اس کے باوجود بھی کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اقبال حافظ سے بالکل متاثر نہ تھے۔ خود فرماتے تھے کہ بعض اوقات مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حافظ کی روح مجھ میں حلول کر گئی ہے۔ اقبال کی فارسی کی کئی غزلیں ایسی ہیں کہ ان کو دیوان حافظ میں داخل کر دیا جائے تو پڑھنے والے حافظ کے کلام سے اس کا امتیاز نہ کر سکیں۔
ہم اوپر کہہ چکے ہیں کہ تصوف اور صوفیہ کی بہت سے قسمیں ہیں۔
اقبال ایک قسم کے تصوف کے مخالف تھے اور دوسری قسم کا تصوف ان کی شاعری کا بہترین سرمایا ہے۔ اقبال نہ کسی فقیہ کے مقلد اور معتقد ہوئے اور نہ کسی حکیم اور فلسفی کے استدلالی فلسفے نے ان کو طمانیت بخشی۔ اسلام کی تمام تاریخ میں سے اقبال نے فقط رومی کو اپنا مرشد قرار دیا مگر رومی نہ فقیہ ہے اور نہ فلسفی،اگرچہ اقبال کی طرح فقہ و فلسفہ سے خوب واقف ہے،لیکن زیادہ تر عشق ہی کا راگ الاپتا ہے:
زان طرف کہ عشق می افزود درد
بو حنیفہ و شافعی درسے نکرد
اقبال کے والد بھی صاحب دل صوفی تھے اور اقبال اپنے باپ کے بھی مرید تھے اور ایک صوفیانہ سلسلے میں بیعت کا بھی انہوں نے ذکر کیا ہے۔
(جاری ہے)
اقبال کو زندگی کے متعلق ہر اہم سوال کا جواب عارف رومی ہی سے ملتا ہے اور وہ مثنوی کو ”ہست قرآن در زبان پہلوی“ سمجھتے ہیں۔ اب کیا یہ ہو سکتا ہے کہ جلال الدین رومی کو صوفی بلکہ امام صوفیہ نہ سمجھا جائے اور اسے اسلام سے ایک بھٹکا ہوا شخص خیال کیا جائے،لیکن اس کیلئے تو مغرب و مشرق میں شاید کوئی صاحب فہم بھی تیار نہ ہو۔ اگرچہ رومی کو کافر سمجھنے والے مناظرہ باز ملا اس کے زمانے میں بھی تھوڑے بہت موجود تھے اور بعد میں کہیں کہیں ابھرتے رہے ہیں۔
شیعیت نے زیادہ تر تصوف سے روگردانی ہی کی ہے۔ میر عباس شوستری کا یہ شعر مشہور ہے جو اس نے اپنی تعریف اور عارف رومی کی مذمت میں کہا ہے:
ایں کلام صوفیان شوم نیست
مثنوی مولوی روم نیست
ایک پنجابی شاعر نے بھی کہا ہے کہ اگر رومی اور جامی کو کافر نہ کہوں تو اور کسی کو کہوں لیکن رومی کے متعلق یہ فتویٰ مسلمان علما و صلحا اور عام و خاص کے نزدیک مبنی برجہالت ہے۔
اقبال نے کبھی اپنے آپ کو صوفی نہیں کہا لیکن رومی بھی تو عام طور پر صوفیوں کی مذمت ہی کرتے ہیں۔ جس طرح دین کے مدعی ظاہر پرست ملا حامیان شرع متین کہلانے کے باوجود دین کی روح سے بیگانہ تھے اسی طرح جب تصوف کا چرچا ہوا اور اہل دل نے انسانوں کے دلوں پر قبضہ کیا تو دین کے مقلدوں کی طرح تصوف کے مقلدین بھی پیدا ہو گئے،جو بولی تو صوفیہ ہی کی بولتے تھے اور ظاہری انداز بھی ویسا ہی بنا لیتے تھے لیکن دراصل تو ہم پرست اور اقتدار پسند تھے اور کشف و کرامات سے مریدوں پر رعب جماتے تھے۔
اس زمانے میں بعض مدعیان اصلاح اور مفسر قرآن ایسے پیدا ہو گئے ہیں جنہوں نے یکسر تمام احادیث نبوی کو دفتر باطل سمجھ کر سوختنی قرار دیا ہے۔ یہ لوگ درحقیقت اصلاح معاشرت کی تجویزوں میں دوسری ملتوں کے نقال ہیں اور اس نقل کو اصل اسلام بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ایک صوفی کا خلوت گزینی میں محویت ذات الٰہی کی مشق کرتے ہوئے یہ قول مشہور ہے کہ ”بخدا آنچنان مشغولم کہ از رسول خجالتہا دارم تابہ اولوالامرچہ رسد“۔
اسی قوت کو ذرا سی تبدیلی کے ساتھ ان لوگوں پر منطبق کر سکتے ہیں کہ ”باقرآن آنچنان مشغولم کہ ازحدیث خجالتہا دارم تابہ صوفیہ چہ رسد“۔ لطیفہ یہ ہے کہ ان میں سے بعض علامہ اقبال کے اس قدر معتقد ہیں کہ اسے مجتہد العصر اور محی الملت والدین کہتے ہیں،لیکن اپنی کوتاہ بینی اور کج اندیشی کی وجہ سے اظہار تاسف کرتے ہیں کہ افسوس اقبال جیسا مجدد بچپن اور شباب ہی میں کچھ باپ کی وجہ سے اور کچھ روایتی تصوف کا شکار ہو کر،آخر تک رومی جیسے انسان کو اپنا مرشد اور سیر افلاک میں اپنا رہنما سمجھتا رہا۔
ورنہ کہاں علامہ اقبال جیسا بالغ نظر انسان اور کہاں رومی جیسا صوفی جو اسلام اور قرآن سے ہٹ کر اناپ شناپ باتیں کرتے ہیں۔ ایسے نافہموں کو اپنے تضاد فکر کا کوئی احساس نہیں ہوتا اور اسی لئے اپنی متضاد بیانی سے کچھ شرم بھی نہیں آتی۔ بھلا ان سے کوئی پوچھے کہ تمام عمر ایسا شدید دھوکا کھانے والا اور زندگی کے ہر مسئلے کو مرشد رومی کے سامنے بغرض حل پیش کرنے والا تمہارے نزدیک واقف رموز قرآن اور ترجمان حقیقت کیسے ہو سکتا ہے؟ ان سے سوال کرنا چاہئے کہ اقبال کی گمراہی اور حقیقت ناشناسی کا اس سے زیادہ قوی ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ تمہارے نزدیک جو تصوف قاطع قرآن ہے اسی کے امام عارف رومی کو اقبال ہر مفسر اور ہر فقیہ سے افضل سمجھتا ہے۔
خود اس سے فیض حاصل کرتا ہے اور دوسروں کو بھی اس کی مریدی کی دعوت دیتا ہے۔ کیا ایسے اقبال کو تصوف کا مخالف کہہ سکتے ہیں؟ وہ تو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کے ساتھ ساتھ ایک صوفی اعظم کے عشق میں غلطاں ہے،اس لئے کہ وہ اسے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کا بہترین حامل سمجھتا ہے۔ رومی کی معتقدی میں اقبال نے بہت کچھ کہا ہے۔
مندرجہ ذیل چند اشعار ملاحظہ ہوں:
نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گل ایراں وہی تبریز ہے ساقی
#
اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و ساز رومی، کبھی پیچ و تاب رازی
#
علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا
تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں
#
صحبت پیر روم سے مجھ پہ ہوا یہ راز فاش
لاکھ حکیم سر بجیب، ایک کلیم سر بکف
#
یا مرد قلندر کے انداز ملوکانہ
یا حیرت فارابی یا تاب و تب رومی
#
نے مہرہ باقی، نے مہرہ بازی
جیتا ہے رومی، ہارا ہے رازی
بال جبریل میں مرید ہندی اور پیر رومی کے سوال و جواب زندگی کے اہم مسائل کے متعلق پڑھنے اور غور کرنے کے قابل ہیں۔
مثنوی مولوی معنوی،حکمت و عرفان اور عشق کا ایک ایسا بحر زخار ہے کہ دین و دنیا کے متعلق جتنے اہم سوال بھی کسی کے دل میں پیدا ہوں ان کا جواب اس میں کہیں نہ کہیں مل جائے گا۔ یہ ہر تفسیر و تاویل و استدل سے زیادہ دل نشین اور یقین آفرین ہو گا:
ہم خوگر محسوس ہیں ساحل کے خریدار
اک بحر پر آشوب و پراسرار ہے رومی
#
تو بھی ہے اسی قافلہ شوق میں اقبال
جس قافلہ شوق کا سالار ہے رومی
#
بو علی اندر غبار ناقہ گم
دست رومی پردہ محمل گرفت
ایں فرد تر رفت و تا گوہر رسید
آن بگردابے چو خس منزل گرفت
حق اگر سوزے ندارد حکمت است
شعر می گردد چو سوز از دل گرفت
#
عشق است کہ در جانت ہر کیفیت انگیزد
از تاب و تب رومی تا حیرت فارابی
#
مطرب غزلے بیتے از مرشد روم آور
تا غوطہ زند جانم در آتش تبریزے
#
بیا کہ من ز خم پیر روم آوردم
مے سخن کہ جواں تر ز بادہ عنبی است