بارھواں باب:
تصوف
اقبال کے فکر و تاثر پر بحث و تنقید مکمل نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کا فیصلہ نہ کیا جائے کہ تصوف کے متعلق اقبال کا کیا رویہ تھا۔ اس سے قبل اس کا تعین لازمی ہے کہ تصوف ہے کیا چیز۔ عشق کے لفظ کی طرح یہ لفظ بھی نہ قرآن و حدیث میں ملتا ہے اور نہ اس زمانے کے معاصرانہ ادب میں۔ طلوع اسلام کے دو سو سال بعد تک کوئی صاحب دل دین دار صوفی کہلاتا ہوا نظر نہیں آتا۔
اسلام کی ابتدائی صدیوں میں کسی کیلئے اس سے زیادہ اور کوئی شرف نہ تھا کہ وہ مومن ہو اور لوگ اس کے تقوے اور تزکیہ نفس کو قابل تحسین اور قابل تقلید سمجھیں۔ اس کا آج تک کوئی قطعی فیصلہ نہ ہو سکا کہ صوفی کا لفظ کہاں سے آیا۔ کسی نے اس کو صفا سے مشتق سمجھا اور کسی نے اصحاب صفہ سے اس کا جوڑ ملایا۔
(جاری ہے)
کسی نے کہا کہ یہ یونانی لفظ سوفی سے ماخوذ ہے جس کے معنی عرفان کے ہیں۔
لیکن اب مسلم اور غیر مسلم محققین زیادہ تر اس پر اتفاق رائے رکھتے ہیں کہ یہ لفظ صوف سے مشتق ہے۔ درویش،خدا سے لو لگانے والا اور تنعم دنیوی سے گریز کرنے والا زاہد،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح کملی والا ہوتا تھا۔ یہ کملی عام طور پر صوف ہی کی ہوتی تھی جو ایک کھردری قسم کی اون کی بافت تھی۔ مسلمانوں میں صوفیہ میں سے کوئی اس کا قائل نہیں کہ وہ طرز فکر و تاثر اور طرز زندگی جسے تصوف کہتے ہیں،اسلام میں کہیں خارج سے داخل ہوئی۔
بعض صوفیوں نے اپنے سلسلے کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ملایا ہے اور بعض نے حضرت ابو بکر صدیق سے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ چیز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کا عکس اور اخلاق نبوی کو قلب میں سمونے کا نام ہے۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غار حرا کی خلوت،تصوف یا ولایت ہی کا دور تھا جو نبوت کا پیش خیمہ بن گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ جس چیز کو تصوف یا انگریزی زبان میں مسٹیسزم کہتے ہیں،وہ دین کے ارتقا اور اس کی گہرائی میں ہر جگہ پیدا ہوئی ہے۔ ایک خاص انداز کے تصوف میں ہندو قوم سے زیادہ کسی نے غوطہ زنی نہیں کی اور ہندو دھرم ویدانت اور بدھ مت پر پہنچ کر اور ویدوں سے اپنشدوں کی طرف عروج کرکے،فکر و عمل میں تصوف ہی تصوف بن گیا۔ اس یک طرفہ روحانیت اور ذات و صفات ہستی واجب الوجود پر غور کرتے ہوئے اس پر احدیت یا ادویت ویدانت نے ایسا تسلط جمایا کہ حیات و کائنات اور تمام ماسوا مایا یا فریب ادراک رہ گئے اور رفتہ رفتہ دیوتا بھی مایا ہی کا ایک جزو بن گئے،نفس انسانی کی انفرادیت شرک بن گئی اور یہ سارا سلسلہ ایک حیات گریز تصور میں منتج ہوا۔
عملی زندگی اور خیر و شر کی پیکار کو باطل ہونے سے بچانے کیلئے بھی بعض اہم کوششیں ہوئیں جن میں کرشن مہاراج کی طرف منسوب بھگوت گیتا تصوف کے حقائق کو عمل سے ہم آغوش کرنے کی ایک لاجواب کوشش ہے۔ اس کتاب میں وحدت وجود اور توحید کی جہاد عملی اور جہاد نفسی کے ساتھ اس طرح مربوط کیا ہے کہ حیات گریز تصوف کی بہت سی خامیاں اس میں رفع ہو گئی ہیں۔
اس بنا پر علامہ اقبال اس کتاب کے بے حد مداح تھے اور فرماتے تھے کہ ہندو قوم اس کتاب کی وجہ سے قابل مبارک ہے۔
ہر قوم کے تصوف میں بعض میلانات،مشترک طور پر پائے جاتے ہیں۔ صوفی اس مادی زندگی کو اگر بالکل باطل اور بے اصل نہ بھی سمجھے اور اسے خدا ہی کی آفرینش اور اس کی مشیت کا مظہر قرار دے تو بھی روحانی زندگی کے مقابلے میں اس کو ہیچ سمجھتا ہے،حتی الوسع دام علائق سے رہائی چاہتا ہے،جسمانی آرزوؤں کو اقل قلیل حد تک پورا کرتا ہے اور اسے بھی مقصود نہیں بلکہ روحانیت کا ایک ادنیٰ مگر ضروری وسیلہ سمجھتا ہے۔
صوفی میں خدا کا تصور تجسیم و تشبیہ سے پاک ہوتا ہوا کمال تنزیہ تک جا پہنچتا ہے اور خدا کے صفات تمثیلی،باطنی یا اضافی رہ جاتے ہیں،کیوں کہ اس کی ذات وراء الوراء ہے۔ ”سبحان اللہ عمایصفون“۔ یہاں پہنچ کر توحید کے ڈانڈے وحدت وجود سے جا ملتے ہیں اور دونوں میں امتیاز دشوار بلکہ محال ہو جاتا ہے۔
علما و فقہا اور عوام کے نزدیک دین رفتہ رفتہ کچھ ظواہر و شعائر میں محصور ہو جاتا ہے۔
تمام توجہ اوامر و نواہی کی طرف مبذول ہو جاتی ہے۔ دین ایک کالید بے روح بن جاتا ہے۔ اہل دین متشابہات بلکہ محکمات کی متضاد نما تاویلوں میں الجھ جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں روح دین کی حفاظت کیلئے یہ لازمی ہو جاتا ہے کہ لوگوں کو ظاہر سے باطن کی طرف لایا جائے۔ کیا کرنا اور کیا نہ کرنا کے علاوہ بلکہ اس سے زیادہ اس کی تلقین اہم ہو جاتی ہے کہ انسان کو کیا ہونا چاہئے۔
ظواہر پر منحصر دین اور فقط معاملات کو سلجھانے والی فقہ رفتہ رفتہ اس جذبے سے عاری ہو جاتی ہے جسے صوفیہ اور علامہ اقبال عشق کہتے ہیں۔ عبادت کا مقصود حصول ثواب رہ جاتا ہے جس سے آخرت میں نعمت جنت حاصل ہو اور انسان عذاب دوزخ سے بچ جائے۔ نیکی اور بدی کے اندر جو ذاتی اور نفسی نقد سزا اور جزا مضمر ہے اس کی حقیقت سے دیندار نا آشنا ہو جاتے ہیں۔
سب سے پہلے صوفی کہلانے والوں میں رابعہ کا ذکر ملتا ہے جن کو لوگ مجذوب یا مجنوں سمجھتے تھے۔ ایک روز دیکھا کہ وہ بازار سے گزر رہی ہیں،ایک ہاتھ میں کسی ظرف میں پانی ہے اور دوسرے میں کسی اور ظرف میں کچھ دہکتے ہوئے کوئلے ہیں۔ لوگوں نے پوچھا کہ کہاں جا رہی ہو اور یہ کیا لئے جاتی ہو؟ رابعہ نے جواب دیا کہ اس پانی سے دوزخ کی آگ کو بجھانے اور اس آگ سے جنت کو آگ لگانے جا رہی ہوں تاکہ لوگ اعمال کا مدار عشق الٰہی پر رکھیں اور اس جسمانی عذاب و ثواب کی امید و بیم سے نجات حاصل کریں۔
اسی تصور کو غالب نے ذرا انوکھے انداز میں بیان کیا ہے:
طاعت ہے تا رہے نہ مے و انگیں کی لاگ
دوزخ میں ڈال دے کوئی لے کر بہشت کو
تمام اقوام کے تصوف میں ایک اور بات مشترک ملتی ہے اور وہ یہ ہے کہ محسوسات اور معقولات کے علاوہ ان سے کہیں زیادہ،ادراک حقیقت کے ذرائع اور ہیں جو وجدانی ہیں۔ انسان کے ظاہری حواس کے علاوہ کچھ باطنی حواس بھی ہیں جو ہستی کے بعض ایسے پہلوؤں کو منکشف کرتے ہیں جن تک عام عقل و احساس کی رسائی نہیں۔
کشف حقیقت کا سب سے بڑا ذریعہ عشق ہے جو محض تاثر یا جذبہ نہیں بلکہ مصدر بصیرت و معرفت ہے۔ زندگی کا مقصد اسی عشق کو ترقی دینا ہے،جس سے ظاہر و باطن کی خامیاں رفع ہو جاتی ہیں اور اس کی بدولت جو عرفان نفس پیدا ہوتا ہے وہ خود شناسی اور جہاں شناسی کے علاوہ خدا شناس کی راہیں بھی کشادہ کر دیتا ہے۔ تصوف کوئی طریق استدلال اور محض ایک نظریہ حیات نہیں بلکہ ایک طرز زندگی ہے جس میں ہر چیز کے متعلق زاویہ نگاہ بدل جاتا ہے اور زندگی کے رسمی اقتدار کی نئی تقدیر ہوتی ہے۔
ان تمام وجوہ اشتراک کے باوجود مختلف ادیان کے تصورات میں تصوف کا رنگ ایک گونہ جدا جدا نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ہی ملت میں مختلف صوفیا کا رنگ مختلف معلوم ہوتا ہے۔ بعض خدا مست اور مجذوب معلوم ہوتے ہیں،بعض خلوت پسند اور ہر قسم کے علائق سے گریز کرنے والے ہیں،بعض اپنی روحانیت اور معرفت سے دوسروں کو متاثر کرنا اور ان کی زندگیوں میں تزکیہ پیدا کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں،بعض کی طبیعتوں پر بقا کے مقابلے میں فنا کا تصور زیادہ حاوی دکھائی دیتا ہے،بعض پر گریہ طاری رہتا ہے اور بعض کے اندر ایک ازلی سرور ان کے چہروں پر بھی تبسم آفرین ہوتا ہے،بعض اپنے دین کی شریعت پر بھی سختی کے ساتھ پابند ہوتے ہیں اور بعض شریعت کے مقابلے میں طریقت و معرفت اور عشق کو افضل سمجھتے ہیں اور کہیں دونوں میں تصادم ہو تو وہ شریعت کے ظاہری احکام کی زیادہ پروا نہیں کرتے۔
مختلف صوفیہ نے تصوف کی جو تعریفیں کی ہیں وہ بھی اسی وجہ سے مختلف ہیں کہ ان کا طرز فکر اور طرز عمل جدا جدا ہے اور ان کے نفسی احوال میں بھی تفاوت معلوم ہوتا ہے۔
ہمارا اصل موضوع یہ ہے کہ کہ تصوف کے عالم میں اقبال کا کیا مقام ہے اور اقبال کو صوفی کہہ سکتے ہیں یا تصوف کا مخالف۔ اقبال کا سرسری مطالعہ کرنے والوں نے اس بارے میں عجیب رائیں قائم کر رکھی ہیں۔
اقبال کے تصوف کے موافق مخالف ہونے کی بابت بحث اس وقت شروع ہوئی جب انہوں نے اسرار خودی کے پہلے ایڈیشن میں حافظ شیرازی کے متعلق بڑی بیباکی سے اشعار لکھ ڈالے ہیں،جن میں حافظ کے نظریہ حیات پر سخت اور تلخ تنقید تھی۔ صدیوں سے فارسی پڑھنے والوں نے حافظ کو صوفیہ کرام میں شمار کر رکھا ہے۔ مسلمان عام طور پر اس کو لسان الغیب کہتے ہیں اور اپنی زندگی کے اہم امور کے متعلق دیوان حافظ سے فال نکالتے ہیں۔
اس تفاول کے متعلق عام و خاص کے عجیب و غریب تجربات ہیں کہ کس طرح براہ راست ان کو اپنے سوال کا جواب اور مشکل کشائی کیلئے صحیح مشورہ حاصل ہوا۔ بادشاہ بھی امور سلطنت میں حافظ کی طرف رجوع کرتے رہے ہیں۔ جہانگیر نے اپنی توزک میں لکھا ہے کہ مجھے جب باپ کی وفات کی خبر ملی تو میں پایہ تخت سے کوسوں دور تھا اور پایہ تخت میں تخت شاہنشاہی پر بیٹھنے بٹھانے والے حریف موقع پر موجود تھے۔
بعض مصاحبین نے یہ مشورہ دیا کہ اس وقت آگرے کی طرف رخ کرنا خطرے سے خالی نہیں۔ میں بھی کمال اضطراب اور تذبذب میں تھا۔ فوراً خیال آیا کہ لسان الغیب سے پوچھا جائے اور وہ جو مشورہ دیں اس پر عمل کیا جائے۔ دیوان کھولا اور فال نکالی۔ سامنے ہی یہ شعر موجود تھا کہ:
بشہر خود روم و شہر یار خود ہاشم
حافظ کے کلام میں اس قدر گونا گوئی اور مجاز و حقیقت کی ایسی آمیزش ہے جو پڑھنے والوں کیلئے تو نہایت دلکش اور وجد آور ہے لیکن سمجھنے والے کو حیرت اور تذبذب میں ڈال دیتی ہے۔
بعض شارحین نے اس تمام مجاز کو معرفت و عشق الٰہی بنا دیا ہے اور بعض اس کو لذت پرست عاشق مجازی کہتے سمجھتے ہیں۔ بعضوں کے نزدیک اس کی شراب،شراب معرفت ہے اور عشق الٰہی کی مے طہور ہے لیکن بعضوں کا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ وہ افشردہ انگور ہے۔ اس کا فیصلہ ادیب اور نقاد قیامت تک نہ کر سکیں گے کیوں کہ خالی مجاز اور خالص حقیقت دونوں کے متعلق ثبوت میں حافظ کے سینکڑوں اشعار ہر حریف پیش کر سکتا ہے۔
اقبال نے حافظ پر تنقید محض اس لئے کی ہے کہ اس کے کلام کا عام اثر جو طبائع پر ہوتا ہے وہ لذت پرستی اور عمل سے گریز ہے،اس میں سکون پرستی اور قناعت کوشی کی تعلیم ہے،اس کے پڑھنے سے انسان کی خودی میں کوئی قوت اور استواری پیدا نہیں ہوتی اس کا عشق خلاق اور افعال نہیں ہے اور اقبال کے ہاں عشق کا زیادہ تر یہی مفہوم ہے۔ اقبال خانقاہی تصوف کا مخالف ہے لیکن حافظ کا تصوف تو خانقاہی بھی نہیں اور وہ اقبال کی طرح فقیہ اور خانقاہی صوفی دونوں کا مخالف ہے،اگرچہ وجہ اختلاف مختلف ہے۔
بہرحال اقبال اپنی شاعری سے جو انقلاب پیدا کرانا چاہتا تھا اور جس اصلاح کوشی کا طالب تھا وہ بات حافظ میں نہیں ملتی اور جو کچھ وہاں ملتا ہے وہ اقبال کے نظریہ حیات کے خلاف پڑتا ہے۔ اقبال خواجہ حافظ کو صوفی نہ سمجھتے تھے۔ مولانا شبلی کامیلان بھی یہی معلوم ہوتا ہے لیکن اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ تصوف کی نہایت گہری اور بلند چیزیں بھی نہایت دلکش اور حکیمانہ انداز میں حافظ میں ملتی ہیں۔ اقبال اس کی یہی وجہ سمجھتے تھے کہ تصوف کے افکار اس زمانے میں عام تھے اور علاوہ ازیں بقول شیخ علی حزیں تصوف برائے شعر گفتن خوب است۔