Episode 82 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 82 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

اس کے باوجود بھی کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اقبال حافظ سے بالکل متاثر نہ تھے۔ خود فرماتے تھے کہ بعض اوقات مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حافظ کی روح مجھ میں حلول کر گئی ہے۔ اقبال کی فارسی کی کئی غزلیں ایسی ہیں کہ ان کو دیوان حافظ میں داخل کر دیا جائے تو پڑھنے والے حافظ کے کلام سے اس کا امتیاز نہ کر سکیں۔
ہم اوپر کہہ چکے ہیں کہ تصوف اور صوفیہ کی بہت سے قسمیں ہیں۔
اقبال ایک قسم کے تصوف کے مخالف تھے اور دوسری قسم کا تصوف ان کی شاعری کا بہترین سرمایا ہے۔ اقبال نہ کسی فقیہ کے مقلد اور معتقد ہوئے اور نہ کسی حکیم اور فلسفی کے استدلالی فلسفے نے ان کو طمانیت بخشی۔ اسلام کی تمام تاریخ میں سے اقبال نے فقط رومی کو اپنا مرشد قرار دیا مگر رومی نہ فقیہ ہے اور نہ فلسفی،اگرچہ اقبال کی طرح فقہ و فلسفہ سے خوب واقف ہے،لیکن زیادہ تر عشق ہی کا راگ الاپتا ہے:
زان طرف کہ عشق می افزود درد
بو حنیفہ و شافعی درسے نکرد
اقبال کے والد بھی صاحب دل صوفی تھے اور اقبال اپنے باپ کے بھی مرید تھے اور ایک صوفیانہ سلسلے میں بیعت کا بھی انہوں نے ذکر کیا ہے۔

(جاری ہے)

اقبال کو زندگی کے متعلق ہر اہم سوال کا جواب عارف رومی ہی سے ملتا ہے اور وہ مثنوی کو ”ہست قرآن در زبان پہلوی“ سمجھتے ہیں۔ اب کیا یہ ہو سکتا ہے کہ جلال الدین رومی کو صوفی بلکہ امام صوفیہ نہ سمجھا جائے اور اسے اسلام سے ایک بھٹکا ہوا شخص خیال کیا جائے،لیکن اس کیلئے تو مغرب و مشرق میں شاید کوئی صاحب فہم بھی تیار نہ ہو۔ اگرچہ رومی کو کافر سمجھنے والے مناظرہ باز ملا اس کے زمانے میں بھی تھوڑے بہت موجود تھے اور بعد میں کہیں کہیں ابھرتے رہے ہیں۔
شیعیت نے زیادہ تر تصوف سے روگردانی ہی کی ہے۔ میر عباس شوستری کا یہ شعر مشہور ہے جو اس نے اپنی تعریف اور عارف رومی کی مذمت میں کہا ہے:
ایں کلام صوفیان شوم نیست
مثنوی مولوی روم نیست
ایک پنجابی شاعر نے بھی کہا ہے کہ اگر رومی اور جامی کو کافر نہ کہوں تو اور کسی کو کہوں لیکن رومی کے متعلق یہ فتویٰ مسلمان علما و صلحا اور عام و خاص کے نزدیک مبنی برجہالت ہے۔
اقبال نے کبھی اپنے آپ کو صوفی نہیں کہا لیکن رومی بھی تو عام طور پر صوفیوں کی مذمت ہی کرتے ہیں۔ جس طرح دین کے مدعی ظاہر پرست ملا حامیان شرع متین کہلانے کے باوجود دین کی روح سے بیگانہ تھے اسی طرح جب تصوف کا چرچا ہوا اور اہل دل نے انسانوں کے دلوں پر قبضہ کیا تو دین کے مقلدوں کی طرح تصوف کے مقلدین بھی پیدا ہو گئے،جو بولی تو صوفیہ ہی کی بولتے تھے اور ظاہری انداز بھی ویسا ہی بنا لیتے تھے لیکن دراصل تو ہم پرست اور اقتدار پسند تھے اور کشف و کرامات سے مریدوں پر رعب جماتے تھے۔
اس زمانے میں بعض مدعیان اصلاح اور مفسر قرآن ایسے پیدا ہو گئے ہیں جنہوں نے یکسر تمام احادیث نبوی کو دفتر باطل سمجھ کر سوختنی قرار دیا ہے۔ یہ لوگ درحقیقت اصلاح معاشرت کی تجویزوں میں دوسری ملتوں کے نقال ہیں اور اس نقل کو اصل اسلام بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ایک صوفی کا خلوت گزینی میں محویت ذات الٰہی کی مشق کرتے ہوئے یہ قول مشہور ہے کہ ”بخدا آنچنان مشغولم کہ از رسول خجالتہا دارم تابہ اولوالامرچہ رسد“۔
اسی قوت کو ذرا سی تبدیلی کے ساتھ ان لوگوں پر منطبق کر سکتے ہیں کہ ”باقرآن آنچنان مشغولم کہ ازحدیث خجالتہا دارم تابہ صوفیہ چہ رسد“۔ لطیفہ یہ ہے کہ ان میں سے بعض علامہ اقبال کے اس قدر معتقد ہیں کہ اسے مجتہد العصر اور محی الملت والدین کہتے ہیں،لیکن اپنی کوتاہ بینی اور کج اندیشی کی وجہ سے اظہار تاسف کرتے ہیں کہ افسوس اقبال جیسا مجدد بچپن اور شباب ہی میں کچھ باپ کی وجہ سے اور کچھ روایتی تصوف کا شکار ہو کر،آخر تک رومی جیسے انسان کو اپنا مرشد اور سیر افلاک میں اپنا رہنما سمجھتا رہا۔
ورنہ کہاں علامہ اقبال جیسا بالغ نظر انسان اور کہاں رومی جیسا صوفی جو اسلام اور قرآن سے ہٹ کر اناپ شناپ باتیں کرتے ہیں۔ ایسے نافہموں کو اپنے تضاد فکر کا کوئی احساس نہیں ہوتا اور اسی لئے اپنی متضاد بیانی سے کچھ شرم بھی نہیں آتی۔ بھلا ان سے کوئی پوچھے کہ تمام عمر ایسا شدید دھوکا کھانے والا اور زندگی کے ہر مسئلے کو مرشد رومی کے سامنے بغرض حل پیش کرنے والا تمہارے نزدیک واقف رموز قرآن اور ترجمان حقیقت کیسے ہو سکتا ہے؟ ان سے سوال کرنا چاہئے کہ اقبال کی گمراہی اور حقیقت ناشناسی کا اس سے زیادہ قوی ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ تمہارے نزدیک جو تصوف قاطع قرآن ہے اسی کے امام عارف رومی کو اقبال ہر مفسر اور ہر فقیہ سے افضل سمجھتا ہے۔
خود اس سے فیض حاصل کرتا ہے اور دوسروں کو بھی اس کی مریدی کی دعوت دیتا ہے۔ کیا ایسے اقبال کو تصوف کا مخالف کہہ سکتے ہیں؟ وہ تو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کے ساتھ ساتھ ایک صوفی اعظم کے عشق میں غلطاں ہے،اس لئے کہ وہ اسے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کا بہترین حامل سمجھتا ہے۔ رومی کی معتقدی میں اقبال نے بہت کچھ کہا ہے۔
مندرجہ ذیل چند اشعار ملاحظہ ہوں:
نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گل ایراں وہی تبریز ہے ساقی
#
اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و ساز رومی، کبھی پیچ و تاب رازی
#
علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا
تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں
#
صحبت پیر روم سے مجھ پہ ہوا یہ راز فاش
لاکھ حکیم سر بجیب، ایک کلیم سر بکف
#
یا مرد قلندر کے انداز ملوکانہ
یا حیرت فارابی یا تاب و تب رومی
#
نے مہرہ باقی، نے مہرہ بازی
جیتا ہے رومی، ہارا ہے رازی
بال جبریل میں مرید ہندی اور پیر رومی کے سوال و جواب زندگی کے اہم مسائل کے متعلق پڑھنے اور غور کرنے کے قابل ہیں۔
مثنوی مولوی معنوی،حکمت و عرفان اور عشق کا ایک ایسا بحر زخار ہے کہ دین و دنیا کے متعلق جتنے اہم سوال بھی کسی کے دل میں پیدا ہوں ان کا جواب اس میں کہیں نہ کہیں مل جائے گا۔ یہ ہر تفسیر و تاویل و استدل سے زیادہ دل نشین اور یقین آفرین ہو گا:
ہم خوگر محسوس ہیں ساحل کے خریدار
اک بحر پر آشوب و پراسرار ہے رومی
#
تو بھی ہے اسی قافلہ شوق میں اقبال
جس قافلہ شوق کا سالار ہے رومی
#
بو علی اندر غبار ناقہ گم
دست رومی پردہ محمل گرفت
ایں فرد تر رفت و تا گوہر رسید
آن بگردابے چو خس منزل گرفت
حق اگر سوزے ندارد حکمت است
شعر می گردد چو سوز از دل گرفت
#
عشق است کہ در جانت ہر کیفیت انگیزد
از تاب و تب رومی تا حیرت فارابی
#
مطرب غزلے بیتے از مرشد روم آور
تا غوطہ زند جانم در آتش تبریزے
#
بیا کہ من ز خم پیر روم آوردم
مے سخن کہ جواں تر ز بادہ عنبی است

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط