اقبال کے نزدیک ایسا عشق حیات افزا ہونے کی بجائے حیات سوز ہے۔ خدا کے عشق کا تو یہ نتیجہ ہونا چاہئے کہ اس آفرینش کے ہر پہلو کے ساتھ محبت ہو اور اس پر تو سیع و اضافہ کی کوشش کی جائے۔ محویت اور بے خودی عشق کی ایک کیفیت ہے،لیکن اگر اس میں احساس خودی بالکل جاتا رہے تو اقبال اس کو دوست نہیں سمجھتا۔ وہ تو عشق سے خودی کو استوار کرنا چاہتا ہے۔ وہ خدا سے اس قسم کی بے خودی کا طالب نہیں ہے کہ انسان اشیا و اشخاص و حوادث سے بے خبر ہو جائے،جیسا کہ کسی نے کہا ہے:
مستم کن آنچناں کہ ندانم ز بے خودی
در عرصہ خیال کہ آمد کدام رفت
اقبال تجلیات کے تنوع کا آرزو مند ہے۔
اس میلان کے صوفی اقبال سے پیشتر بھی کہیں کہیں نظر آتے ہیں۔ اقبال کا یہ شعر پہلے درج ہو چکا ہے:
ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی
اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے
دیکھئے قدیم زمانے کا ایک عارف بھی اس خواہش کو کس خوبصورتی سے پیش کر رہا ہے:
اگر او دیدہ دادت کہ دیدارش بہ او بینی
طلب کن دیدہٴ دیگر کہ دیدار دگر دارد
اگر ہر ساختے صد بار رخسارش بصد دیدہ
ہمی بینی، مشو قانع کہ رخسار دگر دارد
متصوفانہ شاعری میں اکثر اس قسم کے افکار اور اشعار ملتے ہیں جن میں عشق الٰہی کونین سے گریز کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔
(جاری ہے)
اقبال اس کا قائل نہیں۔ وہ تو کونین کو اپنے دامن میں لینا چاہتا ہے بلکہ دیگر نادیدہ اور وجود ناپذیرفتہ عوالم کی طرف قدم بڑھانا چاہتا ہے۔ ہر صوفی کے نزدیک عشق شہادت کا طالب ضرور ہے،لیکن اس شہادت کا مقصد تسخیر فطرت ہونا چاہئے نہ کہ عالم کو حقیر سمجھ کر اس سے گریز۔ اقبال کو کسی صوفی کے یہ اشعار شاید پسند نہ آتے:
دو عالم را بہ یک بار از دل تنگ
بروں کردیم تا جاے تو باشد
دو عالم باختن نیرنگ عشق است
شہادت ابتداے جنگ عشق است
”تذکرة الاولیا“ میں غیر اسلامی تصوف کی بہت سے سی مثالیں ملتی ہیں۔
ایک صوفی کے متعلق لکھا ہے کہ اس کو اپنے بیٹے سے بہت محبت تھی۔ اس کے دل میں یہ خلش پیدا ہوئی کہ کسی دوسرے کی محبت خدا کی محبت کے منافی اور اس میں خلل انداز ہے،اس لئے اس نے خدا سے دعا مانگی کہ یا رب اس بیٹے کی محبت کو میرے دل سے نکال دے۔ یہی وہ تجریدی روحانیت اور رہبانیت ہے جس سے بچنے کی اسلام نے تلقین کی تھی،لیکن ایسی چیزیں غلط تصوف کے راستے سے مسلمانوں میں داخل ہو گئیں۔
اقبال کو بعض صوفیہ کے تصوف کی اس روش سے بھی بے زاری تھی کہ اس نے شریعت کے بعض احکام کو اپنے عشق و مستی کے مقابلے میں بہت ثانوی حیثیت دی۔ مثلاً اسلام نے جہاد کو اپنی تعلیم کا جزو اعظم قرار دیا ہے کہ اسلام یا مسلمان کفر کے غلبے سے خطرہ محسوس کریں تو وہ تلوار سے بھی دین کی مدافعت کریں۔ لیکن صوفیہ نے یہ کہنا شروع کیا کہ شہید عشق،غازی سے افضل ہو جاتا ہے۔
یہ رباعی بھی ابو سعید ابو الخیر کی ہے۔ رباعی نہایت دلکش ہے اور علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ اس دلکشی کی وجہ ہی سے یہ نہایت خطرناک ہے۔ غازی اگر شہید ہو جائے تو وہ کشتہ دشمن ہوتا ہے اور عاشق الٰہی کی شہادت دوست کے ہاتھوں سے واقع ہوتی ہے۔ اس سے استدلال کیا ہے کہ شہید عشق کو جہاد میں شہادت پانے پر بھی فضیلت ہے:
غازی برہ شہادت اندر تگ و پوست
غافل کہ شہید عشق فاضل تر ازوست
در روز قیامت ایں بداں کے ماند
کیں کشتہ دشمن است و آں کشتہ دوست
اقبال کا تصوف صحرا نوردی اور غار نشینی کا قائل نہیں۔
یہ سب زندگی سے گریز کے بہانے ہیں۔ عشق قطع علائق کا نام نہیں اور قطع علائق پوری طرح ہو بھی کہاں سکتا ہے۔ کسی نے کیا خواب کہا ہے:
کہ کرد قطع تعلق کدام شد آزاد
بریدہ ز ہمہ با خدا گرفتار است
اقبال کا خدا انسان کی خودی کی پرورش چاہتا ہے اور یہ نہیں چاہتا کہ اس کے وصال میں انسانوں سمیت باقی ساری کائنات گم ہو جائے۔ خدا کے وصل کے یہ معنی ہونے چاہئیں کہ اس کے ہر مظہر سے وصال پیدا ہو۔
خدا کی ذات کے ساتھ اس کا عالم صفات بھی ہے اور خلوت ذات کے ساتھ جلوت صفات بھی ہے۔ صحرا نوردی میں تو بس ایک طرف عاشق ہو گا اور دوسری طرف خدا کی ذات،عاشق کے نفس کے اندرونی پیچ و تاب باقی رہ جائیں گے اور باقی نہ معرفت عالم اور نہ خدمت خلق۔ یہ نہ اسلام ہے اور نہ تقاضاے فطرت۔ عشق کا کام یہ نہیں ہونا چاہئے کہ وہ دل کو بنجر بنا دے۔ یہ سر بصحرادادن کا تصوف عیسوی اور ویدانتی ہے،اسلامی نہیں:
در کوے خودم منزل و ماویٰ دادی
در بزم وصال خود مرا جا دادی
القصہ بصد کرشمہ و ناز مرا
عاشق کر دی و سر بصحرا دادی
عشق کی تلقین اور اس کا جوش و خروش ہر صوفی میں پایا جاتا ہے لیکن اس کے تقاضے ہر اہل دل کے ہاں مختلف ہیں۔
اگر اقبال نے بہ تکرار اپنے عشق کی توضیح نہ کی ہوتی اور اس کے تقاضوں کو واضح نہ کیا ہوتا تو اس کی عشقیہ شاعری عام صوفیانہ یا متصوفانہ شاعری کے سلسلے کی ایک کڑی بن جاتی۔ لیکن روایتی صوفیانہ افکار و نظریات اور اقبال کے تصورات میں بعض پہلوؤں میں ایک بین فرق نمایاں ہے۔ اقبال کے خودی کے نظریات کیلئے ہم نے ایک الگ باب باندھا ہے،لیکن اس کے خودی کے تصور کو اس کے عشق کے تصور سے الگ کرنا دشوار معلوم ہوتا ہے۔
اس کے ہاں عشق اور خودی ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں۔ خودی کی تعلیم کے بعض اہم پہلو پہلے اکابر صوفیہ میں بھی ناپید نہیں،لیکن خودی کی حقیقت اور اس کا استحکام ان کے ہاں اقبال کے مقابلے میں ذرا دھیما ہے۔ مثلاً سنائی کے ”حدیقہ“ میں سے چند اشعار لیجئے۔ ان میں وہ نفس انسانی کو ایک الٰہی جوہر کہتا ہے،لیکن جو مثال استعمال کرتا ہے اس میں خدا کے نور مطلق کے مقابلے میں عالم و آدم محض ایک سایہ رہ جاتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ سایہ بے مایہ ہوتا ہے اور اس کی اپنی کوئی مستقل حیثیت نہیں ہوتی۔ اقبال کے ہاں خودی محض ایک سایہ نہیں،بلکہ ایک مستقل حقیقت ہے جو عرفان و قوت اندوزی سے ابدی بن جاتی ہے۔ ”جام جم“ میں سنائی (کذا) انسانی نفس یا خودی کے متعلق جو کچھ فرماتے ہیں اس کے ایک حصے سے اقبال متفق ہو سکتے ہیں لیکن دوسرا پہلو ان کے نظریے کے منافی دکھائی دیتا ہے:
اصل نزدیک و اصل دور یکے ست
ما ہمہ سایہ ایم و نور یکے ست
اس شعر سے قطع نظر کرکے باقی اشعار ایسے ہیں جو خودی کے بارے میں کلام اقبال کے ہم رنگ ہیں:
چوں نہاد تو آسمانی شد
صورت سربسر معنی شد
نامہٴ ایزدی تو سر بستہ
باز کن بندہ نامہ آہستہ
خویشتن را نمی شناسی قدر
ورنہ بس محتشم کسی اے صدر
صنع را برتریں نمونہ توئی
خط بے چون و بے چگونہ توئی
بیش ازیں گر دو حرف می خوانی
ترسمت بر جہی کہ سبحانی