Episode 83 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 83 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

جلال الدین رومی اور جرمنی کے مشہور فلسفی کا مقابلہ کرتے ہوئے اقبال نے جو اشعار پیام مشرق میں لکھے ہیں وہ اس سے پیشتر ایک عنوان کے تحت درج ہو چکے ہیں۔ مغربی فلسفے میں ہیگل کے نظریہ وجود میں منطقی عقل کا کمال نظر آتا ہے۔ اس نے زندگی کے پیچاک کو سلجھانے کی کوشش میں اس کے تار وجود میں ایسی گرہوں کا اضافہ کیا ہے جن کو کھولنے کی کوششوں میں پیشہ ور فلسفی بھی عاجز ہو جاتے ہیں۔
ہیگل کی عقلی کوششوں کی داد دینے کے بعد اقبال کہتا ہے کہ جب اس کے دریاے تفلسف میں میری عقل کی کشتی ڈوبنے اور ڈگمگانے لگی تو ایک پیر یزدانی خضر آسا مجھے بچانے اور سنبھالنے کیلئے غیب سے نمودار ہوا۔ یہ بزرگ عارف رومی تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ عقلیت کے کس گرداب میں خواہ مخواہ چکر کھا رہے ہو۔

(جاری ہے)

حقیقت ازلی کو عقل کی روشنی سے تلاش کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی چراغ لے کر آفتاب کو ڈھونڈنے نکلے۔

تو سراب میں کشتی رانی کر رہا ہے،تشنہ لب بھی رہے گا اور تیرتی کشتی بھی کسی ساحل مراد پر نہ پہنچے گی:
نگہ شوق تیز تر گردید
چہرہ بنمود پیر یزدانی
آفتابے کہ از تجلی او
افق روم و شام نورانی
شعلہ اش در جہان تیرہ نہاد
بہ بیاباں چراغ رہبانی
معنی از حرف او ہمی روید
صفت لالہ ہاے نعمانی
گفت با من چہ خفتہ برخیز
بہ سرابے سفینہ می رانی؟
”بہ خرد راہ عشق می پوئی
بہ چراغ آفتاب می جوئی
اقبال نے جن حکماے مغرب کو بہت بلند پایہ اور نکتہ رس پایا ان میں سے ایک بیگانہ روز گار گوئٹے بھی ہے۔
اپنی شاعری کی ابتدا میں اس نے غالب کو اس کا مثیل قرار دیا تھا:
آہ تو اجڑی ہوئی دلی میں آرامیدہ ہے
گلشن دیر میں تیرا ہمنوا خوابیدہ ہے
گوئٹے کے شاہکار ”فوسٹ“ کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ اقبال نے ہیگل کو تو بو علی و فارابی و رازی کی طرح حقیقت نارس ہی کہا ہے لیکن گوئٹے سے وہ اپنی طبیعت کی مماثلت محسوس کرتا ہے اور یہ درست ہے کہ غالب سے کہیں زیادہ اقبال اپنی وسعت و پرواز فکر میں گوئٹے کا مثیل ہے۔
پیام مشرق گوئٹے کے ”شرقی غربی دیوان“ کے جواب ہی میں لکھا گیا۔ جلال الدین رومی جو اقبال کا مرشد ہے،اس کے افکار کی ہم رنگی اقبال کو گوئٹے میں بھی نظر آتی ہے۔ جلال و گوئٹے کی نظم کے تحت میں اقبال نے ایک نوٹ لکھا ہے جو درج ذیل ہے۔
”نکتہ دان المنی سے مراد گوئٹے ہے جس کا ڈرامہ ”فوسٹ“ مشہور و معروف ہے۔ اس ڈرامے میں شاعر نے حکیم فوسٹ اور شیطان کے عہد و پیمان کی قدیم روایت کے پیرایے میں انسان کے امکانی نشوونما کے تمام مدارج اس خوبی سے بتائے ہیں کہ اس سے بڑھ کر کمال فن خیال میں نہیں آ سکتا۔
گوئٹے کی قدر شناسی اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ اقبال نے اپنے مرشد رومی اور گوئٹے کو یک جا جنت میں ہم کلام کر دیا اور رومی کی زبان سے گوئٹے کو رمزشناس عشق ہونے کی سند عطا کی۔ اس ڈرامے میں بھی ابلیس کی زیرکی سے آدم کا عشق برسر پیکار ہے اور آخر کار عشق فتح یاب ہو جاتا ہے۔ رومی صدیوں پہلے اس پیکار کا لب لباب اس شعر میں کہہ گیا تھا:
داند آں کو نیک بخت و محرم است
زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است
نکت ہدان المنی را در ارم
صحبتے افتاد با پیر عجم
شاعرے کو ہمچو آں عالی جناب
نیست پیغمبر ولے دارد کتاب
خواند بر داناے اسرار قدیم
قصہ پیمان ابلیس و حکیم
گفت رومی اے سخن را جاں فگار
تو ملک صید استی و یزداں شکار
فکر تو در کنج دل خلوت گزید
ایں جہان کہنہ را باز آفرید
سوز و ساز جاں بہ پیکر دیدہ ای
در صدف تعمیر گوہر دیدہ ای
ہر کسے از رمز عشق آگاہ نیست
ہر کسے شایان ایں درگاہ نیست
داند آں کو نیک بخت و محرم است
زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است
اقبال گوئٹے سے بھی زیادہ برگسان کا مداح اور اس کے عقل و وجدان کے تقابلی فلسفے سے متاثر تھا۔
اپنا نظریہ حیات اقبال نے برگسان سے حاصل نہیں کیا لیکن اس کا استدلالی استحکام برگساں کے ہاں بہت قومی ہے۔ ظاہر ہے کہ اقبال شعر میں اس قسم کا منظم فلسفہ پیش نہ کر سکتا تھا۔ شاعری میں طرز بیان اور طرز استدلال منطقی نہیں ہوتا،اگرچہ منطقی استدلال سے زیادہ دلنشیں اور یقین آفریں ہوتا ہے۔ اقبال نے کہیں برگساں اور رومی کی باہمی موافقت کے متعلق اشعار نہیں کہے،لیکن برگساں کے ہاں وجدان حیات،عقل کی محدود افادیت اور عشق کی خلاقی اسی انداز سے ملتی ہے جو انداز رومی اور اقبال دونوں کا ہے۔
پیغام برگساں کے اشعار رومی اور اقبال کا نظریہ حیات اور اس تصوف کی اساس ہیں جو ان تینوں میں ہم رنگ پایا جاتا ہے:
تا بر تو آشکار شود راز زندگی
خود را جدا ز شعلہ مثال شرر مکن
بہر نظارہ جز نگہ آشنا میار
در مرز و بوم خود چو غریباں گزر مکن
نقشے کہ بستہ ہمہ اوہام باطل است
عقل بہم رساں کہ ادب خوردہ دل است

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط