Episode 71 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 71 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

عشق انسان کے اندر بصیرت اور قوت دونوں کا اضافہ کرتا ہے اور اسے ایسی حقیقت سے آشنا کرتا ہے جو زمانی اور مکانی نہیں۔ عقل عالم مادی کو مسخر کرنے میں ید طولیٰ رکھتی ہے۔ عقل خارا شگاف ہے مگر عشق عالم مادی کو پر کاہ کے برابر سمجھتا ہے۔ عشق کی قوت طبیعیات کے علم سے پیدا نہیں ہوئی۔ اس کا ماخذ روح انسانی ہے جس کی باطنی قوتیں لامتناہی ہیں:
می نداند عشق سال و ماہ را
دیر و زود و نزد و دور راہ را
عقل در کوہے شگافے می کند
یا بگرد او طوافے می کند
گوہ پیش عشق چوں کاہے بود
دل سریع السیر چوں ماہے بود
زور عشق از باد و خاک و آب نیست
قوتش از سختی اعصاب نیست
مگر اکثر صوفیہ کے ہاں عشق فعال اور خلاق دکھائی نہیں دیتا۔
وہاں زیادہ تر محویت اور استغراق نظر آتا ہے۔

(جاری ہے)

یہ استغراق خلوت ہی میں حاصل ہو سکتا ہے،لیکن خالی خلوت سے یک طرفہ روحانیت اور رہبانیت پیدا ہوتی ہے جو اسلام میں ممنوع ہے۔ زندگی کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن۔ ہستی میں نفس بھی ہے اور آفاق بھی اور ازروے قرآن ظاہر و باطن ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں جن کو الگ کرنے کی کوشش ناکامی کا باعث ہوتی ہے۔

اقبال نے خلوت کی تعریف میں بہت کچھ کہا ہے۔ خلوت میں روح اور عشق کی پرورش ہوتی ہے،لیکن اس کی تربیت باطنی کا نتیجہ جلوت میں ظاہر ہونا چاہئے تاکہ شخصی اور اجتماعی زندگی میں انقلاب پیدا ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک زمانہ خلوت حرا میں گزارا،نبوت کے بعد کثیر المشاغل ہونے کے باوجود رات کے خاموشی اور تنہائی میں خلوت کو کبھی ترک نہ کیا۔
اقبال کے نزدیک عشق کی بہترین مثال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہے۔ جس میں خلوت و جلوت کا توازن پایا جاتا ہے۔ عقل جلوت کی طرف کھینچتی ہے اور عشق خلوت کی جانب،لیکن زندگی کی تکمیل دونوں کے توازن سے ہوتی ہے:
عقل او را سوے جلوت می کشد
عشق او را سوے خلوت می کشد
جلوت او روشن از نور صفات
خلوت او مستینر از نور ذات
خلوت نشینی کا مقصد نور ذات سے مستینر ہو کر ملتوں کی زندگی اور انسانوں کی سیرتوں میں انقلاب پیدا کرنا ہے مگر خلوت میں عشق کی کیفیات سے لذت اندوزی مقصود حیات نہیں۔
خلوت میں جب انسان پر اپنی خودی کے اسرر فاش ہوتے ہیں تو وہ جلوت میں نیا عالم پیدا کرتی ہے:
مصطفی اندر حرا خلوت گزید
مدتے جز خویشتن کس را ندید
نقش ما را در دل اور ریختند
ملتے از خلوتش انگیختند
اگر کسی فرد کے عشق الٰہی سے کوئی نیا عالم پیدا نہ ہو جو زندگی کے فرسودہ طریقوں کو تقویم پارنیہ کر دے اور انفرادی و اجتماعی زندگی کے اقدار کی تقدیر نو کرے تو ایسا عشق روحانی لذت کا اسیر ہو جاتا ہے اور کوئی انقلاب پیدا نہیں کر سکتا:
بیا اے کشت ما اے حاصل ما
بیا اے عشق اے رمز دل ما
کہن گشتند ایں خاکی نہاداں
دگر آدم بنا کن از گل ما
یہ ویسی ہی خواہش ہے جو رومی کے عشق نے بھی اس کے دل میں پیدا کی۔
رومی اقبال کی طرح ارتقائی صوفی ہے آدم جس درجے تک پہنچ سکا ہے اس سے آگے قدم رکھنے کا آرزو مند ہے،خواہ اس نئے عالم اور نئے آدم کا تصور پوری طرح ذہن میں نہ آ سکے۔ بہر حال یہ تمنا فطرت حیات میں مضمر ہے،جسے غالب نے اس بلیغ شعر میں ادا کیا ہے:
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا
#
دی شیخ با چراغ ہمی گشت گرد شہر
کز دام و دد ملولم و انسانم آرزوست
از ہمرہان سست عناصر دلم گرفت
شیر خدا و رستم یزدانم آرزوست
گھتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما
گفت آنکہ یافت م نشود آنم آرزوست
مغربی حکما میں ”مجذوب فرنگی“ نطشہ بھی انسان کو فوق الانسان ہستی بننے کی ترغیب دیتا تھا اور موجودہ انسان کے سست عناصر ہونے سے بیزار تھا۔
لیکن اس اعلیٰ تر نوع کے جو صفات وہ بیان کرتا ہے،اس سے تو وہ محض فوق الحیوان ہستی،ایک مطلق العنان قوی تر جوان ہی معلوم ہوتا ہے۔ اسی لئے اقبال نے لکھا ہے کہ عظمت انسانی کے تصور میں یہ مرد حکیم بھٹک گیا۔
مشرقی عشق الٰہی میں مستغرق ہو کر دنیا و مافیہا سے غافل ہو گئے اور مغربی اس وہم میں مبتلاہو گئے کہ عقلیت اور مادیت ہی سے ایک بہتر قسم کا عالم انسانیت پیدا ہو سکتا ہے۔
اقبال نے اس خیال کو کئی جگہ دہرایا ہے کہ عالم نو عشق اور عقل کی آمیزش ہی سے پیدا ہو سکتا ہے۔ یہ کام ابھی نہ شرقیوں نے کیا ہے اور نہ غریبوں نے۔ اس لئے اقبال کہتا ہے کہ ان دونوں کو چھوڑو،ان دونوں کی قیمت ایک جو کے برابر نہیں:
بگذر از خاور و افسونی افرنگ مشو
کہ نیرزد بجوے ایں ہمہ دیرینہ و نو
عشق اور زیرکی کی آمیزش سے ایک نیا عالم اور نیا آدم پیدا کرنا اقبال کا خاص مضمون ہے جو اس کے مرشد رومی کے کلام میں بھی اس وضاحت سے نہیں ملتا۔
رومی کے ہاں اس مضمون کے نہایت دل کش اشعار ملتے ہیں کہ اس زمانی و مکانی اور انسانی و حیوانی عوالم کے علاوہ وسعت تر عالم موجود ہیں جن کا انکشاف روحانی ترقی سے انسان پر ہوتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس جہاں کی مثال رحم کی سی ہے جس میں سے نکل کر انسان پر وسیع تر عالم منکشف ہوتے ہیں،اس لئے وہ عشق کی اس باطنی بصیرت افروزی اور وسعت آفرینی کی تلقین کرتا ہے،لیکن یہ مضمون اس کے ہاں نہیں ملتا کہ اسی زمانی اور مکانی عالم کے اندر رہتے ہوئے عشق اور عقل کے تعاون سے عالم نو پیدا ہو سکتا ہے۔
مغرب میں کئی انقلابی تحریکیں ہوئی ہیں اور ہر ایک اس کی مدعی ہوئی کہ اس کی بدولت انسان ایک جدید اور دل کش دنیا بنا لے گا جو حس و جمال،علم و کمال اور عدل و محبت سے لبریز ہو گی لیکن ہر انقلاب کے بعد انسانوں کو مایوسی ہوئی کہ انسان کے ”ظلوماً جہولاً“ ہونے میں کوئی فرق نہیں آیا بلکہ کچھ اضافہ ہی ہو گیا ہے۔ اقبال اب ایک نسخہ تجویز کرتا ہے جس پر کسی تہذیب و تمدن نے ابھی تک پوری طرح عمل نہیں کیا۔
مسلمانوں کو کہتا ہے کہ فرنگیوں کی طرف نہ دیکھو اور میرا نسخہ استعمال کرو جو طلوع اسلام کے وقت مسلمانوں نے چند روز استعمال کیا تھا:
خیز و نقش عالم دیگر بنہ
عشق را با زیرکی آمیز دہ
#
شعلہ افرنگیاں نم خوردہ ایست
چشم شاں صاحب نظر دل مردہ ایست
سوز و مستی را مجو از تاک شاں
عصر دیگر نیست در افلاک شاں
زندگی را سوز و ساز از نار تست
عالم نو آفریدن کار تست

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط