Episode 75 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 75 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

عشق حسن سے پیدا ہوتا ہے اور پھر خود حسن آفرینی کرتا ہے۔ حسن و عشق ایک دوسرے کی علت اور معلول ہیں۔ اقبال کے کلام میں عشق اور خودی کا مضمون جابجا ایک ہو گیا ہے۔ عشق کو خودی سے اور خودی کو عشق سے تقویت حاصل ہوتی ہے اور اس نے اس مضمون کو کئی طرح باندھا ہے کہ عاشقی کوئی تقلیدی چیز نہیں۔ اصل عشق وہی ہے جو اپنے اندر سے ابھرے۔ دوسرے کی آگ پر گرنا یا دوسروں سے تجلی کا تقاضا کرنا خودی اور عشق دونوں کو نقصان پہنچاتا ہے:
دلا نارائی پروانہ تاکے نگیری شیوہٴ مردانہ تاکے
یکے خودرا بسوز خویشتن سوز طواف آتش بیگانہ تاکے
#
کب تلک طور پہ دریوزہ گری مثل کلیم
اپنی ہستی سے عیاں شعلہ سینائی کر
یہ مضمون حافظ کے اس شعر میں بھی ملتا ہے کہ:
آتش آں نیست کہ بر شعلہ او خندد شمع
آتش آنست کہ اندر دل پروانہ زدند
عشق میں متضاد نما کیفیات پائی جاتی ہیں،اس لئے وہ اس منطق کی گرفت میں نہیں آ جس کی بنیاد ہی عدم تضاد ہے۔

(جاری ہے)

ایک طرف عشق طبیعت میں ایسی غیر معمولی محکمی اور قوت پیدا کرتا ہے کہ حوادث کے تھپیڑے اس پر کچھ اثر نہیں کرتے اور دوسری طرف اس میں کمال درجے کی رقت اور رافت ہوتی ہے جو بظاہر ایک انفعالی تاثر معلوم ہوتا ہے۔ مگر عشق کے کمال میں یہ کیفیت پیدا ہوتی ہے کہ:
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
اس سختی اور نرمی کی یکجائی کہسار اور جوے کہسار میں ملتی ہے:
تنے پیدا کن از مشت غبارے
تین محکم تر از سنگیں حصار
درون او درد دل آشنائے
چو جوئے درکنار کو ہسارے
علامہ اقبال نے ایک روز اپنے شہر کے ایک درویش کا ذکر کیا کہ وہ بازار میں گزر رہا تھا۔
دیکھا کہ ایک شخص زور سے ایک گائے کی پیٹھ پر لٹھ مار رہا ہے۔ درویش نے پکارا کہ ارے کیا کرتا ہے۔ رکو مت مارو۔ اس نے کہا کہ گائے کو مار رہا ہوں تجھے تو نہیں مار رہا۔ اس درویش نے اپنی پیٹھ پر سے کپڑا ہٹایا اور دکھایا کہ مجھے ہی تو مار رہے ہو۔ اس کی پیٹھ پر ویسے ہی چوٹ کے نشان تھے۔ علماء نفسیات نے بھی اس قسم کے واقعات لکھے ہیں کہ کمال ہمدردی سے محبت کرنے والے کے جسم پر بھی ضرب اور زخم کے نشانات نمایاں ہو جاتے ہیں۔
عیسوی مصلوب میں کئی بار یہ دیکھا گیا ہے کہ کسی کے دل میں حضرت مسیح کے مصلوب ہونے کے تصور نے ایسا گہرا اثر پیدا کیا کہ ہتھیلیوں میں سے اسی طرح خون نکلنے لگا جس طرح شخص مصلوب کے ہاتھوں میں میخیں ٹھونکنے سے نکلتا ہے۔ عشق کی درد آشنائی کی بھی کوئی حد نہیں۔
آگے ایک قطعے میں عشق کے متعلق وہی مضمون ہے۔ جسے اقبال نے سو ڈھنگ سے باندھا ہے کہ اگر دل بھی خرد کی طرح محض زیرکی استعمال کرتا اور سامنے نظر آنے والے نفع و ضرر ہی کو تول کر کام کرتا زندگی میں نہ سوز و ساز پیدا ہوتا اور نہ کسی قسم کی رونق۔
برنارڈشا نے اپنے مخصوص انداز میں کہا ہے کہ ارتقاے حیات نا معقولوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ جو کچھ انقلاب آفرینوں نے کہا یا کیا اس کی معقولیت ان کے معاصر دنیا داروں اور عقلمندوں کی سمجھ میں اس وقت نہ آئی۔ اگر زندگی میں کسی اہم اقدام کا مدار عقلمندوں کی رائے شماری پر ہو تو ترقی کا قدم نہ اٹھ سکے۔ دنیا کے عقلمندوں کی نظر مفاد حاضر ہی پر جمی رہتی ہے اور وہ کمال درجے کی محتاطی کی وجہ سے کوئی جرأت کا کام نہیں کر سکتے:
نبودے عشق و ایں ہنگامہ عشق
اگر دل چوں خرد فرزانہ بودے
اس اُردو شعر میں بھی یہی خیال موجود ہے:
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشاے لب بام ابھی
بود کو نمود سے ایک لذت حاصل ہوتی ہے،اسی لئے ہستی ہر وقت ظہور میں خود افشائی کرتی رہتی ہے۔
ایک حدیث قدسی کا بھی یہی مضمون ہے کہ خدا کا جمال ازلی ایک کنز مخفی تھا،اس میں ذوق نمود پیدا ہوا جس سے کائنات اور اس کے اندر حسن ازلی کا مشاہدہ کرنے والے معرض شہود میں آئے۔ ”فاجبت ان اعرف فخلقت الخلق الی آخرہ“۔ یہ حسن کی عشق آفرینی اور عشق کی حسن آفرینی کی لذت ہے جس کی بدولت زمین پر پھول اور چرخ پر تارے نمود ہوتے ہیں:
چہ لذت یا رب اندر ہست و بود است
دل ہر ذرہ در جوش نمود است
شگافد شاخ را چوں غنچہ گل
تبسم ریز از ذوق وجود است
ورڈز ورتھ نے کہا ہے کہ یہ کوئی شاعرانہ تخیل نہیں کہ پھول کھلنے سے خوش ہوتے ہیں۔
ماہر نباتیات ڈاکٹر بوس نے حساس آلات سے تجربہ کرکے یہ ثابت کیا کہ نبات میں بھی رنج و مسرت کی کیفیت ہوتی ہے جس کا ان کے نشوونما پر اثر پڑتا ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ پھول شاخ سے نکلتے ہوئے حقیقت میں تبسم ریز ہوتا ہے۔
قرآن کریم نے آفرینش آدم اور اعتراض ملائکہ کا جو قصہ بیان کیا ہے وہ آدم کے مسجود ملائک ہونے پر منتج ہوتا ہے۔ آدم کو وہ علم عطا کیا گیا جو ملائکہ کو حاصل نہ تھا اس وسعت علم کی بدولت آدم ملائکہ سے افضل قرار پایا،لیکن علم کے ساتھ ہی آدم کا طالب عفو ہونا اور خدا کی طرف رجوع کرنا عشق کی بدولت تھا۔
اس لئے عارف رومی محض علم کو نہیں بلکہ عشق کو آدم کی امتیازی خصوصیت قرار دیتا ہے۔ خالی علم زیرکی پیدا کر سکتا تھا جو ابلیس کی صفت ہے۔ عشق اس سے الگ چیز ہے۔ عشق سے علم کی تمیل ہوتی ہے،لیکن رومی اور اقبال دونوں کے نزدیک آدم فوراً واصل باللہ نہیں ہو گیا بلکہ عشق کی بدولت اس پر ایک طویل مہجوری طاری ہو گئی۔ اس مہجوری کی وجہ سے ”از جدائی ھا شکایت مے کند“۔
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
یہی عشق اور مہجوری کا احساس انسان سے کشاں کشاں ارتقا کی منزلیں طے کرا رہا ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ ملائکہ کے مقابلے میں احساس فراق انسان کی کمتری اور کوتاہی کا ثبوت نہیں۔ یہی مہجوری مصدر حیات ہے۔ یہ مہجوری طلب اور جستجو پیدا کرتی ہے،اقبال کہتا ہے کہ میں افشاے راز کا خواہاں نہیں ہوں۔
اگر راز حیات پوری طرح منکشف ہو جائے تو پھر زندگی میں کوئی لذت نہ رہے۔ مشہور المانوی فلسفی اور ادیب لیسنگ کا قول ہے کہ اگر خدا اپنے ایک ہاتھ میں صداقت کلی اور دوسرے ہاتھ میں تلاش حق رکھ کر مجھ کو اختیار دے کہ ان میں سے جو چاہو منتخب کر لو تو میں بصد عجز و نیاز عرض کروں کہ اے خدا حقیقت کلی کو تو اپنے پاس رہنے دے،کیوں کہ حقیقت کلی سے آشنا اور عالم الغیب و الشہادہ ہونے کے باوجود تو حی و قیوم رہ سکتا ہے،لیکن میں اس سے واقف ہو کر زندگی سے بے بہرہ ہو جاؤں گا۔
انسانی زندگی کا تمام لطف تو طلب اور جستجو ہی ہے۔ اقبال بھی ایسی ہی طبیعت کا مالک اور اسی نظریہ حیات کا قائل ہے:
نہ من انجام و نے آغاز جویم
ہمہ رازم جہان راز جویم
گر از روے حقیقت پردہ گیرند
ہماں بوک ومگر را باز گویم
#
خیال اور درون دیدہ خوشتر
غمش افزودہ جاں کاہیدہ خوشتر
مرا صاحبدلے ایں نکتہ آموخت
منزل جادہٴ پیچیدہ خوشتر
#
بگو جبریل را از من پیامے
مرا آں پیکر نوری ندادند
ولے تاب و تب ما خاکیاں بیں
بنوری ذوق مہجوری ندادند

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط