیدا ہوا تھا لیکن بدقسمتی سے تو شیطان کی لپیٹ میں آ گیا،تلبیس ابلیس نے مجھے بھی شیطنت سکھا دی۔ اب بھی اگر تو باز آ جائے تو پھر ہم اور تم بگڑی کو بنا سکتے ہیں۔
تو محض اپنی قدرت سے دنیا کو جنت بنانے کے وہم باطل میں مبتلا ہو گیا تھا۔
اب تونے تجربہ کر لیا ہے کہ بے اعانت عشق خالی علم سے جنت کی بجائے دوزخ وجود میں آتی ہے۔ ابتدائے آفرینش میں خدا نے ہم دونوں کو ہمدم اور ایک دوسرے کا معاون بنایا تھا۔ اب بھی باہمی تعاون سے ہم ان خاکدان کو جنت بنا سکتے ہیں اور اس فرسودہ جہان میں حیات نو پیدا کر سکتے ہیں۔ علم بے محبت کچھ اچھے نتائج پیدا نہیں کرسکتا،تھوڑا سا درد دل مجھ سے لے کر پھر عمل کر تو دیکھ کہ اس گردوں کے نیچے بھی بہشت جاوداں کا لطف پیدا ہو جائے گا۔
زندگی میں دو عظیم الشان قوتیں ہیں،ایک علم اور دوسرا عشق۔ خدا نے ان کو توام پیدا کیا ہے اور ان کا رابطہ اس قسم کا ہے کہ ایک دوسرے کے بغیر بے کار بلکہ ضرر رساں ہو جاتا ہے۔ از روے عقل اور بواسطہ ایمان و وجدان اقبال موحد ہے اور خدا و عالم روحانی کا قائل ہے۔ مذہب کی تلقین،اپنے وجدان اور ان حقائق حیات پر غور کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ زندگی میں دو ہی اقدار اساسی ہیں،ایک علم اور دوسرا عشق اور انسانی زندگی کے ہمہ سمتی ارتقا کا مدار انہیں اقدار کے تحقق پر ہے۔
لیکن ایک کافر طبیعی فلسفی برٹ رینڈرسل بھی اپنے عقائد کے متعلق ایک مختصر رسالے میں یہی لکھتا ہے کہ زندگی کے اساسی اقدار علم اور عشق ہی ہیں اور اگر انسانیت اسی عقیدے کو اپنا دین قرار دے کر عمل کرے تو انسانی زندگی آلام و خبائث اور ظلم و جہالت سے پاک ہو سکتی ہے۔ برٹ رینڈرسل نہ حیات بعد الموت کا قائل ہے،نہ خدا کو مانتا ہے اور نہ کسی روحانی عالم کے وجود کو تسلیم کرتا ہے۔
اس کے ہاں علم کا مفہوم بھی اقبال کے مقابلے میں تنگ ہے اور عقل بھی اس کے نزدیک انسانی محبت کے علاوہ اور کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ لیکن آزاد خیالی اور طبیعیاتی فلسفے نے بھی اس کو اقدار حیات کے متعلق روحانیین اور موحدین سے ایک گونہ متفق کر دیا۔ آزادانہ تحقق کی بدولت کفر اور ایمان کے ڈانڈے بھی مل جاتے ہیں:
کفر و دین است در رہت پویاں
وحدہ لا شریک لہ گویاں
###
گیارھواں باب
عشق کا تصور
اقبال کے ہاں عقل کی تنقید کا مضمون اکثر عشق کی توصیف کے دوش بدوش چلتا ہے اور جابجا بعض اوقات ایک ہی شعر کے دو مصرعوں میں،کہیں کہیں مسلسل اشعار میں ان کا موازنہ اور مقابلہ ملتا ہے۔
عقل کی تنقید تو اکثر پڑھنے والوں کی سمجھ میں آسانی سے آسکتی ہے لیکن عشق سے اقبال کیا مراد لیتا ہے،اس کو سمجھنے کیلئے زیادہ غور و فکر درکار ہے۔ مسلمانوں کے ہاں صدیوں سے عشق حقیقی اور عشق مجازی کی اصطلاحیں زبان زد عام ہیں۔ عشق حقیقی سے بعض اوقات انسانوں کی باہمی بے لوث محبت مراد ہوتی ہے جس میں خود غرضی،نفسانیت یا جنسیت کا کوئی شائبہ نہ ہو اور بعض اوقات اس کے معنی عشق الٰہی ہوتے ہیں،یعنی اشخاص و اشیاء کی محبت کے ماوریٰ خدا کا عشق اور یہ عشق حقیقی دل میں اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان کا دل ہر قسم کی حرص و ہوس سے پاک ہو جائے:
سرمد غم عشق بوالہوس را ندہند
سوز دل پروانہ مگس را ندہند
اقبال نے عشق کے مفہوم میں بڑی گہرائی اور بڑی وسعت پیدا کر دی ہے اور اس بارے میں وہ خاص طور پر عارف رومی کا شاگرد رشید ہے۔
اقبال نے حکمت و عرفان کے بیش بہا جواہر اسی مرشد سے حاصل کئے ہیں لیکن عشق کے بارے میں وہ خاص طور پر رومی کا ہم آہنگ ہے۔ رومی کے ہاں حکمت و علم بہت ہے اور عقل کی تعریف میں بھی اس کے نہایت بلیغ اشعار ملتے ہیں،لیکن رومی جہاں عقل سے عشق کی طرف آتا ہے وہاں عجیب ولولہ اور جوش دکھائی دیتا ہے۔ ایک لحاظ سے تمام مثنوی معنوی کا موضوع عشق ہی ہے۔
مثنوی کے تمہیدی اشعار میں بھی وہ عشق ہی کو بیان کرنا چاہتا ہے لیکن فوراً اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ یہ کیفیت بیان میں نہیں آ سکتی:
گرچہ تفسیر و بیاں روشن گر است
لیک عشق بے زباں روشن تر است
عقل در شرحش چو خر در گل بخفت
شرح عشق و عاشقی ہم عشق گفت
عارف رومی کے نزدیک دین کا جوہر بھی عشق بھی ہے۔ ادیان میں اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے اور عقائد و شعائر و اعمال میں بہت کچھ فرق پایا جاتا ہے لیکن جب کسی شخص میں عشق حقیقی پیدا ہو جاتا ہے تو وہ ان امتیازات کی زیادہ اہمیت نہیں سمجھتا اور یہ کہہ اٹھتا ہے:
مذہب عشق از ہمہ دیں با جداست
چونکہ ظواہر کو لوگ دین سمجھتے ہیں۔
جن کی حقیقت عاشق کے نزدیک ثانوی رہ جاتی ہے،اس لئے عوام ہی نہیں بلکہ فقہا بھی عاشقوں کو کافر کہنے لگتے ہیں۔ رفتہ رفتہ عشاق خود بھی اپنے لئے کفر کی اصطلاح استعمال کرنے لگتے ہیں:
کافر عشق مسلمانی مرا درکار نیست
ہر رگ من تار گشتہ حاجت زنار نیست
میر کہتا ہے:
سخت کافر تھا جس نے پہلے میر
مذہب عشق اختیار کیا
عام لوگوں کو جو کچھ دین کے ظواہر و شعائر و عبادات سے حاصل ہوتا ہے،عشق الٰہی کے نزدیک وہ سطحی اور ناپائیدار ہوتا ہے۔
عشق تمام امرض ظاہر و باطنی کا علاج ہے:
اے دوائے جملہ علت ہائے ما
اے دوائے نخوت و ناموس ما
اے تو افلاطون و جالینوس ما
جس عشق کی مدح سرائی حکماء اور صوفیہ اور شعراے متصوفین نے کی ہے اس کے دو پہلو ہیں،ایک تاثراتی یا جذباتی اور دوسرا نظریاتی۔ یہ دونوں پہلو ایک دوسرے سے جدا بھی ہو سکتے ہیں اور باہم مخلوط بھی ہوتے ہیں۔
جن حکماء کا میدان فقط عقلیت ہے ان کے ہاں اس چیز کے متعلق نظریات ملتے ہیں جسے انہوں نے مشاہد کائنات و حیات سے مدد لے کر استدلال سے مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے مقابلے میں ایسے صوفیہ بھی ملتے ہیں جن کے ہاں عشق کی کیفیت بڑے جوش و خروش کے ساتھ موجود ہے لیکن وہ اس کی عقلی توجیہ کی کوشش نہیں کرتے۔ یہ کیفیت ان سے دوسروں کی طرف برکت،صحبت اور فیض روحانی سے کم و بیش منتقل ہوتی ہے۔
راہ استدلال تو دراز اور پر پیچ ہے اور تسکین آفرین بھی نہیں لیکن لبریز عشق عاشق کی توجہ ایک لمحے میں مستفیض انسان کی کایا پلٹ دیتی ہے۔ تصوف کی تاریخ میں اس کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں کہ ایک شخص کسی عاشق الٰہی کی نظر کیمیا اثر سے ایسا بدلا کہ اس کے عمر بھر کے ساتھی اس کو کوئی دوسرا ہی انسان سمجھنے لگے۔ قبل فیضان اور بعد فیضان کی زندگی میں کوئی مشابہت نہ رہی:
آنانکہ خاک را بنظر کیمیا کنند
آیا بود کہ گوشہ چشمے بما کنند
چند لمحوں میں وہ بات حاصل ہو جاتی ہے جو عمر بھر کی ذہنی کاوشوں اور عمر بھر کی بے ریا سطحی عبادت سے حاصل نہ ہو:
یک زمانے در حضور اولیا
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا(رومی)
طے شود جادہ سالہ بہ آہے گاہے (اقبال)
بعض اوقات فیضان الٰہی سے جس کے اسباب و علل پر ماہر نفسیات حاوی نہیں ہو سکتا،یک بیک خود بخود کسی کے اندر سے یہ چیز ابھر پڑتی ہے۔
تاثر کا یہ پہلو ایک ذوقی چیز ہے،نہ استدلال سے پیدا ہوتا اور نہ استدلال سے دوسروں کو سمجھایا جا سکتا ہے:
ذوق ایں بادہ ندانی بخدا تانہ چشی
صوفیانہ عشق کی مثال حضرت امام غزالی نے بہت عمدہ بیان کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ ایک شخص شراب پیتا ہے اور رگ و پے اور اعضاے جسمانی پر اس کے جو گونا گوں اثرات ہوتے ہیں ان سے وہ ذاتی تجربے کی بنا پر پوری طرح آشنا ہوتا ہے بمقابلہ اس طبیب کے جو شراب نوشی پر ایک مبسوط کتاب لکھ سکتا ہے،لیکن اس نے اگر خود شراب نہیں پی تو وہ اس کے ذوق و سرور سے مطلقاً نا آشنا ہوتا ہے۔
یہی حال نظری اور عملی تصوف کا ہے،لیکن کہیں کہیں ایسے بزرگ بھی نظر آتے ہیں جن کے اندر یہ تاثراتی کیفیت بھی ہوتی ہے اور اس کے متعلق وہ حکیمانہ نظریات پیش کرنے کی بھی اہلیت رکھتے ہیں۔ عطار و سنائی و رومی اسی قسم کے جامع عقل و عشق ہیں،اسی لئے ان کا کلام حکمت پسندوں اور عاشقوں دونوں کیلئے بصیرت افروز اور دل رس ہے۔ اس بارے میں رومی کے کمال کو کوئی شخص نہیں پہنچا۔
اقبال میں بھی یہ دونوں چیزیں موجود ہیں۔ عشق کا حکیمانہ بیان رومی سے بھی کسی قدر بڑھ گیا ہے اگرچہ تاثراتی پہلو رومی کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ عشق کی یہ مستی اور ذوق اور اس کے متعلق حکیمانہ نظریات مسلمانوں کی زندگی میں کب پیدا ہوئے اور کس راستے سے داخل ہوئے؟ کیا چیز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی زندگیوں میں موجود تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عشق شدت محبت کا نام ہے اور خود قرآن کریم نے مومن کی یہ صفت ”اشد حبا للھم“ بیان کی ہے۔
مومن کی صفت ظاہر ہے کہ بدرجہ اتم محب و محبوب خدا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہونی چاہئے۔ تمام مسلمان صوفیہ جو عشق الٰہی میں مستغرق رہے،اس کا اقرار کرتے ہیں کہ اس عشق میں ان سے کوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق تک نہ پہنچ سکا۔ عشق کا کمال یہ ہے کہ عاشق کا اٹھنا،بیٹھنا،کھانا،پینا،سونا،جاگنا غرضیکہ اس کے تمام افکار و اعمال و جذبات کا محور محبوب کا عشق اور اس کا تصور ہو۔
عاشق الٰہی رسول اللہ (ﷺ) کی یہ صفت قرآن کریم میں اچھی طرح بیان کی گئی ہے۔ عشق و عرفان کا کمال یہ ہے کہ عاشق کی مرضی معشوق کی مرضی میں ضم ہو جائے۔ اسلام کے بھی یہی معنی ہیں۔ خدا کی مشیت کے سامنے انسان کی کامل تسلیم مشیت۔ اس تسلیم و رضا کی بدولت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ مرتبہ حاصل ہوا کہ:
تہ او گفتہ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبد اللہ بود