Episode 86 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 86 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

مسلمانوں کے تصوف پر زیادہ تر وحدت وجود کا مسئلہ چھایا ہوا ہے اور اسی نے بادہ تصوف میں نشہ بھی پیدا کیا ہے۔ اقبال نے عشق اور خودی کے نظریات اور کیفیات کو بیان کرتے ہوئے حتی الوسع اس سے گریز ہی کیا ہے۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ وحدت وجود دینی مسئلہ نہیں بلکہ فلسفیانہ مسئلہ ہے۔ اقبال کے بانگ درا کے مجموعے میں کہیں کہیں اس کی جھلک نظر آتی ہے۔
یہ اثر کچھ روایتی تصوف کا تھا اور کچھ فلسفے کا،جس کا میلان ہمیشہ زیادہ تر وحدت وجود کی طرف رہا ہے۔ اسرار خودی کے شائع ہونے کے بعد ان کے کیمبرج کے استاد فلسفہ میک ٹیگرٹ نے انہیں لکھا کہ طالب علمی کے زمانے میں تو تم زیادہ تر ہمہ اوستی معلوم ہوتے تھے،اب معلوم ہوتا ہے کہ ادھر سے ہٹ گئے ہو۔ مسلمانوں کی شاعری کا نہایت دلکش حصہ متصوفانہ شاعری کا ہے۔

(جاری ہے)

اس میں بعض صاحب دل صوفی شاعر بھی ہیں جو ذاتی تاثرات کو ادا کرتے ہیں اور بعض تصوف کے نظریہ حیات سے لذت اندوز ہیں جو مسائل تصوف کو بڑی لطافت سے شعر کے سانچے میں ڈھالتے ہیں۔ فیضی و عرفی اور غالب اور صف دوم کے بہت سے شعراء اسی موخرالذکر صف میں ہیں اور وہ خود محسوس کرتے ہیں کہ ہم محض متلذذ بالمسائل ہیں اور اصلی کیفیت کا نقشہ ہم میں نہیں:
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
ذرا دیکھیں کہ اقبال کے ابتدائی کلام میں کہاں کہاں وحدت وجود کا تصور جھلکتا ہے۔
وحدت وجود کا اعلان کرنے والے منصور شہید کو اقبال نے آخر تک گمراہ خیال نہیں کیا بلکہ اس کے انا الحق سے اپنے نظریہ خودی کو استوار کیا۔ بانگ درا کی شمع کی نظم میں،جو فلسفیانہ افکار سے لبریز ہے،آخر میں کہتے ہیں:
ہاں آشناے لب نہ ہو راز کہن کہیں
پھر چھڑ نہ جائے قصہ دار و رسن کہیں
#
قصہٴ دار و رسن بازی طفلانہ دل
التجاے ازنی سرخی افسانہ دل
جگنو پر جو نظم ہے اس کے آخری بند میں تمام مظاہر کی کثرت کو ایک ہی وحدت کے شوٴن بتایا ہے اور یہ وحدت وجود ہی کا ایک پہلو ہے۔
علامہ اقبال ایک روز دوران گفتگو میں وحدت وجود کے خلاف کچھ فرما رہے تھے۔ میرا طالب علمی کا زمانہ تھا،میں نے عرض کیا جناب بھی تو جگنو والی نظم میں ہمہ اوستی ہی معلوم ہوتے ہیں۔ فرمانے لگے کہ وہاں میں نے مظاہر فطرت کی اساسی وحدت کو بیان کیا ہے۔ یہ فطرت کی وحدت وجود ہے جو صوفیہ کے ہمہ اوست کے نظریے سے الگ چیز ہے اور غالباً ورڈز ورتھ کا بھی ذکر کیا کہ فطرت کے متعلق اس کی نظر اور تاثر بھی اسی انداز کے ہیں:
حسن ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے
انساں میں وہ سخن ہے غنچے میں وہ چٹک ہے
یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا
واں چاندنی ہے جو کچھ یاں درد کی کسک ہے
انداز گفتگو نے دھوکے دیے ہیں ورنہ
نغمہ ہے بوے بلبل بو پھول کی چہک ہے
کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی
جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک ہے
یہ اختلاف پھر کیوں ہنگاموں کا محل ہو
ہر شے میں جب کہ پنہاں خاموشی ازل ہو
سوامی رام تیرتھ ایک ہمہ اوستی ویدانتی صوفی تھے۔
ان کی موت دریا میں ڈوبنے سے واقع ہوئی،اس پر علامہ اقبال لکھتے ہیں:
ہم بغل دریا سے ہے اے قطرہ بیتاب تو
پہلے گوہر تھا بنا اب گوہر نایاب تو
آہ! کھولا اس ادا سے تو نے راز رنگ و بو
میں ابھی تک ہوں اسیر امتیاز رنگ و بو
نفی ہستی اک کرشمہ ہے دل آگاہ کا
لا کے دریا میں نہاں موتی ہے الا اللہ کا
#
تارے میں وہ قمر وہ جلوہ گہ سحر میں وہ
چشم نظارہ میں نہ تو سرمہ امتیاز دے
#
کمال وحدت عیاں ہے ایسا کہ نوک نشتر سے تو جو چھیڑے
یقیں ہے مجھ کو گرے رگ گل سے قطرہ انسان کے لہو کا
#
چمک تیری عیاں بجلی میں آتش میں شرارے میں
جھلک تیری ہویدا چاند میں سورج میں تارے میں
بلندی آسمانوں میں زمینوں میں تری پستی
روانی بحر میں افتادگی تیری کنارے میں
جو ہے بیدار انساں میں وہ گہری نیند سوتا ہے
شجر میں پھول میں حیواں میں پتھر میں ستارے میں
اس سے بہتر وحدت وجود پر اور کیا کہہ سکتے ہیں۔
یہ خدا ہی ہے جو کائنات کے بعض مظاہر میں سوتا ہے اور شعور انسانی میں آکر بیدار ہو جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ وحدت وجود کے بعض متصوفانہ نظریات سے وہ بہت متنفر ہو گئے ہیں۔ ایک روز مجھ سے فرمایا کہ ان ہمہ اوستیوں نے فرق مراتب کو محلوظ نہیں رکھا اور حیات و کائنات کو خدا کا ایک خواب بنا دیا۔ اگر خدا اپنی ازلی نیند سے بیدار ہو جائے تو تمام مظاہر غائب ہو جائیں اور انسان بھی معدوم ہو جائیں۔
کسی کا ایک شعر سنایا:
تا تو ہستی خداے در خواب است
تو نہ مانی چو او شود بیدار
کسی دریدہ دہن متصوف کا ایک اور نہایت گستاخ شعر سنایا جس کو درج کرنا،میں انبیاء کی توہین سمجھتا ہوں۔ مضمون یہ تھا کہ عاشقان یک رنگ کے نزدیک انبیا اور ابلیس ہم سنگ ہو جاتے ہیں۔ خوف طوالت سے ہم اقبال کے اور اشعار نقل نہیں کرتے جو ابتدائی دور کے ہیں اور جن میں جا بجا روایتی تصوف کے نظریات جھلکتے ہیں۔
وحدت وجود کی شاعری فارسی زبان میں جس قدر ملتی ہے اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ اسلام کے باہر ادیان اور مذاہب فلسفہ سب نے آخر میں یہیں تان توڑی تھی۔ یہ ناممکن بات تھی کہ ان کو ماننے والی ملتوں کے افراد جب حلقہ اسلام میں داخل ہوئے تو وہ یہ چیز اپنے ساتھ نہ لیتے آتے۔ قرآن میں کچھ آیات ایسی تھیں،جن کی وجودی تاویل ہو سکتی تھی۔ چنانچہ وحدت الوجود کے فلاسفہ اور صوفیہ نے انہیں کا سہارا لیا۔
لیکن ان سے ایسے نتائج اخذ کئے جو مسلمانوں کو اسلامی توحید سے دور لے گئے۔ کائنات کے تمام مظاہر میں علت و معلول اور اضافات موجود ہیں۔ اگر ان سب کو باطل سمجھ کر اور محض ظلی قرار دے کر ساقط کر دیا جائے تو خدا کی ذات محبت کے سوا کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ خالق کی تمام مخلوق بے اصل ہو جاتی ہے۔ صوفیہ نے اسی احدیت معرا عن الصفات و اضافات کواصل سوحید سمجھ لیا اور توحید کی یوں تعریف کی:
نگو گوے نکو گفت است در ذات
کہ التوحید اسقاط الاضافات
اسلامی توحید محض شرک کو باطل قرار دینے کا نام تھا۔
وجودیوں نے کہا کہ خدا کے سوا کسی اور چیز کے وجود ہی کا اقرار بطلان عظیم ہے۔ اس سے نفس انسانی بھی عدم ہو گیا:
صورت وہمی بہ ہستی متہم داریم ما
چوں حباب آئینہ بر طاق عدم داریم ما
(بیدل)
قرآن تو شدت سے موجودات کی حقیقت کی تلقین کرتا ہے،اگرچہ وہ حقیقت خدا کے مقابلے میں ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ وحدت وجود کی نسبت المانوی فلسفی شوپن ہار لکھتا ہے کہ یہ دہریت کی شاعری ہے اور امریکہ کا مشہور ماہر نفسیات ولیم جیمز کہتا ہے کہ اس کے اندر خیر و شر کا امتیاز مٹ جاتا ہے اور انسان کو اخلاقی تعطیل حاصل ہو جاتی ہے۔
سحابی کی یہ رباعی اس تعطیل کی معاون معلوم ہوتی ہے:
عالم بخروش لا الہ الا ہوست
غافل بگماں کہ دشمن است او یا دوست
دریا بوجود خویش موجے دارد
خس پندارد کہ ایں کشا کش با اوست

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط