Episode 80 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 80 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

 ابلیس کا وظیفہ حیات یہ ہے کہ زندگی کی ہر تعمیر کے اندر تخریب کی صورت پیدا کرے،وہ حیات و کائنات کی رگ و پے میں اسی غرض سے دوڑتا رہتا ہے کہ ہر نظم میں اختلال پیدا کرے (دیکھئے یہ مرد حکیم ابلیس کے متعلق وہی بات کہہ رہا ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی کہ شیطان انسان کی رگ و پے میں خون کی طرح گردش کرتا ہے)۔ اس کے مقابلے میں عشق ہر جگہ کار فرما ہے۔
شیطان موت کا فرشتہ ہے اور عشق زندگی کا فرشتہ۔ چاروں طرف یہی نقشہ نظر آتا ہے کہ ہر ہستی کا انجام فنا ہے۔ فنا کو شکست دینے والی قوت عشق ہے۔ موت گل و ثمر پر وارد ہوتی ہے لیکن پھل فنا ہونے سے پہلے اپنی بقا کا انتظام کر لیتا ہے۔ پھلوں اور پھولوں کے بیچ فطرت مصرفانہ افراد پیدا کرتی ہے۔ والدین کی وفات سے پہلے ان کی جانشین اولاد عشق کی بدولت معرض وجود میں آ چکتی ہے۔

(جاری ہے)

زندگی کی بقا کوش اور ارتقا کوش قوت عشق ہی ہے جو برگ و ثمر میں بھی کار فرما ہے اور روح بشر میں بھی۔ فقط عشق ہی اپنی خلاقی کی قوت کی بدولت موت سے مغلوب نہیں ہوتا۔ ہر جگہ آخر کار تخریبی قوتیں تعمیری قوتوں سے شکست کھا جاتی ہیں۔ فوسٹ کے ڈرامے میں عشق کی اس خلاقی فطرت کو ابلیس اپنا حریف قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ بقا کوشی تمام حیات و کائنات پر اس طرح محیط ہے کہ میں اپنی قوت قریب کو بڑی کوشش سے بچا کر نہ رکھتا تو میرے لئے کہیں گنجائش نظر نہ آتی۔
اس ڈرامے میں ابلیس خداے قدوس اور خیر مطلق کو اپنا حریف نہیں جتاتا بلکہ اسی حیات آفرین عشق سے نالاں ہے جو اس کی تمام تخریبی کوششوں پر انی پھیر دیتا ہے اور اسے پھر ازسر نو ہر تعمیر میں تخریب کی کوئی نئی صورت سوچنی پڑتی ہے۔ ابلیس کہتا ہے کہ عشق کی یہ خلاقی ملاحظہ ہو کہ ہوا کے اندر،پانی میں،زمین میں،خشکی میں،تری میں،گرمی میں،سردی میں،ہر جگہ اور ہر حالت میں زندگی کے لامحدود جراثیم پھوٹ پھوٹ کر نکل رہے ہیں۔
اس طوفان حیات اور زندگی کی فراوانی میں میں نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو بچا رکھا ہے۔
ہم اوپر لکھ چکے ہیں کہ برٹ رینڈرسل جیسا منکر خدا اپنا عقیدہ یہ بیان کرتا ہے کہ زندگی میں لطف اور قدرت پیدا کرنے والے دو ہی اقدار ہیں،ایک علم دوسرا عشق۔ اس سے ذرا ہٹ کر ایک اور منکر خدا فرائڈ،جدید تحلیل نفسی کا امام بھی آخر اس نتیجے پر پہنچا کہ تمام زندگی میں دو قوتیں اساسی معلوم ہوتی ہیں۔
ایک تخریبی قوت،جس کو وہ جبلت موت کہتا ہے اور ایک تعمیری قوت ہے،جسے وہ عشق کہتا ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مگر نہایت پر معنی کتاب ”تہذیب اور اس کی بے اطمینانیاں“ ہے۔ اس نے تہذیب پر ایک گہری نفسیاتی بحث کی ہے۔ اس کا لب لباب یہ ہے کہ انسانی زندگی کے اندر دو اساسی جبلتیں ہیں۔ ایک عشق ہے جو تخلیقی اور تعمیری قوت ہے۔ وہ ایک جنسی جذبے سے شروع ہو کر تمام نوع انسان کی محبت تک ترقی کرتا چلا جاتا ہے۔
انسانی تہذیب و تمدن کے تمام ادارے اور اس کے تمام فنون لطیفہ اسی جذبے کے مظاہر ہیں۔ دوسرا جذبہ تخریبی ہے جو جور و جفا پر انسان کو مائل کرتا ہے اور ہر تعمیر کی تخریب پر آمادہ رہتا ہے۔ فنا و بقا یا موت و حیات کی پیکار زندگی کا لازمہ ہے۔ انسان کی تہذیب اور اس کی ترقی کا مدار جذبہ عشق کو جنسی جذبے سے متجاوز کرکے تمام زندگی پر محیط کرنا ہے۔
انسانی زندگی میں عقل اور عشق حریف اور ازلی دشمن نہیں بلکہ عشق اور میلان ظلم ایک دوسرے پر غالب آنے میں کوشاں رہتے ہیں۔ رومی نے کہا تھا کہ ”زیرکی ابلیس و عشق از آدم است“۔ فرائڈ کہتا ہے کہ ابلیس میلان تظلم کا نام ہے اور عشق زندگی میں وحدت آفرین ہونے کی وجہ سے تہذیب و تمدن کے بہترین عناصر کا خلاق ہے۔ 
یہ دونوں میلانات انسانوں کے اندر داخل جبلت ہیں۔
ان کی پیکار کہیں پوری طرح ختم نہیں ہوتی۔ ظلم جلی نہیں تو ظلم خفی انسانوں کے برتاؤ میں موجود رہتا ہے لیکن اس کا حریف عشق کبھی اس کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالتا۔ انسان کا مستقبل یہی ہے کہ وہ عشق کی تعمیری اور خلاق قوت میں اضافہ کرتا جائے۔ دیکھئے کہ برٹ رینڈرسل اور فرائڈ دونوں مذہب اور روحانیت کے دشمن آخر میں وہی بات کہہ رہے ہیں جو اقبال نے ان دونوں سے بہتر انداز اور زیادہ جوش و خروش کے ساتھ کہی۔
کفر و دین کے ڈانڈے کس طرح مل گئے ہیں۔ دین بھی اپنے ارتقا میں آخر ذات و صفات الٰہی پر غور کرتا ہوا اور رسوم و شعائر اور عبادات سے گزرتا ہوا اسی عقیدے پر آ گیا کہ اصل حقیقت عشق ہے۔ خدا عشق ہے اور عشق خدا۔ نجات اور کامیابی کا مدار اسی عقیدے پر عمل کرنا ہے،باقی جو کچھ ہے وہ فروعی اور متغیر ہے اور کفر کی ترقی نے بھی وہیں آکر دم لیا اور اسی کو آخری منزل قرار دیا۔
فرائڈ نے ایک کتاب اسی موضوع پر لکھی ہے کہ خدا پر عقیدہ رکھنا ایک عالمگیر دھوکا ہے۔ انسانوں کو چاہئے کہ اس دھوکے سے نجات حاصل کریں۔ ”بگذر ز خدا ہم کہ خدا ہم حرفے ست“۔ لیکن یہی ملحد حیات و ممات کی ماہیت پر غور کرتا ہوا آخر عمر میں اپنا یہ راسخ عقیدہ پیش کرتا ہے کہ خدا کا وجود تو نہیں لیکن عشق کا وجود ہے جو خلاق ہے اور ضامن بقا و ارتقا ہے۔
انسان کو عشق کی پرستش کرنا اور اسے اپنی رگ و پے میں سمونا چاہئے۔ انسان کو حیوانیت سے عشق ہی کی ترقی نے نکالا ہے۔ زندگی کی تمام لطافتیں اسی نے پیدا کی ہیں اور آئندہ تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کی ترقی کا مدار بھی عشق ہی پر ہے۔ ایسے کافروں کی نسبت اقبال ہی کا مصرعہ دہرایا جا سکتا ہے:
”قلب او مومن دماغش کافر است“
جس نظریہ حیات پر کفر اور دین دونوں متفق ہو جائیں اور عقل و وجدان دونوں اس بارے میں ہم آہنگ ہوں اس کے ابدی صداقت ہونے پر میں کیا شک ہو سکتا ہے۔
اسی ابدی صداقت کو اقبال نے اتنی لطافت،اتنی نزاکت اور اتنے ہوش کے ساتھ پیش کیا ہے کہ وہ اسی کی بدولت ترجمان حقیقت کے لقب کا مستحق ہو گیا ہے۔
اقبال اس کا منکر نہ تھا کہ علم بھی اپنی ترقی میں عشق کا دامن چھو سکتا ہے۔ عشق کے متعلق برٹ رینڈرسل سے زیادہ فرائڈ کو بصیرت حاصل ہوئی۔ رسل عشق کو کوئی ازلی ابدی حقیقت نہیں سمجھتا،فقط انسانی زندگی میں عدل و رحم اور لطف و مسرت پیدا کرنے کیلئے اسے ایک اساسی قدر حیات تسلیم کرتا ہے۔
اس کے نزدیک وہ ماہیت وجود میں داخل نہیں،فقط انسانی زندگی کیلئے ایک مفید زاویہ نگاہ اور اچھا طرز عمل ہے۔ لیکن فرائڈ تو آخر میں معلوم ہوتا ہے کہ وہیں پہنچ گیا جہاں اہل دین اور صوفیہ پہنچے تھے کہ عشق،خلاقی قوت،مصدر حیات اور مقصود حیات ہے۔ اگر انسان لفظی تنازع میں نہ پڑے تو یہ اسی خدا کے قائل ہونے کے مرادف ہے جو رحیم و مودود اور رب العالمین ہے۔
فرائڈ کہتا ہے کہ ربوبیت نبات و حیوان و انسان میں ایک تعمیری حیثیت سے موجود ہے۔ اس کے ساتھ ہی جب وہ یہ کہتا ہے کہ فنا کوش تخریبی قوت بھی ساتھ ساتھ پائی جاتی ہے تو اس کو دین کی زبان میں شیطان کہتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ اپنے عقلی راستے پر چلتا ہوا اور انسانی نفس میں غوطہ زنی کرتا ہوا فرائڈ خدا اور شیطان دونوں کا قائل ہو گیا۔ وہ دینی زبان استعمال نہیں کرتا لیکن مفہوم وہی ہے اور جب وہ کہتا ہے کہ ایروس،یعنی عشق تخریبی قوتوں پر غالب آتا ہوا زندگی میں ارتقا پیدا کر رہا ہے تو اسے دینی زبان میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا کا شیطان پر غلبہ بھی ایک سرمدی حقیقت ہے۔
وہ اس کی تلقین کرتا ہے کہ میلان ظلم کو عشق کی وسعت اور قوت سے شکست دو۔ اس کے بعد اس کفر اور دین کی اعلیٰ ترین صورتوں میں کیا فرق باقی رہ جاتا ہے۔ فرائڈ اقبال کی طرح علم و عقل کی تحقیر نہیں کرتا کیوں کہ اسے جو کچھ بصیرت حاصل ہوئی وہ علم و عقل کی بدولت حاصل ہوئی،مگر اس کے نزدیک انسان نے جو علوم میں ترقی کی اور جس سے تہذیب پیدا ہوئی وہ بھی عشق ہی کی قوتوں نے پیدا کی۔
فرائڈ بھی اقبال کی طرح کہتا ہے کہ علم نے جو سوالات پیدا کئے اس کا جواب مجھے عشق ہی میں ملا۔ اسی نظریے کو اقبال نے اس خوبصورت مصرعے میں پیش کیا ہے کہ:
علم ہے ابن الکتاب عشق ہے ام الکتاب
تمام کتابیں طبیعی علوم کی ہوں یا فنون لطیفہ کی یا مذہبی صحیفے،سب کا منبع اور ان کی ماں عشق ہے۔ ضرب کلیم میں علم و عشق کے عنوان سے جو نظم ہے وہ اس موضوع پر اقبال کی لاجواب نظموں میں سے ہے۔
اس کو نقل کرنے کے بعد اب اس موضوع پر مزید طول بیان تحصیل حاصل ہو گا۔
علم و عشق
علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن
عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمین و ظن
بندہ تخمین و ظن کرم کتابی نہ بن
عشق سراپا حضور علم سراپا حجاب
عشق کی گرمی سے ہے معرکہٴ کائنات
علم مقام صفات عشق تماشاے ذات
عشق سکون و ثبات، عشق حیات و ممات
علم ہے پیدا سوال عشق ہے پنہاں جواب
عشق کے ہیں معجزات سلطنت و فقر و دیں
عشق کے ادنیٰ غلام صاحب تاج و نگیں
عشق مکان و مکیں! عشق زمان و زمیں
عشق سراپا یقیں اور یقیں فتح باب
شرح محبت میں ہے عشرت منزل حرام
شورش طوفان حلال لذت ساحل حرام
عشق پہ بجلی حلال عشق پہ حاصل حرام
علم ہے ابن الکتاب، عشق ہے ام الکتاب
###

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط