Episode 76 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 76 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

لہٰذا فرشتوں پر رشک کرنے کی ضرورت نہیں۔ عرش معلیٰ کو اپنے کندھوں پر اٹھانے یا اس کے گرد طواف کرنے یا کائنات کے اندر حکم ایزدی سے نظم و نسق میں خدمت گزاری میں وہ لطف کہاں جو عاشق کے اضطراب میں ہے۔ ”فلک العرش ہجوم خم دوش مزدور“:
رشک ملک چہ و چرا چونبتو رہ نمی برد
بیہدہ در ہواے تو می پرد از سبک سری
(غالب)
انسان کو جس چیز کا عشق ہو جاتا ہے اس کے حقیقی ہونے کا یقین بھی اس کے دل میں پیدا ہو جاتا ہے۔
یہ یقین بعض اوقات غلط بھی ہوتا ہے،لیکن عاشق کو اس کی غلطی کا یقیں دلانا محال ہوتا ہے۔ پوری قوت کے عمل کرنے کیلئے یقین لازم ہے،مگر یقین علم سے نہیں بلکہ عشق سے پیدا ہوتا ہے۔ اقبال جو خالی خرد کی مخالفت کرتا ہے،جس کے ساتھ عشق کی آمیزش نہ ہو،اس کی وجہ یہی ہے کہ محض خرد سے عمل میں قوت پیدا نہیں ہوتی۔

(جاری ہے)

ترقی کا مدار تشکیک پر ہے۔ علم کی روش یہی ہے کہ:

جانا تو یہ جانا کہ نہ جانا کچھ بھی
معلوم ہوا کہ کچھ نہ معلوم ہوا۔
اسی مسلسل جہالت کے احساس سے انسان علم میں ترقی کرتا ہے،لیکن علمی کوششوں میں بھی تشکیک کے ساتھ کم از کم یہ یقین وابستہ ہوتا ہے کہ علم کی ترقی پہلی غلطیوں کا ازالہ کر دے گی اور حقیقت کی طرف قدم اٹھتا رہے گا۔ کامل بے یقینی نہ عاقل میں پائی جاتی ہے اور نہ عاشق میں۔ علم و عمل سے یقین کا جو رابطہ ہے اس کو اقبال نے اس قطعے میں کس خوبی سے ادا کیا ہے:
ہماے علم تا افتد بدامت
یقیں کم کن، گرفتار شکے باش
عمل خواہی؟ یقیں را پختہ تر کن
یکے جوے و یکے بین و یکے باش
ظاہر ہے کہ عمل کی یہ کیفیت عاشق ہی میں پیدا ہوسکتی ہے جو محبوب چیز پر نظر جمائے پھر ادھر ادھر نہیں دیکھتا۔
مازاغ البصر و ماطغی۔“
یہ بات کہ عشق کی کیفیت محض ملت اسلامیہ کے ایک فرد ہونے کے ساتھ وابستہ نہیں بلکہ ہر مذہب و ملت کے کچھ برگزیدہ افراد میں یہ کیفیت ملتی ہے اور رسوم و شعائر و شرائع کا اختلاف اس میں خلل انداز نہیں ہوتا،اکثر صوفیہ کا عقیدہ ہے۔ اسی لئے عارف رومی کہتا ہے کہ:
مذہب عشق از ہمہ دین ہاجد است
عام انسانوں کے گناہ و ثواب کے معیار کا اطلاق عاشقوں پر نہیں ہوتا۔
عشق تو ایک کار نادر ہے اور بقول اقبال:
گر از دست تو کار نادر آید
گناہے ہم اگر بااشد ثواب است
عشق کی عدالت میں گناہ و نامہ اعمال و میزان رسمی عابدوں سے کچھ الگ قسم کے ہوتے ہیں۔ ان کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ:
گر بگوید کفر آید بوے دین
می تراود از شکش بوے یقین
اسی لئے شریعت کی ظاہری پابندی اور عشق کی طریقت کہیں کہیں طرز عمل میں متغائر دکھائی دیتی ہیں۔
اسی خیال کو اقبال نے اس قطعے میں ادا کیا ہے:
تو اے شیخ حرم شاید ندانی
جہان عشق را ہم محشرے ہست
گناہ و نامہ و میزاں ندارد
نہ او را مسلمے نے کافرے ہست
اسی خیال کو اقبال نے اس اُردو مصرعے میں بھی ادا کیا ہے:
من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ و برہمن
ہر مذہب میں عاشقان الٰہی صوفی منش لوگ کچھ ہم رنگ و ہم آہنگ ہی معلوم ہوتے ہیں۔
اقبال کی عام تبلیغ تو یہ ہے کہ عشق عین دین ہے۔ البتہ عقل سے اس کا تصادم ہو جاتا ہے۔ لیکن کہیں کہیں وہ عشق کے جذبے میں عقل کے ساتھ دین سے بھی کنارہ کش ہونے پر مائل معلوم ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا مطلب یہاں دین کی بے روح صورت ہے،جسے ارباب ظاہر نے کل دین سمجھ لیا ہے:
دل از منزل تہی کن پا برہ دار
نگہ را پاک مثل مہر و مہ دار
متاع عقل و دیں با دیگراں بخش
غم عشق ار بدست افتد نگہ دار
عشق اپنے کمال میں تو خرد پر بھی چھا جاتا اور اسے اپنے رنگ میں رنگ لیتا ہے،لیکن اس کمال پر پہنچنے سے پہلے یہ کیفیت بھی ہو سکتی ہے کہ عقل تو صورت تراشی اور صورت پرستی میں مبتلا ہے اور شکوک پیدا کر رہی ہے،لیکن سینے کے اندر عشق کی چنگاری بھی موجود ہے۔
حکیم المانوی نطشہ کے متعلق اقبال کی یہی رائے تھی:
قلب او مومن دماغش کافراست
اقبال بھی آخر تک عقلیت کی گرفت سے پوری طرح چھٹکارا حاصل نہ کر سکا۔ سوز و ساز رومی کے ساتھ ساتھ پیچ و تاب رازی بھی موجود رہا۔ اسی کیفیت کے متعلق اس قطعے میں تضاد طبیعت کو بیان کیا ہے:
دماغم کافر زنار دار است
بتاں را بندہ و پروردگار است
دلم را ہیں کہ نالد از غم عشق
تر با دین و آئینم چہ کار است
سراپا رہن عشق و ناگزیر الفت ہستی
عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
(غالب)
اقبال نے اس مصرعے میں اسی تضاد کی شکایت اپنے متعلق کی ہے کہ:
نگاہ آلودہ انداز افرنگ
اب تک جو جماد سے انسان تک ارتقا ہوا ہے وہ عشق ہی کی بدولت ہوا ہے۔
موجودہ انسان میں اگر عشق ترقی پذیر ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک نیا آدم ظہور میں نہ آئے جو پہلے آدم کے مقابلے میں ایسا ہی بلند تر ہو جیسا کہ موجودہ انسان حیوانوں سے بلند تر ہے۔ یہ یقین صوفیہ کے علاوہ طبیعی ارتقائی حکما کے ایک طبقے میں بھی پایا جاتا ہے کہ موجودہ انسان ارتقاے حیات کی آخری منزل نہیں،جو زندگی حشرات الارض سے لے کر انسان تک پہنچتی ہے۔
اس کے اندر ذوق عروج یا قوت ارتقا ختم نہیں ہو گئی۔ حیات کی ممکنات لامتناہی ہیں:
بیا اے عشق اے رمز دل ما
بیا اے کشت ما اے حاصل ما
کہن گشتند ایں خاکی نہاداں
دگر آدم بنا کن از گل ما
اقبال نے کہیں کہیں عشق کی بجائے آرزو کی اصلاح بھی استعمال کی ہے اور ان دونوں کے معنی اس کے نزدیک مرادف ہیں:
ازشعاع آرزو تابندہ ایم
جہان میں بود کی جو نمود بھی ہے وہ آرزو کی بدولت ہے:
جہاں یک نغمہ زارے آرزوئے
بم و زیرش ز تار آرزوئے
بچشمم ہر چہ ہست و بود و باشد
دمے از روزگار آرزوئے

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط