مسلمانوں کے تصوف پر زیادہ تر وحدت وجود کا مسئلہ چھایا ہوا ہے اور اسی نے بادہ تصوف میں نشہ بھی پیدا کیا ہے۔ اقبال نے عشق اور خودی کے نظریات اور کیفیات کو بیان کرتے ہوئے حتی الوسع اس سے گریز ہی کیا ہے۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ وحدت وجود دینی مسئلہ نہیں بلکہ فلسفیانہ مسئلہ ہے۔ اقبال کے بانگ درا کے مجموعے میں کہیں کہیں اس کی جھلک نظر آتی ہے۔
یہ اثر کچھ روایتی تصوف کا تھا اور کچھ فلسفے کا،جس کا میلان ہمیشہ زیادہ تر وحدت وجود کی طرف رہا ہے۔ اسرار خودی کے شائع ہونے کے بعد ان کے کیمبرج کے استاد فلسفہ میک ٹیگرٹ نے انہیں لکھا کہ طالب علمی کے زمانے میں تو تم زیادہ تر ہمہ اوستی معلوم ہوتے تھے،اب معلوم ہوتا ہے کہ ادھر سے ہٹ گئے ہو۔ مسلمانوں کی شاعری کا نہایت دلکش حصہ متصوفانہ شاعری کا ہے۔
(جاری ہے)
اس میں بعض صاحب دل صوفی شاعر بھی ہیں جو ذاتی تاثرات کو ادا کرتے ہیں اور بعض تصوف کے نظریہ حیات سے لذت اندوز ہیں جو مسائل تصوف کو بڑی لطافت سے شعر کے سانچے میں ڈھالتے ہیں۔ فیضی و عرفی اور غالب اور صف دوم کے بہت سے شعراء اسی موخرالذکر صف میں ہیں اور وہ خود محسوس کرتے ہیں کہ ہم محض متلذذ بالمسائل ہیں اور اصلی کیفیت کا نقشہ ہم میں نہیں:
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
ذرا دیکھیں کہ اقبال کے ابتدائی کلام میں کہاں کہاں وحدت وجود کا تصور جھلکتا ہے۔
وحدت وجود کا اعلان کرنے والے منصور شہید کو اقبال نے آخر تک گمراہ خیال نہیں کیا بلکہ اس کے انا الحق سے اپنے نظریہ خودی کو استوار کیا۔ بانگ درا کی شمع کی نظم میں،جو فلسفیانہ افکار سے لبریز ہے،آخر میں کہتے ہیں:
ہاں آشناے لب نہ ہو راز کہن کہیں
پھر چھڑ نہ جائے قصہ دار و رسن کہیں
#
قصہٴ دار و رسن بازی طفلانہ دل
التجاے ازنی سرخی افسانہ دل
جگنو پر جو نظم ہے اس کے آخری بند میں تمام مظاہر کی کثرت کو ایک ہی وحدت کے شوٴن بتایا ہے اور یہ وحدت وجود ہی کا ایک پہلو ہے۔
علامہ اقبال ایک روز دوران گفتگو میں وحدت وجود کے خلاف کچھ فرما رہے تھے۔ میرا طالب علمی کا زمانہ تھا،میں نے عرض کیا جناب بھی تو جگنو والی نظم میں ہمہ اوستی ہی معلوم ہوتے ہیں۔ فرمانے لگے کہ وہاں میں نے مظاہر فطرت کی اساسی وحدت کو بیان کیا ہے۔ یہ فطرت کی وحدت وجود ہے جو صوفیہ کے ہمہ اوست کے نظریے سے الگ چیز ہے اور غالباً ورڈز ورتھ کا بھی ذکر کیا کہ فطرت کے متعلق اس کی نظر اور تاثر بھی اسی انداز کے ہیں:
حسن ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے
انساں میں وہ سخن ہے غنچے میں وہ چٹک ہے
یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا
واں چاندنی ہے جو کچھ یاں درد کی کسک ہے
انداز گفتگو نے دھوکے دیے ہیں ورنہ
نغمہ ہے بوے بلبل بو پھول کی چہک ہے
کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی
جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک ہے
یہ اختلاف پھر کیوں ہنگاموں کا محل ہو
ہر شے میں جب کہ پنہاں خاموشی ازل ہو
سوامی رام تیرتھ ایک ہمہ اوستی ویدانتی صوفی تھے۔
ان کی موت دریا میں ڈوبنے سے واقع ہوئی،اس پر علامہ اقبال لکھتے ہیں:
ہم بغل دریا سے ہے اے قطرہ بیتاب تو
پہلے گوہر تھا بنا اب گوہر نایاب تو
آہ! کھولا اس ادا سے تو نے راز رنگ و بو
میں ابھی تک ہوں اسیر امتیاز رنگ و بو
نفی ہستی اک کرشمہ ہے دل آگاہ کا
لا کے دریا میں نہاں موتی ہے الا اللہ کا
#
تارے میں وہ قمر وہ جلوہ گہ سحر میں وہ
چشم نظارہ میں نہ تو سرمہ امتیاز دے
#
کمال وحدت عیاں ہے ایسا کہ نوک نشتر سے تو جو چھیڑے
یقیں ہے مجھ کو گرے رگ گل سے قطرہ انسان کے لہو کا
#
چمک تیری عیاں بجلی میں آتش میں شرارے میں
جھلک تیری ہویدا چاند میں سورج میں تارے میں
بلندی آسمانوں میں زمینوں میں تری پستی
روانی بحر میں افتادگی تیری کنارے میں
جو ہے بیدار انساں میں وہ گہری نیند سوتا ہے
شجر میں پھول میں حیواں میں پتھر میں ستارے میں
اس سے بہتر وحدت وجود پر اور کیا کہہ سکتے ہیں۔
یہ خدا ہی ہے جو کائنات کے بعض مظاہر میں سوتا ہے اور شعور انسانی میں آکر بیدار ہو جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ وحدت وجود کے بعض متصوفانہ نظریات سے وہ بہت متنفر ہو گئے ہیں۔ ایک روز مجھ سے فرمایا کہ ان ہمہ اوستیوں نے فرق مراتب کو محلوظ نہیں رکھا اور حیات و کائنات کو خدا کا ایک خواب بنا دیا۔ اگر خدا اپنی ازلی نیند سے بیدار ہو جائے تو تمام مظاہر غائب ہو جائیں اور انسان بھی معدوم ہو جائیں۔
کسی کا ایک شعر سنایا:
تا تو ہستی خداے در خواب است
تو نہ مانی چو او شود بیدار
کسی دریدہ دہن متصوف کا ایک اور نہایت گستاخ شعر سنایا جس کو درج کرنا،میں انبیاء کی توہین سمجھتا ہوں۔ مضمون یہ تھا کہ عاشقان یک رنگ کے نزدیک انبیا اور ابلیس ہم سنگ ہو جاتے ہیں۔ خوف طوالت سے ہم اقبال کے اور اشعار نقل نہیں کرتے جو ابتدائی دور کے ہیں اور جن میں جا بجا روایتی تصوف کے نظریات جھلکتے ہیں۔
وحدت وجود کی شاعری فارسی زبان میں جس قدر ملتی ہے اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ اسلام کے باہر ادیان اور مذاہب فلسفہ سب نے آخر میں یہیں تان توڑی تھی۔ یہ ناممکن بات تھی کہ ان کو ماننے والی ملتوں کے افراد جب حلقہ اسلام میں داخل ہوئے تو وہ یہ چیز اپنے ساتھ نہ لیتے آتے۔ قرآن میں کچھ آیات ایسی تھیں،جن کی وجودی تاویل ہو سکتی تھی۔ چنانچہ وحدت الوجود کے فلاسفہ اور صوفیہ نے انہیں کا سہارا لیا۔
لیکن ان سے ایسے نتائج اخذ کئے جو مسلمانوں کو اسلامی توحید سے دور لے گئے۔ کائنات کے تمام مظاہر میں علت و معلول اور اضافات موجود ہیں۔ اگر ان سب کو باطل سمجھ کر اور محض ظلی قرار دے کر ساقط کر دیا جائے تو خدا کی ذات محبت کے سوا کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ خالق کی تمام مخلوق بے اصل ہو جاتی ہے۔ صوفیہ نے اسی احدیت معرا عن الصفات و اضافات کواصل سوحید سمجھ لیا اور توحید کی یوں تعریف کی:
نگو گوے نکو گفت است در ذات
کہ التوحید اسقاط الاضافات
اسلامی توحید محض شرک کو باطل قرار دینے کا نام تھا۔
وجودیوں نے کہا کہ خدا کے سوا کسی اور چیز کے وجود ہی کا اقرار بطلان عظیم ہے۔ اس سے نفس انسانی بھی عدم ہو گیا:
صورت وہمی بہ ہستی متہم داریم ما
چوں حباب آئینہ بر طاق عدم داریم ما
(بیدل)
قرآن تو شدت سے موجودات کی حقیقت کی تلقین کرتا ہے،اگرچہ وہ حقیقت خدا کے مقابلے میں ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ وحدت وجود کی نسبت المانوی فلسفی شوپن ہار لکھتا ہے کہ یہ دہریت کی شاعری ہے اور امریکہ کا مشہور ماہر نفسیات ولیم جیمز کہتا ہے کہ اس کے اندر خیر و شر کا امتیاز مٹ جاتا ہے اور انسان کو اخلاقی تعطیل حاصل ہو جاتی ہے۔
سحابی کی یہ رباعی اس تعطیل کی معاون معلوم ہوتی ہے:
عالم بخروش لا الہ الا ہوست
غافل بگماں کہ دشمن است او یا دوست
دریا بوجود خویش موجے دارد
خس پندارد کہ ایں کشا کش با اوست