تیرھواں باب:
اسرار خودی
آنریبل مسٹر جسٹس شیخ عبد الرحمن نے اسرار خودی کا منظور ترجمہ ترجمان اسرار کے نام سے شائع کیا جس پر فکر اقبال کے مصنف نے ایک مبسوط دیباچہ لکھا۔ اسرار خودی کے معارف پر دوبارہ اس سے بہتر مضمون لکھنا دشوار تھا اس لئے وہ دیباچہ جوں کا توں بہ اجازت و تشکر شیخ صاحب اس کتاب میں شامل کر لیا گیا۔
انسان کی نظر باطن سے پہلے خارج پر پڑتی ہے۔
آنکھ خارج کی ہر شے کو دیکھتی ہے لیکن اپنے آپ کو نہیں دیکھ سکتی۔ کہتے ہیں کہ عرفان کی تین قسمیں یا تین پہلو ہیں۔ دنیا شناسی،خدا شناسی اور خود شناسی! اقبال نے بھی جب انسان کی بے بضاعتی کے متعلق خدا سے شکایت کی تو یہی کہا کہ کیا یہ تیرے ہنر کا شہکار ہے جو نہ خود بیں ہیں،نہ خدا بیں ہے اور نہ جہاں بیں؟ انسان مادی اور حیوانی حیثیت میں اپنے ماحول سے دست و گریباں ہوتا ہے۔
(جاری ہے)
گرد و پیش کی اشیا اور حوادث کی ماہیت کو سمجھنا اس کیلئے تنازع للبقا میں ناگزیر ہوتا ہے۔ خارجی مطابقت اور مخالفت سے فرصت ملے تو سوچے کے خود میری ماہیت کیا ہے؟ یا میں اور میرا ماحول،میری موافق اور مخالف قوتیں،کہاں سے سرزد ہوتی ہیں؟ زندگی میں ہر جگہ پیکار اضداد نظر آتی ہے۔ کیا یہ کش کش ازلی متخاصم قوتوں کی مسلسل جنگ ہے یا یہ اضداد کسی ایک اصل وحدت کے متضاد نما پہلو ہیں،انسان کے پاس خارج کو سمجھنے کیلئے بھی خود اپنے ہی نفع و ضرر اور اپنے ہی جبلتوں کے سانچے ہیں۔
اس نے فطرت کی قوتوں کو اپنے اوپر قیاس کیا اور اپنی خواہشوں کے دیوتا بنا لئے۔ وہ خود اپنے تصورات کو مشخص کرکے ان کو لامتناہی قوتوں کا حاصل بنا کر ان سے مرعوب ہو گیا۔ ان کو راضی رکھنے کیلئے اپنی عزیز ترین چیزوں اور خود اپنے آپ کو ان پر بھینٹ چڑھانا شروع کیا۔ اپنی حقیقی خودی سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے وہ ہستی جس کو تسخیر فطرت کی صلاحیت و ویعت کی گئی تھی،خود فطرت کی قوتوں سے مسخر اور مغلوب ہو گئی۔
ابھی انسان اپنی حقیقی خودی سے آشنا نہ ہوا تھا۔ وہ اپنے آپ کو فقط حیوانی جبلتوں کا حامل سمجھا اس لئے اس نے جو دیوتا تراشے وہ بھی انہیں ملتون اور عارضی خواہشوں کے مجسمے تھے۔ وہ خارج میں جن دیوتاؤں کی پرستش کرتا رہا وہ اس کی اپنی خودی کے بگڑے ہوئے تصورات تھے۔ ان دیوتاؤں کے بت زبان حال سے پجاری کو کہہ رہے تھے:
مرا بر صورت خویش آفریدی
بروں از خویشتن آخر چہ دیدی؟
اس تصور حیات اور اس انداز پرستش سے انسان کو نہ وجود مطلق کی ماہیت تک کچھ رسائی ہوئی اور نہ وہ اپنی ذات کا کوئی صحیح اندازہ لگا سکا۔
تکثیر یا کثرت اصنام کا راستہ چھوڑ کر انسان نفس وحدت کا جویا ہوا لیکن جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے اس کا ابتدائی تصور وجود خارجی کائنات ہی کا تصور تھا،اس لئے اس نے خارج ہی کی کثرت اور گونا گوئی کو کسی ایک وحدت میں منسلک کرنے کی کوشش کی۔ یونانیوں کے پہلے مفکر طالیس ملطی نے کہا کہ وجود مطلق فقط پانی ہے۔ پانی ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔
اس نے زندہ اور غیر زندہ میں،یعنی جمادات،نباتات اور حیوانات میں کوئی بنیادی فرق نہ سمجھا۔ زندگی کے تمام کوائف اور نفس کی تمام حالتیں بھی پانی ہی میں بالقویٰ اور بالفعل پائی جاتی ہیں۔ اس نظریہ وجود کو تاریخ فلسفہ میں ہائی لوزو ازم کہتے ہیں،جس میں مادیت،نفسیت اور حیاتیت ابھی ایک دوسرے سے متمیز نہیں ہیں۔ اس نظریے کے مطابق نہ کائنات میں کوئی نفس یا خودی ہو سکتی ہے اور نہ انسان کے اندر۔
زندگانی ہر جگہ آنی جانی اور پانی ہی پانی ہے اور چیزوں کی طرح آدمی بھی پانی کا بلبلا رہ گیا۔ انسانی اقدار،انسانی جذبات اور تمنائیں کوئی مستقل حقیقت نہیں رکھتیں۔
بقول سحابی نجفی:
دریا بوجود خویش موجے دارو
خس پندارد کہ ایں کشا کش با اوست
یونانی مفکرین،ارتقاے فکر میں رفتہ رفتہ تجسم سے تصور کی طرف،جسم سے نفس کی طرف یا خارج سے باطن کی طرف آتے گئے۔
انہوں نے کثیف مظاہر میں لطیف حقائق کا کھوج لگانا شروع کیا۔ فیثا غورس نے دیکھا کہ خارجی عالم میں ہر جگہ تناسب،توازن اور اندازہ پایا جاتا ہے۔ ریاضی کے اصول ہر جگہ غیر متبدل طور پر کار فرما ہیں۔ خاک کے اعمال ہوں یا افلاک کے حرکات،سب کے سب ریاضی کے اٹل اصولوں کے مطابق ہیں۔ دو اور دو چار چیزیں بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں۔ لیکن مجرد طور پر دو اور دو کے اعداد مل کر چار ہی رہتے ہیں۔
ہر چیز کی تعمیر کی اصل یہی ہے کہ اس میں ریاضی صورت پذیر ہو گئی ہے۔ ریاضی میں نہ کسی کی خواہش کو دخل ہے اور نہ ارادے کو۔ ریاضی ہی وہ حقیقت ہے جسے ’الان کما کان“ کہہ سکتے ہیں۔ ریاضی اصول اصلاً اور ازلاً ساکن ہیں۔ اشیا اور حوادث میں کون و فساد یا حرکت ہو سکتی ہے،لیکن اصول میں کوئی حرکت نہیں ہو سکتی۔ علت و معلول کا سلسلہ حرکیاتی نہیں بلکہ قضایاے اقلیدس کی طرح کا سلسلہ ہے۔
یونانی فلسفہ ترقی کرتا ہوا سقراط،افلاطون اور ارسطو کے مقولات تک جا پہنچا۔ پہلے تغیر اور ثبات کے نظریات میں کشمکش ہوتی رہی۔ کسی نے کہا کہ وجود مطلق بے تغیر و بے حرکت ہونا چاہئے۔ لہٰذا تغیر یا حرکت ادراک کا دھوکا ہیں۔ یونانیوں پر یہ تصور زیادہ تر غالب رہا کہ حقیقت غیر متغیر ہونی چاہئے۔ جہاں تبدل اور تغیر ہے وہاں وجود محض اعتباری یا مجازی ہے اور اصلیت سے دور ہے۔
جو مفکر نفسیت یا روحیت کی طرف گئے… جیسے فیثا غورس یا افلاطون… وہ بھی وجود مطلق میں حرکت کے قائل نہیں تھے اور جو دیمقراطیس کی طرح مادیت کی طرف آئے،ان کو بھی اس خیال سے چھٹکارا حاصل نہ ہوا کہ کائنات کے حوادث،مادکے اجزاے لایتجزے یعنی ایٹموں کا جوڑ توڑ کا کھیل ہیں۔ ایٹم چونکہ تحلیل نہیں ہوسکتا اس لئے اس میں کوئی تغیر نہیں ہوتا۔ البتہ ایٹموں کی ترکیب یا قرب و بعد سے چیزیں بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں۔
اس کون و فساد کے قوانین لاشعوری ہیں۔ ان میں اقدار پروری یا مقصد کوشی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سقراط،افلاطون اور ارسطو مادے سے نفس کی طرف آئے۔ نفس نے خارج کی طرف سے منہ پھیر کر باطن کا رخ کیا تو ان کو نفس عقل منطقی کا کرشمہ دکھائی دیا۔ خارج کی کائنات بھی عقل سے وجود میں آتی اور اس کی بدولت قائم رہتی ہے۔ باطن کی نفسی کائنات بھی عقل کی بدولت وجود مطلق کا عرفان حاصل کرتی اور افکار و جذبات کی کثرت کو ایک وحدت میں پروتی ہے،لیکن عقل بھی کوئی انفرادی چیز نہیں۔
عقل کلیت کی مرادف ہے۔ عقل کا عالم کلیات کا عالم ہے۔ اس میں خودی یا شخصیت یا ارادے کا کوئی سوال نہیں۔ عقل کے تمام کلیات ازروے منطق ایک دوسرے سے منسلک اور مربوط ہیں۔ اشیا اور حوادث کی متغیر کثرت غیر متغیر تصورات سے بہرہ اندوز ہونے کی ناکام اور مضطرب کیفیت ہے۔ خدا عاقل نہیں بلکہ خود عقل کل ہے۔ وہ خود ہی اپنے شعور کا معروض ہے۔ اس کو اپنے سوا کسی کا علم نہیں ہو سکتا۔
ماسوا کا حقیقی وجود ہی نہیں اس لئے اس کے علم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انسانی نفوس میں جو خواہشوں اور ارادوں کا عنصر ہے وہ تغیر کے عالم سے تعلق رکھتا ہے،لہٰذا بے حقیقت ہے۔ انفرادی نفس میں حقیقت اتنی ہی ہے جس حد تک کہ وہ عقل کل سے بہر اندوز ہے۔ اس کی اپنی کوئی حیثیت یا مخصوص تقدیر نہیں۔
اس نظریے سے افلاطون اور ارسطو دونوں نے یہ نتیجہ اخذہ کیا کہ عقل یا علم اصلی چیز ہے اور عمل اس کے مقابلے میں ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔
بہترین زندگی عمل اور مقاصد آفرینی کی زندگی نہیں بلکہ عقل کل کا تماشائی ہونا ہے۔ خدا جو تمام وجود کا ماخذ اور نصب العین ہے وہ بھی غیر متحرک اور غیر فاعل ہے۔ دنیا کی زندگی حقیقت کا سایہ ہے یا ہندوؤں کی اصطلاح میں یوں کہئے کہ مایا ہے یا حقیقت کے مقابلے میں بے مایہ ہے۔
اقبال افلاطون کے اس نظریہ وجود کا شدید مخالف ہے۔ وہ اس کو اساسی طور پر غلط قرار دیتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ اسی نظریہ وجود کے زیر اثر زندگی سے فرار کے نظریات پیدا ہوئے ہیں جن سے انسانی زندگی ارتقا اور تخلیق سے محروم ہو گئی ہے۔
اقبال کے نزدیک وجود کی حقیقت عقل نہیں بلکہ عمل ہے۔ عقل عمل سے پیدا ہوتی اور اس کا آلہ کار بنتی ہے۔ اصل حیات تسخیر و تخلیق اور مقاصد آفرینی ہے۔ وجود کی حقیقت ایک اناے مطلق ہے جو خلاق ہے اور یہ ’انا‘ اپنی مسلسل خلاقی میں لاتعداد انا یا نفوس مقاصد کوش پیدا کرتا ہے۔ زندگی جذبہ آفرینش ہے۔ عمل آفرینش ہی سے اس کو اپنا عرفان حاصل ہوتا ہے اور عمل ہی اس کی لامتناہی تکمیل کا ذریعہ ہے۔
سکون سے زندگی کا تماشا کرنے سے زندگی کی ماہیت معلوم نہیں ہو سکتی کیوں کہ زندگی ایک مسلسل حرکت ہے اور عقل کے تصورات ازلی طور پر ساکن اور جامد ہیں۔ ساحل افتادہ نہ اپنی ماہیت سے آشنا ہو سکتا ہے اور نہ اس دریا کی حقیقت سے جو اس سے آغوش متلاطم ہے۔ اقبال نے اپنا یہ نظریہ کس خوبصورتی اور بلاغت سے بیان کیا ہے:
ساحل افتادہ گفت گرچہ بے زیستم
ہیچ نہ معلوم شد آہ کہ من چیستم
موج زخود رفتہ اے تیز خرامید و گفت
ہستم اگر میروم گر نہ روم نیستم