Episode 85 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 85 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

اقبال کے نزدیک ایسا عشق حیات افزا ہونے کی بجائے حیات سوز ہے۔ خدا کے عشق کا تو یہ نتیجہ ہونا چاہئے کہ اس آفرینش کے ہر پہلو کے ساتھ محبت ہو اور اس پر تو سیع و اضافہ کی کوشش کی جائے۔ محویت اور بے خودی عشق کی ایک کیفیت ہے،لیکن اگر اس میں احساس خودی بالکل جاتا رہے تو اقبال اس کو دوست نہیں سمجھتا۔ وہ تو عشق سے خودی کو استوار کرنا چاہتا ہے۔ وہ خدا سے اس قسم کی بے خودی کا طالب نہیں ہے کہ انسان اشیا و اشخاص و حوادث سے بے خبر ہو جائے،جیسا کہ کسی نے کہا ہے:
مستم کن آنچناں کہ ندانم ز بے خودی
در عرصہ خیال کہ آمد کدام رفت
اقبال تجلیات کے تنوع کا آرزو مند ہے۔
اس میلان کے صوفی اقبال سے پیشتر بھی کہیں کہیں نظر آتے ہیں۔ اقبال کا یہ شعر پہلے درج ہو چکا ہے:
ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی
اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے
دیکھئے قدیم زمانے کا ایک عارف بھی اس خواہش کو کس خوبصورتی سے پیش کر رہا ہے:
اگر او دیدہ دادت کہ دیدارش بہ او بینی
طلب کن دیدہٴ دیگر کہ دیدار دگر دارد
اگر ہر ساختے صد بار رخسارش بصد دیدہ
ہمی بینی، مشو قانع کہ رخسار دگر دارد
متصوفانہ شاعری میں اکثر اس قسم کے افکار اور اشعار ملتے ہیں جن میں عشق الٰہی کونین سے گریز کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

اقبال اس کا قائل نہیں۔ وہ تو کونین کو اپنے دامن میں لینا چاہتا ہے بلکہ دیگر نادیدہ اور وجود ناپذیرفتہ عوالم کی طرف قدم بڑھانا چاہتا ہے۔ ہر صوفی کے نزدیک عشق شہادت کا طالب ضرور ہے،لیکن اس شہادت کا مقصد تسخیر فطرت ہونا چاہئے نہ کہ عالم کو حقیر سمجھ کر اس سے گریز۔ اقبال کو کسی صوفی کے یہ اشعار شاید پسند نہ آتے:
دو عالم را بہ یک بار از دل تنگ
بروں کردیم تا جاے تو باشد
دو عالم باختن نیرنگ عشق است
شہادت ابتداے جنگ عشق است
”تذکرة الاولیا“ میں غیر اسلامی تصوف کی بہت سے سی مثالیں ملتی ہیں۔
ایک صوفی کے متعلق لکھا ہے کہ اس کو اپنے بیٹے سے بہت محبت تھی۔ اس کے دل میں یہ خلش پیدا ہوئی کہ کسی دوسرے کی محبت خدا کی محبت کے منافی اور اس میں خلل انداز ہے،اس لئے اس نے خدا سے دعا مانگی کہ یا رب اس بیٹے کی محبت کو میرے دل سے نکال دے۔ یہی وہ تجریدی روحانیت اور رہبانیت ہے جس سے بچنے کی اسلام نے تلقین کی تھی،لیکن ایسی چیزیں غلط تصوف کے راستے سے مسلمانوں میں داخل ہو گئیں۔
اقبال کو بعض صوفیہ کے تصوف کی اس روش سے بھی بے زاری تھی کہ اس نے شریعت کے بعض احکام کو اپنے عشق و مستی کے مقابلے میں بہت ثانوی حیثیت دی۔ مثلاً اسلام نے جہاد کو اپنی تعلیم کا جزو اعظم قرار دیا ہے کہ اسلام یا مسلمان کفر کے غلبے سے خطرہ محسوس کریں تو وہ تلوار سے بھی دین کی مدافعت کریں۔ لیکن صوفیہ نے یہ کہنا شروع کیا کہ شہید عشق،غازی سے افضل ہو جاتا ہے۔
یہ رباعی بھی ابو سعید ابو الخیر کی ہے۔ رباعی نہایت دلکش ہے اور علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ اس دلکشی کی وجہ ہی سے یہ نہایت خطرناک ہے۔ غازی اگر شہید ہو جائے تو وہ کشتہ دشمن ہوتا ہے اور عاشق الٰہی کی شہادت دوست کے ہاتھوں سے واقع ہوتی ہے۔ اس سے استدلال کیا ہے کہ شہید عشق کو جہاد میں شہادت پانے پر بھی فضیلت ہے:
غازی برہ شہادت اندر تگ و پوست
غافل کہ شہید عشق فاضل تر ازوست
در روز قیامت ایں بداں کے ماند
کیں کشتہ دشمن است و آں کشتہ دوست
اقبال کا تصوف صحرا نوردی اور غار نشینی کا قائل نہیں۔
یہ سب زندگی سے گریز کے بہانے ہیں۔ عشق قطع علائق کا نام نہیں اور قطع علائق پوری طرح ہو بھی کہاں سکتا ہے۔ کسی نے کیا خواب کہا ہے:
کہ کرد قطع تعلق کدام شد آزاد
بریدہ ز ہمہ با خدا گرفتار است
اقبال کا خدا انسان کی خودی کی پرورش چاہتا ہے اور یہ نہیں چاہتا کہ اس کے وصال میں انسانوں سمیت باقی ساری کائنات گم ہو جائے۔ خدا کے وصل کے یہ معنی ہونے چاہئیں کہ اس کے ہر مظہر سے وصال پیدا ہو۔
خدا کی ذات کے ساتھ اس کا عالم صفات بھی ہے اور خلوت ذات کے ساتھ جلوت صفات بھی ہے۔ صحرا نوردی میں تو بس ایک طرف عاشق ہو گا اور دوسری طرف خدا کی ذات،عاشق کے نفس کے اندرونی پیچ و تاب باقی رہ جائیں گے اور باقی نہ معرفت عالم اور نہ خدمت خلق۔ یہ نہ اسلام ہے اور نہ تقاضاے فطرت۔ عشق کا کام یہ نہیں ہونا چاہئے کہ وہ دل کو بنجر بنا دے۔ یہ سر بصحرادادن کا تصوف عیسوی اور ویدانتی ہے،اسلامی نہیں:
در کوے خودم منزل و ماویٰ دادی
در بزم وصال خود مرا جا دادی
القصہ بصد کرشمہ و ناز مرا
عاشق کر دی و سر بصحرا دادی
عشق کی تلقین اور اس کا جوش و خروش ہر صوفی میں پایا جاتا ہے لیکن اس کے تقاضے ہر اہل دل کے ہاں مختلف ہیں۔
اگر اقبال نے بہ تکرار اپنے عشق کی توضیح نہ کی ہوتی اور اس کے تقاضوں کو واضح نہ کیا ہوتا تو اس کی عشقیہ شاعری عام صوفیانہ یا متصوفانہ شاعری کے سلسلے کی ایک کڑی بن جاتی۔ لیکن روایتی صوفیانہ افکار و نظریات اور اقبال کے تصورات میں بعض پہلوؤں میں ایک بین فرق نمایاں ہے۔ اقبال کے خودی کے نظریات کیلئے ہم نے ایک الگ باب باندھا ہے،لیکن اس کے خودی کے تصور کو اس کے عشق کے تصور سے الگ کرنا دشوار معلوم ہوتا ہے۔
اس کے ہاں عشق اور خودی ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں۔ خودی کی تعلیم کے بعض اہم پہلو پہلے اکابر صوفیہ میں بھی ناپید نہیں،لیکن خودی کی حقیقت اور اس کا استحکام ان کے ہاں اقبال کے مقابلے میں ذرا دھیما ہے۔ مثلاً سنائی کے ”حدیقہ“ میں سے چند اشعار لیجئے۔ ان میں وہ نفس انسانی کو ایک الٰہی جوہر کہتا ہے،لیکن جو مثال استعمال کرتا ہے اس میں خدا کے نور مطلق کے مقابلے میں عالم و آدم محض ایک سایہ رہ جاتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ سایہ بے مایہ ہوتا ہے اور اس کی اپنی کوئی مستقل حیثیت نہیں ہوتی۔ اقبال کے ہاں خودی محض ایک سایہ نہیں،بلکہ ایک مستقل حقیقت ہے جو عرفان و قوت اندوزی سے ابدی بن جاتی ہے۔ ”جام جم“ میں سنائی (کذا) انسانی نفس یا خودی کے متعلق جو کچھ فرماتے ہیں اس کے ایک حصے سے اقبال متفق ہو سکتے ہیں لیکن دوسرا پہلو ان کے نظریے کے منافی دکھائی دیتا ہے:
اصل نزدیک و اصل دور یکے ست
ما ہمہ سایہ ایم و نور یکے ست
اس شعر سے قطع نظر کرکے باقی اشعار ایسے ہیں جو خودی کے بارے میں کلام اقبال کے ہم رنگ ہیں:
چوں نہاد تو آسمانی شد
صورت سربسر معنی شد
نامہٴ ایزدی تو سر بستہ
باز کن بندہ نامہ آہستہ
خویشتن را نمی شناسی قدر
ورنہ بس محتشم کسی اے صدر
صنع را برتریں نمونہ توئی
خط بے چون و بے چگونہ توئی
بیش ازیں گر دو حرف می خوانی
ترسمت بر جہی کہ سبحانی

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط