ابلیس کا وظیفہ حیات یہ ہے کہ زندگی کی ہر تعمیر کے اندر تخریب کی صورت پیدا کرے،وہ حیات و کائنات کی رگ و پے میں اسی غرض سے دوڑتا رہتا ہے کہ ہر نظم میں اختلال پیدا کرے (دیکھئے یہ مرد حکیم ابلیس کے متعلق وہی بات کہہ رہا ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی کہ شیطان انسان کی رگ و پے میں خون کی طرح گردش کرتا ہے)۔ اس کے مقابلے میں عشق ہر جگہ کار فرما ہے۔
شیطان موت کا فرشتہ ہے اور عشق زندگی کا فرشتہ۔ چاروں طرف یہی نقشہ نظر آتا ہے کہ ہر ہستی کا انجام فنا ہے۔ فنا کو شکست دینے والی قوت عشق ہے۔ موت گل و ثمر پر وارد ہوتی ہے لیکن پھل فنا ہونے سے پہلے اپنی بقا کا انتظام کر لیتا ہے۔ پھلوں اور پھولوں کے بیچ فطرت مصرفانہ افراد پیدا کرتی ہے۔ والدین کی وفات سے پہلے ان کی جانشین اولاد عشق کی بدولت معرض وجود میں آ چکتی ہے۔
(جاری ہے)
زندگی کی بقا کوش اور ارتقا کوش قوت عشق ہی ہے جو برگ و ثمر میں بھی کار فرما ہے اور روح بشر میں بھی۔ فقط عشق ہی اپنی خلاقی کی قوت کی بدولت موت سے مغلوب نہیں ہوتا۔ ہر جگہ آخر کار تخریبی قوتیں تعمیری قوتوں سے شکست کھا جاتی ہیں۔ فوسٹ کے ڈرامے میں عشق کی اس خلاقی فطرت کو ابلیس اپنا حریف قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ بقا کوشی تمام حیات و کائنات پر اس طرح محیط ہے کہ میں اپنی قوت قریب کو بڑی کوشش سے بچا کر نہ رکھتا تو میرے لئے کہیں گنجائش نظر نہ آتی۔
اس ڈرامے میں ابلیس خداے قدوس اور خیر مطلق کو اپنا حریف نہیں جتاتا بلکہ اسی حیات آفرین عشق سے نالاں ہے جو اس کی تمام تخریبی کوششوں پر انی پھیر دیتا ہے اور اسے پھر ازسر نو ہر تعمیر میں تخریب کی کوئی نئی صورت سوچنی پڑتی ہے۔ ابلیس کہتا ہے کہ عشق کی یہ خلاقی ملاحظہ ہو کہ ہوا کے اندر،پانی میں،زمین میں،خشکی میں،تری میں،گرمی میں،سردی میں،ہر جگہ اور ہر حالت میں زندگی کے لامحدود جراثیم پھوٹ پھوٹ کر نکل رہے ہیں۔
اس طوفان حیات اور زندگی کی فراوانی میں میں نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو بچا رکھا ہے۔
ہم اوپر لکھ چکے ہیں کہ برٹ رینڈرسل جیسا منکر خدا اپنا عقیدہ یہ بیان کرتا ہے کہ زندگی میں لطف اور قدرت پیدا کرنے والے دو ہی اقدار ہیں،ایک علم دوسرا عشق۔ اس سے ذرا ہٹ کر ایک اور منکر خدا فرائڈ،جدید تحلیل نفسی کا امام بھی آخر اس نتیجے پر پہنچا کہ تمام زندگی میں دو قوتیں اساسی معلوم ہوتی ہیں۔
ایک تخریبی قوت،جس کو وہ جبلت موت کہتا ہے اور ایک تعمیری قوت ہے،جسے وہ عشق کہتا ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مگر نہایت پر معنی کتاب ”تہذیب اور اس کی بے اطمینانیاں“ ہے۔ اس نے تہذیب پر ایک گہری نفسیاتی بحث کی ہے۔ اس کا لب لباب یہ ہے کہ انسانی زندگی کے اندر دو اساسی جبلتیں ہیں۔ ایک عشق ہے جو تخلیقی اور تعمیری قوت ہے۔ وہ ایک جنسی جذبے سے شروع ہو کر تمام نوع انسان کی محبت تک ترقی کرتا چلا جاتا ہے۔
انسانی تہذیب و تمدن کے تمام ادارے اور اس کے تمام فنون لطیفہ اسی جذبے کے مظاہر ہیں۔ دوسرا جذبہ تخریبی ہے جو جور و جفا پر انسان کو مائل کرتا ہے اور ہر تعمیر کی تخریب پر آمادہ رہتا ہے۔ فنا و بقا یا موت و حیات کی پیکار زندگی کا لازمہ ہے۔ انسان کی تہذیب اور اس کی ترقی کا مدار جذبہ عشق کو جنسی جذبے سے متجاوز کرکے تمام زندگی پر محیط کرنا ہے۔
انسانی زندگی میں عقل اور عشق حریف اور ازلی دشمن نہیں بلکہ عشق اور میلان ظلم ایک دوسرے پر غالب آنے میں کوشاں رہتے ہیں۔ رومی نے کہا تھا کہ ”زیرکی ابلیس و عشق از آدم است“۔ فرائڈ کہتا ہے کہ ابلیس میلان تظلم کا نام ہے اور عشق زندگی میں وحدت آفرین ہونے کی وجہ سے تہذیب و تمدن کے بہترین عناصر کا خلاق ہے۔
یہ دونوں میلانات انسانوں کے اندر داخل جبلت ہیں۔
ان کی پیکار کہیں پوری طرح ختم نہیں ہوتی۔ ظلم جلی نہیں تو ظلم خفی انسانوں کے برتاؤ میں موجود رہتا ہے لیکن اس کا حریف عشق کبھی اس کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالتا۔ انسان کا مستقبل یہی ہے کہ وہ عشق کی تعمیری اور خلاق قوت میں اضافہ کرتا جائے۔ دیکھئے کہ برٹ رینڈرسل اور فرائڈ دونوں مذہب اور روحانیت کے دشمن آخر میں وہی بات کہہ رہے ہیں جو اقبال نے ان دونوں سے بہتر انداز اور زیادہ جوش و خروش کے ساتھ کہی۔
کفر و دین کے ڈانڈے کس طرح مل گئے ہیں۔ دین بھی اپنے ارتقا میں آخر ذات و صفات الٰہی پر غور کرتا ہوا اور رسوم و شعائر اور عبادات سے گزرتا ہوا اسی عقیدے پر آ گیا کہ اصل حقیقت عشق ہے۔ خدا عشق ہے اور عشق خدا۔ نجات اور کامیابی کا مدار اسی عقیدے پر عمل کرنا ہے،باقی جو کچھ ہے وہ فروعی اور متغیر ہے اور کفر کی ترقی نے بھی وہیں آکر دم لیا اور اسی کو آخری منزل قرار دیا۔
فرائڈ نے ایک کتاب اسی موضوع پر لکھی ہے کہ خدا پر عقیدہ رکھنا ایک عالمگیر دھوکا ہے۔ انسانوں کو چاہئے کہ اس دھوکے سے نجات حاصل کریں۔ ”بگذر ز خدا ہم کہ خدا ہم حرفے ست“۔ لیکن یہی ملحد حیات و ممات کی ماہیت پر غور کرتا ہوا آخر عمر میں اپنا یہ راسخ عقیدہ پیش کرتا ہے کہ خدا کا وجود تو نہیں لیکن عشق کا وجود ہے جو خلاق ہے اور ضامن بقا و ارتقا ہے۔
انسان کو عشق کی پرستش کرنا اور اسے اپنی رگ و پے میں سمونا چاہئے۔ انسان کو حیوانیت سے عشق ہی کی ترقی نے نکالا ہے۔ زندگی کی تمام لطافتیں اسی نے پیدا کی ہیں اور آئندہ تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کی ترقی کا مدار بھی عشق ہی پر ہے۔ ایسے کافروں کی نسبت اقبال ہی کا مصرعہ دہرایا جا سکتا ہے:
”قلب او مومن دماغش کافر است“
جس نظریہ حیات پر کفر اور دین دونوں متفق ہو جائیں اور عقل و وجدان دونوں اس بارے میں ہم آہنگ ہوں اس کے ابدی صداقت ہونے پر میں کیا شک ہو سکتا ہے۔
اسی ابدی صداقت کو اقبال نے اتنی لطافت،اتنی نزاکت اور اتنے ہوش کے ساتھ پیش کیا ہے کہ وہ اسی کی بدولت ترجمان حقیقت کے لقب کا مستحق ہو گیا ہے۔
اقبال اس کا منکر نہ تھا کہ علم بھی اپنی ترقی میں عشق کا دامن چھو سکتا ہے۔ عشق کے متعلق برٹ رینڈرسل سے زیادہ فرائڈ کو بصیرت حاصل ہوئی۔ رسل عشق کو کوئی ازلی ابدی حقیقت نہیں سمجھتا،فقط انسانی زندگی میں عدل و رحم اور لطف و مسرت پیدا کرنے کیلئے اسے ایک اساسی قدر حیات تسلیم کرتا ہے۔
اس کے نزدیک وہ ماہیت وجود میں داخل نہیں،فقط انسانی زندگی کیلئے ایک مفید زاویہ نگاہ اور اچھا طرز عمل ہے۔ لیکن فرائڈ تو آخر میں معلوم ہوتا ہے کہ وہیں پہنچ گیا جہاں اہل دین اور صوفیہ پہنچے تھے کہ عشق،خلاقی قوت،مصدر حیات اور مقصود حیات ہے۔ اگر انسان لفظی تنازع میں نہ پڑے تو یہ اسی خدا کے قائل ہونے کے مرادف ہے جو رحیم و مودود اور رب العالمین ہے۔
فرائڈ کہتا ہے کہ ربوبیت نبات و حیوان و انسان میں ایک تعمیری حیثیت سے موجود ہے۔ اس کے ساتھ ہی جب وہ یہ کہتا ہے کہ فنا کوش تخریبی قوت بھی ساتھ ساتھ پائی جاتی ہے تو اس کو دین کی زبان میں شیطان کہتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ اپنے عقلی راستے پر چلتا ہوا اور انسانی نفس میں غوطہ زنی کرتا ہوا فرائڈ خدا اور شیطان دونوں کا قائل ہو گیا۔ وہ دینی زبان استعمال نہیں کرتا لیکن مفہوم وہی ہے اور جب وہ کہتا ہے کہ ایروس،یعنی عشق تخریبی قوتوں پر غالب آتا ہوا زندگی میں ارتقا پیدا کر رہا ہے تو اسے دینی زبان میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا کا شیطان پر غلبہ بھی ایک سرمدی حقیقت ہے۔
وہ اس کی تلقین کرتا ہے کہ میلان ظلم کو عشق کی وسعت اور قوت سے شکست دو۔ اس کے بعد اس کفر اور دین کی اعلیٰ ترین صورتوں میں کیا فرق باقی رہ جاتا ہے۔ فرائڈ اقبال کی طرح علم و عقل کی تحقیر نہیں کرتا کیوں کہ اسے جو کچھ بصیرت حاصل ہوئی وہ علم و عقل کی بدولت حاصل ہوئی،مگر اس کے نزدیک انسان نے جو علوم میں ترقی کی اور جس سے تہذیب پیدا ہوئی وہ بھی عشق ہی کی قوتوں نے پیدا کی۔
فرائڈ بھی اقبال کی طرح کہتا ہے کہ علم نے جو سوالات پیدا کئے اس کا جواب مجھے عشق ہی میں ملا۔ اسی نظریے کو اقبال نے اس خوبصورت مصرعے میں پیش کیا ہے کہ:
علم ہے ابن الکتاب عشق ہے ام الکتاب
تمام کتابیں طبیعی علوم کی ہوں یا فنون لطیفہ کی یا مذہبی صحیفے،سب کا منبع اور ان کی ماں عشق ہے۔ ضرب کلیم میں علم و عشق کے عنوان سے جو نظم ہے وہ اس موضوع پر اقبال کی لاجواب نظموں میں سے ہے۔
اس کو نقل کرنے کے بعد اب اس موضوع پر مزید طول بیان تحصیل حاصل ہو گا۔
علم و عشق
علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن
عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمین و ظن
بندہ تخمین و ظن کرم کتابی نہ بن
عشق سراپا حضور علم سراپا حجاب
عشق کی گرمی سے ہے معرکہٴ کائنات
علم مقام صفات عشق تماشاے ذات
عشق سکون و ثبات، عشق حیات و ممات
علم ہے پیدا سوال عشق ہے پنہاں جواب
عشق کے ہیں معجزات سلطنت و فقر و دیں
عشق کے ادنیٰ غلام صاحب تاج و نگیں
عشق مکان و مکیں! عشق زمان و زمیں
عشق سراپا یقیں اور یقیں فتح باب
شرح محبت میں ہے عشرت منزل حرام
شورش طوفان حلال لذت ساحل حرام
عشق پہ بجلی حلال عشق پہ حاصل حرام
علم ہے ابن الکتاب، عشق ہے ام الکتاب
###